Monday, November 15, 2010

سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا حصہ دوئم تحریر:پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف ضلع خوشاب

سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا حصہ دوئم تحریر:پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف ضلع خوشاب
عام آدمی کا توکل اور ہے ۔ اور خا صان ِ خدا کا توکل اور ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں توکل کا دو ہرا معیار نظر آتا ہے۔ اور اس کی اتنی مثا لیں ہیں کہ اگر میں تفصیل دینا شروع کردوں تو اس سے کتابیں بھر جا ئیں اور میری بات ختم نہ ہو ۔ کیونکہ قر آن یہ کہتا ہے کہ “ نہ اپنا ہاتھ گلے میں باندھ لو نہ اتنا کھلا چھوڑو کہ تم خود محتاج ہو جا ؤ جبکہ حضور (ص) کا توکل یہ تھا کہ جو دن میں آئے وہ شام تک نہ بچے اور اسی کو جو انکے بہت ہی قریب لو گ تھے انہوں (رض) نےاپنا یا ہوا تھا، جن میں سب سے زیادہ نمایاں نام حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا تھا کیونکہ یہ دونوں (رض) ہر اعتبار سے حضور (ص) کا پورا اتبا ع فرماتے تھے؟ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے علاوہ اس پر اور لوگ عامل نہیں تھے ۔ تھے اور بہت سے تھے ۔مگر اس حد تک نہیں ۔ جن کی مثال یہ ہو کہ مورخین نے لکھا ہے کہ ہر غزوے میں حضرت علی شریک ہو ئے سوائے تبوک کے اور جیسے کہ عام لو گوں کو پیادوں کے مقابلے میں دوہرا حصہ مال غنیمت میں سے ملتا تھا انہیں بھی بطور سوار ملا، اس کے علاوہ فتوحات میں زرعی زمین یا با غات بھی اوروں کی طرح ملے ،مگر اس کے با وجود حضرت فا طمہ سلام اللہ علیہا کے وصال تک ان کے گھر میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہو سکا ،وہی جہیز تھا جو  کہ حضور (ص)  نےانہیں (رض) مر حمت فر مایا تھا ۔
اس کی وجہ یہ ہی تھی کہ انہیں جو کچھ ملتا تھا وہ دونوں (رض) اسی وقت خیرات فر ما دیتے تھے بلکہ ادھار کر کے بھی سائل کی ضرورت پوری فر ماتے اور بچوں کا اور اپنا پیٹ کا ٹ کر بھی ضرورت مند کو عطا فر ما دیتے ۔ اس پر عام قاری الجھے گاکہ ایسا کیوں ہے؟ اس کے اس سوال کا جواب دینے کے لیئے۔ ہم کو اپنا وہی نظریہ دہرا نا پڑے گا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور (ص) کی اکملیت  کاتقاضہ یہ تھا کہ بطور خلیفہ سارے محکمے ان کے پاس ہوں جو کہ پہلے والے نبیوں (ع) کے پاس یکجا نہیں تھے۔ جبکہ حضور (ص)  کے پاس اجتماعی طور  پروہ تمام کمالات موجود تھے جو ان سب کو انفرادی طور پر عطا فرما ئے گئے  تھے ۔    اس کی ایک مثال وہ ہے جو حضرت خضر کے واقعہ  میں قروآن میں بیان ہو ئی ہے کہ حضرت موسیٰ (ع) انہیں نہیں جانتے تھے، جبکہ وہ انہیں جانتے تھے۔ لیکن یہاں صورت حال یہ تھی کہ حضورحضرت اویس قرنی (رض) کو جانتے تھے اور وہ بھی نہ صرف  انہیں جا نتے تھے بلکہ وہ عشاقان ِرسول (ص) میں شامل تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ولایت کا محکمہ بھی حضور(ص) کے پاس تھا اور جب انہیں آخری حج یعنی حج الوداع کے بعد اپنے (ص)وصال کی خبر ملی تو انہوں (ص) نے اچانک مقام ِ خم ِ غدیر پر ٹھہرنے کا قصد فر ما یا اور اپنی زندگی میں ہی خم ِ غدیر کے مقام پر  حضرت علی کرم اللہ وجہ کو منتقل کر دیا ۔ کیونکہ ان کے بعد کوئی شخص بھی ان کی طرح کامل نہ تھا۔ لہذا وہ سب محکموں کی نگہداشت نہیں کر سکتا تھا۔اور اس کے لیئے بطور خاص انہوں (ص) نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بچپن سے تربیت دیکر تیار فرمایا تھا اور صا حبزادی صا حبہ (س) کی تر بیت بھی انہیں خطوط فر ما ئی تھی ،جن پر حضرت علی (رض) کی فرمائی تھی اس لیئے کہ انہیں (ص) علم تھا انہیں امام الا ولیا ء حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ان کو شریک ِ حیات بننا ہے۔ اگر وہ دونوں (رض) ایک جیسی طبیعت کے مالک نہ ہو تے تو علی کرم اللہ وجہ سخاوت کے وہ تقاضے پو رے نہیں کر سکتے تھے جو ان کے منصب کا تقاضہ تھے ۔ اس سلسلہ میں وہ اکیلے نہیں تھے ۔ اور بھی بہت سے صحابہ کرام (رض) تھے ۔ جن کی طرف حضور (ص) کی اس حدیث میں اشارہ ہے کہ جو میرا یا میرے (ص)ان صحابہ (رض) کا اتبا ع کرے گا جو اس وقت میرے راستے پر ہیں وہ فلاح پا ئے جا ئے گا  ً چونکہ یہاں ہم صرف حضرت فا طمہ (رض) پر بات کر رہے ہیں ۔ جبکہ اوروں کا ذکر ہم پہلے بھی کرتے آئے ہیں حضور  (ص)کی سیرت کے دوران میں اور حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کی سوانحات کے دوران میں بھی۔ اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے موقعہ عطا فر مایا تو انشا اللہ باری آنے پر ان کا بھی انفرادی طور پر  پھرذکر کریں گے۔
 یہ بات  روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب کسی ایک شخصیت میں بہت سی خصو صیات موجود ہو ں تو کچھ دب جا تی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کا فقر میں جو مقام ہے اس پر کسی مورخ نے بات نہیں۔جبکہ وہ نینا نوے فیصد اولیا ئے کرام کی ماں ہیںِ۔ اس لیئے کہ جس طرح اللہ نے حضرت ابرا ہیم (ع) کی اولاد کو تبوت کے لیئے چنا تھا۔اسی طرح بنو فاطمہ (رض) کو ولایت کے لیئے اس نے منتخب فرمایا،جن کے بارے میں حضور (ص)  نےفرمایا انہیں میں تم پر نگراں چھو ڑے جا رہا ہوں تا وقتیکہ یہ حوض کو ثر پر آکر مجھے سے نہ ملیں ۔
حضرت فا طمہ کے مقام ِ فقر کے بارے میں بہت سے اولیا ئے کرام (رح) نے لکھا ہے، پنجاب کے مشہور ولی اور صوفی شاعر حضرت بلھے شاہ (رح) جو کہ خود بھی انہیں (رض)کی اولاد میں سے تھے ،نےفرمایاہے کہ وہ  (س) فقر میں مقام ِ فنا فی اللہ پر فا ئز تھیں ۔ اس میں کو ئی حیرت کی بات اس لیئے نہیں ہے کہ وہ جس منصب پر فا ئز تھیں اس کا یہ تقاضہ تھا۔ لیکن ان کی زند گی کا یہ پہلو تاریخ میں دب کر رہ گیا یعنی اتنا نما یا ںنہیں ہوا ۔اس کو مورخین صرف سخاوت  کاایک مظاہرہ سمجھتے رہے۔ جبکہ یہ ان کے اعلیٰ توکل اور مقام فنا فی اللہ پر ہو نے کا مظہر تھا۔ جب ہم پر یہ نکتہ کھلا کہ وہ  (س) گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ خواتین میں تبلیغی اور فقہی ذمہ داریاں انجام دیتی تھیں، تو ہماری آنکھیں کھلیں؟ وہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا جو ایک مورخ نے لکھا تھا کہ ایک خاتون نے ان کے پا س آکر زکات کا مسئلہ پوچھا اور اونٹوں کی ایک تعداد بتا کر ان (س) سے سوال کیا کہ آپ ان میں سے کتنے اونٹ خیرات کرتیں ،تو انہوں نے فر مایا کہ میں تو سارے کہ سارے ہی  خیرات کردیتی۔ پھر ہم نے مزید تحقیق کی تو ان کے فر مودات بھی ملے جن کی تعداد چا لیس ہے اور جو فصا حت اور بلاغت کا نادر نمو نہ ہیں۔ ان کاہم با محاورہ اردو ترجمہ ہدیہ ناظرین کر رہے ہیں۔ جناب ِ سیدہ سلام اللہ نے فر مایا کہ
  (١) تمام حمد و ثنا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیئے ہے اس کی نعمتوں اور عطیات پر جو اس نے عطا فرما ئے اور شکر اس پر کہ جو کچھ (اپنے بر گزیدہ بندوں ) پر اس نے نازل فر مایا۔ اورلائقِ حمد ہے وہ ذات جس نے لامنتا ہی نعمتیں اپنے بندو ں کو بغیر ان کے مانگےعطا فر مائیں اور جس کی نوازشوں کا سلسلہ بغیر کسی وقفہ کے ہنوز جاری ہے۔ جبکہ اس کی نعمتیں ان گنت ہیں جو (انسانی ) وسعت َ ادراک سے با ہر ہیں ، بلکہ نا قابلِ ادائیگی ِ شکر اور تصورات سے بھی باہر ہیں۔وہاں تک انسانی رسائی ہی ممکن نہیں ہے۔
اس نے اپنے بندوں کو شکر گزاری کا راستہ دکھا یا تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے خود کو انعامات کا مستحق ثابت کر سکیں اور اپنا کشادہ در وا فرمادیا تاکہ وہ مزید انعامات سے مستفید ہو سکیں ۔
(٢) میں (س) شہادت دیتی ہو ں کہ اللہ کے سوا کو ئی قابل ِپرستش نہیں ہے نہ اس کا کوئی ثانی ہے نہ ہمسر ۔ اور اس نے اپنی وحدانیت کا امتحان وہ رکھا جسے خلوص سے تعبیر فرماتا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اس نے قلب (مومن) کو اپنی قیام گاہ بنا یا۔اور جس نے بذریعہ القا اپنی خصوصیات ظاہر فر ما ئیں اور ان پر دعوت فکر دی۔ کیونکہ اللہ وہ ہے جو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جبکہ اس کی تعریف سے زبان قاصر ہے اور جہاں جا کر انسان کی ذہانت اور وسعت نظردم توڑ دیتی ہے۔ اور (بندہ) اس کے تصور سے بھی قاصر ہے کہ وہ کیسا ہے۔
(٣) اللہ نے تمام کا ئنات بغیر کسی سابقہ مماثلت اور سابقہ نظیرکے پہلی مرتبہ میں تخلیق فر مائی جس کا پہلے سے کوئی نمونہ مو جود نہ تھا۔اورا نسانوں کے لیئے لباس اپنی قدرتِ کاملہ سے اس نے اپنے الوہی علم کے ذریعہ سے عطا فر مایا جس سے اسے سوائے اس کے کچھ نہیں لینا تھا کہ وہ اپنی حکمت عیاںے فر مادے اور بندوں کو اپنی عبو دیت کی راہ دکھا ئے اور ان کو خود سپردگی کی طرف ما ئل کرے تاکہ وہ نیازمند دانہ عبادت کریں اور عظیم دعوت کو تکبر اور ریا سے دور رہتے ہو ئے عام کریں
(٤)اللہ نے اس کے لیئے اپنا انعام رکھا ہے جواس کی عبادت کرے، اور اس کے لیئے عذاب بھی، جو نا فرمانی کرے ۔وہ اپنے بندوں کو اپنے قہر اور غضب سے بچا کر جنت الفر دوکی طرف رہنما ئی فر ماتا ہے۔
(٥)اور (میں) شہادت دیتی ہوں کہ میرے والد ِ محترم محمد (ص) اللہ رسول (ص) اور بندے ہیں اور وہ منصب ِ رسالت پر فا ئز ہو نے سے پہلے اس کے پسندیدہ بندوں میں سے تھے ۔ اور اس نے ان کو یہ نام رسول (ص)بنا نے اور اس منصب کئے لیئے منتخب کر نے سے پہلے عطا فرمایا۔اس سے بھی پہلے جبکہ کا ئینات عالم ِ وجود میں نہیں آئی تھی ۔ جبکہ تمام مخلوق ابھی ظاہر نہیں ہو ئی تھی اور وہ پردہ غیب میں چھپی ہو ئی تھی اور اپنی کو ئی حیثیت ہی نہیں رکھتی تھی۔ صرف اللہ اپنے لا منتا ہی علم کی بنا پر اس سے واقف تھا ۔ کیونکہ وہ مکان اوروقت سے ما ورٰاہے۔اللہ نے (بعد) میں انہیں رسول (ص) بنا یا تاکہ وہ اس کی مشیت کے مطابق تمام انسانوں کو اس کا پیغام پہو نچا دیں اور اس پر عمل کرائیں جو اس کا مقصود ِ نظر تھا۔تاکہ وہ
اپنی قضا اور قدر کو نافذ کر سکے۔
٦)جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ دیکھا کہ تمام اقوام بہت سے فرقوں میں بٹ گئیں ہیں اور باہمی اختلافات کی وجہ سے وہ خندق ِ آتش کے کنارے پہونچ چکی ہیں اور بت پرستی جیسے قبیح فعل میں مبتلا ہیں،نیز یہ کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اس کی تمام نشانیوں کے با وجود سب جھٹلا رہے ہیں۔ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے میرے والد ِ محترم (ص) کو بطور نبی (ص) مبعوث فر مایا۔ اور انہوں (ص) نے اپنی( خداد صلاحیت کی بناپر ) رہنما ئی فرمائی اور تاریکی کو اجالے سے بدل دیا اوردلوں اور آنکھوں کو جلا دی تاکہ وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ادراک کر سکیں ۔
(٧) میرے والدِ محترم(ص) اپنی رہبرانہ صلاحیتوں کے ساتھ اٹھ کھڑے ہو ئے اور لوگوں کو توہم پرستی اور گمراہی کی دلدل سے نکال کر اندھیرے سے اجالے میں لاکر ایک مضبوط دین پر قائم کردیا۔
(٨) تم پر اللہ کے بندے ہو نے کی بنا پر یہ فرض عائد ہو تا ہے کہ میرے والد (ص) نے جو تمہیں نہی عن المنکر کا سبق دیا ہے جو تمہارے پاس امانت ہے ا س پر قائم رہ کر اوروں تک مناسب اور موزوں طریقہ سے دین پہنچا واور اس کے دین کا پر چار کرو۔
(٩) اے اللہ کے بندو! یادرکھو صرف اللہ ہی ہادی ِ حقیقی ہے ( ہدایت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے) جس نے تم میں ایک نبی (ص)مبعوث فرما یا جس نے دین تم تک پہنچادیااور اس نے اب یہ ذمہ داری تمہیں سونپی ہے۔
تمہارے در میان جیتی جاگتی کتاب ِ اللہ قر آن کی شکل میں موجود ہے جس میں سے ہدایت کی کر نیں چھن چھن کر آرہی ہیںاور تمام راز ِ حیات ظاہر کر رہی ہیں جو کہ بنی نوع ِ انسانی کی دنیوی اور ابدی حیات اور بھلا ئی کے لیئے ہیں ۔وہ اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جا نے والی ہے اور تمہیں (اسی کتاب میں ) اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دوسروں کے لیئے اپنا سفیر بنا یا ہے۔
(١٠ )کتاب اللہ، ماننے والوں کو اللہ کی خوشنودی کی طرف لے جاتی ہے غور سے وہ ہدایات پڑھو تاکہ تم فلا ح پاسکو جس میں تواتر کے ساتھ اللہ کی وحدانیت کے ثبو ت اور شہا دتیں موجود ہیں اور تمہارے لیئے اس کی (عملی) تفسیر اسوہ رسول (ص) کی شکل میں موجود ہے۔جس میں تمام سوالوں اوربحثوں کا جواب بھی موجود ہے اور وہ الوہی اصول بھی ہیں جو تمہیں گمرا ہی سے بچا کر سراط ِ مستقیم کی طرف رہبری کرتے ہیں۔
(١١) اللہ نے تمہارے لیئے وحدانیت کو لازم کر دیا ہے تاکہ تم شرک اور الحاد بچ سکو
(١٢) اور تمہیں انا اور غرور سے دور رہنے کی راہ بھی دکھا دی ہے۔
 (١٣ )اور زکات اس لیئے تم پر فرض کی کہ تاکہ تمہاری روح کوپاکیز گی عطا کرے اور تمہارے رزق میں پاکی اورافزائش ہو۔
(١٤ )اور روزے اس لیئے فرض کیئے کہ تم اللہ سے مخلص رہو اوردین کو مضبوطی سے پکڑے رہو(کیونکہ اس پر کوئی گواہ نہیں ہو تا یہ اللہ اور بندے کے در میان راز  ہےکے اس نے روزے کی تمام شرا ئط پوری کیں یا نہیں اور وہ صرف اللہ کی محبت میں اس کی خوشنودی کے لیئے  روزےرکھتا  اسی لیئے اللہ نے فر مایا کہ روزہ میرے لیئے ہے اور میں اس کا اجر دونگا)
 (١٥)اور اللہ نے حج اس لیئے فرض کیا اس میں تمام ارکان ِ دین یکجا ہیں جو دین کی تقویت کا با عث ہیں ۔
(١٦) اور تمہیں عدل کا اس لیئے حکم دیا کہ تم آپس میں بھا ئی بن کر رہواور تم میں اخوت قائم ہو۔
(١٧)اور میرے والد نے ( بحکم خدا ئے تعالیٰ)اپنی عترت کو تم پر نگہباں بنا یا تاکہ تم ان کی اطا عت کرکے رہنما ئی حاصل کرتے رہو۔(اس میں خم غدیر کے قیام اور اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں حضورعلیہ صلواةو السلام نے ۔ فرمایا کہ میں تم میں کتاب ِ اللہ اور اپنی عترت تم پر نگراں بنا کرچھوڑے جا رہا ہو جو اس وقت تک تمہاری رہنما ئی اور نگہبانی کرتی رہے گی تاوقتیکہ وہ مجھ سے حوضِ کوثر پر نہ آملیں)
(١٨) اللہ نے سلام کی سر بلندی کے لیئے جہاد تم پر فرض کیا ہے تاکہ منافقین اور کفار کا تدارک ہو سکے۔
(١٩)اور اللہ نے صبر کو تمہارے لیئے استقامت کے حصول اور ثواب کا ذریعہ بنا یا۔
(٢٠) اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو( بلا تفریق مذہب اور ملت) بھلا ئی کا حکم اور برا ئی سے منع فرمایا ہے۔ (اس میں اس آیت کی طرف اشا رہ ہے کہ دیکھو تمہیں کسی قوم کی دشمنی عدل سے نہ روکدے
(٢١)اللہ نے والدین پر احسان کو اپنے غضب سے بچنے کے لیئے ڈھال قرار دیا ہے ( یاد رہے کہ قر آن نے جہا ں اپنے حقوق کا قر آن میں ذکر کیا  ہےوہیں فورا ً والدین کے ساتھ سلوک کا حکم بھی دیا ہے )
(٢٢) اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے اہل ِ خاندان اور رشتہ داروں سے سلوک کا اس لیئے حکم دیا ہے کہ تمہاری زندگی میں اضافہ کرے ۔
(٢٣) اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قتل،ِ ناحق پرخون بہا سے خونریزی کو روک دیا ہے
(٢٤) اللہ نے اپنے اوپر عفو اور در گزر کو لازم کر لیا ہے اور وہ عفو در گزر پسند فر ما تا ہے۔اس آیت کی طرف اشا رہ ہے جو شیطان نے کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کو ہر طرح بہکا ونگا اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا تھا ۔ میں بھی جو شخص مرتے دم تک توبہ کر لے گا اسے معاف کر دونگا۔
(٢٥) اللہ نے یہ حکم دیکر کہ پورا تولو اور وزن میں ہیر پھیر نہ کرو۔ تول میں بے ایمانی کے امکان کو ختم کر دیا۔
(٢٦)اللہ نے شراب کو حرام قرار دیا اس لیئے کہ وہ برا ئیوں کی ماں ہے تاکہ تم برا ئیوں سے دور رہو۔
(٢٧)اللہ نے زنا کی کسی پر تہمت لگانے کو حرام قرار دیا تاکہ لوگ اس کے غضب سے بچ سکیں ۔
(٢٨) اللہ نے چوری سے اس لیئے روکا (اس پر حد جاری فر ما ئی ) کہ معاشرے سے یہ برائی دائمی طور پرختم ہو جائے۔
(٢٩) اللہ نے شرک کو سختی سے منع فرمایا تاکہ لوگ موحد بن کر خلوص کے ساتھ صرف اس کی عبادت کریں۔
