حسب الحکم اپنے عزیز ترئین دوست جناب سیدفہیم شاہ بخاری اکبری سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کررہا ہوں
ذکران کا ہے جن کے سے ماں باپ جیسے کسی کے نہیں تھے اور نہ ان کے جیسے شوہر، اور نہ ان کے جیسے بچے ۔ اور نہ ہی رہتی دنیا تک دوبارہ ایسا اتفاق ہو سکتا ہے کہ پورا کنبہ ہمہ خانہ آفتاب ہو ۔یعنی جو ہے وہ اپنی جگہ کامل ہے۔ کیونکہ کہ یہ انہیں کے نصیب میں لکھا گیا تھا اور ایسے معجزے بار ، بارنہیں ہوا کر تے لہذا آئندہ ایسے اشخاص ایک گھر میں ایک جگہ کبھی اکٹھا نہیں ہو سکیں گے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے محبوب (ص) پر اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنی نوازشات تمام کر دینا چا ہتا تھا۔
والد دیکھئے نبیوں کے سر دار اور رحمت اللعالمین یعنی تمام عالم کے لیئے رحمت، اگر میں ان کی تعریف رقم کر نا شروع کر دوں تو صحیفے رقم ہو جا ئیں اور تعریف رقم نہ ہو سکے۔ اس لیئے کہ جن کی تعریف خود خدا کر دے ،ان کی تعریف انسان سے کہاں ممکن ہے ۔ انسان کر رہی ہی نہیں سکتا ۔ اس کی مثال بھی قر آن جیسی ہے جو کہ اس نے تمام دنیا کو چلینج کی شکل میں دے رکھی کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لا ؤ؟
اور کوئی آج تک نہیں بنا کر دکھا سکا اسی طرح ایک کامل انسان بنا کر دکھادیا اور اس کی تعریف خود فر ما کر سب کو دعوت دیدی کہ تم ایسی تعریف کر کے تو دکھا ؤ ۔ چودہ سو سال سے تمام دنیا کے انسان نعت کہنے اور سیرت لکھنے میں لگے ہو ئے ہیں ، مگر ہر ایک کو اپنی کی ہو ئی تعریف خود اپنی نظر میں تشنہ لگتی ہے ،لہذا پھر لکھتا ہے اور با بار لکھتا ہے اور آج تک لکھے جا رہا ہے اور قیامت لکھتا رہے گا۔ مگر اس کے عطا کردہ ایک خطاب “رحمت اللعالمین ً “ کا حق ادا نہیں کر سکے گا۔
والدہ دیکھئے تو خواتین ِ جہاں میں افضل ۔کیوں ؟
آپ نے تاریخ میں پڑھا ہو گا کہ عمو ما ً انبیا ئے کرام کی بیویاں بھی ان کے تابع نہ تھیں اور ان پر ایمان نہیں لا ئیں ! کیونکہ یہ رشتہ ہی ایسا ہے کہ اس میں دونوں کا ہر وقت کے ساتھ رہنےکی وجہ سے ایک دوسرےکا کچھ چھپانہیں رہتا ہے۔لہذا بیوی کو قول و فعل میں ذراسی کمی بھی نظر آئے تو معتقد ہو نا بہت ہی مشکل ہے۔ مگر یہ فخر بھی حضور (ص) کو ہی حاصل ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بیوی بھی ایسی عطا فر مائی کہ جو بجا ئے عدم اطمینان کا اظہار کر نے اور گھبرا نے کے، الٹا دلجوئی کر رہی ہے کہ اے میرے نیک شوہر گھبرا یئے نہیں ۔ چونکہ آپ بھو کوں کو کھانا کھلاتے ہیں غریبوں اور کمزوروں کی مدد کر تے ہیں لہذا آپ کا رب آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اور اپنی تمام مال و متاع ان کی نظر کر دیتی ہیں۔ جب ماں ایسی ہو تو بیٹی کیسی ہو گی اورانہوں نے حضرت بتول کی تر بیت کیسے فر ما ئی ،وہ آپ آگے چل کر پڑھیں گے۔
شوہر دیکھئے جن کا لقب کرم اللہ وجہ،جو دنیا کے بہادروں کے سردار جو شیر ِ خدا کے لقب سے ظا ہرہے ۔ سردار ِ متقین، جو حضور (ص) کے اس ارشاد ِ گرامی سے ظاہر ہے کہ ً علی کو برا مت کہو۔ وہ تم سب میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے ً یہاں بھی وہی مسئلہ کہ ان کے بھی اتنے القابات اور فضائل ہیں کہ بیان سے باہر ہیں ۔
اب آتے ہیں بچوں کی طرف تو بچے بھی وہ جن کے لیئے ابو سفیان جب حالت ِ کفر میں تھے تو در خواست کر تے ہیں۔ جناب ِ سیدہ ان سے فر ما ئیے کہ یہ اپنے نانا سے میری شفارش کر دیں ؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ در بار ِ رسالت مآب میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ وہ بھی دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار اور شہیدوں میں وہ ممتاز مقام حاصل کر نے والے جو شاید ہی کسی کو نصیب ہو ۔لہذا ان کی پیروی کر تے ہو ئے جو آئندہ ظلم کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا تو وہ حسین ِ ثانی تو کہلا ئے گا مگر حسین نہیں۔ اب آپ ہی بتا ئیے اتنی خوبیاں کسی ایک خاندان میں کبھی پہلے جمع ہو ئیں تھیں۔ اتنی عظمتیں کسی ایک خاتوں کو ملیں ؟ یقینی طورپر میں کہہ سکتا ہوں کہ ہر عادل کا جواب نفی میں ہو گا۔
اور وہ خود کیا تھیں تمام دنیا میں تمام جہا ں کے خواتین کی سردار تو عقبیٰ میں جنت کی خواتین کی سر دار۔ جن کے اخلاق کے بارے میں وہی حضرت عا ئشہ فرماتی ہیں جو ان کے والدِ محترم (ص) کے بارے میں فر ماچکی ہیں کہ انکا خلق قر آن ہے ۔ اب فر ماتی ہیں کہ وہ بالکل عادات و اطوار میں اپنے والد ِ محترم کی (ص) طرح تھیں ۔ حتیٰ کہ ان کی چال بھی حضور (ص) کی طرح تھی۔
اسم مبارک ۔ان کو اسم مبارک بھی فاطمہ عطا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ ابھی شیر خواری کے مر حلہ میں داخل ہی ہوئی تھیں کہ یہ بے نیازانہ نام عطا ہوا ۔جس کا ترجمہ( معصومہ) بھی ہو سکتا ہے۔ جو کہ لفظ ِ فطم سے بنا ہے جس کے معنی ہیں وہ شیر خوار بچہ جس کا دودھ چھڑا دیا گیا۔ اور آپ سب جانتے ہیں کہ دودھ چھڑانے کے مر حلے میں بچےمیں دونوں خو بیاں ہو جاتی ہیں ۔کہ مصومیت ہنوز باقی رہتی ہے اور وہ عقل سے بھی رو شناس ہو چکا ہوتا ہے۔ اور آپ آگے چل کر پڑھیں گے کہ وہ اپنی پیدا ئش سےوصال تک ان دونوں خصلتوں سے آراستہ رہیں ۔ بعض سیرت نگاروں نے اس کے معنی برا ئی سے رک جانے کے بھی لیئے ہیں۔ اسی کی وجہ وہی ہے کہ عربی میں دودھ پینے سے روکدیئے جانے والے بچے کو فطیم کہتے ہیں ۔
کنیت ااُم ِ محمدتھی۔ اور القابات بہت سے تھے چند ہم یہاں پیش کر نے کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔
بتول ۔ جس کے معنی ہیں کہ اپنے زمانے کی تمام خواتین میں سب پر فضیلت یافتہ ، دین وجمال میں سب سے جد ااور اللہ تعالیٰ کے سوا سب سے بے نیاز ۔
زہراء۔ مثل جنتی خواتین کے دنیاوی آلا ئشوں سے پاک اور اسی خوبی کی وجہ سے کبھی آپکی نماز قضا نہیں ہو ئی اسی لیئے یہ لقب پایا ۔
راضیہ ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول (ص)کی رضا پر خوش تھیں اور وہ ان سے راضی تھے۔
سیدہ النساءالعالمین ۔ اس لیئے کہ وہ تمام جہا ں کی خواتین کی سردار ہیں ۔
سیدة النساءاہل ِ الجنتہ۔ وہ تمام جنت کی خواتین کی بھی سر دار ہیں ۔
زاکیہ ۔ اس لیئے کہ وہ پیدا ئشی زاکیہ تھیں یعنی نہایت اعلیٰ اخلاق، کردار اور عادات کی مالک ۔
طاہرہ پاکباز ہو نے کی بنا پر کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے القابات ہیں ۔
ان کی پیدائش سے پہلے کے حالات ۔
یہ وہ دور تھا کہ دنیا مادیت میں ڈوبی ہو ئی تھی اور کمزوروں کے حقوق غصب کرنا ہر ایک اپنا حق سمجھتا تھا۔ ایسے میں ان کی پیدا ئش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو بھوکوں کو کھانا کھلاتا تھا اور مسکینوں کی اس حد تک اعانت کر تا تھا کہ جس کا ثانی نہ تھا۔ لہذا ان کی طبعیت میں عام لو گوں کے بر عکس قناعت اور سخاوت پیدا ہو گئی تھی ۔ وہ عام خوا تین کی طر ح نہ کبھی والد سے ضد کرتی تھیں اور نہ شوہر سے۔اور ان کی یہ روش اس وقت تک باقی رہی جب تک کہ انہوں نے اس دنیا میں اپنا آخری سانس لیا۔ یہاں بھی حضرت خدیجہ الکبرا یٰ (رض) کی تربیت کار فر ماتھی جو ان کے ذہن میں انہوں نے بچپن سے بٹھا دی تھی۔ جبکہ ان کے آخری دور میں، زمانہ بدل چکا تھا۔
ایک مر حلہ وہ بھی آیا کہ امہات المونین نے بھی مطالبہ شروع کر دیا کہ ان کا روزینہ بڑھاد یا جا ئے؟ جس کی پوری تفصیل قر آن ِ پاک میں موجود ہے۔ جس کی وجہ سے کچھ عرصہ تک حضور (ص)نے ان سے قطع تعلق کر لیا ۔ حتیٰ کہ اللہ سبحانہ نے ان کو صاف صاف ارشاد فر مادیا کہ اگر تم اس پر را ضی ہو جس پر نبی (ص) راضی ہیں تو رہ سکتی ہو، ورنہ نبی (ص) کو حکم دیا کہ جو جانا چاہیں ان کو کچھ دے دلاکر رخصت کردو۔
ایک ایسا ایک مرحلہ حضرت ِ بتول کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے؟ کہ انہوں نے اپنے والدِ محترم کو ہاتھوں میں چکی پیسنے سے پڑے ہو ئے ڈھٹے دکھا کر عرض فر مایا کہ مجھے اب بہت تھکن ہو جاتی ہے، لہذا آپ سب کو غلام اور لونڈیاں بانٹ رہے ہیں، ایک مجھے بھی عنایت فر مادیجیے! حضور (ص) بیٹی کے ہاتھ غور سے دیکھتے ہیں اور فر ماتے ہیں کہ بجا ئے لونڈی عطا کرنے میں تمہیں تھکن دور کر نے کی وہ تسبیح نہ عطا کردوں کہ جس سے تمہیں آئندہ نہ صرف تھکن نہ ہو ،بلکہ قیامت تک امت کے لیئے ثواب اور قربِ خدا حاصل کر نے کا ذریعہ بن جائے۔معصومیت انہیں یہاں تک لے آئی تھی شوہر بھی ہمراہ تھے۔ مگر اب امت کی خیر خواہی غالب آگئی اور انہوں نے اوروں کی طرح ضد نہیں فر مائی اور ٣٤مرتبہ اللہ اکبر ، ٣٣مرتبہ الحمد للہ اور ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ کی تسبیح لے کر خوشی خوشی واپس تشریف لے آئیں جوکہ ان ہی کے نام سی موسوم ہے اور تمام فرقے بلا تفریق پڑھتے ہیں اور قیامت تک پڑھتے رہیں گے
کسی کوحضرت سیدہ کا ساگھرانا نہ آج تک ملا ہے نہ ملے گا۔ اب آگے بڑھتے ہیں ۔
ولادت ِ با سعادت۔ تاریخ اسلام میں تمام چیزوں کی طرح اس پر بھی ا ختلاف ہے کہ سن ِ پیدا ئش کیا تھی؟ شکر ہے کہ اس پر اتفاق ہے کہ تا ریخِ پیدا ئش کیا تھی۔
ایک روایت یہ ہے کہ انکی پیدا ئش بعثت سے ایک سال پہلے ہو ئی دوسری یہ ہے کہ اعلان ِ بعثت کے پہلے سال جماد الثانی میں ہو ئی ۔ جبکہ حضرت عبد الحق (رح)محدث دہلوی نے بعثت سے پانچ سال پہلے لکھی ہے۔ جبکہ حضور (ص)کی عمر ِ مبارک ٣٥ سال تھی اور یہ وہ سال تھا جبکہ قریش کعبہ میں دراڑ پر جانے کی وجہ سے اس کی مر مت میں مصروف تھے۔ حضرت ابن ِ سعد (رح) نے بھی اسی پر اتفاق کیا ہے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ حضور (ص) کے ظاہری وصال کے وقت ان کی عمر اٹھا ئیس یا انتیس سال تھی اس حساب یہ روایت صحیح ہے۔ان کے علاوہ صاحب ِ روضة شہدا نے لکھا ہے کہ جماد الثانی کی بیس تاریخ کو بعثت کے ایک سال کے بعد ان کی ولادت ہوئی انہوں نے ولادت کی مزید تفصیلات بھی فرا ہم کی ہیں ۔
انہوں نے تحریر کیا ہے کہ “ان خاتون کا جن کے ایک شا رہ پر تمام مکہ کی خواتین جمع ہو جا یا کرتی تھیں ، آج کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ وہ تنہا تھیں ۔ اور مکہ کی تمام خواتین نے با ئیکاٹ کر رکھا تھا کہ کوئی ان کی اس وقت ِ خا ص میں اعانت نہ کر ے۔کیونکہ انہوں (رض) نے محمد (ص) کے ساتھ شادی کرلی تھی اور اپنا تمام اثا ثہ بھی اسلام پر نچھا ور کر دیا تھا۔ لہذا ان کے نزدیک یہ اتنا بڑا جرم تھا جو کہ نا قابل ِ معافی تھا۔ جب وہ ہر طرف ما یوس ہو جاتی ہیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ چار اجنبی دراز قدخواتین ان کے گھرمیں موجود ہیں، انہیں خوف محسو س ہوا۔ تو ان سے پو چھا تم کون ہو اور کیوں آئی ہو ؟ انہوں نے ہاشمی خواتین کے لہجہ میں جواب دیا کہ ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے آپ کی مشکل آسان کر نے کے لیئے بھیجا ہے۔میں سائرہ زوجہ ابرا ہیم علیہ السلام ہوں اور یہ میرے ساتھ مریم بنت ِ عمران ہیں اور یہ جناب ِ کلثوم خواہر ِ مو سیٰ اور یہ ان کے ساتھ آسیہ زوجہ (رض)فرعون ہیں ۔ انہوں نے حضرت خدیجہ (رض)کی مدد فر مائی اور حضرت سیدہ صلواہ اللہ علیہا اس دنیا میں تشریف لا ئیں “مگر یہاں کچھ مورخین اس پر معترض ہیں کہ چلیں عام قریش خوا تین نے با ئیکاٹ کیا ہوا تھا وہ نہیں آئیں۔ مگر وہ خواتین جو کہ ایمان لے آئی تھیں وہ اس وقت کہا ں تھیں ؟ ہم نے یہاں پورا واقعہ جو تا ریخ میں ملتا ہے قلم بند کر دیا۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ کو ئی روایت قلم بند ہو نے رہ جا ئے۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ وہ بھی موجود رہی ہونگی ،مگر جو نہیں آئیں وہ شاید دایہ گیری میں زیادہ ماہر ہو نگی جس کی وجہ سے ان کے نہ آنے کو حضرت خد یجہ (رض) نے اس زیادہ محسوس فر مایا۔