(٣٠) اس نے تم ہی میں سے ایک نبی (ص)بھیجا اس لیئے کہ وہ تمہاری پریشانی دور کرے اور تم کو بھکاری سے معزز بنا دے۔ (وہ) وہ بہت رحم کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ اگر تم غور کرو تو تم اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہو کہ وہ تم میں سے کسی خاتون کاباپ نہیں سوائے میرے، اور نہ ان کا عمزاد (حضرت علی کرم اللہ وجہ ) میرے علاوہ تمہاری خواتین میں کسی کے شوہر ہیں ( یہ فضیلت صرف اللہ نے مجھے  ہی عطا فرما ئی  ہےکہ اللہ کےنبی (ص) میرے والدِ محترم ہیں۔ اور اللہ کے ولی میرے شوہر ہیں)اور مجھے ایک کا قرب اور دوسرے کو ساتھی بناکرر فاقت عطا فر ما ئی) انہوں (ص) نے تمام زندگی وحدانیت کو قائم رکھنے میں صرف کی اور وہ یکسر اللہ کے ہو رہے اور شرک سے نہ صرف منہ پھیر لیا بلکہ اس وقت تک برسرِ پیکار رہے جب تک کے موت نے نہ آلیا۔ انہوں نے دین کی تبلیغ دلا ئل اورانتہائی حکمت کی ساتھ کی اور انہوں نے یہ جدو جہد اس وقت تک جاری رکھی جب تک کہ انہوں نے شیطان کو اونٹ کی کو ہان سے بھگا نہیں دیا اور تمام کفارکو (عرب سے) شکست دیکر پسا نہیں کر دیااور تمام بتوں کو منہدم کر دیا۔ اور فضا میں مشرکانہ نعروں کے بجا ئے اللہ اکبر کی صدا ئیں نہ گونجنے لگیں
(٣١) (اے لوگو !)تم جہنم کے کنارے پہونچ چکے تھے۔اور تم ایک لقمہ تر یا سو کھی ہو ئی لکڑی کی طرح تھے جو کسی کے بھڑکانے بھڑک اٹھتی تھی اور کسی بھی لمحے تمہیں کو ئی بھی قوم روند سکتی تھی اور قعر مذلت کے اس درجہ پر پہونچے ہوئے تھے کہ پلک چھپکتے میں تمہیں کو ئی بھی یر غمال بنا کر لے جا سکتا تھا۔اللہ نے تم پر فضل کیا اور ان تمام بلا ؤں سے بچا لیا۔ کیونکہ میرے والد (ص) نے جراءت دکھا ئی اور مغرور عرب سرداروں کے تمہیں ذلت آمیز برتاوسے بھی بچا یا ،جو جنگلی بھیڑیوں کی شکل میںسارے عرب پر چھا ئے ہو ئے تھے۔اور سر کش اور مغرور اہل ِ کتا ب کی ریشہ دوانیوں سے بھی ، جب بھی انہوں نے جنگ کا شعلہ بھڑکایا اور تمہارے خلاف بلند کیا وہ تمہارے حق میں اچھی ثابت ہو ئی ۔
(٣٢) ان ارشادات میں ایک قول حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا یہ ہے جس کے راوی حضرت امام حسین (ع) وہ اس طرح ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے ایک جمعرات کوحضرت فاطمہ (س) کو اپنی عبادت گاہ میں مصروف عبادت دیکھا حتیٰ کہ فجر کا وقت ہو گیا اور ان کی زبان مبارک پر صرف مومنین کی مغفرت کی دعا تھی اور انہوں نے کو ئی دوسرا لفظ پوری دعا میں اد ا نہیں فر مایا،تو میں نے پوچھا کہ اے مادرِ محترم ! آپ اپنے لیئے ایسی دعا کیوں نہیں مانگتیں، جیسی کہ آپ دوسرے کے لیئے مانگ رہی تھیں؟ تو انہوں(س) نے جواب میں فر مایا۔ کہ جان مادر پہلے ہمسایہ پھر خود؟ اس جواب میں حقوق العباد کا اتنا بڑا سبق ہے جس کا جواب نہیں اور جس سے ملت اب کوسوں دور ہے۔
(٣٣) حضور (ص) ایک دن ان کے گھر تشریف لا ئے تو انہوں (س) نے ان (ص) کا استقبال، کیا جب وہ تشریف فر ما ہو گئے تو پو چھا کہ فاطمہ (س) وہ کونسا عمل ہے جو خواتین کے لیئے اللہ کی سب سے زیادہ خوشنودی کا با عث ہے ؟ انہوں (س) نے جواب میں عرض کیا کہ کوئی خاتون نہ غیر مرد کو دیکھے اور نہ اس سے بے تکلف ہو اور نہ ہی غیر مرد کی اس پر نظر پڑے۔
 (٣٤)ایک روایت ہے کہ ایک دن ایک خاتون ان کے پا س آئیں اور انہوں نے اجازت طلب کی کہ اے بنت ِرسول (ص)  !میری ماں ضعیف ہے اور وہ نماز کے بارے میں کچھ جاننا چا ہتی کیا آپ مہر بانی فر ماکر مجھے بتا ئیں گی ؟ انہوں (س) نے فر مایا کہ کیا تم سوال کرنے کے لیئے تیار ہو،تو مجھ سے پوچھ لو۔
اس نے یکے بعد دیگرے دس سوال کیئے اور وہ جواب عطا فر ماتی رہیں۔آخر وہ اس پر خود کو ملامت کرنے لگی کہ میں اتنی دیر سے حضرت سیدہ سلام اللہ علہیا کو تنگ کر رہی ہو ں اور کہنے لگی کہ اب آپ کو میں مزید زحمت نہیں دینا چا ہتی اور خاموش ہو گئی۔
یہ سن کر حضرت فاطمہ سلام علیہا نے فر مایا تم اپنے سوال جاری رکھو،تم نے کبھی اس شخص کی مثال سنی جو ایک دن کے لیئے ملازم رکھا گیا ہو اور جس کو ایک ہزار مثقال سو نا اٹھا کر زمین سے چھت پر پہونچانا ہو،یا ایک ہزار درہم پہونچا نے ہوں اور وہ تھکن محسوس کر رہا ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں ۔ تب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فر مایا کہ ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خرید لیا ہے اس بے حساب معاوضہ کے عیوض جس کی نہ کو ئی حد ہے نہ حساب اتنا کہ تمام آسمان موتیوں سے بھر دیا جا ئے تو بھی کم ہو گا، لہذا میں سوالات سے کبھی نہیں تھکتی۔
 (٣٥) یہ وہ دعا ہے جو وہ اکثر مانگا کر تی تھیں تاکہ امت سیکھ لے ۔
اے اللہ ! مجھے  خوداپنی نظروں میں حقیر فر ما دے ( یعنی غرور سے بچا ) اور رحمت نازل فر ما مجھ پر۔اور اپنی نگاہ مجھ پرمر کوز رکھ ( تاکہ تیری روشنی میں میں گمراہی سے بچی رہوں )اور اپنی عبادت کا خوگر بنا اور اس پر عمل کر نے کی تو فیق بھی عطا فر ما جو، تیر ے رحم اور کرم کا با عث ہو اور اس سے بچا جو تیرے غضب کا با عث ہو ۔ بے شک تو بے حد رحم کر نے والا ور کریم ہے۔
(٣٦) اے اللہ! تو مجھے قناعت عطا فر ما اس رزق پر جو تو نے میرا مقدر فر مادیا ہے۔ اس وقت تک جب تک کہ تو اس (دنیا میں مجھے ) زندہ رکھے ،میری پردہ پوشی فر ما اور صحت مند اور توانا رکھ ۔ مجھے معاف فر مادے اور سکرات ِ موت مجھ پر آسان فر ما دے۔اے اللہ مجھے اس سے باز رکھ جو تو نے میرا مقدر نہیں فرما یا۔ اور اس کے حصول میں آسا نیا ں پیدا فر ما جو تو نے پہلے سے ہی میرے لیئے مقدر فر مادیا ہے ۔
(٣٧) او اللہ !میرے والدین پر اپنی رحمت نازل فر مااور ان کے علاوہ ان سب پر بھی جو کسی بھی قسم کا میرے اوپر استحقاق واحسان رکھتے ہوں ۔ان کو اس پر بہترین اجر عطا فر ما ۔ اے اللہ!مجھ سے وہ کام لے، بغیر کسی مہلت اور آسا ئش کے جس کے لیئے مجھے تو نے پیدا فر مایا۔اور مجھے لہو لعب سے بچا جو میرے فرا ئض کی ادا ئیگی میں حا ئل ہوں ۔اور مجھے مت خالی لوٹا نا جب میں مغفرت طلب کروں ؟ اور مجھے مایوس نہ کر جب میں تجھ سے سوال کروں ۔
نوٹ۔ اس آخری جملہ میں اس وقت  ِخاص کی طرف اشا رہ فر مایا ہے جب وہ در بار خدا وندی میں شفا عت کے لیئے تشریف لے جا ئیں گی جس وعدہ  کاہم پچھلی کسی قسط میں ذکر چکے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور(س) فر مایا تھا کہ فاطمہ کو روکئے وہ اپنے سر سے چادر نہ اتاریں ۔ میں اس دن وہی کرونگا جو وہ چا ہیں گی۔
اس  مضمون کو سورہ مریم کی ایک آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے کہ ان کو شفا عت کی اجازت ہو گی ،جنہوں نے خدا سے پہلے پروانے لے رکھے ہیں ۔
(٣٨) اب چند اشعار جو حضور (ص) کے وصال کے بعد ان منسوب ہیں انکا اردو میں ہم مفہومی ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔
 (الف )حضور (ص) کے مز ار مباِرک کی خوشبو کے مثا ل کو ئی اور خوشبو نہیں ہے۔
 ( جنہیں حضور(ص) کے روضہ مبارکب پر حا ضری کا شرف حا صل ہوا ہے ! یہ بات ان کی قوت ِ شامہ نے ضرور محسوس کی ہو گی کہ حضور (ص) کے مزار ِ مبارک سے ایک مخصوص قسم کی مہک اٹھتی ہے، جو ناک کو معطر کر دیتی ہے۔ممکن ہے یہ وی خوشبو ہو جو کہ جب وہ ہمارے در میان تھے، تو ان کے پسینہِ مبارک سے صحابہ کرام ( رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) کو آتی تھی۔ یہاں ممکن ہے کہ کچھ لوگ یہ کہیں کہ یہ مرنے کے بعد کیسی جاری رہ سکتی ہے؟ اس کے لیئے وہ حدیث پڑھ لیں جس میں حضور (ص) نے فر مایا کہ “ نبیوں (ع) کا جسم مٹی نہیں کھاتی وہ ویسے ہی محفوظ رہتا ہے )
 (ب)مجھے رنج اور محن نے اس طرح گھیر لیا ہے اور ایسے تاریک دن مجھ پر چھا گئے ہیں،
 جیسے اندھیری رات ہو اور میں جنگل میں (تنہا ) اور بھٹک رہی ہوں۔
(٣٩)) آسمان بھی غمزدہ لگتا ہے اس پر بھی غموں کی دھند چھا گئی ہے اور سورج اپنی روشنی کھو بیٹھا ہے۔
اور زمین بھی اندھیری اور ویران ہو گئی اور اپنے نبی(ص) کی مفارقت پر سوگوار ہے۔
اوراس سے بڑا دھچکا اس کے لیئے کیا ہو گا؟
 یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا کا مشرقی اور مغربی کو ئی کونا بھی ایسا نہیں ہے جو حضور (ص) کا غم نہ منا رہا
اور قبیلہ مزیر سے لیکر یمن تک کے قبا ئل اس میں شامل ہیں۔
اور دنیا کہ تمام پہاڑ جو بتھریلے ہیں یا سر سبز ہیں بشمول استوان ِ کعبہ نو حہ کنا ں ہیں اور آنسو بہا رہے ہیں ۔
او وہ جو! خاتم ِ سلسلہ انبیا ء ہے۔ اس امت کو روشنی دکھا تاکہ وہ قر آن سے رہنما ئی حا صل کر سکے،اور ان پر اپنی رحمت نازل فر ما(آمین)
(٤٠) اور آخر میں اپنے ارشادات کو اس دعا پر انہوں (س) نے ختم فر ما یا۔ “ اللہ! تمہیں حضور (ص) کے اتباع کی تو فیق عطا فر ما ئے تاکہ تم سازشو ں اور گمر اہیوں سے محفوط ر ہ سکو،وہ گمرا ہیاں جو متدد اشکا ل میں جنم لے رہی ہیں وہ تم میں جگہ نہ پا سکیں (آمین )
قارئین۔گرامی آپ نے ملا حظہ فر مایا کہ ان چالیس ارشادات میں جناب ِ سیدہ سلام اللہ علیہا نے ایک لفظ اس سلسلہ نہیں فر مایا کہ ہم اگر بے عمل ہوں تو بھی وہ شفا عت فر ما ئیں گی۔ ان میں بھی تمام زور عمل پر ہے جس پر وہ خود بھی زندگی بھر عامل رہیں۔لہذا صحیح راستہ یہ ہے کہ جن کاموں سے منع فر ما یا گیا ہے ان سے ہم رکے رہیں اور جن کاموں کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ پابندی سے کریں ۔اور پھر شفا عت کی امید رکھیں ۔ اور اس سلسلہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ ارشاد ِ مشعل راہ ہے کہ “ عمل کے بغیر ایمان بیکار ہے اور ایمان کے بغیر عمل “ اللہ ہم سب کو حضور (ص) کی پیروی کر نے تو فیق عطا فر ما ئے( آمین
(١)حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایاکہ رسول اللہ (ص) نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا او محمد ! (ص) اللہ نے آپ کو سلا م کہا ہے اور فرمایا ہے کہ میں آپ کی صاحزادی (رض) کی شادی حضرت علی (رض) بن ابی طالب کے ساتھ عالم ِ بالا میں کرچکا ہو ں اور اب آپ اس کو دنیا میں بھی انجام دید یجئے۔
 (٢)حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ حضور  (ص)مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔(اسی دوران ) انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ  سے فرمایا کہ یہ جبرا ئیل (ع) ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تمہاری شادی فاطمہ (رض) سے عالم ِ بالامیں چالیس ہزار فرشتوں کی موجودگی میں انجام دی اور اس موقعہ پر شجر ِ توبہ سے یاقوت اور موتیوں کی بارش ہو ئی، جنہیں حوروں نے طباقوں میں بھر کر ان فرشتوں میں تقسیم کیا اور وہ قیامت تک یہ ایک دوسرے کو بطور تحفہ پیش کر تے رہیں گے۔
(٣)حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور  (ص)نے شادی والی رات حضرت علی  (رض) سے فرمایا کہ (آئندہ ) کوئی کام مجھ سے پو چھے بغیر نہیں کر نا پھر انہوں نے وضو کے لیئے پانی طلب فرمایا۔(وضوسے) بچے ہو ئے پانی کو دونوں پر چھڑکااور فر مایا اے اللہ ! اپنی رحمتیں نازل فرما دونوں کے باہمی تعلقات پر اور ان پر رحمت کی بارش فرما ان پر اور ان کی اولاد پر۔
(٤)حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے فرما یا کہ حضور (ص) نے خصوصی دعا حضرت فاطمہ (رض) کے لیئے فرمائی کہ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا اس کے اور اس کی اولاد کے لیئے شیطان مردود سے۔
(٥) حضرت المصور (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نے (ص) بر سرِ منبر فرمایا کہ ہاشم بن مغیرہ نے مجھ سے اجازت چاہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی حضرت علی (رض) بیاہ دے ۔ لیکن میں انہیں (کبھی) اس کی اجازت نہیں دونگا ، کبھی اجازت نہیں دونگا ،اور کبھی اجازت نہیں دونگا۔اس کے بعد حضور (ص) نے فرمایا کہ فاطمہ (رض) میرے جسم کا تکڑا ہے جو چیز اس کو ناگوار ہو ، وہ مجھے ناگوار ہے جو اسے دکھ پہونچا ئے گا وہ مجھے دکھ پہونچا ئے گا۔
(٦)حضرت فاطمہ (رض) خود راوی ہیں کہ میں ایک دن خود حضرت حسن  (رض) اور حسین  (رض)کو لیکر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور میں نے عرض کیا کہ یہ دونوں آپ کے صاحبزادے ہیں انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرما ئیے۔رسول اللہ (ص) نے فر مایا کہ حسن  (رض)کے لیئے میری (سی) ہیبت اور رہنمائی ہے اور حضرت حسین  (رض)کے لیئے میری بہادری اور سخاوت ہے۔
(٧) حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس سے روایت ہے کہ حضور (ص) نے فرمایاکہ میں درخت (کے مانند ہوں )فاطمہ (رض) اس کی شاخ اور پھول ہیں حسن اور حسین (رض) پھل ہیں اور محب ِ اہل ِ بیت پتے ہیں اوروہ سب کے سب جنتی ہیں ۔ یہ حق ہے ، یہ حق ہے۔
(٨) معاویہ (رض) بن حدیج راوی ہیں کہ حسن بن علی نے فرمایا کہ اے معاویہ ہمارے ساتھ بغض اور حسد سے باز رہو (کیونکہ) رسول اللہ نے فرمایا کہ کوئی نہیں جو ہم سے نفرت اور حسد رکھتا ہو وہ حوض کوثر پہ سے قیامت کے دن جہنم میں نہ پھینکا جا ئے۔
(٩)حضرت جابر (رض) بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضور (ص) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا جو میرے اہل ِ بیت سے دشمنی رکھے گا، اس کا حشر یہودیوں کے ساتھ ہوگا۔ میں نے پوچھا اے رسول ِ اللہ چاہیں وہ روزے رکھتا ہو، نماز پڑھتا ہو ؟ حضور ( ص)نے فرمایا کہ ہاں چاہیں وہ روزے رکھتا ہو نماز پڑھتا ہو۔
( ١٠)یک دوسری روایت میں یہ ہی مضمون حضرت انس (رض) بن جابر سے روایت ہوا ہے ۔ جس میں حج بھی شامل ہے۔ حضرت انس بن جابر نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا حتیٰ کے اگر کوئی رکن یمنی اور مقام ِ ابرا ہیم کے درمیان نمازپڑھتا ہو اور اہل ِ بیت سے نفرت رکھتا ہو اور (اسکو) موت آجا ئے تو وہ جہنم میںجا ئے گا۔
(١١) حضرت سعید الخدری (رض) سے روایت ہے کہ حضور  (ص)نے فرمایا کہ جو میرے اہل ِ بیت سے نفرت رکھتا ہو وہ منا فق ہے
(٢١) حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ً میں ایک دن حضرت فاطمہ (رض) کے گھر گیا تو میں نے کہا کہ اے فاطمہ (رض) واللہ !میں نے کسی کو نہیں دیکھا جس کو رسول اللہ (ص) آپ سے زیادہ چا ہتے ہوں۔اور خدا قسم تمہارے والد کے بعد مجھے بھی آپ (رض) سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ہے ۔
(١٣)ہم وہ حدیث پہلے بیان کر چکے ہیں جس میں حضور (رض) نے حضرت فاطمہ کو فر مایا کہ ً فاطمہ (رض) میرے گوشت کا حصہ ہے جس نے اس کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا۔۔۔الخ۔ اس کی شرح تحریر فرماتے ہو ئے مشکواة شریف میں جہاں یہ بیان ہوئی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تحریر فرمایا ہے کہ میری رائے ہے کہ“ جناب ِ سیدہ طاہرہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان مین گستاخی کر نے والا کافر ہو سکتا ہے؟ تو یہ بات یقینی ہے کہ ان کی اولاد کی شان میں بھی گستاخی کر نے والاکافر اور ملعون ہے۔ کیونکہ حضرت سیدہ کی اولاد کو کوئی گالی دے گا تو بالواسطہ وہ حضرت فا طمہ تک پہونچے گی“
یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ جس میں اہل ِ بیت  (رض)کے مخالفین کو وعید یں سنا ئی گئی تھیں۔ جو کہ اس آیت کے آخری حصہ سے شروع ہوئیں کہ اللہ سبحانہ تعالٰ نے فرمایا کہ فرمادیجئے کہ “ میں تم سے کو ئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میری عترت کے ساتھ بھلائی کرو“اسی لیئے یہ آیت اآیتِ مودةکے نام سے مو سوم ہے ۔ اب ہم آگے احادیث وہ پیش کر رہے ہیں ۔جن میں جو محب ِ اہل ِ بیت ہیں ان پر انعامات کا ذکر ہے۔
(١٤) تفسیر کبیر اور تفسیر ابن ِ عربی اور بہت سی دوسری کتابوں میں ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا کہ جو شخص حب ِ آل محمد (ص) میں مرا مرحوم مغفور مرا اور جو شخص حبِ آل محمد (ص) میں مرا وہ تا ئب کی موت مرا، اور جو شخص حب ِ آل ِ محمد (ص) میں مرا وہ حالت ایمان میں مرا، جوشخص حب ِ آل ِ محمد (ص) میں مرا وہ شہیداور کامل ایمان پر مرا ، اورجو حب ِ آل ِ محمد  (ص)میں مرا اسے ملک الموت اور منکر نکیر جنت کی خوشخبری دیں گے اور جو شخص حب ِ آل ِ محمد  (ص)میں مرا وہ جنت میں اس طرح لے جایا جا ئے گا جس طرح دلہن اپنے خاوند کے گھر جاتی ہے۔ قبر میں اس کے لیئے جنت کے دروازے کھول دیئے جا ئیں گے اور اللہ اس کی قبر کو رحمت کے فرشتوں کی زیارت گاہ بنا دے گا اور جو شخص حب ِآل ِ محمد (ص) میںمرا وہ جماعت اہل ِ سنت پر مرا .
 یہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کی خواتین میں یہ خواتین افضل ہیں ۔ جن کے نام ہم آگے پیش کر رہے ہیں (١) حضرت خدیجہ الکبریٰ (٢) حضرت عائشہ صدیقہ (٣) حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی) (٤) حضرت مریم (رضوان اللہ علیہما ) اور (٥) حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا۔ کچھ مورخین نے اس پر تاریخ میں یہ بحث چھیڑ دی کہ ان میںافضل کون ہے؟ حالانکہ اس مسئلہ پر صرف وہ ہی بات کرنے کا حق رکھتاہے جو کہ عالم غیب ہے یعنی اللہ سبحانہ تعالیٰ، ،ہم جیسے عام آدمی نہیں ۔ لہذا کچھ نے ایک کے حق میں دلا ئل دیئے اور کچھ نے دوسری کے ۔اور اس مسئلہ کو خوامخواہ چند مورخین نے الجھا دیا ہے۔ کچھ کہتے ہیں یہ افضل ہیں اور کچھ کہتے ہیں وہ افضل ہیں ۔جبکہ ایک طبقہ مورخین کہتا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سب سے افضل اس لیئے ہیں کہ جو کسی کو بھی کوئی فضیلت انفرادی طور پرحاصل تھی وہ یہاں ان کو اجتما عی طور پر حا صل ہیں۔جس کا ثبوت ان کے عالم وجود میں آنے پہلے سے ملتا ہے۔ جہاں تک ان کی والدہِ محترمہ  (رض) کا ان سے افضل ہونا ہے اس لیئے کہ وہ ان کی والدہ ہیںوہ کسی حدتک قابل ِ غور ہے۔ مگر وہ بھی اس دنیا تک تھیں۔ ورنہ وہاں تو حضرت فاطمہ  (س) کا ہی خاتون ِ جنت ہو نا ثابت ہے۔اگر پہلا کلیہ مان لیا جا ئے تو آدم علیہ السلام سب سے افضل ہو ئے چونکہ وہ تمام انسا نیت کے باپ ہیں ۔ مگر قر آن اور احادیث کہہ رہی ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ حضور  (ص)تمام انبیا ئے کرام (ع) میں سب سے افضل ہیں ،یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ ایک طبقہ اس کا قائل ہے کہ تمام انبیا ء برابر ہیں اور اس کے لیئے وہ آیت بطور دلیل پیش کرتا ہے لا نفرق بین احد اً جبکہ قرآن اور احادیث اس کی نفی کر رہی ہیں لہذا کچھ مفسریں کی را ئے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیا ء (ع) ایک ہی مشن پر تھے، لہذا ان کی تعلیمات میں کو ئی فرق نہیں ہے ۔لیکن یہاں وہ لوگ جو حضور  (ص)کا رتبہ کم کرنے کے در پر ہیں وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ کسی نبی (ع) پر کسی دوسرے نبی (ع) کو کوئی فضیلت نہیں ۔ جبکہ حضور (ص) کا ارشادِ گرامی ہے کہ اگر اس وقت موسیٰ بھی موجود ہوتے تو انہیں بھی میر ااتبا ع کر نے کے سواکوئی چارہ نہ تھا؟ اس کا عملی مظاہرہ معراج کی احادیث سے ثابت ہے کہ جسمیں تمام انبیا (ع)  نے حضور (ص) کا اتبا ع کیا۔اس سے ثابت یہ ہوا کہ ان انبیاء (ع)کو اپنے دور میں اس وقت کے انسانوں اور نبیوں (ع) پر فضیلت حا صل تھی۔اگر اس نظریہ کو مانا جا ئے توپھر یہ درست ہے کہ وہ خواتین اپنے اپنے دور کی خواتین میں بزرگ تھیں اور ہمارے لیئے بھی بزرگ تھیں اور رہیں گی ۔
 مگر خاتون جنت تو صرف حضرت فا طمہ (ص) ہیں جہاں کہ زندگی ابدی ہے ۔ اسی لیئے حضرت شا ہ ولی اللہ (رح) محدث دہلوی نے “ اس مسئلے پر اپنے دلا ئل دیتے ہو ئے فر مایا کہ وہ خواتین اپنے اپنے دور میں افضل تھیں، مگر اس دور میں حضرت فا طمہ (س)  افضل ہیں ۔ پھر جب دَور کی بات آتی ہے، تو کچھ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ  افضل  (رض) ہیں کہ حضور (ص) ان کو پسند فر ماتے تھے۔ مگر وہاں بھی ان کا یہ ارشاد خود اس بات کی نفی کرتا ہے کہ “ اے فاطمہ  (س) کاش میں تیرے سر کا بال ہو تی  “اس کے علاوہ بھی پھر انہیں (رض) سے کئی احادیث بیان ہو ئی ہیں کہ “ حضور  (ص)عورتوں میں سب سے زیادہ فاطمہ (س) کو اور مردوں میں علی  (رض)کو چاہتے تھے “اور ان کے علاوہ حضور (ص) کی یہ یہ مشہور حدیث جو کہ انہوں (ص) نےحضرت علی کرم اللہ کے جواب میں ارشاد فرمائی، اور یہ ہی اور بہت سے صحابہ کرام کو جواب میں صرف تھوڑے سے الفاظ میں ردو بدل کے ساتھ بار بار فرماتے رہے  “مجھے سب سے زیادہ فاطمہ (س) عزیز ہے اور اس کے بعد تم (علی) ہو “
ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب ہم پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکے ہیں کہ حضرت فاطمہ  (س) کو عالم ِ بالا سے ہی خواتین کے لیئے مثالی بنا کر  چن لیا گیا تھا لہذا وہ پیدا ئشی طور ولیہ تھیں اور عام خواتین کی طرح نہ ان کی پیدا ئش ہو ئی نہ وہ اپنے بچوں کی پیدا ئش پر ان مرا حل سے گزریں جس سے کہ عام خواتین گزرتی ہیں، کیونکہ حضرت حسن  (رض)کی پیدا ئش کے فوراً بعد وہ نماز کو کھڑی ہو گئیں پھر دوران حج جو ضروریات حضرت اسماء  (رض)کواور حضرت عائشہ  (رض) کو پیش آئیں وہ انہیں نہیں آئیں، جو اس بات کا ثبوت ہے ؟ جو میں کہنا چاہتا ہوں۔
  اب ہم سب سے پہلے ان کے والد ِ محترم  (ص)کو لیتے ہیں کہ ان سے بہتر کسی کا باپ  نہیں تھا اور ماں بھی بر گزیدہ  (رض)تھیں ۔ پھر ان کے شوہر (رض)  بھی ولی اللہ اور لا جواب تھے اوران کے صا حبزادگان (رض) بھی سرداران جنت ہیں ۔ اس کے بعد ان سے جو نسل چلی ننیانوے فیصد اولیا ئے کرام (رح) انہیں کی اولاد سے ہیں اور ان کو ان سب کی والدہ محترمہ (س) ہو نے کا فخر حا صل ہے جن کی تعداد لاکھوں میں ہے جنہیں میں اسلام کی دوسری دفاعی لا ئن کہتا ہوں جس نے کہ خلافت ِ راشدہ کے بعد پہلی صف کی جگہ لے لی تھی۔ پھر حضور (ص) کے ایک ارشادات ِ گرامی ، جن میں سے ایک تو ہم نے پہلے پیش کر دیا ہے اب باقی پیش کرتے ہیں ۔ حضور  (ص)نے فرمایافا طمہ (س) خواتین کی دنیا میں اورجنت میں سردار ہے۔ حضرت فاطمہ (س) کی کنیت کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ام ِ محمد (ص) تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بچپن سے لیکر حضور  (ص)کی تمام حیات ِ مبارکہ میں ان کی نگہداشت فرمائی جس کی وجہ سے یہ خطاب در بار ِ رسالت سے عطا ہوا۔ پھر فر مایا کہ “فاطمہ (س) میرے گوشت کا تکڑا ہے جو اس کو ایذا دے گا وہ مجھے (ص) ایذا دے گا  “ پھر فر مایا کہ “ ہم سے جنت میں سب سے پہلے ملنی والی فا طمہ (س) ہو نگی ۔ یہ بھی فرمایا کہ اس دن سب کی نسبتیں ختم ہو جا ئیں گی اور میری (ص) باقی رہے گی۔ اور یہ بھی فر مایا کہ ًسب کی نسل بیٹے سے چلتی ہے مگر میری نسل فاطمہ (س) سے چلے گی اس کے بیٹے  (رض)میرے بیٹے ہیں ً اگر ہم حضور (ص) کے وہ تمام ارشادات پیش کریں جو انہوں نے حضرت فاطمہ (رض) کے بارے میں ارشاد فر ما ئے تو ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہو گی۔ ان میں سے کچھ ہم پہلے پیش کر چکے ہیں اور آپ لوگ انہیں صفحات پر انہیں پڑھ بھی چکے ہیں لہذا ہم یہاں دہرا نا نہیں چاہتے ۔البتہ کچھ کی طرف صرف اشارہ کیا ہے ۔ انہیں میں ہم نے وہ واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور (ص) کو پیغام بھیجا کہ “آپ فاطمہ کو اپنی چادر سر سے اتارنے سے روکدیجئے، میں آپ کی امت کے ساتھ وہی سلوک کرونگا جو فاطمہ چاہیں گی “اور ہم نے ایک آیت بھی بیان کی تھی جس سے ثابت کیا تھا کہ قیامت کے دن جن لوگوں سے اللہ نے شفا عت کے وعدے فرمارکھیں ہیں،وہ اس کی اجازت سے شفاعت کریں گے ۔ جن میں احادیث کے مطابق حضور (ص) اور مذکورہ حدیث کے مطابق حضرت فاطمہ  (رض)بھی شامل ہیں۔ لہذا حضور (ص) بھی اس وقت تک صاحب ِ وقت ہیں جب تک کے فرض شفا عت سے فارغ ہو کر سردار بہشت کے طور پرجنت الفردوس میں میں ہمیشہ کے لیئے تشریف نہ لے جا ئیں اور حضرت فاطمہ  (س)بھی۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ جس طرح حضور (ص) کی ساری زندگی یا امتی یا امتی ! فرماتے گزری اسی طرح حضرت فاطمہ (س) کی بھی۔ جنہیں دلچسپی ہے ان کے لیئے احادیث کی کتابیں موجود ہیں وہا ں جا کر تحقیق کر سکتے ہیں ۔ ان دلائل کی روشنی میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان کو تمام خواتین پر فضیلت حاصل ہے۔
 آئیے اب کیوں پر بات کرتے ہیں؟سب سے پہلی ان کی والدہ  محترمہ کو لیتے ہیں جن کی جگہ تمام امہات ِ المومنین (رض) میں سے کو ئی بھی نہیں لے سکیں ۔ خود حضرت عا ئشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ “مجھے سب سے زیادہ رشک حضرت خدیجہ  (رض) پر آتا تھا کہ حضور (ص) ان کا ذکر بھی احترام سے کرتے تھے ،حتیٰ کہ ان کے رشتہ داروں (رض) کو بھی پسند فرماتے تھے ۔خود حضور  (ص)ان کی شان میں فرماتے ہیں کہ “ ان  (رض)کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا اس لیئے کہ وہ اس وقت مجھ پر ایمان لا ئیں جب سب نے مجھے جھٹلایا اور اس وقت انہوں نے میرے اوپر اپنا مال خرچ کیا جب سب مجھ سے گریزاں تھے ً اور وہ اپنی بیٹی فاطمہ (رض) کے بارے میں فر ماتی ہیں کہ یہ میری اولاد میں سب سے مختلف تھیں اور ہر جگہ انہوں (س) نے صبر کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ شعب ابو طالب میں بھی جہاں سب کے پتے پانی ہو گئے وہ شاکر اور صابر رہیں ً اب اس کے بعد سب سے نازک رشتہ میاں بیوی کا ہوتا ہے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جہاں دوبرتن ہو ں تو کھنکے ضرور ہیں؟ یہاں اتنی کثرت سے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایات ملتی ہیں کہ زندگی بھرحضرت علی کرم اللہ وجہ ان  (ص)کے شریک حیات ہو نے پر فخر کرتے رہے ۔ اور اس کا اظہار انہوں (رض) نے اپنے اشعار میں بھی بہت سی جگہ فرمایاہے یہ تو تھی شوہر کی گواہی۔ اور  اب بیٹے کی گواہی ماں کے بارے میں،جوکہ ہم ایک روایت کی شکل میں پہلے ہی پیش کر چکے ہیں کہ حضرت امام حسن  (رض)نے فر مایا کہ ایک رات میں نے تمام رات اپنی والدہ ِ محترمہ (س) کو سجدہ ریز دیکھا اورانہوں  (س)نے اس میں سوائے امت کے لیئے دعائیں مانگنے کے اپنے لیئے کوئی دعا نہیں مانگی، تو میں نے پوچھا کہ آپ اپنے لیئے ویسی دعا کیوں نہیں مانگتیں جیسی کہ اور وں کے لیئے مانگتی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ “ بیٹا پہلے پڑوسی اور بعد میں خود  “اس پر معترض کہہ سکتے ہیں یہ تو ان کے گھر کے لوگ تھے اوراپنے سب کو اچھے لگتے ہیں؟ پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہ سب کے سب صادق تھے، جن پر فرشتے رشک کرتے تھے ؟ اس کے بعد ہم حضرت عمر (رض) کی اس روایت پر بات ختم کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ “ میں ایک دن حضرت فاطمہ  (رض)کے گھر گیا تو میں
(رض) نے ان سے کہا کہ میرے لیئے سب سے زیادہ قابل توقیر آپ کے والد ِ محترم (ص) ہیں اور ان کے بعد آپ (رض
سیدہ کائنات
 منصب ِ رشدو ہدایت پر بھی فا ئز تھیں اور خواتین ان سے مسا ئل پو چھنے آتی تھیں جس سے وہ کبھی نہیں تھکتی تھیں  اب  سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ان کا استاد کو ن تھا ؟ جبکہ انہیں کا ہی نہیں پنج ِتن پاک میں سے کسی کا بھی کو ئی استاد تا ریخ میں نہیں ملتا ،اس سے جو بات ثابت ہو تی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا جو کچھ بھی علم تھا وہ دنیا وی ذرا ئع سے نہ تھا، بلکہ انہیں علم ِ لد نی حا صل تھا۔ ان میں سے حضور  (ص)کے حصول ِ علم کا ذریعہ وحی تھا جو ہر ایک ہی جانتا بھی ہے اور مانتا بھی ہے ۔ کہ چار ذرائع تھے جن سے کہ انہیں علم حا صل ہو تا تھا ۔ ایک جبلی طور پر ملاجو کہ ہر ایک کو عطا ہو تا ہے جیسے کہ فرشتوں کو اڑنا ، اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کو جس کام کے لیئے چنتا ہے وہ اس میں صلا حیتیں بھی پیدا ئشی طور پر ودیعت فرماتا ہے ۔لہذا کچھ صلاحتیں تو حضور (ص) کو پیدا ئشی طور پر عطا ہو ئیں ، پھر خواب کے ذریعہ اور پھر وحی، بذریعہ فرشتہ جو کہ قر آن کی شکل میں موجود ہے ۔ جبلت یہ کہ وہ پیدا ئشی طور پاک طینت پیدا فر ما ئے گئے جس کا اظہار قدم قدم پر ان کی پیدا ئش سے ہی ہو نے لگا ۔ پھر رو یا ئے صادقہ جو ابتدائی دور میں نظر آئے، جبکہ فرشتہ کبھی کبھی بہت عرصے تک نہیں آیا کرتا تھا ۔ پھر وجدان ِصادقہ ۔ لہذا وہ کسی کہ شاگرد نہیں تھے۔ کیونکہ ان کے پاس تمام ذرائع براہ راست مو جود تھے۔ جو ان کے منصب کا تقاضہ تھا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ساتھ ہے کہ تاریخ میں ان کا بھی کوئی استاد نہیں ملتا، انہیں نہ کسی نے لکھنا پڑھنا سکھایا اور نہ تلوار چلا نا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی یہ سب کچھ اپنی جبلت میں لے کر پیدا ہو ئے تھے ۔ سوائے اس کے ان کی گھٹی میں جو چیز پڑی تھی وہ حضور (ص) کا لعاب ِ دہن تھا۔اور حضور کے لعاب دہن میں اللہ نے وہ تا ثیر پنہاں رکھی تھی کہ کبھی تو خشک کنوئیں میں ڈالدیتے تو اس میں سے پانی ابلنے لگتا، اور کبھی حضرت علی کرم اللہ وجہ کی آنکھ میں ڈالدیتے تو بیمار آنکھیں شفا یاب ہو جا تیں ۔ یہاں بھی وہ پہلی غذا کے طور پر حضرت علی  کرم اللہ وجہ کو ملا تھا ۔