ان کی پیدا ئش شروع سے ہی معجزہ نما تھی۔ آگے حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض)کے زبانی ہی ایک دوسری روایت ملتی ہے جس میں وہ فر ماتی ہیں کہ شروع دن سے مجھے جب احسا سِ حمل ہو ا تو مجھے جنتی خو شبو محسوس ہو تی تھی اور ایک روا یت حضور (ص) سے بھی منسوب ہے کہ وہ ہمیشہ حضرت سیدہ کے بالوں کو سونگھا کرتے تھے اور فر ما تے تھے کہ ان میں سے مجھے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ جب پیدا ئش کا مر حلہ ختم ہوا تو ان کو حضرت خدیجہ (رض) کی گود میں ان خواتین نے دیدیا۔اور بقول مورخین کے ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے چاند نکل آیا ہو ۔ اتنے میں حضور (ص) بھی تشریف لے آئے اور ان کو گود میں اٹھا لیا اور پیشانی کو بو سہ دیا اور نام فاطمہ رکھا۔ یہ تاریخ ٢٠ربیع الثانی تھی، مگر سن یہاں کچھ مورخین نے بجا ئے عربی کے عیسوی استعمال کیا ہے جو کہ ٦١٥عیسوی ہے۔ جبکہ ربیع الثانی اس سن کا مہینہ ہے جو کہ اس وقت عرب میں رائج تھا ۔
سن میں اتنا اختلاف کیوں ہے اس کی وجو ہات یہ ہیں ۔ حضور (ص) کی پیدا ئش سے چارسو سال پہلے سے ایک کیلینڈر عرب میں را ئج تھا جو قمری سن کہلا تا، مگر اس کو شمسی سال کے برابر رکھنے کے لیئے ہر تین سال کے بعد ایک سال وہ لوند کا ربڑھاکر تیرہ مہینہ کا کر لیتے اور اس طرح سال برابر دونوں قسم کے سال پھر برابر آجاتے تھے۔ جبکہ مہینے اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے تھے ۔ اور مہینوں کے نام ان کے موسمی خو اص کے حساب سے رکھے ہو ئے تھےجیسے کہ رمضان انتہائی گرم مہینہ تھا جس میں لوگ دن کو سوتے تھے اور کاروبار زندگی رات کو انجام دیتے تھے۔ مہینے تو وہی اسلام آنے کے بعد بہت معمولی تر میم کے ساتھ را ئج رہے، مگر سن کا معاملہ یہ ہوا کہ حضور (ص) کے آخری دور میں سورہ تو بہ میں وہ آیت نازل ہوگئی ۔جس میں حکم ہوا کہ سال، ہمیشہ لیے بارہ مہینے کا کیا جا ئے لیکن۔ اس کے بعد حضور (ص)وصال فر ما گئے اور مسلمان بغیر کلینڈرکے مختلف روایات کے مطابق گیارہ یا سولہ سال تک رہے اس کے بعد حضرت عمر (رض)کے دور ِ خلافت میں سن ہجری رائج ہو ا جبکہ اس دوران مہینے گر دش کر تے رہے۔ یہ بھی ایک وجہ در اصل روایات میں اختلاف کی ہے۔ویسے بھی نصب کے ماہرین وہا ں پر تاریخ ِ پیدائش اور وفات وغیرہ زبانی یا د رکھتے تھے اور ان کی یاداشت میں جو اختلاف عام تھا،وہ بشریت کا تقاضہ تھا۔
اس کا مزید ثبوت ایک اور بھی ملتا ہے کہ ایک مورخ نے ہجرت کے وقت ان کی عمر اٹھارہ سال اور آٹھ ماہ لکھی۔ لہذا ہمارے خیال میں ان کی پیدا ئش بعثت سے پانچ سال پہلے ہی درست ہے۔واللہ عالم۔
کنیت ام ِ محمد۔ہم نے پہلی مرتبہ جب یہ کنیت تا ریخ میں پڑھی تو بہت حیرت ہو ئی اس لیئے کہ جہاں تک ہمارے علم تھا ان کی کو ئی اولاد اس نام کی نہ تھی؟ تجسس پیدا ہوا اور تا ریخ کو کھنگا لاتو پتہ چلا کہ یہ کنیت بھی ان کو حضور (ص) نے عطا فر مائی ہےاور اس کی نسبت حضور (ص) کی طرف اس لیئے ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن سے لیکر حضور (ص)کے وصال تک ایک ماں کی طرح اپنے والد کی ہر طرح نگہداشت اور اعانت فر مائی۔ میرے خیال میں تا ریخ میں کسی باپ کی طرف یہ واحد خراج ِ تحسین ہے جو کنیت کی شکل میں حضور (ص)نے اپنی صاحبزادی کو عطا فر مایا۔ اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ کس قدر حضور (ص) کا خیال فر ماتی تھیں اور اسی لیئے حضور (ص) ان کا بے انتہا احترام فر ماتے تھے۔
ابن ِ کثیر (رح) نے کئی حوالوں کے ساتھ تحریر کیا ہے کہ ان کو یہ بھی فخر حاصل ہے کہ انہوں نےصرف اپنی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض)کا دودھ پیا اوران کو دوسرے بچوں کی طرح دایہ کے سپرد نہیں کیا گیا اور وہ کسی کی دودھ شریک بہن نہیں بنیں۔ اس کی وجہ کچھ مورخین نے یہ لکھی ہے کہ اب حضرت خدیجہ الکبریٰ ایک مالدار خاتون نہیں رہیں، تھیں کیو نکہ وہ اپنی تمام دو لت ر اہِ اسلام میں خرچ کر چکی تھیں ۔ بہر حال وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر یہ فخر انہیں حاصل ہے کہ اس میں بھی ان کا ہم سر نہ تھا۔ دوسرے وہ پہلی بچی تھیں جو دوران ِ نماز حضو ر (ص)کے شانہ مبارک یا پشت ِ مبارک پر سوار ہو جاتیں اور حضور (ص) ان کو ایک ہاتھ سے یا تو اتار دیتے یا اگر سجدے میں ہو تے تو اس وقت تک توقف فر ماتے جب تک کہ وہ واپس فر ش پر نہیں آجا تیں، ان کے بعد یہ ہی فخر جنا ب حسنین (رض) کو حا صل ہوا، لہذا ان کی اس فضیلت میں بھی ان کے اور ان کے بچوں کے سوا کوئی اور شریک نہیں ہے۔