 مگر حضرت فا طمہ  سلام اللہ علیہا کو وہ بھی نہیں عطا ہوا کیونکہ تا ریخ میں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ہاں ان کے صاحبزادوں کو صرف لعاب ِ دہن ہی نہیں بلکہ زبان ِ مبارک چوسنے کو ملی ۔ تا ریخ شاہد ہے کہ وہ دونوں بھی اپنے فن میں یکتا تھے ۔ اور چٹکی بجا تے ہی بچپن سے فقہ کے دقیق سے دقیق مسئلے حل کر دیتے ۔ جیسے حضرت حسن  (رض)کے بارے میں مشہور روایت ہے کہ ایک شخص ایک میت کے پاس ملا جس کے ہاتھ میں خوں آلود چھری تھی لوگوں نے اسے پکڑ لیا ۔ اس نے بجا ئے انکار کر نے کے اقرار کر لیا ۔ جیسے ہی اس نے اقرار کیا ۔ایک دعوے دار اور پیدا ہو گیا کہ اس کو میں نے قتل کیا ہے ۔ مقدمہ امیر المو منین حضرت علی کرم اللہ وجہ کے روبرو پیش ہوا ۔ جب پہلے اقبالی ملزم سے کہا گیا سچ بتا ،تو اس نے بتایا کہ مجھے جانور ذبح کرتے ہو ئے شدت سے پیشاب کی حا جت ہو ئی اور میں چھری ہاتھ میں لیئے ہوئے وہاں چلا گیا، جہاں یہ مقتول پڑا ہوا تھالہذا میں جس حالت میں پکڑا گیا تھا اس سے یہ ہی ثابت ہو تا تھا کہ قاتل میں ہو ں، اس لیئے میں نے یہ مناسب سمجھا کہ مجھے غلط فہمی میں کو ئی گزند نہ پہونچے، میں اقرار کر لو ں اور آپ کے روبرو آکر سچ بتا دوں ۔ جب دوسرے سے پو چھا گیا کہ تو کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا کہ قتل تو میں نے کیا تھا مگر جب یہ قصائی بے گناہ پھنس گیا ،تو میں نے مناسب سمجھا کہ اس کی جان بچالوں یہ کیو ں میرے گناہ کے بدلے میں مارا جا ئے ۔حضرت حسن (رض) بھی وہیں موجود تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ دونوں کو چھوڑدیا جا ئے اور خوں بہا بیت المال سے ادا کردیا جا ئے ۔ ان سے پوچھا گیا کیوں ؟ تو انہوں نے فر مایا کہ قرآن میں ہے کہ “ جس نے ایک انسان کو قتل کیا تو سارے عالم کو قتل کیا اور جس نے ایک جان بچا ئی تو سارے عالم کی جان بچا ئی “لہذا اس نے ایک بے گناہ کی جان بچا کر سارے عالم کی جان بچا ئی ہے۔
 انہیں حضرت امام حسن (رض) سے یہ روایت بھی ہے کہ وہ بچپن سے نا نا کے پاس بیٹھے رہتے تھے ۔ اور جو کچھ احادیث اور وحی سنتے من و عن یا د کر لیتے اور جب گھر میں تشریف لا تے تو اپنی والدہ محترمہ کو سنا تے اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہ گھر تشریف لا تے تووہ ان کے سامنے بیان فر ما دیتیں ، ایک دن انہوں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے پو چھا کہ یہ تمہیں کیسے پتہ چلتا ہے، تو انہوں نے بتایا کہ حضرت حسن (رض) باہر سے آکر سناتے ہیں ؟ حضرت علی  کرم اللہ وجہ نے فر مایا کہ میں چھپ جا تا ہوں ،جب آئیں تو ان سے پو چھنا تاکہ میں بھی سنوں ؟ وہ حضرت حسن  (رض)کی آہٹ پاکر چھپ گئے اور حضرت فاطمہ  سلام اللہ علیہا کے پو چھنے پر آج کی باہر کی باتیں سنا نے لگے ۔ تو بار بار زبان میں لکنت آجاتی ، فر مانے لگے کہ شاید والد صاحب میری با تیں سن رہے ہیں اس لیئے میری زبان میں لکنت آجا تی ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ ہنستے ہو ئے باہر نکل آئے اور ان کا منہ چوم لیا۔
یہ آپ نے عام طور پردیکھا ہو گا کہ اکثر اپنے سے زیادہ قابل لو گوں کے سامنے کچھ بیان کر تے ہو ئے زبان لڑ کھڑا جا تی ہے۔ لہذا اپنی خداداد صلا حیت سے انہیں اس کا ادراک ہو گیا۔
 ان جیسا ایک واقعہ حضرت فاطمہ سلام اللہ سے بھی ظہورر پذیر ہوا جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ حضرت فاطمہ بیمار تھیں اور ان سے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے پو چھا کہ کچھ کھانے کو جی چا ہ رہا؟ تو انہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ بتا یا کہ انار کو جی چاہ رہا ہے۔ حضرت علی نے کہیں سے ایک درہم ادھار لیا اور انار لے کر چلے تو راستے میں ایک شخص کرا ہتا ہوا مل گیا ،حضرت علی کرم اللہ وجہ گو کہ جلدی میں تھے، مگر یہ انسا نیت کے خلاف تھا کو ئی بیمار سڑک کے کنارے پڑا ہو اور وہ آگے بڑھ جا ئیں ۔ لہذا وہ اس کے قریب تشریف لے گئے ۔ اور اس نے وہی انار مانگ لیا، چونکہ سائل کے سوال کو ردکرنے کی ان کی عادت نہ تھی کہ وہ نبی (ص) کی سنت پر پو ری طرح عامل تھے لہذا وہ اسے دانہ ،دانہ کر کے کھلا تے رہے اور جیسے جیسے وہ دانے اس کے منہ پڑتے گئے وہ تندرست ہو تا گیا۔ ادھر یہ شر مندہ خالی ہاتھ گھر پہونچے تو کہاں یہ ان  کو بستر پر دراز چھوڑ گئے تھے، مگر اب وہ دروازے پرہشاش بشاش کھڑی تھیں اور فرمانے لگیں کہ مجھے اب انار کھانے کی خواہش ہی نہیں رہی اور پورا انار والا واقعہ انہوں نے بیان کر دیا۔ اتنے میں ایک صحابی (رض) نو انار لیکر آگئے ۔حضرت علی کرم اللہوجہ نے پو چھا کہ کہاں سے لا ئے ہو؟ تو انہوں (رض) نے فر مایا کہ حضور  (ص)نے بھیجے ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فر مایا کہ یہ میرے لیئے نہیں ہیں واپس لے جاؤ تمہیں کو ئی غلط فہمی ہو ئی ہے ۔ اگر میرے لیئے ہو تے تو دس ہو تے، اس لیئے کہ اللہ نے ایک کے بدلے کم ازکم دس کا وعدہ فر مایا ہے۔ انہوں نے ہنستے ہو ئے دسواں انار جو آستین میں چھپا رکھا تھا نکال کر پیش کر دیا کہ میں تو آپ کا امتحان لے رہا تھا۔
 یہ سب باتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حصول علم کا ذریعہ کچھ اور بھی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ حضرت عبد القادر جیلانی کا بھی مشہو ر ہے گو کہ وہ حسنی اور حسینی سید تھے۔ مگر پیدا جیلان میں ہو ئے تھے جو عرب کا نہیں عجم کا حصہ تھا ۔ لہذا بیان میں وہ فصاحت نہ تھی جو کہ اہل ِ عرب میں ہو تی ہے۔ جب وہ فا رغ التحصیل ہو گئے اور ان کے استاد نے اپنے ہی مدرسے میں ان کو منصب ِ ہدایت پر مقرر فر مادیا تو یہ بہت پریشان ہو ئے۔ اسی رات کو خواب میں دیکھا کہ حضور تشریف لا ئے اور اپنے سینے سے لگا کر چھوڑ دیا کہ جا ؤ اور اب بیان کرو، وہ خود اور لوگ حیران رہ گئے کہ اب وہ ایک عرب کی طرح فصیح عربی میں بیان فر ما رہے تھے۔ ان سب باتوں کو میرے بیان کر نے مقصد یہ ہے کہ یا تو کوئی یہ ثابت کرے کہ ان کا کوئی استاد تھا اگر نہیں تھا۔ تو پھر یہ علم کے دریا کس طرح رواں تھے ۔ ورنہ معجزات اور کرا مات کو وہ تسلیم کر لیں جو انہیں نہیں مانتے ہیں ۔ حضرت فا طمہ سلام اللہ کا ایک کار نامہ مصحف ِ فاطمہ کے نام سے بھی ہے جس کاذکر ملتا ہے ۔ مگر مجھ کو دیکھنے کا شرف حا صل نہیں ہو سکا ۔ سنا ہے اس میں بھی بہت سے آنے واقعات وغیرہ ہیں ، جو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے لکھوائے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ان کی علالت کے دوران تحریر فر ما ئے جبکہ وہ شدید علیل تھیں ۔ مگر مور خین نے لکھا ہے کہ اس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں قر آن کا کو ئی ایک لفظ بھی استعمال نہیں ہو ا ۔ چونکہ یہ میں نے پڑھا ہی نہیں ہے لہذا میں اس پر کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔

ہیں۔٢٥ذیعقد ہ  ١٠  ھ کو حضور  (ص)نے حج پر جانے کا اعلان فر مایا اور صحابہ کرام (رض)  کو دعوت ِ عام دی کہ جو ہمراہ جانا چا ہے وہ چلے ۔ دراصل یہ پہلا حج تھا جو کہ حضور  (ص)کی قیادت میں عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو رہا تھا۔ حالانکہ مکہ ٨ ہجری میں فتح ہو چکا تھا مگر ابھی تک کفار کو اجازت تھی کہ وہ حرم میں داخل ہو سکتے تھے اور اپنے طریقہ سے حج بھی کر سکتے تھے۔ جبکہ گزشتہ سال یعنی ٩ ہجری کو حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ذریعہ کفار کوتنبیہ کر دی گئی کہ وہ آئندہ سال حج نہیں کر سکیں گے اور حدود ِ حرم میں داخل بھی نہیں ہو سکیں گے یاتووہ چار مہینے کے اندر مسلمان ہو جا ئیں یا حدودِ حرم سے نکل جا ئیں۔ اس سال ہا دی ِ برحق (ص) نے خود تشریف لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ منا سک حج میں کو ئی ابہام با قی نہ رہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو یمن کے لوگوں کے تخسیر ِ قلوب کے لیئے چونکہ حضور (ص)نے یمن بھیجا ہوا تھا، لہذا ان کو قاصد بھیج کر شامل ہو نے کے لیئے حکم ہوا۔ اور وہ وہا ں اپنا قائم مقام مقرر کر کے مکہ معظمہ روانہ ہو گئے، مگر وہ مکہ معظمہ میں اس وقت پہو نچے جبکہ حضور (ص) پہو نچ کر عمرہ بھی کر چکے تھے ۔
 ویسے تو ہمیشہ ہو تا یہ تھا کہ جس کا نام قرعہ اندازی کے ذریعہ نکل آتا امہات المو نین (رض) میں سے وہ ساتھ ہو تیں اس مر تبہ حضور نے تمام امہات المو نین کو ہمراہ لیا اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اور ان کے دونوں صا حبزادوں اور صا حبزادی کو بھی ہمراہ لیا ان تمام خواتین کے لیئے خصوصی ہودج کسے گئے تاکہ لو گ دور سے پہچان سکیں کہ یہ حضور (ص) کے اہل ِ بیت ہیں ۔ مدینہ منورہ سے چل کر الحلیقہ میں اپنی سنت کے مطابق حضور قیام پزیر ہو گئے ۔ دوسرے دن صبح کو مکہ معظمہ روانہ ہو ئے ۔ چونکہ اس سے پہلے جو طریقہ را ئج تھا حضور (ص) نے اسی حساب سے حج شروع فر مایا یعنی قر بانی کے جانور ساتھ لیئے ،غسل فر مایا احرام باندھا اور روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد وحی کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔لہذا اس پر بڑا اختلاف ہے کہ حضور (ص) نے کونسا حج فرمایا یعنی تمتع ، مفرد یا قرن ؟ حج کے لیئے ابتدائی روانگی کی احادیث جو بیان ہو ئی ہیں اس کی راوی حضرت عائشہ صدیقہ  (رض)ہیں ۔ جوکہ مو طا، سنن، ماجہ اور بخاری میں بیان ہو ئی ہیں اس میں ابتدائی حصہ موجود ہے آگے اتنی جامع نہیں ہے ۔ جبکہ دوسری حدیث جو بہت جامع ہے اس میں ابتدائی حصہ نہیں ہے وہ حضرت جابر (رض) سے روایت ہو ئی لہذا ہم ابتدا تو حضرت عائشہ (رض) سے کر تے ہیں اور آگے حضرت جابر (رض) کی روایت سے فا ئدہ اٹھا ئیں گے تاکہ کو ئی چیز باقی نہ رہ جا ئے ۔حضرت عائشہ (رض)  فر ماتی ہیں کہ “٢٥ذیعقدہ کو حضور (ص) نے حضرت ابو دجانہ یا حضرت سبا ع بن عرطفہ انصاری (رض) کو مدینہ پر حاکم بنا یا (غسل) اور کنگھی کر ی، سر میں تیل لگایا ، چادر اور تہبند استعمال کرنے کے بعد (ایک چادر بطور تہبند اور دوسرے چادر بطور احرام باندھنے کے بعد )مدینے سے اونٹ پر سوار ہو کرروانہ ہو ئے ۔ سوائے زردرنگ کے احرام کے استعمال کر نے کے اور کسی بات سے منع نہیں فرمایا ۔ چونکہ وہ زعفران سے رنگے جاتے تھے اور رنگ چھوٹنے کی وجہ سے پہنے والا پیلا نظر آتا تھا ( شاید یہ وجہ بھی ہو کہ اس رنگ میں عیسا ئیت اور دوسرے کئی مذاہب سے مما ثلت تھی پائی جاتی تھی۔ واللہ عالم۔ مولف) جبکہ روانہ ہو نے سے پہلے چا رکعات ظہر کی نماز پڑھا ئی ۔ پھر وادیِ عتیق میں واقع مسجد ذو الحلیقہ میں قیام فرمایا۔ جو کہ مدینے سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں پہونچ کر عصر کی نماز دو رکعت ادا فر ما ئی ( اس سے یہ ثابت ہوا کہ منزل کی طرف کچھ بھی فا صلہ طے کیا ہو مگرسفر کی نیت سے شہر چھوڑ دیا تو قصر واجب ہو گئی ۔مولف) پھر فجر نماز ادا فر ماکر اس وادی کی طرف روانہ ہو ئے جس کو ویرانہ کہا جاتا ہے “
   دوسرے مورخین نے اس میں یہ اور اضافہ کیا ہے کہ دوران سفر اپنی سنت کے مطابق حضور  (ص)روانہ ہو نے سے پہلے اور مقیم ہونے کے بعد روازانہ حضرت فا طمہ (س) سے ملا قات فرماتے چونکہ وہ نواسوں کے بغیر نہیںرہ سکتے تھے نہ نواسے نانا  (س)کے بغیر رہ سکتے تھے لہذا وہ دوران قیام آس پاس ہی رہتے اور کبھی کبھی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے نانا کو وضو کے لیئے پانی پیش فرماتے۔
اب اس سے آگے ہم وہ جامع حدیث پیش کر رہے ہیں جس میں پوری تفصیل ہے ۔ جس کو امام احمد (رح) بن حنبل نے مسند احمد میں نقل فر مایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید نے اور ان سے جعفر بن محمد سے اور ان کو معلوم ہوا اپنے والد حضرت جابر بن (رض) عبد اللہ سے کہ انہوں نے فرمایا کہ “ میرے والد بنو سلمہ کے یہاں مقیم تھے تو میں نے ان کی خدمت میں حا ضر ہو کر سوال کیا کہ حضور (ص) نے حج کیسے فرمایا ؟ تو انہوں نے فرما یا ک حضور (ص) نو سال مدینے میں رہے مگر انہوں نے حج نہیں فرمایا پھر دسویں سال اعلان ہوا کہ حضور (ص) حج پر تشریف لے جا رہے ہیں لہذا بہت سے لوگ ہمراہ جانے کے لیئے آگئے ،اس لیئے کہ ہر ایک ہی حضور  (ص)کی اقتدا میں حج کر نا چا ہتا تھا۔ پس ٢٥ذیقعدہ کو مدینہ سے روانہ ہو کر ذوالحلیقہ میں قیام فر مایا، جب وہاں پہونچے تو حضرت اسماءبنت عمیس نے  محمدبن ابو بکر (رض) کو جنم دیا۔ انہوں نے رسول اللہ کو پیغام بھیجا کہ اب میں کیا کروں؟ حضور (ص) نے فر مایا کہ کس کر لنگوٹ باندھ لو اور ہمراہ رہو ( اس سے یہ بات ثابت ہو ئی کہ نفاس کی حالت میں بھی عورت حج کر سکتی ہے جبکہ کفار کے ہاں حیض اور نفاس میں اجازت نہ تھی کیونکہ وہ تو انہیں اس حالت میں ایک طرف ڈالدیتے تھے ۔مولف) پھر رسول اللہ (ص) چل پڑے اور بلند آواز سے تکبیر کہی لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمتہ لک والملک لا شریک لک۔اور ہم لوگوں نے بھی تلبیہ کہی لوگ ذو المعارج اور دوسرے قسم کا کلام پڑھ رہے تھے جس پر حضور  (ص)نے اعتراض نہیں فر مایا۔ میں نے حد نظر تک حضور (ص) کے دا ئیں با ئیں اور آگے پیچھے سوار اور پیادے دیکھے۔ آگے فرماتے ہیں حضور (ص) ہمارے درمیان تھے اور ان پر وحی نازل ہو رہی تھی لہذا جو آپ نے کیا اسی پر ہم نے عمل کیا۔ چونکہ ہم حج کی نیت سے نکلے تھے۔ جب ہم کعبہ میں داخل ہو ئے تو رسول اللہ (ص) نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔پھر آپ (ص) نے تین چکر کعبہ کے تیزی کے ساتھ اور اس کے بعد بقیہ چار چکر آہستہ لگا ئے جب آپ طواف سے فا رغ ہو گئے تو مقام ِ ابرا ہیم (ع) کی طرف تشریف لے گئے اور وہا ں دورکعات نوافل کھڑے ہوکرپڑھے، جس میں سورہ قل یا ایہالکافرون اور سورہ اخلا ص پڑھی پھر ۔وتخذو مقام ِ ابرا ہیم مصلیٰ ۔۔۔آخر تک تلاوت فر مائی پھر حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور صفا اور مروہ کی طرف تشریف لے گئے۔ وہاں ان صفا والمروة من شائر اللہ کی تلاوت فرما ئی ۔ پھر فرمایا کہ جس طرح اللہ نے آغاز (آغاز کرنے کا حکم دیا ) کیا ہم بھی کر تے ہیں ،پس آپ (ص) صفا پر چڑھ گئے جب آپ (ص) نے بیت اللہ کی طرف دیکھا تو تکبیر کہی۔ پھر لا الہ الا للہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک و لہ ملک و لہ الحمد و ھواعلیٰ کل شی قدیر، لا اللہ الہ اللہ واحد ہ انجیتر وصدق واحدہ وھزم، او غلب الا حزاب واحدہ۔ پھر آپ نے دعا فر ما ئی اس کے بعد یہ پڑھتے ہوئے اترنا شروع کیا حتیٰ کہ آپ کے پیر زمین پر آکرلگ گئے ۔ تو آپ دوڑ نے لگے اور جب چھڑا ئی شروع ہو توآہستہ روی اختیا فر ما ئی۔ پھر کعبہ کی طرف دیکھ کر وہی فر مایا جو پہلے فر مایا تھا جب مروہ کے پاس پہونچ کر سات چکر پو رے ہو گئے تو فر مانے لگے کہ میں پیٹھ پھیرتا اور اپنے ساتھ قر بانی کے جانور نہ لا تااور اسے عمرہ بناتا۔ لہذا جو قر بانی کے جانور ساتھ نہیں لا ئے ہیں وہ حلال ہو جا ئیں اور اس کو عمرہ بنا لیں ۔ حضرت سراقہ (رض) بن مالک نے جو نشیب میں تھے آواز لگا کر پو چھا کہ حضور (ص) یہ حکم اسی سال کے لیئے ہے یا ہمیشہ کے لیئے ۔ حضور  (ص)نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست فرما کر کے فر ما یا کہ حج میں عمرہ قیامت کے لیئے شامل ہو گیا۔
نہ جانے کیوں اس مثالی جو ڑے  (رض)کے بارے میں کچھ مورخ کو ئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ جیسے کہ ہم نے بو تراب کے لقب پر جو یہ روایت مشہو ر ہے کہ وہ حضرت فاطمہ (س) سے نا راض ہو کر مسجد میں جا کر سو گئے تھے ،کو اپنی کتاب “روشنی حرا سے “میں غلط ثابت کیا ہے اور بتا یا ہے کہ یہ واقعہ ایک غزوے کے دوران پیش آیا تھا جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہ اورحضرت زبیر (رض) ریت میں لت پت سورہے تھے دونوں حضور (ص) کی آہٹ پاکر اٹھے تو حضور   (ص)نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا منہ جھاڑ تے ہو ئے فرما یا کہ“اٹھ ابو تراب “یہاں بھی مورخین نے لکھا ہے کہ چونکہ قر بانی کے جانور کم پڑ گئے تھے لہذا حضرت فاطمہ(س) کے نام کا کو ئی جانور نہ تھا لہذا حضور (ص) نے فرمایا کہ تم حلال ہو جاؤاور وہ حلال ہو گئیں اور جب ان کو حضرت علی  (رض)نے احرام سے با ہر دیکھا تو نا راضگی کا اظہار فر مایا اور ان سے پو چھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو انہوں نے فرما یا کہ میرے والد ِ(ص) محترم نے مجھے حکم دیا تھا۔جبکہ آپ آگے پڑھیں گے کہ تو دیکھیں گے کہ حضور (ص) کے ساتھ ساٹھ یا تریسٹھ قربانی کے جانور تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ساتھ چا لیس یا سینتیس قر بانی کے جانور تھے۔ لہذا یہ کم پڑ نے والی بات جو ہے وہ سمجھ سے باہر ہے ۔ اگریہ مان لیا جا ئے کہ حضرت علی (رض) دیر سے پہو نچے تھے تو بھی سا ٹھ جانور تو خود حضور (ص) کے ساتھ تھے ۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حدیبہ طرح اونٹوں کی مجمو عی تعداد تھی، اور اگر یہ کہا جا ئے تو وہ بھی اس لیئے غلط ثابت ہو جا تا ہے کہ اس مرتبہ تو حضور (ص) کے ہمراہ چالیس ہزار سے زیادہ حجاج تھے۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ یہ ساٹھ جانور حضور (ص) اور اہل ِ بیت کے لیئے تھے ۔ جب یہ اور کسی کے لیئے کم نہیں پڑے ۔تو سب سے چہتی بیٹی  (س)اور ان کے بچوں کے لیئے کیسے کم پڑسکتے تھے۔ پھراس کے آگے آپ پڑھیں گے حضرت علی کرم اللہ وجہ پہونچے تو حضور  (ص)نے ان سے پو چھا کہ تم نے نیت کیا کی تھی؟ تو ان کا جواب تھا کہ میں نے نیت یہ کی تھی کہ جو تیرے رسول (ص) نے نیت کی ہے وہ میری نیت ہے ۔ لہذا یہ ہی تمام صحابہ کرام (رض) نے بھی کیا ہوگا اور حضرت فا طمہ سلام اللہ علیہا نے بھی ۔اس صورت میں یہ پو ری کہانی کم ازکم میرے جیسے کم فہم کے لیئے قابل ِ قبول نہیں ہے۔ اس وضا حت کے بعد ہم پھر وہیں پر واپس آتے ہیں جہاں سے گزشتہ مر تبہ ہم نے چھوڑا تھا اور ہم وہ روایت بیان کر رہے جو کہ انتہا ئی مفصل اور منا سک ِ حج کے بارے میں حضرت جا بر سے مروی ہے۔
اس کے بعد روایت آگے بڑھتی ہے۔ ً ٨ ذوالحجہ تک حضور (ص) مکہ معظمہ میں تشریف فر ما رہے اور حضور  (ص)اور وہ تمام صحابہ کرام جن کے ساتھ قر بانی کے جانور تھے بدستور احرام میں رہے۔ جب یوم ِ تر ویہ آیا( آٹھ ذو الحجہ) تو اس کی شام کو حضور (ص)سب کے ساتھ حج کی تکبیر کہتے ہو ئے روانہ ہو ئے ،جبکہ وہ اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار تھے۔ اس کے بعد حضور (ص) منیٰ پہونچے وہاں مغرب عشا اورفجر کی نمازیں ادا فر ما ئیں پھر تھوڑی دیر ٹھہرے ۔ یہاں تک کہ سورج طلو ع ہو گیا۔تب عرفہ کی طرف روانہ ہو ئے اور آپ نے اپنا بالوں والا خیمہ نمرہ میں لگانے کا حکم دیا۔ جبکہ قریش پہلے مشعر الحرام تک جا تے تھے۔مگر رسول اللہ  (ص)وہاں سے گزر کر عرفہ میں قیام پزیر ہو ئے ۔ جب سورج ڈھل گیا تو پھرقصویٰ کو طلب فر مایا اور وادی کے نشیب میں لو گوں سے خطاب فر مایا۔ (اس خطاب کو خطبہ وداع کہا جا تا ہے) “تمہارے خون تمہارے اموال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے کہ آج کا دن یہ مہینہ اور شہر حرام ہے مطلع رہو کہ جاہلیت کے خون میرے پیر کے نیچے رکھے ہو ئے ہیں اور میں اپنے خونوں میں سے پہلا خون ابن ِ ربیع بن حارث کا خون ساقط کر تا ہوں جو بنی ساعدہ میں دایہ کو تلاش کر رہا تھا اور اس کو ہذیل نے قتل کر دیا تھا۔ اور جہا لت کا سود بھی ساقط ہے ہمارے خاندان کے سو دوں میں سب سے پہلا سود عباس بن عبد المطلب کا سود ہے جو میں ساقط کر تا ہوں اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، تم نے انہیں اللہ کی ذمہ داری پر حا صل کیا ہے۔ اور کلام الٰہی سے ان کی شر مگا ہوں کو اپنایا ہے اور تمہارا ان پر حق ہے کہ جو چیز تم پسند کر تے ہویعنی تمہارا بستر کو ئی اور نہ پامال کرے ؟ پس اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی ضرب لگا ؤ جو سخت اور تکلیف دہ نہ ہواور ان کا تم پر حق یہ ہے کہ تم رواج کے مطابق ان کے لباس اورنان و نفقہ کا خیال رکھو اور میں تم میں اللہ کی کتاب چھوڑ کر جا رہا ہو ں تم جب تک اس پر کا ربند رہو گے گمراہ نہیں ہو گے اور تم سے میرے بارے میں دریافت کیا جا ئے گا تو تم کیا کہو گے؟ لو گوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ابلاغ کا حق ادا کر دیا۔ اور خیر خواہی کردی۔ تب حضور (ص) نے انگشت ِ شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر اس سے لوگوں کی طرف تین مرتبہ اشارہ فر ما کر، فر مایا اللہ تو گواہ رہنا۔ پھر اذان کہی پھر اقامت اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کی اس کے بعد پھر اقامت کہی گئی اور عصر کی نماز ادا کی اور ان دونوں نمازو ں کے در میا ن اور کچھ نہ تھا ،پھر رسول اللہ سوار ہو ئے۔موقف میں تشریف لے آئے۔ قصویٰ کا پیٹ زمین سے لگنے لگا۔(غالبًا پہاڑی کی نا ہموا ر زمین کی وجہ سے)پھر آپ نے جبل مشاة کو سامنے رکھااور قبلہ رو، رہے ، اور یہاں تک اقامت پذیر رہے ،حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا اور کچھ زردی بھی جا تی رہی پھر سورج کی ٹکیہ بھی جاتی رہی تب آپ نے اسامہ بن زید  (رض)کو پیچھے بٹھا لیا ۔اور قصویٰ کی مہارکو یہاں تک کھینچا کہ اس کا سرآپ کے پیرو سے ٹکرانے لگا۔ آپ اپنے داہنے حصہ والوں سے فرما نے لگے کہ “سکوت اختیار کرو “  جب کبھی آپ چڑھائی پر آتے تو اس کی مہار ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ آسانی سے چڑھائی چڑھ جا ئے ۔ حتیٰ کے آپ مذلفہ پہونچ گئے وہاں بھی ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب اور عشا کی نما زیں ادا فر ما ئیں ان دونوں کے در میان کو ئی تسبیح نہ تھی پھر رسول اللہ محوِ استرا حت ہو گئے حتیٰ کہ فجر ظاہر ہو گئی پھر آپ نے ایک اذان اور ایک اقامت سے فجر کی نماز ادا فر مائی پھر آپ قصویٰ پر سوار ہو ئے اور مشعر حرام کی طرف تشریف لے گئے اور قبلہ رخ ہو کر خدا کی حمد سنا اور تکبیر کہی اور تسبیح کی اور تو حید بیان فر مائی۔ یہاں تک کہ دن بہت روشن ہو گیا۔تب آپ  نے فضیل (رض) بن عباس کو پیچھے بٹھایا اور روانہ ہو گئے اورجب وادیِ محسر (جہاں اصحابِ فیل پر عذاب نازل ہوا تھا) آئی تو تیزچلنے لگے۔ پھر اس درمیانی را ستہ پر چل پڑے جو جمرہ کبرا ( بڑے شیطان) کی طرف جا تا ہے ،یہاں آپ اس جمرہ کے پاس تشریف لائے جو درخت کے پاس ہے اور اس کو آپ نے سات کنکر یاں مارنے کے لیئے وادی کے نشیب طرف پھینکیں اور ہر مرتبہ تکبیر کہی۔پھر قر بان گاہ میں تشریف لا ئے اور تریسٹھ جانور اپنے دست ِ مبارک سے قر بان فرما ئے جبکہ بقیہ جانور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے قر بان فر ما ئے۔ پھر ہر جانور سے ایک ایک ٹکڑا حضرت علی (رض) کو لانے کا حکم دیا (جن کی تعداد ایک سو تھی ) پھر ان کو ایک ہانڈی ڈال کر پکا یا اور بعد میں دونوں نے مل کر کھا یا اور شوربا پیا  “میرے خیال میں یہاں یہ دہرانے ضرورت نہیں ہے کہ حضور (ص) کے اہلِ خانہ اور حضرت فا طمہ سلام اللہ علیہا اور ان کے بچے بھی اس ضیافت میں ضرور شامل ہو ئے ہو نگے
اس کے بعد طواف ِ زیارہ کے لیئے حضور مع اپنے سا تھیوں کے حرم شریف تشریف لے گئے ۔ ( نوٹ۔اُن میں بھی یقینی طور پر حضرت سیدہ سلام اللہ علیہااور ان کے بچے اور شوہر (رض) ساتھ ہو نگے مگر مورخین ان کا ذکر کر نا شایدبھول گئے) آگے راوی بیان فر ماتے ہیں وہاں جا کر ظہر کی نما ز پڑھی اور زمزم پر تشریف لے گئے بنی مطلب کے پاس جو وہاں پانی پلا رہے تھے ۔ حضو ر (ص)نے جاکر فر مایا اے !بنی مطلب پانی کا ڈول نکالو، اگر تمہا رے حو ض پر غالب آنے کا ڈر نہ ہو تا تو میں بھی تمہا رے ساتھ ڈول نکالتا۔انہوں نے پانی کا ڈول حضور (ص) کی خد مت میں بھر کرپیش کیا۔ آپ نے پا نی پیا ۔جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضور  (ص)نے خود کو پہلے عمرے کے بعدحلال نہیں کیا تھا کیونکہ قر بانی کے جانور آپ کے ساتھ تھے اور ان سب کو منع فرمایا دیا تھا جو قر بانی کے جانور اپنے ساتھ لا ئے تھے۔ لہذا بعض مورخین میں اس پر اختلاف ہے کہ حضور (ص) نے اس مرتبہ طواف زیارہ کے مو قعہ پر سعی کی یا نہیں کی کچھ کا کہنا یہ ہے کہ حضور (ص) نے اس مرتبہ صرف طواف فر مایا لیکن سعی نہیں فر مائی؟ مگر حضرت امام ابو حنیفہ (رح) کے نزدیک دونوں مو قعوں پر سعی کر نا چا ہیئے۔واللہ عالم۔
لہذا سب مسا لک کے لو گوں کو اپنے اپنے طریقہ پر عمل کرنا چا ہیئے کیونکہ ہم کو ئی را ئے دینے کے قابل نہیں ہیں۔ اس کے بعد پھر اس مسئلہ پر بھی نزع ہے کہ حضور  (ص)نے ظہر کی نماز کے بعد طواف فر مایا، یا عشا کی نماز کے بعد ۔ ہماری را ئے ہے کہ حضور (ص) نے دونوں دفعہ طواف فر مایا، لہذا دونوں اپنی جگہ درست ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ پہلے حضور  (ص)نے طواف ِ زیارہ فرمایا اور پھر طواف ِ ودا ع، کیو نکہ ان کا منی ٰ سے واپس آنے کا ارادہ نہیں تھا اور تا ریخ شاہد ہے کہ وہ دوبا رہ منیٰ سے واپس تشریف نہیں لا ئے بلکہ منا سک حج سے فا رغ ہو کر وہیں نشیب میں آکر مقیم ہو گئے تھے۔اور حضرت عا ئشہ (رض) اپنی نسوانی رخصت کی بنا پر عمرہ نہیں کر سکیں تھیں لہذا ان کو ان کے بھا ئی حضرت عبد الرحمٰن  بن ابو بکر (رض) کے ہمراہ عمرے کے لیئے روانہ فر ما دیا اور خود  (ص)انتظار فر ما نے لگے ۔ بہر حال مکہ معظمہ سے حضور (ص) طواف سے فا رغ ہو کر منیٰ تشریف لے آئے۔ اوردوسرے دن دوسرا خطبہ دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے لوگ عرفات سے اس وقت تک چلے آئے تھے ۔ جب حضور  (ص)نے وہاں پہلا خطبہ دیا۔لہذا انہوں نے یہاں تشریف لا کر دو سرا خطبہ دیا جس کو ہم پیش کرنے جا رہے ہیں ۔
 اس سے آپ پر واضح ہو جا ئے گا کہ در اصل یہ دو خطبے ہیں کیونکہ اس میں بھی کچھ تو وہی با تیں ہیں جو عر فات میں حضور  (ص)نے ارشاد فر ما ئیں تھیں اور کچھ ایسی ہیں جو پہلے والے میں نہیں تھیں ۔جس کو ابن ِ (رح) دا ودنے بیان کیا ہے کہ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ علی (رض) بن زید نے ہم سے بیان کیا اور ان سے ابو حمزہ (رض) نے بیان کیا وہ ایام تشریق میں حضور  (ص)کے نا قے کی مہا ر پکڑے ہو ئے تھے اور لوگوں کو سامنے سے ہٹا رہے تھے ۔ جب ایام تشریق کے درمیان حضور  (ص)نے خطبہ دیا آپ نے فر مایا۔