تر بیت۔ چونکہ وہ شروع سے ہی اپنی والدہ کے زیر ِ تر بیت رہیں۔ لہذا انہیں تر بیت کے لیئے گھر انہ ایسا ملا جس میں ہر وقت قر آن کاچر چا تھا جس گھر میں کسی لمحہ بھی حضرت جبرئیل (ع) کی آمد ورفت متوقع رہتی تھی۔ سایہ پدری ایسا ملا جو کہ رحمت اللعالین (ص) تھے جن کو اس عالم میں ہی نہیں بلکہ اس عالم میں بھی فضیلت حا صل ہے۔ گوداس ماں کی ملی جو (رض) کہ دنیا کی چند منتخب خواتین میں ایک تھیں ۔ہر وقت ان کی کو شش ہو تی کہ اس ننھے سے ذہن میں وہ تمام علم وحکمت ڈا لدیں جو انہیں حضور (ص) کی طویل ترین رفاقت میں رہتے ہو ئے حا صل ہوئی ۔ وہ ان کو ان قر آنی آیتو ں کی تفسیر جو حضور (ص) سے معلوم ہو تی، بجا ئے لوری، قصے کہانیوں کے سنا یا کر تیں اور اگر کبھی بھولے سے کوئی قصہ سناتیں بھی تو وہ بھی قر آنی ہو تا۔ لہذا جن کے والدِ محترم بے مثال ہو ں، اور والدہ محترمہ بھی بے مثال ہو ں ،توجو بچی اس ما حول میں پر ورش پا ئے گی اس کو بھی بے مثال ہو نا چاہیئے تھا جو وہ تھیں۔ لہذا اس میں کو ئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ بے مثال کیوں بن گئیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ بعض زمینوں کو بعض مقامات کو اور بعض پہاڑوں کو چن لیتا ہے۔ جیسے کہ وادی ِطور۔ مکہ معظمہ اور جبل رحمت وغیرہ، اسی طرح بعض نسلو ں کو بھی چن لیتا ہے اور ان میں وہ خصو صیات ودیعت فر ما دیتا ہے جو عام لو گوں میں نہیں ہو تیں ۔جیسے کہ پہلے تمام انبیا ئے کرام (ع)حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوئے۔ چونکہ مشیت الٰہی کار فرما تھا یہاں بھی وہی معاملہ تھا کہ نبوت کو ختم ہو نا تھا اور اللہ کو اس کا بدل پیدا کر نا تھا ، جسے آگے چل کر تبلیغ کا فریضہ انجام دینا تھا۔اس کے اہل ِ بیت منتخب ہوئے یعنی ولا یت بوجھ اللہ کوان کے کاندھوں پر ڈالنا تھا، لہذا اہل ِ بیت کو منجانب اللہ سبحانہ تعا لیٰ وہ فضیلت ملی کہ حضرت فا طمہ الزہراء بے مثال بن گئیں۔ پھر ان کو شوہر بھی حضرت علی کرم اللہ وجہ جیسا صاحب ِ ولایت اور بے مثال ملا۔ آگے چل کران دونوں کی تربیت نے دنیا کو حضرت حسن جیسے مدبر اور حضرت حسین جیسے بہادر اور سر فروش ، حضرت زینب جیسی مقر ر اور شیر نی صفت بیٹی عطا فر مائی( سلام اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین ) عطا فر مائے، جو نہ یزید کی فوج سے متاثر ہو ئے اور نہ اس کے دربار سے۔
یہ در اصل حضرت خدیجہ الکبریٰ کی تر بیت کا لازمی نتیجہ تھا کہ جو جوہر پہلے ان میں تھا ، پھر انہوں نے اپنی اولاد کو منتقل فر مادیا۔
ان کی فطرت کا اندازہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کو ان کے بچپنے میں ہی ہو گیا تھا۔ ابھی وہ چھ سال کی بچی تھیں اور قبیلے میں کو ئی شادی تھی حضرت خدیجہ الکبریٰ نے سو چا کہ بچہ ہیں کہیں دوسروں کو زر ق برق لباس میں دیکھ کر احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہو جا ئیں یا ضد نہ کر یں۔ انہوں نے ایک دور اندیش ماں کی طرح رواج کے مطابق چند چاندی کے گہنے اور اچھے کپڑے تیار کروا رکھے، مگر جب وہ دن آیا اور ان کو پہنا نا چا ہا تو انہوں نے یہ فر ماکر انکا ر کر دیا کہ مجھے سادے کپڑے جو آپ اور وا لدِ محترم پہنتے ہیں وہی اچھے لگتے ہیں ۔ اس کے آگے مورخین نے تو کچھ نہیں لکھا، مگر مجھے یقین ہے کہ وہ بھی خیرات کر دیئے ہونگے اور کسی ضروتمند کے کام آئے ہونگےاس لیئے کہ ان کا وطیرہ ہی بھوکوں کو کھانا کھلانا ، اور حاجت مندوں کی حاجت پوری کر نا تھا۔
اس کے بعد ایک اور واقعہ نے اس پر مزید مہر ِ تصدیق ثبت کر دی کہ فراست میں بھی، ماں سے بیٹی کم نہیں ہے کہ جس کو تمام رو ساءکے پیام آئے مگرماں نے رد کر کے ایک درِ یتیم کو چنا ، جس کے پاس رہنے کے لیئے گھر، اور پاس میں پھوٹی کو ڑی بھی نہ تھی۔
آگے چل کر بعد میں بیٹی نے بھی جن کے بڑے بڑے لوگ اب پیغمبر (ص) کی بیٹی ہو نے کی وجہ سے خواہشمند تھے انہوں نے بھی والدِ محترم کی خواہسش پر جن کی ہر خواہش در اصل اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خواہش ہوتی تھی ، انکے استفسار کر نے پرحضرت علی کرم اللہ وجہ کے حق میں رائے دیکران کو چنا جو کہ تمام خصائل میں ویسے ہی تھے۔
بچپن میں ہی ان کی فراست کا ثبوت ایک دوسرے واقعہ سے بھی انہیں جلد ہی مل گیا کہ ایک دن وہ حسب دستور اللہ اور رسول (ص)کے قصے سنا رہی تھیں کہ اسی چھ سالہ بچی نے سوال کیا اماں ! آخراللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا ؟(جبکہ ہما را گھرانا اس کے اتنا قریب ہے) ماں کو یہ سوال سن کر پہلے تو خو شگوار حیرت ہو ئی کہ ایک معصوم بچی کہ ادراک کا یہ عالم ؟ پھر انہوں جواب دیا کہ بیٹا وہ قیامت کے دن اپنے ان بندوں کو اپنے دیدار سے نوازے گا جو یہاں پر اس کے راستے پر چلیں گے اور بچی یہ جواب سن کر مطمعن ہو گئی اور اس طرح انہوں نے بچپن سے ہی وہ لگن جناب ِ فا طمہ (رض)میں جگا دی جو کہ بعد میں ان کی زندگی کاحصہ بن گئی۔
بچپن کے بعد جب انہوں نے ذرا ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ ان کے خاندان کا تمام مکہ دشمن ہے ان کے والد ِ محترم کو لوگ طرح طرح سے تنگ کر رہے ہیں ۔ وہ سڑک پر چلتے تو لوگ آوازے کستے، محلے کے بچوں کو ان کے پیچھے لگا دیتے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ، جو ان کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔ان کا بڑوں پر تو زور نہ چلتا مگر بچوں کی وہ پٹائی کر د یا کر تے ۔ یہ اپنے ننھے منے، ہاتھوں سے کبھی حضور (ص)کے اوپر پھینکی گئی غلا ظت صاف کرتیں، تو کبھی زخم دھو تیں اور کبھی کفار کے منصوبوں کو ان سے سن کر اپنے والد کے گوش گزار فر ما تیں ۔ ایک دن قریش کے کچھ سردار منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ حضور (ص) کونقصان پہو نچا یا جا ئے ! انہوں نے ان کی با تیں سن لیں اور جا کر حضور (ص) کو بتا دیا۔ اس کا تدارک کر لینے کی بنا پر حضور (ص)ان کی شرارتوں سے محفوظ رہے ۔