   ًاے لوگو! تمہیں معلوم ہے تم کس ما ہ کس دن اور کس شہر میں ہو؟انہوں نے کہا حرمت والے شہر اور دن میں ہیں ۔آپ نے فرما یا بیشک تمہا رے خون تمہا رے مال اسی طرح تم پر حرام ہیں جیسی کہ اس دن اس ماہ اوراس شہر کی حرمت تمہا رے لیئے ہے۔یہاں تک کہ تم اللہ سے جا ملو۔ پھر فر مایا تم زندہ رہوگے (میرے بعد) آگا ہ ہو کہ ظلم نہ کر نا ١ ظلم نہ کر نا ! ظلم نہ کر نا! کسی مسلمان کا مال اس کی رضا کے بغیر حلال نہیں ہے۔ جاہلیت کا ہر خون میرے دونوں پا ؤں کے نیچے ہے۔اور میں حارث بن ربیع بن مطلب کا خون معاف کر تا ہوں جس کو عدیل نے قتل کر دیا تھا جب وہ بنی سعد میں دا یہ کی تلاش میں تھا۔ اور آگاہ رہو کہ جاہلیت کا ہر سود معاف کر دیا گیا ہے اور اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ سب سے پہلے عباس (رض) بن مطلب کا سود سا قط کر دے۔تمہارے لیئے تمہارے راس المال (اصل مال بغیر سود کے) ہیں۔ اس کے بعد فرما یا اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد کتاب ِ الٰہی میں بارہ ہے جس وقت سے اس نے زمین اور آسمان کو تخلیق فرمایا تھا ان میں سے چا ر مہینے حر مت والے ہیں ۔یہ قائم رہنے والا دین ہے ۔ تم ان مہینوں میں آپس میں ظلم نہیں کر نا۔ اور بعد میں پلٹ کر پھر کافر نہ بن جانا(کیونکہ ) ایک وقت آئے گا کہ تم ایک دوسرے کو قتل کر و گے اور یہ بھی واضح ہو کہ شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی اس کی پر ستش کر یں گے (کیونکہ نماز برا ئیوں اور فواحشات سے روکتی ہے) لیکن وہ تمہیں ایک دوسرے کے خلاف اکسا ئے گا۔اور خواتین کے بارے میں اللہ سے ڈرو!وہ تمہارے پاس مثل قیدی کے ہیں ۔وہ اپنے بارے میں کچھ اختیار نہیں رکھتی ہیں۔لہذا بے شک ان کا تمہارے اوپر حق ہے اور تمہارا ان کے اوپر حق ہے کہ تمہارا بستر کوئی اور استعمال نہ کر ے۔ اور جنہیں تم نا پسند کرتے ہو انہیں تمہارے گھر نہ آنے دیں اگر تم خیانت کرتے پا ؤ تو (پہلے) انہیں نصیحت کرو۔ پھر بھی نہ مانیں تو ایسی ضرب لگا ؤ جو شدید نہ ہو ،لیکن طریقہ معروف کے مطابق ان کی خوراک تمہا رے ذمہ ہے اور ان کو تم نے اللہ کے عطا کردہ قانون کے تحت حاصل کیا ہے۔اور اللہ کے حکم سے ان کی فروج کو حلال کیا ہے۔ اور آگاہ ہو کہ جس کے پاس کوئی اما نت ہو وہ (خوشی خوشی) ادا کر ے جس نے اس پر امین بنا یا ہے۔ اور اپنے ہا تھ پھیلا کر فر مایا کہ میں نے پیغام پہو نچا دیا ہے کیا ! میں نے پیغام پہو نچا دیاہے! کیا میں نے پیغام پہو نچا دیا ہے! پھر فر مایا حا ضر آدمی غائب کو پہو نچا دے۔ بے شک جن تک بات پہو نچا ئی جا تی ہے ان میں سے بہت سے لوگ بات کہنے والے سے زیادہ یا د رکھنے والے ہو تے ہیں ۔
ابھی وہ وہیں مقیم تھے کہ حا فظ ابو بکر (رح) بن البزاز نے یہ اضافہ فر مایا ہے کہ وہیں سورہ نصر نازل ہو ئی اور حضور (ص) نے ایک با ر پھر ناقہ طلب فر مایا اور اس کو حج الوداع بنا دیا اور لوگوں کے در میان عقبہ میں کھڑے ہو ئے اور ار د گرد اتنے لوگ جمع ہو گئے جتنے لو گ اللہ نے چاہے۔ اس کے آگے خطبہ وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔البتہ اس میں جو اضافہ ہے وہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں ۔ “حرمت والے مہینے چار ہیں رجب منفرد ہے۔جو جماد الثانی کے بعد اور شب ِ برات سے پہلے ہے ۔ذو القعدہ ، ذوالحجہ اور محرم ایک دوسرے سے جڑے ہو ئے ہیں۔ اور تم کفار کی طرح ان میں الٹ پلٹ مت کرنا ۔ اور شیطان اپنی عبادت سے قیامت تک کے لیئے نا اُمید ہو گیا ۔ مگر وہ تمہا رے گنا ہ صغیرہ سے خوش ہو تا ہے لہذا گنا ہِ صغیرہ سے بچنا۔پس تم دین کے کاموں میں اس چھوٹے چھوٹے کاموں میں محتاط رہنا۔ اور میں تمہارے بیچ میں کتاب اللہ چھوڑے جا رہا ہوں اس پر عمل کر نااسے تھامے رہو گے تو گمراہ نہیں ہو گے۔نہ میرے بعد کوئی نبی نہ تمہارے بعد کو ئی امت ہے۔ اور اس کے بعد آپ نے تین مرتبہ ہا تھ پھیلا ئے اور فر مایا اللہ تو گواہ رہنا “ اس کے بعد حضور منیٰ سے نشیب میں آکر مقیم ہو گئے ۔ جس کی وجہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ حضرت فا طمہ سلام اللہ نے یہ موقعہ مناسب سمجھا اور اپنی والدہ محترمہ کے مزار ِمبا رک پر تشریف لے جانے کا فیصلہ فر ما یا ! حضرت علی کرم اللہ وجہ سے در خواست فر مائی کہ وہ انہیں وہاں ان  (رض)کے مزار پر چھوڑ کر واپس آجا ئیں۔ لیکن بعض مورخین کے نزدیک اس پر بھی اختلاف ہے کہ وہ پہلے عمرے کے بعد تشریف لے گئیں یا حج کی ادا ئیگی کے بعد کیونکہ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ وہ مکہ کے قیام کے دوران چا ر دن مسلسل تشریف لے جا تی رہیں ۔ مگر میری نا قص را ئے یہ ہے کہ حج سے فا رغ ہو نے کے بعد مزار پر تشریف لے جانا زیادہ قرین قیا س  ہےجو کہ ان کے مقام اور “تقوی“ کا تقاضہ تھا۔ کیونکہ جب تک کوئی حج نہ کر لے دنیا داروں کی بات تو دوسری ہے، اسے نہ بازار دکھا ئی دیتا ہے۔ نہ کچھ اور صرف اللہ اوراور اس کا جلوہ دکھا ئی دیتا ہے اور جیسے ہی وہ حج سے فا رغ ہو تا ہے پھر سب کچھ یاد آنے لگتا ہے ۔دوسرے اس میں جو انکشاف ہے اس میں ان کی اپنی وفات کا بھی ذکر جس پر حضور (ص) بھی بعد میں مطلع ہوئے اور ان کو بعد میں اپنے وصال سے کچھ پہلے مطلع فر مایاگیا۔ بہر حال وہ  حج کے بعد یا پہلے اپنی والدہ محترمہ (رض) کے مزار پر تشریف لے گئیں اور انہیں بچپن سے لیکر ان کے وصال تک وا قعات تصورات میں نظر آتے رہے اور جب وہ حد سے زیادہ جذبات میں کھو گئیں تو انہوں نے مزار مبا رک کو دو نو ں ہا تھوں سے دبو چ لیا ۔ پھر انہیں ایسا محسوس ہو ا کہ مزار ِ مبارک شق ہو گیا ہو،ا ور والدہ محترمہ کے دونوں دست ِ مبارک باہر آکر وا ہوگئے ہوں اور انہوں نے انہیں پیا ر کیا تسلی دی اور جلد ی ہی ملنے کی خوش خبری بھی سنائی اس کے بعد ان کے آنسو خشک ہو گئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ہمرا ہ وہ وا پس تشریف لے آئیں
یہاں ایک حدیث حضرت انس  (رض)بن مالک سے امام بخاری نے روایت کی ہے کہ ان سے پو چھا گیا کہ ایسی کوئی بات بتا ئیے جو حج کے بارے میں آپ بیان فر مانا بھو ل گئے ہوں ۔ تو انہوں نے فر ما یا کہ ترویہ کے آخری دن حضور  (ص)نے نماز ظہر منی ٰ میں ادا فر مائی اور اس کے بعد وہاں سے روانہ ہوکر نالہ محصب کی بلندی پر قیام پذیر ہو گئے۔ مگر اس سلسلہ میں مسلم نے حضرت علی (رض) بن حسین کے حوالے سے بیان فر مایا ہے کہ انہیں حضرت زید بن اسامہ (رض) نے بتلایا کہ انہوں نے حضور )ص) سے پوچھا کل آپ کہاں قیام فر ما ئیں گے؟ تو انہوں نے فر مایا کہ ابو سفیان نے ہمارے لیئے کو ئی جگہ چھوڑی ہے جہاں قیام کر یں ، ہم بنو کنانہ کی اس اونچی جگہ پر قیام کر یں گے جہاں کفار نے کفر پر قائم رہنے کی قسم کھا ئی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے دین پر قائم رہیں گے جن کو اللہ نے ذلیل و خوار کیا اور اپنے نبی (ص) کے دین کو سر خرو فرما یا  (یہ اس عہد کی طرف اشا رہ ہے کہ اس مقام پر بنی کنانہ نے قریش کو قسم دی تھی کہ نہ تو وہ اپنا دین تبدیل کریں گے اورنہ  ہی وہ بنی ہا شم سے نکاح کر یں گے نہ خرید و فروخت کریں گے نہ انہیں پناہ دیں گے، حتی ٰ کہ وہ حضور (ص) کو ان کے حوالے کر دیں۔ اس جگہ پر حضور (ص) کے  قیام کے بعد سے ٹھہر نا خلفائے را شدین کی سنت رہا کہ وہ بھی وہاں حج سے فا رغ ہو کر قیام پزیر ہو تے تھے۔ نیز انہوں نے یہ فرمایا کہ حضور (ص) نے یہ اعلان بھی وہیں پرفر ما یا تھا کہ “ آج کے بعد نہ مسلمان کا فر کا وارث ہو گا نہ کا فر مسلمان کا “ واضح رہے کہ حضور (ص) کے اور اور بنو ابی طالب کے مکانوں پر تو ابو لہب نے اسوقت قبضہ کر لیا تھا جب یہ لو گ شعب ابوطالب میں تھے اور حضرت خدیجہ  کا مکان جو کہ مکہ کے سب سے مہنگے علا قے میں واقع تھا اس پر ابو سفیان نے قبضہ کر لیا تھا ۔ بقیہ لو گ جیسے جیسے ہجرت کر تے گئے ان کے مکانوں پر کفار قابض ہو تے گئے اور جب مکہ فتح ہوا تو صحابہ کرام (ص) نے چا ہا کہ ان کے آبا ئی مکان واپس دلا ئے جا ئیں تو حضور (ص) نے فر ما یا کہ ًکیا تم نہیں چا ہتے ہو کہ جنت میں تم کو اس کے بدلے میں اس سے بہتر مکان عطا کیا جا ئے “ سب نے کہاکے ہم اپنے مکانات پر جنت کے مکانوں کو تر جیح دیتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ حضور  (ص)کو مکہ میں ٹھہرنے کے لیئے بھی کو ئی اپنی جگہ با قی نہ تھی۔ کیا تاریخ نے کو ئی فا تح بھی ایسا دیکھا ہوگاکہ بجا ئے دشمنوں کو سزا دینے کے اپنے مکان بھی ان کو بخش دے جو کل تک ان کے خون کے پیا سے تھے ۔اور یہ فرما کے چھوڑ کے آج کے دن کسی سے کو ئی انتقام نہیں لیا جا ئے گا۔ مگر حضور (ص) کی سیرت کے اس پہلو کاذکر مورخین نے تو کیاہے مگر زیادہ نمایاں نہیں۔ مگر علما ئے کرام نہ جانے کیوں اس نکتہ کو اپنی تقاریر میں اجا گر نہیں کر تے، جبکہ یہ حضور (ص) کی ایسی انفرا دیت ہے جس میں کو ئی شریک نہیں ہے اور ان کے بعد ان کے ورثہ بھی اس پر قائم رہے۔ کیونکہ آگے چل کر اس املاک پرنہ تو حضرت علی کروم اللہ وجہ نے دعویٰ کیا جب وہ خودخلیفہ تھے اور با آسانی لے سکتے تھے، نہ حضور (ص) کی صا حبزادی حضرت فاطمہ (س) نے۔
خم غدیر۔ اس کے بعد حضور  (ص)وہاں سے روانہ ہو گئے۔ آگے چل کر اچانک جب خم غدیر کا سہ رہا نظر آیا جہاں کہ اس نام کا تالاب تھا اور راستے یمن اور مدینہ کو نکلتے تھے۔،تو وہاں قیام او ر خطاب کا فیصلہ فرمایا ۔ ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس دوران پھر کوئی  سلسلہ وحی کی آمد کا ہوا۔ وہ اس سے ثابت ہے کہ وہاں قیام کے لیئے کوئی خیمہ نصب کر نے کے بجا ئے دو درختوں پر ایک چادر تان دی گئی اور حضرت ابو بکر (رض) اس کو پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور وہاں حضور (ص) نے وہ تا ریخی خطبہ ارشاد فر ما یا جس میں حضرت علی کے فضا ئل میں احادیث بیان فر ما ئیں جن کا ذکر میں سیرتِ حضور اور سیرت ِ حضرت علی کرم اللہ وجہ میں بڑی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں ۔ اس قیام کے دوران بھی حضرت علی کرم اللہ وجہ کی مو جود گی تو اس حدیث سے ثابت ہے کہ ً حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر انہوں نے فر مایا کہ ً جس کا مولیٰ میں ہوں اس کا علی مو لا ہے ً لیکن کسی مورخ نے حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کا اور دیگر اہل ِ خانہ کی موجود گی کا ذکر نہیں کیا مگر ان کا ساتھ ہو نا میرے خیال میں نا گزیر تھا۔ اور وہ یقینی طور پر سب حضو ر (ص) کے ہمراہ ہو نگے ۔ یہیں انہوں (ص) نے یہ بھی فرمایا کہ  “میں تم میں کتاب اللہ اور عترت چھوڑے جا رہا ہوں اور یہ تم پر نگراں رہیں گے تا قتیکہ یہ روز ِ قیامت حوض ِ کو ثر پر مجھ سے آملیں اور دیکھونگا کہ تم ان کے ساتھ کیا کرتے ہو۔ “ اب یہاں اس پر مورخین میں اختلاف ہے ایک طبقہ مو رخین تو یہ کہتا ہے کہ ان کے لیئے خلافت کی وصیت کی تھی، دوسرا یہ کہتا ہے کہ نہیں ۔ جبکہ ایک تیسرا طبقہ مورخین جو صوفی منش قسم کا ہے وہ کہتا ہے کہ وصیت توہو ئی مگر وہاں وہ تصوف کے امام بنا ئے گئے ۔ اس نظریہ کو ایک چھوٹے سے نو زائیدہ طبقہ کے سوا جو تصوف کو ہی بدعت کہتا ہے باقی سب ان کی ولایت کو تسلیم کر تے ہیں۔
 وہاں سے روانہ ہو کر حضور (ص) حسب ِ سابق مدینہ منورہ سے متصل مسجد میں قیام پذیر ہو گئے ۔ اور صبح کو بعد نماز فجر مدینہ منورہ میں دوبارہ دا خل ہو ئے۔ پورا واپسی کا سفر اس بات کا غماز ہے کہ قدم قدم پر واپسی میں صحابہ کرام (رض)  کو حضور (ص)یہ تا ثر دیتے رہے کہ اب وہ زیادہ دن ان کے در میاں نہیں رہیں گے۔ اس پر اختلاف ہے کہ سورہ نصر مدینہ منورہ میں نازل ہو ئی یا منیٰ میں کیونکہ ایک روایت ایسی ملتی ہے کہ وہ پہلے نازل ہو ئی، جس کو سن کر حضرت ابو بکر  (رض)رو نے لگے ۔ کہ حضور (ص) کے وصال کا اب وقت قریب آگیا ۔ دوسری روایت یہ ہے کہ جیسا کہ آپ اسی مضمون میں پڑھ چکے ہیں کہ منیٰ کے قیام کے دوران نازل ہو ئی ، واللہ عالم۔ اس سے پہلے کی بھی ایک روایت ملتی ہے کہ جب حضور  (ص)نے حضرت معاذ  (رض)بن جبل کو یمن کا گورنر مقرر فرما یا تو ان کے ہمراہ چلتے ہو ئے دور تک تشریف لے گئے اور فرما یا کہ “ شاید اب میں (ص) تم (رض) سے نہ مل سکوں اور دیکھو میرا مزار دیکھ کر رونا مت “ واپسی میں بھی اپنے خطبات میں فرماتے رہے کہ مجھ سے تمام مناسک حج سیکھ لو شاید میں تم میں اگلے سال نہ رہوں۔ یہ سب با تیں ظاہر کر رہی تھیں کہ جتنا کام حضور (ص) کے ذمے تھا وہ پو را ہو چکا تھا۔ اور حضور  (ص)نے یہ اپنے معتمد لوگوں سے فر ما کر اس پر مہر تصدیق ثبت فر مادی تھی کہ اللہ نے اپنے بندے کو دائمی زندگی یا اپنی ملا قات میں سے ایک چیز چننے کو فر مایا تو بندے نے ملا قات چن لی ۔اس کے علاوہ وہ حج سے پہلے بھی با خبر تھے، کیونکہ وہ اپنے ہمراہ ہمیشہ امہات ِ مو منین (رض) میں سے ایک کو لے جا تے مگر اس مرتبہ سب کو لے گئے اور فر مایا کہ “ تم سب چلو اس کے بعد تمہا رے لیئے سختی ہے“ اسی قسم کی ایک حدیث حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں بھی ہے جس کی راوی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں۔ کہ حضرت فاطمہ  (رض)ایک دن تشریف لا ئیں تو حضور  (ص)نے ان کے کان میں کچھ فر مایا جس کو سن کر وہ رونے لگیں۔ حضور  (ص)نے دوبارہ سر گوشی فر ما ئی تو وہ ہنسنے لگیں ۔اس تضاد پر حضرت عائشہ  (ڑض)کو بڑی حیرت ہو ئی انہوں نے ان سے پو چھا کہ اس میں کیا راز تھا مجھے نہیں بتا وگی ؟ “انہوں نے فر مایا کہ یہ حضور (ص) کا راز ہے ،اس لیئے میں نہیں بتا سکتی “ جبکہ حضور (ص) کے وصال کے بعد دوبارہ پو چھنے پر انہوں (رض) نے بتلا یا کہ پہلے مجھے اپنے (ص) وصال کی خبر دی تھی، تو میں رونے لگی تھی جب مجھے یہ بتلا یا کہ مجھ سے سب سے پہلے ملنی والی تم ہو گی تو میں ہنس دی اس سے پتہ چلتا ہے کہ اور لوگ تو صرف اخذ کر رہے تھے مگر حتمی طور پر یہ راز حضور (ص) نے صرف جناب سیدہ سلام اللہ کو بتا یا تھا کہ بیٹی اب وقت ِ جدا ئی آن پہو نچا ہے گھبرا نا مت اور یہ بھی کہ تمہیں بھی فورا “بلا لیا جا ئے گاصرف تھوڑا انتظار کرنا ہوگا وہ بھی چند ماہ
حضرت عا ئشہ صدیقہ سے جو روایت بیان ہوئی وہ مختصر اًاور اسی حد تک ہے۔ مگر صا حب ِ معارج النبوة نے اس کی تفصیلات مختلف حوالوں سے بیان کی ہیں ۔ وہ رقمطراز ہیں ۔پھر جناب ِ سیدہ سلام اللہ علیہانے پو چھا کہ میں قیامت کے روزآپ کو کہاں تلاش کروں ؟ تو حضور (ص) نے فرمایا کہ “ بیٹی مجھے جنت میں تلاش کر نا، یا پھرمیں لوائے حمد کے نیچے ملونگا ،کیونکہ میں اسوقت امت کی مغفرت کے لیئے د عا کر رہا ہوں گا   “
انہیں اشتیاق اور بڑھا ، تاکہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر سکیں ۔ پھر پو چھا کہ اگر وہاں بھی نہ ملے تو؟ کیوں کہ یہ ہر انسان کی خصلت ہے کہ وہ زیا دہ سے پو چھنا چا ہتا ہے۔ جیسے کہ حضرت ابرا ہیم  (ع)اور حضرت ذکریا (ع) کہ واقعہ میں ہے ۔ فرشتے انہیں اولاد کی بشا رت دے رہے ہیں ۔ لیکن وہ سوال پر سوال کرتے جا رہے ہیں ۔ اور آخر میں تو حضرت ذکریا (ص) نے فر ما دیا کہ یا اللہ کو ئی ایسی نشانی بتا کہ جس سے میں جان سکوں ؟ اور اللہ  سبحانہ تعالیٰ نے فر ما یا کہ تم بغیر کسی (طبی) مجبوری کے تین دن  تک لو گوں سے کلام نہیں کر سکو گے “ یہ دونوں واقعات با رہا ں قر آن میں بیا ن ہو ئے ہیں یہاں تفصیل میں جانے کا مو قعہ نہیں جو مزید جاننا چا ہیں ،وہاں پڑھ لیں ؟ بلکہ اس کے علاوہ وہ واقعہ بھی حضرت ابراہیم  (ع)کا بیان ہوا ہے جس میں انہوں (ع) نے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ بندوں کو کیسے  دوبارہ زندہ فر ما ئیں گے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ  نےپو چھا کہ کیا تمہیں یقین نہیں؟ فر ما یا یقین تو مگر اپنی آنکھوں سے دیکھ یقین کو مزید بڑھا نا چا ہتا ہوں ۔ پھر انہیں چار مختلف پرندے بچپن سے پالنے کا حکم ہوا تاکہ وہ ان سے اچھی طرح مانوس ہو جا ئیں اور جب وہ بڑے ہو گئے تو حکم ہوا کہ اب ان کو بوٹی بوٹی کر کے چار پہاڑوں  پردور دور پھینک وآؤاور پھر آواز دو ؟ ان کی پر اور ان کے منتشر اجزاءجمع ہوکر چار انہیں مختلف پر ندوں کی دو بارہ شکل اختیار کر گئے اور ان میں سر بمو کو ئی فرق نہیں آیا۔
 آگے صاحب ِ معارج النبو ة فر ماتے ہیں ۔پھر انہوں نے پو چھا کہ اگر وہاں بھی آپ نہ ملے تو اور کہاں تلاش کروں تو فرما کہ پھر میں تمہیں حوض ِ کو ثر پر امت کو پانی پلا تا ہوا ملونگا۔ اس سلسلہ میں ہم ایک حدیث پہلے ہی بیان کر چکے ہیں جو حضور  (ص)نے خم غدیر کے قیام کے دوران فر ما ئی تھی کہ میری عترت تم پر نگراں رہے گی جب تک کے حوض ِ کو ثر پر آکر مجھ سے نہ مل جا ئے ۔ لہذا یہ وہ مقام ہو گا جہاں حضور (ص) کی پوری عترت بمع نیک ذریات اس دن جمع ہو جا ئے گی ۔ اس پر ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں کہ یہ بات وہیں تک ختم نہیں ہو گی کہ حضرت فاطمہ  علی اور حسنیں  (س)پر ختم ہو جا ئے بلکہ جس طرح ان کی اولاد نے اولیا ءاللہ کی شکل میں دین کی خدمت کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ لہذا وہ سب وہاں پر جمع ہو نگے کیونکہ جنت میں توحفظ ِ مراتب ہو گا واللہ عالم۔ کیونکہ حضور (ص) کا ارشادِ گرامی یہ بھی ہے کہ ً اس دن تمام نسب ختم ہو جا ئیں گے صرف میرا نسب با قی رہے گا ً اب یہاں یہ مسئلہ آتا ہے کہ آئندہ چل کر وہ اپنے مرا تب کے مطابق مختلف جنتوں میں تقسیم ہو جا ئیں گے یا ایک ہی جگہ رہیں گے اسلیئے کہ دوسری طرف حضور (ص) کی اور حدیث ہے کہ ایک صحابی (رض) نے حضور (رض) سے پو چھا کہ میں آپ سے سب سے زیادہ محبت کر تا ہوں فرما ئیے میں کہاں رہونگا؟تو حضور (ص) نے فر مایا کہ تم میرے ساتھ ہو گے ،کیونکہ جو جس سے محبت یہاں کرتا ہو گا وہ جنت میں اس کے ساتھ ہو گا  ًاگر اس حدیث کو مدِ نظر رکھا جا ئے تو اس سے یہ ثات ہو تا ہے کہ تمام اولیا ئے کرام (رح)  بھی ان کے ساتھ ہو نگے کیونکہ سلسلہ اولیا ئے کرام کا پہلا سبق ہی یہ ہی کہ ًوہ سب سے زیادہ اللہ اور رسول (ص) سے محبت کریں اور ان کے بعد اہل ِ بیت سے محبت کر یں ً تو حضور (ص) کی عترت اور ان کی ذریات کوتو ایک ہی جگہ ہو نا چا ہیئے کہ کو ئی بد وقت ہی ہوگا جواپنے ماں باپ سے محبت نہ کرے ؟ لیکن ان کے علاوہ جو یکا دکا اولیا ئے اللہ جوکہ ذریات کے علاوہ گزرے ہیں وہ  بھی یہاں نہ سہی مگر جنت میں تو ان کے ساتھ ہو نے کے حقدار ہونا چا ہیئے ۔ واللہ عالم ۔
اس کے بعد انہوں نے پھر سوال فرمایا اگر میں وہاں بھی آپ کو نہ پا ؤں تو؟ تب حضور (ص) نے فرما یا کہ پل صراط کے قریب ملنا میں وہاں کھڑے رہ کر اپنی دعا ؤں کے ذریعہ اپنی امت کو پار کرا رہا ہونگا۔
پھر سوال فر مایاکہ اگر آپ وہاں بھی نہ ملیں تو کہا ں تلاش کروں ؟ تو حضور  (ص)نے فر ما یا کہ دوزخ کے پاس تلاش کر نا وہاں سے میں اپنی امت کو تپش سے بچا رہا ہونگا۔انہوں نے آگے لکھا ہے کہ وہ یہ سن کرخوش ہو گئیں ۔اور اس کے بعد حضور (ص) کی چشم ِ مبارک بھا ری ہو نا شروع ہو گئیں ( یعنی غنودگی سی طاری ہوگئی)اور پیشانیِ مبارک پر پسینے کے قطرات مو تیوں کی طرح چمکنے لگے۔
ان تمام سوالوں کے جوابات میں جو حضور (ص) نے یہاں جوابات دیئے ہیں، ان میں سے کو ئی بھی جواب ایسا نہیں جو حضور (ص) نے کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی مو قعہ پر مختلف احادیث میں پہلے نہ بیان فر ما دیا ہو۔اور آخری مر حلہ یہ جو ہے میں دوزخ کے پاس ملونگا؟ اس کو حضور (ص) نے ایک حدیث میں ارشاد فرما یا کے کہ کچھ عرصہ سزا بھگتنے کے بعد اللہ تعالیٰ رحم فر ما کر مجھ سے فر ما ئے گا کہ اگر کسی کے دل میں ایک رتی بھر بھی ایمان ہو تو بھی تو اس کو بھی دوخ سے نکا ل لا ؤ ۔ اور میں ان کو نکال لا ئوں گا مگر ان کے چہرے سے دوزخی ہو نے نشانات اس وقت تک نہیں گئے ہو نگے۔ پھر وہ جنت کی ایک نہر میں نہا ئیں گے اور چہرے جنتیوں کی چمکنے لگیں گے ۔ اور غالبا ً یہ ہی وہ آخری مرحلہ ہو گا جس کے بارے میں ایک حدیث کے مطابق حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا سے جو اللہ نے وعدہ فرما یا تھا آپ انکواپنی چادر اتار نے سے روک دیجئے میں آپ کی امت کے ساتھ وہی معاملہ کرونگا جس سے فاطمہ  (س)خوش ہو جا ئیں۔ شاید ایک وجہ یہ بھی ہواسی لیئے وہ بار بار سوال کرتی رہیں کہ جاننا چا ہتی تھیں کہ وہ مر حلہ کب آئے گا؟ جہاں سے یہ دونوں باپ بیٹی (ص) اپنی امت پر خیر خواہی تمام فر ما کر دا ئمی طور پرجنت میں دا خل ہو جا ئیں گے۔ جس  پر کہ قرآن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فر ما یا ہے کہ  ً اے نیک بندو! ہمیشہ کے لیئے جنت داخل ہو جا و ً اس کے بعد کسی تبدیلی کا ذکر نہ قر آن میں ملتا ہے نہ احادیث میں ۔ جو جہاں ہے دا ئمی طور پر وہ وہیں رہے گا اور ایک دوسری حدیث میں ہے اس دن موت کو بھی ذبح کر دیا جا ئے گا۔
یہا ں کئی روایات ملتی ہیں جہاں سے حضور کی علالت کی تفصیل شروع ہو تی ہے ۔ ایک تو یہاں سے شروع ہو تی ہے کہ ایک دن حضور نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وصیت کرنا شروع کی کہ انہیں غسل وغیرہ کیسے دیا جا ئے، تو انہوں نے پو چھا کہ اس قسم کی وصیت تو اس وقت کوئی کر تا ہے جب دنیا چھوڑ نے والا ہو ؟ آپ نے فر ما یا ہاں !میں نے اپنے رفیق اعلٰی سے ملنے کے حق میں فیصلہ دیدیا ہے ۔ پھر اس کے بعد ایک رات کو انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنت البقیع والوں کے لیئے دعا کروں لہذا سواری لا ئی گئی اور وہ سوار ہو کر جنت البقیع روانہ ہوگئے ۔ ( چونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ حضور وہاں دعا کے لیئے بحکم خدا وندی تشریف لے گئے تھے جبکہ دعا وہ گھر سے بھی پڑھ سکتے تھے، اس سے یہ ثابت ہو تا ہے۔ قبرستان یا مزارات پر جا کر دعا پڑھنا سنت ہے بشرطِ کہ مقصد صرف مر حومین کے لیئے دعا کر نا ہو، کوئی دوسرا مقصد نہ ہو۔ شمس) حضور وہاں تشریف لے گئے اور کافی رات تک وہاں تشریف فرما رہے اور تین مرتبہ ان کے لیئے مغفرت طلب فرمائی ۔۔ اسی کو دوسرے سیرت نگاروں نے بجا ئے حضرت علی کے ابو مویہتہ سے منسوب کیا ہے اور باقی تفصیلات سب وہی ہیں۔ اس کے بعد حضور واپس تشریف لا ئے تو درد سر کی شکا یت فر ما ئی ۔ وہ دن حضرت میمونہ  (رض) کا دن تھا لہذا حضرت علی (رض) نے انہیں وہاں چھوڑ ا اور واپس آگئے جب حضرت فا طمہ (رض)  کوپتہ چلا تو وہ بے چین ہو گئیں اور ملا قات کے لیئے تشریف لے گئیں ۔انہوں نے ما تھا چھوا تو حضور  (ص)کو سخت بخار تھا۔ لہذا انہیں کی تجویز پر حضرت میمونہ (رض) کے حجرے سے حضرت عا ئشہ  (رض)کے حجرے کو حضور (ص) کی تبدیلی عمل میں آئی اور وہاں تک لے جا نے والے حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) تھے ۔ لیکن یہاں بھی کچھ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضور (ص) اپنی تمام بیویوں (رض) کے ہاں چکر لگاتے رہے اور جب ان کی حالت زیادہ خراب ہو ئی تو انہوں (رض)  نے سب سے اجازت چاہی کہ اگر تم اجازت دو تو میں حضرت عا ئشہ صدیقہ  (رض)کے حجرے میں چلا جا و ں کہ مجھے وہا ں زیادہ آرام ملے گا ً چو نکہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ انہیں  علم ہو گیا تھا کہ آخری وقت آپہونچا ہے اور ایک حدیث یہ بھی ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا کہ ًہم پیغمبر وہیں دفن ہو تے ہیں جہاں کے انتقال ہو تا ہے ً لہذا انہوں نے اپنی آخری آرام گاہ کی طرف جانا چا ہا جو کہ ان کے علم میں تھی۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ مقام مسجد سے متصل تھا اور وہ تمام جما عتوں کی قراءت بھی سن سکتے تھے اور ایک مرتبہ جب حضرت ابو بکر (رض) امامت فر ما رہے تھے جیسا کہ سیرت میں ذکر ہے وہ (ص) جما عت میں بھی شامل ہو ئے تھے ۔ بہر حال وجہ کو ئی بھی رہی ہو وہ  (ص)حضرت عائشہ (رض) کے حجرے میں تشریف لے گئے ۔ آگے حضرت فاطمہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب حضور  (ص)میرے  (رض)ہاں تشریف لے آئے تو انہوں نے فر مایا کہ میرے اوپر سات مشکیزے پانی منہ بند ڈالو تا کہ میں وصیت کر سکوں؟پس ہم نے آپ (ص) کی بیوی حضرت حفصہ (رض) کے یہاں سے لگن منگوایا اور اس میں بٹھا کر سات مشکیزوں سے پانی ڈالنے لگے ، یہاں تک کہ آپ نے اشارے سے بتایا کہ کام ہو گیا ہے۔ پھر آپ لوگوں کے پاس باہرتشر یف لے گئے نماز پڑھا ئی اور خطبہ دیا۔ اور اس کے بعد خود کو احتساب کے لیئے یہ فر ماکر پیش فر ما دیا کہ جس کسی کا جو کچھ میرے ذمہ ہے وہ مجھ سے لے لے ۔ جس کے پیٹ پر میں نے ضرب لگا ئی ہو وہ میرے پیٹ پر اور جس کی پیٹ پر میں نے ضرب لگا ئی ہو وہ میری پیٹ پر ضرب لگا ئے ۔اور جس کسی کا میرے ذمہ کچھ لینا دینا ہو وہ بتا ئے اور ڈرے نہیں کہ مجھ سے دشمنی ہو جا ئے گی میں نے کسی سے کبھی دشمنی نہیں کی ۔ اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اس نے کہا کہ آپ کے ذمہ میرے تین در ہم ہیں ۔ حضور  (ص)نے فر مایا کہ ً میں سائل کی تردید نہیں کر تا اس پر اس نے دوبارہ یاد دلا یا کہ ایک سائل نے آپ سے سوال کیا تھا، تو آپ نے وہ مجھ سے دلوا ئے تھے۔ آپ نے فر مایا اے فضل اس کو تین درہم دیدو۔وہ ادا کر دیئے گئے ۔
عکاشہ (رض) کا عجیب انتقام۔
 حضور  (ص)کے بار بار ارشاد فر مانے کے بعد حضرت عکاشہ (رض) بن محصن اسدی کھڑے ہو ئے اور انہوں نے فرمایا کہ آپ کے بار بار فر مانے کی وجہ سے مجھے یہ ڈر پیدا ہوا کہ کہیں میں اپنی بات نہ کہوں اور آپ کے سامنے قیامت کے دن شر مندہ ہو نا ،پڑے لہذا ایک دن میں آپکی اونٹنی کے بہت قریبب پہونچا تو آپ نے جو چابک اسے مارا وہ مجھے لگ گیا ۔جس سے مجھے بے حد تکلیف ہو ئی آپ اس کا بدلہ عطا فر ما ئیں۔ حضور  (ص)نے جواب میں ارشاد فر مایا کہ اللہ تجھے جزائے خیر دے یا عکاشہ ( جزاک اللہ خیرا یا عکاشہ )کہ تو نے یہ زحمت قیامت کے لیئے نہ اٹھا رکھی!ہمارے لیئے دنیا میں قصاس ادا کر نا قیامت کے دن سے بہتر ہے (کیونکہ بصورت ِ دیگر ) ہم وہا ں سب کی موجودگی میں تمہیں بد لہ دیتے۔ پھر پوچھا کہ عکاشہ تمہیں یا د ہے کہ وہ تا زیانہ کونسا تھا؟ تو انہوں نے فر مایا کہ وہ خزراں سے آئی ہو ئی پتلی والی چھڑی تھی جو ان دنوں آپ (ص) کے زیر ِ استعمال تھی ۔حضور  (ص)نے حضرت سلمان فارسی کو حکم دیا کہ وہ چھڑی فا طمہ کے گھر ہے لہذا وہاں سے لیکر آو۔( غالبا ً وہ چھڑی کسی وجہ سے انہوں نے حضرت علی (رض) کوعطا فر مادی ہو گی ورنہ دوسری اس کی وہاں ہونے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضور بھول آئے ہو ں ۔ مگر ہمیں اس سے ثابت کر نا یہ مقصود ہے کہ آخری وقت تک حضو ر (ص)کی یاداشت با لکل درست تھی ) وہ وہاں تشریف لے گئے تو حضرت فا طمہ  (رض)کے علم میں تمام معاملہ آیا ۔ لہذا انہیں بڑا صدمہ ہوا ۔جب انہیں یہ پتہ چلا کہ تمام جانثاران ِ رسول (ص) عکاشہ (رض) کو سمجھا کے تھک چکے ہیں کہ وہ معاف کردیں اور انتقام نہ لیں مگر وہ  نہیں مان رہے ہیں ۔ تو انہوں  (رض)نے اپنے دونوں صا حبزادوں  (ع)کو بھیجا کہ وہ خود کو قصاص کے لیئے پیش کر یں ۔ ( ان کے بھیجنے کا مقصد غالبا ً یہ رہا ہو گا کہ ان معصوم بچوں کے خود کو قصاص کے لیئے پیش کر نے سے شاید وہ مان جا ئیں ) مگر وہ نہیں مانے اور قصاص پر قائم رہے ۔ وہ تازیانہ ان کے ہا تھ میں دیدیا گیا ۔ اور تمام صحابہ کرام (رض) جو انہیں سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے دم بخود تھے ۔ وہ تا زیانہ لیکر آگے بڑھے اور حضور (ص) سے عرض کیا کہ میری پِیٹ اس وقت بر ہنہ تھی جب تا زیانہ لگا تھا ۔ لہذا حضور (ص) نے اپنی چادر پیٹ پر  سے تھوڑی سی کھسکا دی ۔ وہ آگے بڑھے اور بجا ئے تا زیانہ بلند کر نے اپنا سر جھکا یا اور مہر نبوت کو بو سہ دیکر فر مایا کہ میرے ماں باپ آپ پر قر بان! میں تو اس دن بھی اس ارادے سے بڑھا تھا کہ آپ کے پیر مبارک کو بوسہ دوں مگر نا کام رہا ۔ میرا اصل مقصد تو یہ تھا کہ میں اپنے جسم کو آپ کے جسم سے مس کردوں تا کہ آپ کی اس حدیث کے مطابق مجھ پر جنت واجب ہو جا ئے ، من مس جلدی لن تمسہ نار ( جس نے میرے جسم کو چھولیا اس پر جہنم حرام ہو گئی