دوسرا اہم واقعہ جو تا رخ میں مشہو ر ہے وہ یہ ہے کہ ابو جہل ملعون نے ابی معیط سے کہاکہ تم کہیں سے اونٹ کی اوجھڑی لاکر محمد (ص) کے اوپر ڈالدو جو اس وقت سجدے کی حالت میں تھے ۔ یاد رہے حضور (ص) کے سجدے بڑے طویل ہوا کر تے تھے اور اس وقت انہیں کو ئی احساس بھی نہیں ہو تا۔ لہذا وہ گیا اور غلاظت لا کر ان پر ڈالدی ،مگر ان کو خبر بھی نہ ہوئی ۔ جب حضرت فا طمہ نے دیکھا تو انہوں نے اپنے ننھے ہا تھوں سے ہٹایا اور ان کو برا بھلا کہا ۔پھر والد کے جسم اطہر کو دھو یا۔
کچھ اور بڑی ہو ئیں تو اکثر وہ حضرت زید کے ساتھ اپنے والد محترم کے لیئے کھانا لے جا یا کرتیں ،جو کئی کئی دن غار ِ حرا میں مقیم رہتے اور واپس آکر والدہ کووالدِ محترم کی خیریت پہونچا تیں اور اس طرح ان کی طمانیت کا باعث بنتیں۔اس لیئے کہ ایک بیٹی سے زیادہ کون باپ کی حالت جان سکتا ہے۔
لہذا جہاں وہ ایک بیٹی کی طرح نگہداشت اور ضروریات کا خیال رکھتیں وہیں وہ ایک بیٹے طرح غار میں کھانا بھی پہونچا تیں اور والد ِ محترم کی خبر ماں کو اور ما ں خیریت والدِ محترم (ص) کو پہونچا تیں ۔ اب آ گے بڑھتے ہیں ۔ غر ضیکہ ان کا بچپن اس طرح گزرا جو کہ عام بچوں سے قطعی مختلف تھا اور ان کے ساتھ یہ ہمیشہ ہی ہو تا رہا ہےکہ جو وقت بھی آیا ان کے لیئے ایک نئی افتاد منتظر تھی، جیسا کہ آپ آگے چل کر پڑھیں گے۔ جس طرح والد ِ محترم سب نبیوں (ع) میں سب سے زیا دہ آزما ئے گئے اسی طرح خاتون ِ جنت بھی تمام پا کیزہ خوا تین میں سب سے زیادہ آزما ئی گئیں ۔کسی شاعر نے سچ کہا ہے “ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔
حضور نے(ص) جب یہ دیکھا کہ قریش کا ظلم حد سے بڑھ گیا ہے تو انہوں نے صحابہ اور صحابیات (رض) کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت مر حمت فر مادی اور جتنے آزاد صحابہ (رض) جاسکتے تھے وہ حبشہ چلے گئے، ان میں حضرت عثمان (رض) اور ان کے اہلِ خانہ بھی شامل تھے ۔ حضرت ابو بکر (رض)بھی روانہ ہو ئے مگر ان کو را ستہ سے ایک قریش سردار واپس لے آئے ۔
تب وہاں مہا جرین کی آ باد کاری روکنے کے لیئے قریش نے حبشہ اپنا ایک وفد بھیجا اور وہاں بھی اس کو حضور (ص) کے خلاف بہکانے کی کوشش کی، جو حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب کی بے مثال وکلا لت کے سامنے بری طرح ناکام ہوگئی، بلکہ الٹا نجا شی نے حضور (ص) کے منجانب اللہ رسول ہو نے کی تصدیق کردی۔اس طرح جب ان کی تمام ریشہ دوانیاں ناکام ہو گئیں۔ اور نجاشی نے بھی انہیں بے عزت کر کے اپنے دربار سے نکال دیا۔
تو انہوں نے حضور (ص) اور بچے ہو ئے صحابہ کرام (رض) کےلئے مکہ کی زندگی اب اور بھی تنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔
حضور (ص) کے اہل وعیال اور حضرت ابی طالب اور ان کے خاندان اور دیگر صحابہ کرام(رض) کوشہر چھوڑ نے پر مجبور کر دیا گیا۔
ان کے ظلم کی وجہ سے باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ جو بچے ہو ئے لوگ ہیں وہ ایک جگہ جمع ہو جائیں تاکہ دفاع میں آسانی ہو اور سامانِ خورد و نوش بھی دوسری جگہوں سے حاصل ہو سکے۔ لہذا وہ مکہ سے باہر شعب ِ ابی طالب میں منتقل ہو گئے تاکہ وہ نہ صرف محفوظ رہیں بلکہ باہر رہ کر اپنی ضروریات زندگی بھی حاصل کر سکیں لہذا جناب ِ سیدہ (رض) بھی اپنے والدہ اور والد ِ محترم کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئیں ۔ کیونکہ قریش نے، ایک معاہدے کے تحت حضور (ص)اور ان کے حمایتو ں کا مکمل بائیکاٹ کردیا تھا اور اس دست آویزکو کعبہ کی چھت پر آویزاں کر دیا تھا جس میں یہ طے کیا گیا تھاکہ بنی عبد المطلب کے وہ لوگ جو حضور (ص)کے حامی ہیں ان سے کوئی کسی قسم کا تعلق، لین دین، نہ رکھے اور ان سے رشتے وغیرہ نہ کئے جائیں۔
حتیٰ کہ ابولہب نے تو اپنے بیٹوں کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی بیویوں کو بھی طلاق دے ۔ بد بختوں نے جو عہد نامہ تیار کیا تھا اس میں یہ شرائط تھیں کہ جب تک محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے نئے دین سے تائب ہو کر، وہ خوداور انکے ساتھی اپنےباپ دادا کے دین پر عامل نہ ہو جائیں ،اس وقت تک ان لوگوں سے نہ کسی قسم کا تعلق رکھا جائے اور نہ ہی خرید و فروخت کی جائے، نہ ہی رشتے کئے جائیں اور نہ رشتے دئے جائیں۔ اور اس عزم کو دہرایا گیا تھاکہ ہم میں سے کوئی بھی اور کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرے گا۔ مگر یہ ان کا عہد نامہ تھا اور اﷲتعالیٰ کا اپنا منصوبہ تھا ۔ دنیا نے دیکھا کہ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر جو جنگوں میں واصل ِ جہنم ہو ئے باقی سب نے بعد میں نہ صرف اسلام قبول کر لیا، بلکہ اقتدار پر بھی قابض ہو کر اول المسلمین سے بھی بہ زعم ِ خود مرتبے میں آگے نکلنے کے خودداعی بن گئے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بندے کو منہ سے کچھ نکالنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچ لیناچاہیئے۔
مگر یہاں بھی انہوں نے جان نہیں چھوڑی بلکہ ہر وقت محاصرہ کیئے رہتے۔ان کی شقاوت کا یہ حال تھا کہ شعب ابی طالب میں بچے بھوک سے اس طرح بلکتے تھے کہ انکی آوازیں دور دور تک سنائی دیتیں ، مگر ان کے دل نہیں پسیجتے۔ وہ شعب ابی طالب کے قریب کھڑے نگرانی کرتے رہتے تھے کہ کوئی چیز وہاں نہ پہونچنے پائے۔ اس طرح کافی عرصہ محاصرے کی حالت میں گزر گیا بعض مورخین تین سال سے لیکر سات سال تک لکھا ہے واللہ عالم۔ مگر یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ وہ ایک طویل عرصہ تھا۔ اور نوبت یہاں تک پہو نچ گئی تھی کہ محصورین روزے پر روزے رکھتے ۔ اور اکثر گھاس پتوں اور پر گزارا کرتے۔ بلکہ بھوک میں سوکھے چمڑے تک چبا جا تے۔ اس سے حضرت سیدہ کی سیرت میں اور بھی نکھار پیدا ہوا کہ وہ اور بھی صابر اور شاکر ہو گئیں اور اکثر روزے سے رہتیں جس کا سلسلہ ان کی زندگی کے آخری دنو ں تک چلتا رہا۔