یہاں ایک مورخ نے یہ حدیث بیان کر کے ایک عجیب نکتہ وارد کیا ہے کہ قر آن حضور (ص) پر سالم بھی نازل ہوا اور بتدریج بھی۔ انہوں نے یہ دلیل اس سے لی ہے کہ حضور (ص) نے فر ما یا کہ ً اب میرے رخصت ہو نے کا وقت آگیا ہے اس لیئے کہ ہر سال جبرئیل رمضان میں ایک مرتبہ میرے ساتھ قر آن دہرا تے تھے اس مرتبہ دو بار دہرا یا ً
 چونکہ یہ حدیث حضرت جبر ئیل  (ع)کے بارے میں ہے اور اس کے بعد ہم ایک دوسری حدیث پیش کر نے جا رہے ہیں جو ان ہی کے بارے میں ہے لہذا ہم نے وہ بھی یہاں در ج کر دی جیسا کہ اس مورخ نے کیا تھا۔ یہاں میرے خیال میں یہ بھی درج کر نا بیجا نہ ہو گا کہ جو بیٹی (رض) دیوار کے پیچھے رہا ئش پذیر تھی اور جو اپنے والدِ محترم  (ص)کو اتنا چا ہتی ہو جس بغیر نہ حضور (ص) رہ سکتے ہوں اور نہ وہ حضور  (ص)کے بغیر رہ سکتی ہو، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ حضور (ص) کے آخری ایام میں ان کے پاس نہ ہو ؟ مگر یہ بات کسی اور مورخ کے یہاں نہیں ملتی کہ وہ وہاں موجود تھیں۔ اسی لیئے شاید اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اجا زت کی ضرورت پیش آئی کیو نکہ حضور (ص) تو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے تھے، پھر حضرت جبرئیل کو بھیجنے اور اجازت دو بارہ طلب کر نے کی کیا ضرورت تھی ؟ یہ روایت اس طرح ہے کہ حضور (ص) کے وصال سے تین دن پہلے حضرت جبر ئیل (ع) تشریف لا ئے اور انہوں نے یہ فر مایا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ (ص) سے اجازت طلب کروں تاکہ عزرا ئیل (ع) آکر آپ کی روح قبض کر یں ۔پس مجھے آپ نے کس حال میں پا یا (آپ نے اس موقعہ پر مجھے کیسا پایا ) تو حضور  (ص)نے جواب میں فر مایا کہ میں نے تجھے غم زدہ پا یا اور کربناک بھی ً اور وہ  (ع) غالبا ً اس جواب سے خود بھی اتنے دلگیر ہو ئے کہ حضور (ص) کو مزید پریشان کر نا مناسب نہ سمجھا اور بغیر جواب لیئے واپس چلے گئے۔یہ قدرتی امر تھا اور ان کو دلگیر ہو نا چا ہیئے تھا کہ آج نہ صرف حضور  (ص)کے پاس ان کی آمدو رفت ختم ہو رہی تھی بلکہ انکا منصب ِ پیغام رسانی جو کہ صدیوں سے جاری تھا آج ختم ہو رہا تھا اس لیئے کہ اب حضور  (ص)کے بعد کوئی نبی  نہیں تھا کیونکہ کتاب مکمل ہو چکی تھی خدا کا دین مکمل ہو چکا تھا۔اور میں یہ بھی واضح کر تا چلوں کہ فرشتے بغیر اللہ کے حکم کے کہیں نہیں آتے جا تے، جیسے کہ ہم لوگ جہاں چا ہیں اپنی مرضی سے آجا سکتے ہیں ؟ اس کے ثبوت میں وہ مشہور حدیث ہے کہ جب کافی عرصے حضور (ص) پر وحی نہیں نازل ہو ئی اور بہت دنوں کے بعد جب حضرت جبرئیل (ع) تشریف لا ئے تو حضور (ص) نے ان سے نہ آنے کی شکایت فر ما ئی تو اس پر انہوں نے جواب میں فر مایا کہ ہم فرشتے بغیر خدا حکم کے کہیں آتے جا تے نہیں ہیں ؟ مورخ نے آگے لکھا ہے کہ وہ اس کے بعد دوسرے دن پھر تشریف لا ئے اور فر مایا کہ بحکم ِ اللہ سبحانہ تعالیٰ  عزرا ئیل (ع)  آپ سے اجازت طلب کر تے ہیں اور یہ خصو صیت صرف آپ (ص) کے لیئے ہے ورنہ اس سے پہلے نہ انہوں نے کسی سے اجازت طلب کی نہ آئندہ کبھی فر ما ئیں گے ۔ حضور (ص) نے فر مایا ً اجا زت ہے ً
یہاں آپ آگے چل کر ایک خاص بات اور نوٹ کریں گے ۔ حضرت عزرا ئیل (ع) کو اجازت کی ضرورت کیوں تھی ؟ آپ حضور  (ص)کی پوری حیات مبارکہ کو دیکھ جا ئیں کہ کاشانہ رسول میں حضرت جبرا ئیل ہمیشہ بغیر اجازت حاضر ہوتے تھے اور اکثر امہات المونین کی موجودگی ان کے دا خل ہو نے میں مانع نہ تھی۔جبکہ حضور (ص) یہ فر ماکر اس وقت جو ام المونین (رض) موجود ہو تی تھیں ان کو خبردار فر ما دیتے تھے کہ یہ جبرئیل (ع) ہیں اورآپ کو سلام عرض کر رہے ہیں ۔ اس سے جوبات ظاہر ہو تی ہے کہ حضرت جبر ئیل  کا اہل ِ خانہ سے پر دہ نہ تھا۔ حضور  (ص)کے حجرہ میں آنے کا وہ راستہ بہت سے حجا جِ کرام نے دیکھا ہو گا جو کچھ سال پہلے تک تو محفوظ تھا اب نہیں معلوم کہ وہ ہے یا نہیں ۔ جبکہ حضرت عزرا ئیل (ع) کو اس کی ضرورت  اس لیئے نہ تھی اور ان پر اہل ِ بیت (رض) کا احترام گوکہ لازم تھا کہ وہاں ہر وقت ان  کی موجودگی خا رج از امکان نہ تھی۔
 حضور کا وصال ۔آگے راوی لکھتا ہے کہ اس وقت حضرت سیدہ سلام علیہا اپنے والد ِ محترم کے حجرے میں مو جود تھیں ۔ کہ حضرت عزرائیل ہزاروں فر شتوں کی معیت میں ایک اعرابی کی شکل میں درِ کا شانہ نبوت پرحاضر ہو ئے اورحضور  (ص) سے شرفِ با ریابی کے لیئے اجازت چا ہی اس لیئے کہ ان کو حکم خدا وندی یہ ہی تھا کہ کہ بغیر اجا زت رو ح قبض نہ کی جا ئے۔ حضرت سیدہ (س)نے جواب دیا کہ میرے والد اس حال میں مشغول ہیں (شدید علیل ہیں ) کہ ملا قات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب انہوں نے حضرت سیدہ کا جواب سنا تو چند لمحوں کے لیئے وہ پھرخاموش ہو گئے ۔ اس کے بعد ذرا زور سے آواز دی اور وہی الفاظ دہرا ئے ۔ ادھر خاموشی رہی ،وہ بھی پھر خاموش ہو گئے اس کے بعد تیسری بار آواز دی جو کہ پہلی دونوں آوازوں سے قدرے بلند تھی ۔ حضور  (ص) نے پو چھا کیا ما جرا ہے۔ تب حضرت سیدہ (س) بتا یا کہ ایک اعرابی بہت ڈرا ونی شکل والا ہے اور وہ ملا قات کے لیئے اجازت طلب کر رہا؟ حضور (ص) نے ان (س) سے حسب عادت پو چھا کہ تم جانتی ہو کہ یہ کون ہے؟انہوں نے جواب میں فر مایا کہ اللہ اور اس کے رسول (ص) بہتر جانتے ہیں تو حضور (ص) نے جواب میں فر ما یایہ ملک الموت ہے جو میری روح قبض کر نے آیا ہے۔ بیٹی یہ لذات کو توڑنے والااور آرز ؤں اور امنگوں کو منقطع کر نے والا، یہ سا تھیوں کو علٰیحدہ کر نے والااور بچوں کو یتیم کر نے والا ہے ، ما ؤں سے بیٹے چھین نے والااور عورتوں کو بیوہ کرنے والا ہے۔
تب حضور نے فر مایا کہ بیٹی یہ موت کا فرشتہ عزرا ئیل ہے جس کو کہیں پہونچنے میں کو ئی چیز مانع نہیں ہو تی، یہ بند دروازوں میں بھی داخل ہو جا تا ہے۔اور میری رو ح قبض کرنے کے لیئے آیا ہے۔اسے یہاں اجازت لینے کا حکم اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دیا تھااس لیئے وہ اجازت مانگ رہا۔اس کے آگے کیا ہوا کسے ہوا وہ کسی مستند مورخ نے قلم بند نہیں کیا ہے۔ مگر چونکہ حضور (ص) اس سے راز سے واقف تھے جو کہ ان کی ایک حدیث سے ثابت ہے کہ “ہر کام کے لیئے ایک وقت معین ہے اور ہر وقت کے لیئے ایک کام “ انہوں نے غالبا ً اذن عزرا ئیل کو عطا فر مادیا ہو گایا تو آہستہ سے ہو یا ممکن ہے ،دل میں اجازت دیدی ہو؟ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ فرشتے تو دل کی بات نہیں جانتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تو جانتا ہے واللہ عالم ۔ آگے مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت فا طمہ (س) کے دیکھتے، دیکھتے ان پر غشی طاری ہو گئی اور جب انہوں نے انہوں نے آوازیں دیں اور کوئی جواب نہ ملا تو وہ بھی ہا ئے میرے والد! بلندآواز میں کہہ کرخاموش ہو گئیں ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ہ
حضور (ص) کی بیماری سے پہلے ایک روایت حضرت ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے فر ما یا کہ ایک دن جب بیماری کے دوران حضرت فاطمہ  بمع اپنے دونوں بچوں کے (ع) تشریف لا ئیں تو حضور (ص) کی خدمت ِ اقدس میں حا ضر ہو کر عرض کیا کہ با با جان میں نے عجیب خوا ب دیکھا ہے کہ “میرے پاس کتاب اللہ کا ایک ورق ہے اور تلاوت کر رہی ہو ں اور وہ ورق میری نگا ہوں سے اوجھل ہو گیا۔حضور  (ص)نے اس کی تعبیر بیان فرما ئی کہ اب عنقریب میں تم سے جدا ہوا چا ہتا ہوں ۔
ان کے بعد پھر حسنیں گویا ہو ئے کہ اے نانا جان ہم نے بھی آج ایک خواب دیکھا ہے اور وہ اس طرح ہے کہ ایک تخت ہوامیں اڑ رہا ہے اور ہم اس کے پیچھے دوڑے جا رہے ہیں !حضور (ص) نے تعبیر میں فر مایا کہ وہ میری میت ہوگی۔ جس کے پیچھے تم دوڑ رہے ہو گے۔ یہاں وہ حدیث بیان کر نا دلچپی سے خالی نہیں ہو گا کہ “ حضور (ص) نے فر مایا کہ ایک مومن کی روح قبض کر نے کے بعد یکے بعد دیگرے فرشتے سا توں آسمانوں سے گزارتے ہو ئے پھر عرش پر پہونکر واپس اس کی قبر میں لے جا کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ مورخین لکھا ہے کہ جس طرح حضور (ص) کی مدینہ آمد پر اہل ِ یثرب نے ان کا استقبال کیا تھا اوراس کا نام مدینہ منورہ رکھا تھا آج دس سال بعد وہ گہری تا ریکی میں ڈوب گیا تھا ۔ کو ئی گھر ایسا نہ تھا جہاں سے سسکیوں کی آواز نہ آرہی ہو ۔
ایک عاشقِ رسول صحابی (رض) جن کا نام مورخ نے نہیں لکھا وہ اپنا دن حضور (ص) کی زیارت اور  اسکی فجر  کی نماز سے شروع کرتے تھے اور عشاءکی نماز میں دوبارہ زیارت پر ختم کرتے تھے جبکہ دن میں وہ اپنے باغ دیکھ بھال کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔ انہوں نے جب یہ خبر اپنے باغ میں سنی تو دعا کی کہ یا اللہ اگر میں رسول اللہ کی اب زیارت نہیں کر سکتا تو ان آنکھوں کا کیا فا ئدہ یہ تو مجھ سے واپس لے لے۔ اور فوراً ان کی بینا ئی جاتی رہی۔
سب سے زیادہ حضرت فاطمہ  (س)کی حالت خراب تھی اور ان کے بعد حضرت بلا ل (رض) کی۔ یہ تو انسانوں کی حالت تھی۔ مگر حب ِ رسول (ص) میں جانور بھی افسردہ دیکھے گئے ۔ شاید انہیں یہ غم ہو گا کہ اب وہ کس سے فریاد کریں گے ؟ کیونکہ ان کی زبان سمجھنے والا دنیا میں موجود نہیں رہا ۔ ہم سیرت رسول (ص) میں اس پر رو شنی ڈال چکے ہیں کہ حضور  (ص)کے پاس جانور بھی فریاد لے کر آتے تھے اور حضور (ص) کبھی ان کے مالکوں اور کبھی عام مسلمانوں کو ہدایات دیا کرتے تھے ۔اس سلسلہ میں دو واقعات بہت مشہور ہیں ایک وہ جس میں ایک اونٹ نے زیادہ وزن لا دنے کی حضور (ص) سے شکا یت کی تھی اور حضو ر (ص) نے اس کے مالک کو بلواکر اس کو کم وزن لا دنے کی ہدا یت فرما ئی تھی۔ جس سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ انسانوں کے لیئے ہی نہیں بلکہ حیوانوں کے لیئے رحمت اللعالمیں تھے۔ بلکہ درندوں تک کے لیئے بھی ۔ کیونکہ دوسرا واقعہ جو بہت مشہور ہے وہ بھیڑیئے  کا حضور (ص) کی خدمت اقدس میں حا ضر ہو کر عرض کر نا تھا کہ میری لیئے کچھ مقرر فرما دیجئے کہ میں اپنا رزق کہاں سے لوں ؟ حضور (ص) نے صحابہ کرام  (رض)سے پو چھا کہ تم لوگ کیا چاہتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اس  کوکچھ نہیں دینا چا ہتے۔حضور (ص) فر مایا کہ جا تجھے جہاں موقعہ ملے تو اچک لے۔
 لیکن اب ہم اس اونٹنی کا قصہ بیان کر نے جا رہے ہیں جو تمام اہم مواقعوں پر حضور  (ص)کے زیر ِ سواری رہی اس کا نام قصویٰ تھا ۔ یہ کب سے حضور (ص) کے پاس تھی مورخین نے اس کے بارے میں نہیں لکھا صرف ایک نے لکھا ہے کہ فتح خیبر کے بعد حضور (ص) کے حصے میں آئی تھی ۔ جو درست نہیں معلوم ہو تا۔کیونکہ یہ وہ اونٹنی تھی جس سے کہ حضرت فا طمہ (س) اور ان کے بچے دونوں مانوس تھے ۔ یہ وہ اونٹنی تھی جو صلح ھدیبیہ کے مو قعہ پر بھی حضور (ص) جس پر سوار تھے یہ وہ اونٹنی تھی جس پر غزوہ خیبر میں حضور (ص) سوار تھے ۔ یہ وہ اونٹنی تھی جس پر عمرہ قضا کے مو قعہ پر بھی سوار تھے ۔ یہ وہ انٹنی تھی جس پر حضور  (ص)فتح مکہ کے مو قعہ پر بھی سوار تھے اور یہ وہ اونٹنی تھی جس پر حضور  (ص)حج الو دع کے مو قعہ پر سوار تھے غرضیکہ بہت کم مواقعے تھے کہ جن میں حضور  (ص)اس پر سوار نہ ہو ئے ہوں۔ اس اونٹنی کو حضور (ص) اپنے دست ِ مبارک سے چارہ ڈالتے تھے ۔ جب حضور (ص) بیمار ہو ئے تو وہ اداس رہنے لگی اور حضور  (ص)کے وصال کے تیسرے روز وہ کا شا نہ فا طمہ (س) پر حا ضر ہو ئی حضرت فا طمہ اس کی آہٹ اور مانوس آواز سن کر دروازے پر تشریف لے گئیں تو دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ان کو دیکھ کر اس نے سر جھکادیا انہوں نے اس کے سر پر ہا تھ پھیرا اور بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ اس نے ان کے سامنے ہی زمین پر گر کر دم توڑ دیا، کچھ نے لکھا ہے کہ وہ ہا تھ پھیر نے کے بعد واپس چلی گئی اور اپنی تھان پرجا کر دم تو ڑ دیا۔بہر حال جو مدینہ منورہ کے با سیوں پر گزری نہ قلم میں اتنی طاقت ہے کے کو ئی رقم کر سکے اور نہ واقعات اتنے کم ہیں کہ اس چھوٹے سے مضمون سما سکیں ! چونکہ ہما را یہاں مقصدحضرت فا طمہ سلام اللہ علیہا کی سوانح بیان کر نا ہے لہذا ہم ان ہی کی طرف واپس آتے ہیں۔
  یہ ایک کلیہ ہے کہ جس کو جس سے سب زیادہ محبت ہو تی ہے وہ زیادہ اثر قبول کر تا۔ ان کی والدہ بچپن میں ان کا ساتھ چھوڑ گئیں تھیں لہذا اس دن سے ان کے لیئے ماں اور باپ دونو ں کی چا ہت حضور  (ص)میں یکجا ہو گئی تھی۔ جیسا ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ صبح اور شام پہلے انہیں دیکھنا ،جب تک کہ وہ غیر شادی شدہ تھیں اور بعد میں ان کے گھرآنا روزانہ دو پھیرے لگانا ، اور اس کے علاوہ سفر سے پر پہلے ان کے گھر جانا، اور انہیں کے گھر سے رخصت حضور (ص) کا معمول تھا ۔ شا دی کے بعد جب یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ حضرت علی (رض) نے جو گھر کرایہ پر لیا ہوا تھا وہ دو ر تھا اور حضور  (ص)کو آنے جا نے میں دقت ہونے لگی۔ جب ایک صحابی (ص) کو علم ہوا جو آپ کے ہمسایہ تھے تو انہوں نے اپنی ہمسا ئیگی پر باپ کی قربت کو زیادہ تر جیح دی اور وہ گھر حضرت علی کرم اللہ کو بطور تحفہ پیش کر دیا۔
جو ابھی موجود ہے اور وہ اصحاب سفہ کے چبو ترے اور حضرت عا ئشہ (رض) کے حجرے کے پیچھے مو جود ہے جبکہ اور کسی کا گھر آج مدینہ منورہ میں مو جود نہیں ہے اس کی موجودگی بذات خود ایک معجزہ ہے۔ اس سے قیاس فر مالیں کہ اس بیٹی  پر اپنے بے مثال والد کے وصال پر کیا بیتی ہو گی؟ یہاں صرف تصور کا سہارا لیجئے کیونکہ میرا قلم اور الفاظ آگے ساتھ نہیں دے رہے ہیں

No comments:

Post a Comment