ایک دن خدیجہ الکبریٰ (رض) کے بھتیجے حکیم بن حزام اپنے ایک غلام کے ہمراہ اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ (رض) کے لئے شعب ابی طالب میں کھانا لے جا رہے تھے کہ ابو جہل نے روکا اور ان سے کہا کہ وہ ہر گز کھانا نہیں لے جانے دے گا، بلکہ انہیں دھکے مارتے ہوئے واپس مکہ لے جائے گا۔ دریں اثناءان کے ایک رشتے کے چچا ابو الخیر بن حارث وہاں آ گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ماجرا ہے؟ جناب ِحکیم نے بتایا کہ میں پھوپھی کے لئے کھانا لے جارہا ہوں، مگر ابو جہل مزاحمت کر رہا ہے۔ اس کو انہوں نے سمجھانا چاہا مگر ابو جہل اڑ گیا کہ چاہے جو کچھ بھی ہو جائے مگر میں شعب ابی طالب میں کچھ نہیں لے جانے دوں گا۔ یہ سن کر ابو الخیر بھی طیش میں آ گئے اور انہوں نے اس کی داڑھی پکڑ لی ، اور پھر ان سے کہا تم کھانا لے جاؤ میں اسے دیکھتا ہوں؟
اصل میں جو لوگ باہر رہ گئے تھے اور محصورین سے رشتہ داریاں رکھتے تھے ان کے دلوں میں اپنے عزیزوں کے لیئے نرم گوشہ موجود تھا اور وہ چاہتے تھے کسی طرح صلح صفائی ہو جا ئےمگر مشکل یہ تھی کہ حضور (ص )کے لیئے تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ایک قدم بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ سکیں ،دوسری طرف کفار کی کمزوری یہ تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ جتنی وہ مخالفت کر رہے ہیں اتنا اسلام پھیلتا جا رہا ہے لہذا وہ نہیں چاہتے کہ حضور (ص) کو مزید تبلیغ کا موقعہ ملے جب کہ حضور (ص)یہاں سے بھی ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہمیشہ طرح محاصرے سے باہر تشریف لے جاتے اور کسی نہ کسی قبیلے میں جاکر تبلیغ فر ماتے رہتے ۔ اتنے میں حضرت حمزہ (رض) باہر نکل آئے اور انہوں بھی حکیم کی مدد کی اور وہ کھانا پہوچا نے میں کامیاب ہو گئے ۔
اسی طرح اور بھی بہت سے لوگ تھے جو اپنے رشتہ داروں کو کھانا وغیرہ پہونچا تے تھےاور جو کچھ کہیں سے مل جاتا تو حضو(ص) راشن بندی فرمادیتے تاکہ سب کو کچھ نہ کچھ مل جا ئے۔
انہیں ھمدردوں میں ایک صاحب عمرو بن باشم بھی تھے ان کی کوششوں سے بنو عبد المطلب کے ہمدرد اٹھ کھڑے ہو ئے اور انہوں نے سوائے ابو جہل اور ابو لہب کے باقی سرداروں کو تیار کرلیا۔کہ وہ عہد نامہ چاک کر دیا جا ئے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کو چاک کیسے کیا جا ئے جب تک کہ تمام سر دار متفق نہ ہوں ۔ تب حضو (ص) نےبتا یا کہ اس کو چاک کر نے کی ضرورت ہی نہیں ہے اس لیئے کہ اب سوائے میرے نام کے اس کو ڈیمک چاٹ چکی ہے، اور جب کھولا گیا تو واقعی سوائے نامِ گرامی (ص) کے اور کچھ اس میں لکھا ہوا موجود نہ تھا ۔ حضور (ص)کے اس معجزاتی انکشاف نے انہیں اور بھی حیرت میں ڈالدیا۔
اس طرح حضرت سیدہ اور ان کے خاندان کا با ئیکاٹ ختم ہوا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ جا ئیں تو جائیں کہاں کیونکہ حضرت خدیجہ والے مکان پر ابو سفیان نے قبضہ کر رکھا تھا اور حضور (ص) کے آبائی مکان پر ابو لہب نے۔ یہ ہی حالت دوسرے اہل ِ خاندا ن کی بھی تھی
شعب ابو طالب سے حضرت فا طمہ الزہراء سلام اللہ علیہااپنے والدین کے ہمراہ واپس مکہ معظمہ تشریف لے آئیں ۔ مگر صورت حال یہ تھی کہ حضور (ص) کے دونوں مکانو ں پر دشمنو ں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ کسی جا نثار نے اپنے گھر میں پنا ہ دی اور حضور (ص) نے دوبارہ زندگی شروع فر ما ئی ۔ اب آگے بڑھتے ہیں ۔ ابھی کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے ۔ حضرت فا طمہ الزہراء (رض) کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض) شدید علیل ہو گئیں ۔ در اصل ان کو عمر رسیدگی میں مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ نے نڈھال کر دیا تھا۔اور اب وہ نقا ہت رنگ لا رہی تھی ۔ یا د رہے کہ وہ حضور (ص) سے عمر میں بہت بڑی تھیں ۔ یہ صدمہ دونوں مثا لی ماں اور بیٹیوں کے لیئے ایک بڑا امتحان تھا۔ حضرت خدیجہ الکبری (رض) جو سب کچھ اپنا اسلام پر تج چکی تھیں ہر طرح مطمعن تھیں کہ انہیں یقین تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے ۔مگر جب چا روں طرف دشمنوں کی سازشیں ہوں تو بیٹی کو اکیلا چھوڑ تے ہو ئے دل گھبرا رہا تھا۔ اس لیئے کہ حضور (ص) تو تبلیغ کے لیئے چلے جا ئیں گے اور علی جو کہ ان کے سا ئے کی طرح ساتھ لگے رہتے ہیں، وہ بھی ساتھ ہو ں گے۔ تو گھر پر تنہا حضرت فا طمہ (رض)کی نگہداشت کون کر ے گا وہ اکیلے گھبرا ئیں گی ۔
کیو نکہ جہاں تک حفا ظت کا خیال تھا تو اس کے لیئے انکا پریشان ہو نا ہما رے دل کو اس لیئے نہیں لگتا کہ ان سے اللہ پر بھروسہ کر نے والا حضور (ص) کے بعد کون ہو سکتا تھا۔ یہاں ایک مورخ نے بہت ہی عجیب و غریب وجہ بتا ئی ہے کہ وہ اس وجہ سے پر یشان تھیں کہ “شادی کی رات کے بارے میں ماں بیٹی کو ہدا یات دیتی ہے، میں نہیں ہو نگی تو کون دے گا؟ تو حضرت اسما ءبن عمیس نے انہیں یقین دہا نی کرا ئی کہ میں ایک ما ں کی طرح ان کی دیکھ بہال کرونگی “( حوالہ کے لیئے ملا حظہ فرما ئیں ً فاطمہ دی گریشیس از ابو محمد اُردنی صفحہ نمبر ایکسو چار، پبلشر انصاریان پبلیکیشن قم ایران)۔ یہ بات بھی ہما رے دل کو نہیں لگی اس لیئے کہ وہ اس وقت مو جود ہی نہیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت حضرت جعفر طیار (رض) کی زوجیت میں تھیں اور تین سال پہلے ان کے ساتھ حبشہ ہجرت کر چکی تھیں ۔اورواپس حضور (ص)کی طلبی پر جب تشریف لا ئیں ، جب خیبر فتح ہوا۔ اس وقت تک حضرت خدیجہ الکبریٰ وفات پا چکیں تھیں اور حضرت فاطمہ (رض)کی شادی اور بچے بھی ہو چکے تھے ۔ دوسرے یہ کہ مشرقی تہذیب میں ماں کبھی بھی بیٹی سے انتی بے تکلف نہیں ہو ئی۔ بلکہ اس دور میں مغرب میں بھی اس موضوع پر بات کر نا کسی ماں کے لیئے ممکن نہ تھا۔ہاں حضرت اسماء بنت عمیس ( رض)کا حضرت فا طمہ (رض) کے وصال کے وقت انکے پاس موجود ہو نا ممکن ہے اور اپنی تہجیز اور تد فین ڈولی وغیرہ بنانے کے سلسلہ میں یقینی طور پر ان کو ہدا یات دی ہو نگی،اس کے ماننے میں کوئی بھی ہمیں امرمانع نہیں ہے۔ اس لیئے کہ وہ اس وقت حضرت ابو بکر (رض)کی زو جیت میں تھیں اور مدینہ منورہ میں موجود بھی ۔چونکہ ان سے خاندانی تعلق تھا وہ حضرت فاطمہ کی سگی چچی تھیں اور حضرت جعفر (رض)کے بچوں کی ماں بھی۔ حضور حضرت جعفر طیار کو بے حد چا ہتے بھی تھے ۔جو اس سے ظاہر ہے کہ جب وہ فتح خیبر کے موقعہ پر واپس خیبر کے مقام پر آکر ملے، تو فر مایا کہ “مجھے خیبر کی فتح سے کہیں زیادہ حضرت جعفر طیار (رض)کے ملنے کی خوشی ہو ئی ہے ۔ اس کے بعد وہ جنگِ موتہ میں شہادت پا گئے اور وہ بیوہ ہو گئیں تو حضرت ابو بکر (رض) نے ان سے نکا ح کر لیا تھا۔
حضور (ص) کو جب حضرت خدیجہ (رض)کی طبیعت زیادہ خراب ہو نے کی اطلا ع ملی تو وہ بھی تشریف لے آئے ، اورانہیں اتنہا ئی کرب کے حالت میں پایا، جب حضور (ص)نے حضرت خدیجہ (رض) کو چھو کر دیکھا تو بخار سے جسم تپ رہا تھا ۔ حضرت خدیجہ (رض) نے جب شدت مرض کی شکا یت کی تو حضور (رض)کی آنکھیں بھر آئیں !فر مایا اب جدائی کا وقت قریب آگیا ہے اور جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔انہوں نے فر مایا کہ مجھے اپنی موت کا تو کوئی غم نہیں ہے، مگر غم یہ ہے کہ میں آپ کی رفاقت سے محروم ہو جا ؤنگی اور دوسرے مجھے فا طمہ کی فکر ہے کہ اس کی ابھی شادی نہیں ہو ئی اس کی شادی کا (انتخاب ) آپ کسی اور پر مت چھوڑ یئے گا تاکہ اسے یہ احساس نہ ہو نے پا ئے کہ وہ بے ماں کی بچی ہے، حضور (ص) نے وعدہ فر مایا تو وہ مطمعن ہو گئیں ۔
اس کے بعد انہوں نے یک اور درخواست پیش کی کہ آپ دم آخری تک میرے سامنے تشریف فر ما رہیں تاکہ میرا دم آسانی سے نکل جا ئے۔میرے آقا آپ کی خدمت گزاری میں گوکہ میں نے پچیس سال گزار دیئے، مگر ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ اب آپ سے در خواست ہے کہ روز محشر آپ اپنے دامن ِ رحمت میں جگہ عطا فر ما ئیے گا۔میں یہ بھی آپ سے التجا کرتی ہوں کہ مجھ سے آپ کی شان میں کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو اس کو معاف فرما دیں، اور بروز قیامت میری شفا عت فر ما کر میری مشکل آسان کر یں ۔ ان کے اس درد انگیز خطاب سے حضور (ص) کے بھی آنسو بہنے لگے ۔اور فر مایاکہ یہ درست ہے کہ قیامت کا دن بہت سخت ہے ،مگر تمہارے ساتھ تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فر ما رکھا ہے ۔ تمہارے لیئے جنت میں موتیوں کا محل تیار ہے، میری غم گسار تم غم نہ کرو ،تم میرے ساتھ ہی رہو گی فل الحال تمہاری دوسرا ہت کے لیئےتین خواتین مو جود ہیں ۔ جب انہوں نے ان کے نام پو چھے تو حضور (ص)نے بتایا ام کلثوم (رض) ہمشیرہ مو سیٰ علیہ السلام ۔ حضرت آسیہ (رض)زوجہ فر عون اور حضرت صفورا (رض) زوجہ موسیٰ یہ سن کر وہ مطمعن ہو گئیں۔ یاد رہے کہ یہ تینوں خواتین روایت کے مطابق جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں حضرت فا طمہ (رض)کی ولادت کے وقت بھی موجود تھیں اور انہوں نےہی حضرت خدیجہ (رض) کی اس وقت مدد فر مائی تھی ۔
پھر انہوں ایک اور در خواست پیش فرمائی !مگر فر مایا کہ اس کے لیئے میں خود میں ہمت نہیں پاتی لہذا میں حضرت فا طمہ (رض) کے توسط سے آپ تک پہونچا ونگی۔ حضور (ص) ان کی اس خواہش پر ماں بیٹیوں کو تخلیہ فرا ہم کرنے کے لیئے حرم شریف طواف کے لیئے تشریف لے گئے ۔ حضرت فاطمہ (رض) نے ماں کے رخسار پر منہ رکھ کر فر ما یا کہ فر ما ئیے وہ کیا خواہش ہے میرے والد انشا اللہ آپ کی ہر خواہش ضرور پوری کریں گے؟ تب انہوں نے فر مایا کہ وہ یمنی چادر جو کہ نزو ل ِ وحی کے وقت حضور (ص) زیب ِ تن فر ماتے ہیں۔ اس میں مجھے لپیٹ دیا جائے، در ایں اثنا حضور (ص) بھی تشریف لے آئے اور ان کی خواہش سن کر وہ چادر شانہ مبارک سے اتار کر بیٹی کو دیدی کہ ان کو دکھا دیں تاکہ وہ خوش ہو جائیں۔ مگر اتنے میں حضرت جبرئیلامین تشریف لے آئے، حضرت خدیجہ کے لیئے جنت کا کفن لیکر اور فر ما یا کہ حضور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے اور فر مایا ہے کہ آپ اپنی چادر واپس لے لیں ،خدیجہ نے میری راہ میں اپنا سب کچھ قر بان کر دیا ہے اب اس کا کفن میرے ذمہ ہے ۔ہم اس کو اپنے کرم کے لباس سے ڈھانپیں گے اور اس کو جنت الفردوس کا لباس پہنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ جس موتیوں کے محل کاذکر حضور نے فر مایا ہے تھا، اس کی بشارت متفقہ علیہ ہے کیونکہ اس کا ذکر بخاری مسلم اور مسند ِاحمد نیزابن ِ ہشام میں بھی موجود ہے۔ حضرت خدیجہ نے اپنی نگاہ حضور پر مرکوزرکھی اور اسی حالت میں موت کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
کچھ ہی عرصہ کے بعد انہیں ایک دوسرے صدمہ سے دو چار ہو نا پڑا، وہ تھا اپنے چہیتے دادا حضرت ابو طالب کا وصال ۔ بعض مورخین ان کا انتقال پہلے لکھا ہے۔ چونکہ اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ کس کا انتقال پہلے ہوا ۔ لہذا ہم اس بحث سے صرف نظر کرتے ہو ئے آگے بڑھتے ہیں کہ جہاں تا ریخ میں سالوں کا فرق ہو وہاں چند مہینوں کا آگے پیچھا ہو نا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ مگر حضور (ص) ان دونوں ہی کے انتقال اتنے زیادہ اہم تھے ۔کہ حضور (ص)نے اس سال کو حزن کا سال قرار دیدیا،کیونکہ یہ دونوںہی ہستیاں اسلام کی بہت بڑی ستون تھیں۔ ان کے وصال بعدکفار مکہ کے حو صلے اب اور بڑھ گئے ۔ حضور نے اطراف کے قبا ئل سے مدد چا ہی، مگر کہیں سے نہ مل سکی۔ ایک دن وہ کسی کو بتا ئے بغیر طائف تشریف لے گئے کہ شاید وہاں کچھ کامیا بی ہو ، مگر وہاں سے بھی لہو لہان لو ٹے ،کہ خون بہہ کر ایڑیوں تک آگیا۔ جب حضرت فا طمہ (رض) جیسی بیٹی نے اپنے والد ِ محترم (ص)کو اس حالت میں دیکھا ہو گا، تو ان کے دل پر کیا گزری ہو گی ۔مگر کیا کر سکتی تھیں خون کے گھونٹ پی کر رہ گئیں ۔
چونکہ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور ثانی دونوں ہو چکی تھیں اور اہل ِ یثرب کی اکثریت ایمان لے آئی تھی ۔ اس لیئے جو مکہ سے ہجرت کر نا چا ہتے تھے ان کو اب حبشہ کے بجا ئے مدینہ منورہ جا نے کی اجا زت دیدی گئی اور لوگ چھپ چر کر جانے لگے ۔کیونکہ اس پر بھی کفار مزاحمت کر تے تھے اور بسا اوقات سب کچھ چھین کر بھی جان نہیں چھوڑتے تھے ۔لہذا جانثاران ِ سرکار (ص)تعدادروز بروز کم ہو تی گئی ۔ اب صرف غلام ،قیدی اورمجبور مسلمان ہی رہ گئے تھے ، یا گنتی کے چند آزاد مسلمان مکہ میں باقی تھے ۔
اب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا یکجا ہو نا کفار کو اور بھی زیادہ پریشان کر رہا تھا، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اتنی طاقت پکڑ جا ئیں کہ مکہ فتح کر لیں ۔ کیونکہ وہ زبان سے تو نہیں کہتے تھے۔ مگر ان کے دانشور دل سے مانتے تھے کہ قر آن خدا کی کتاب ہے اور حضور (ص)اس قدر شیریں بیان ہیں کہ جن سے ملتے ہیں انکے دل مو ہ لیتے ہیں ایک دن کفار نے دار الندوہ میں ایک مجلس ِ مشاورت منعقد کی جس میں تمام سردار جمع ہو ئے ۔ اور اس مسئلہ پر سب سے مشورہ طلب کیا گیا۔ لوگ مختلف الرائے تھے ۔کچھ نے کہا کہ حضور (ص) کو پابند ِ سلاسل کر دیا جا ئے، کچھ نے کہا کہ جلا وطن کر دیا جا ئے ۔آخر میں ایک شخص اٹھا جس نے کہ اپنے آپ کو نجدی شیخ کہہ کر متعارف کرایا۔ اس نے تجویز پیش کی “ ایسا کریں کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک فر د لے لیا جا ئے اور جب حضور (ص)صبح کی نماز کو حرم شریف آنے کے لیئے گھر سے باہر نکیں جو انکا روز مرہ کا معمول تھا، تو سب مل کر ایک ساتھ وار کریں اور شہید کر دیں۔
اس صورت میں بنو ہاشم کس کس سے لڑیں گے؟ آخر خون ِ بہا لیکر چپ ہو جا ئیں گے ،یہ سن کر ابو جہل کی با چھیں کھِل گئیں۔ دوسرے طرف اللہ سبحا نہ تعالیٰ نے حضور (ص)کو بذریعہ وحی اس پر مطلع فر مادیا۔ لہذا وہ رات کے پچھلے پہر اپنے بستر پر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو لٹاکر، کفار کی آنکھوں میں خاک جھونکتے ہو ئے ان کے درمیان میں سے تشریف لے گئے ۔
حضرت فاطمہ (رض) کی مدینہ منورہ ہجرت ۔ اس موقعہ پر وہاں پر حضرت فا طمہ (رض) کی موجودگی کا کسی مورخ نے ذکر نہیں کیا۔ صرف ایک مورخ نے ان (رض) کے اور حضور (ص) کے درمیان ہونے والی کچھ گفتگو نقل کی ہے، جس میں کہ ام المو نین حضرت سودہ (رض)بھی مو جود تھیں ۔واضح رہے کہ حضرت خدیجہ (رض) کی وصیت کو عملی جامہ پہنا نے کے لیئے حضور (ص) نےان کے وصال بعد حضرت سودہ (رض)سے شادی کر لی تھی حالانکہ وہ اس وقت سن یاس بھی گزرچکی تھیں ۔ کیونکہ اگر وہ ویسے ہی کسی خادمہ کو گھر میں رکھ لیتے ،تو کفار کو پرو پیگنڈے کا مو قعہ مل جاتا۔ جبکہ حضور (ص)کی امت کو تلقین ہے کہ بد گمانی بچو، اسے مت پیدا ہو نے دو، تو وہ ایسا خطرہ خود کیسے مول لے سکتے تھے؟ لہذا حضرت سودہ (رض) سے نکاح کرلیا؟ ۔ آگے راوی رقمطراز ہے کہ انہوں (رض) نے اپنی تشویش کا اظہار فر ما یا، حضور (ص) نے تسلی دی کہ تم فکر مت کروا للہ میرے ساتھ ہے۔ ہمیں اس وقت کسی کو ساتھ لے جانے کا حکم نہیں ہے ،مگر بعد میں تمہیں جلد ہی بلوالیں گے ۔ واضح رہے کہ یہ ہی جواب انہوں(ص) نے حضرت ابو بکر اور ان کے اہل ِ خاندان (رض) کو دیا تھا۔ جب انہوں نے پو چھا کہ آپ کی اہلیہ اور میرے اہل ِ خاندان (ڑض) کا کیا ہوگا۔ ؟
چونکہ درمیان میں حکم ِخدا تھا اور اس کے بندے اس کے حکم پر صرف سمعنا اور اطعنا آگے کچھ نہیں کہتے ! لہذا حضرت فا طمہ (رض) کے لیئے سوائے اس کے، کوئی چارہ نہ تھا کہ اپنی والدہ (رض) کی جدائی بعد والدِ محترم (ص)کی بھی وقتی جدا ئی برداشت کریں ۔ لہذاوہ خاموش ہو گئیں اور حضور (ص) کو رخصت فر مادیا۔
اب آگے ان کی ہجرت پربھی اختلاف ہے کہ وہ کب ہو ئی ؟ کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ جب تیسرے روز کفار کی امانتیں دینے کے بعد فا رغ ہو ئے، تو انہوں نے اپنے ہمرا ہ فا طمہ نامی کئی خواتین کو لیا تاکہ کفار حضرت فاطمہ (رض)کو شنا خت نہ کر سکیں ۔ پھر بھی کفار نے مزا حمت کی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے سب کو مار کر بھگایا اور وہ حضرت فاطمہ (رض) اور دوسری خوا تین کو لے کر مدینے تشریف لے گئے ۔ اس میں ایک تو یہ مصلحت سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نےہم نام خواتین کو کیوں اکھٹا کیا؟ کیونکہ یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے بہت پہلے کا ہے جبکہ پردے کی آیتیں مد نی زندگی میں نا زل ہوئیں، دوسرے حیلہ سازی حضرت علی کرم اللہ کی شان اور فطرت دونوں کے خلاف تھی۔ تیسرے وہ آج کا سعودی عرب بھی نہ تھا جہاں سب خواتین نقاب پوش ہوں اور ہر قدم پر چیکنگ ہوتی ہو ۔یہ کہ پردہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار سب کو پہچانتے بھی تھے؟
اس کے بر عکس دوسرے گروہِ مورخین نے لکھا ہے کہ وہاں پہونچنے کے بعد جب مسجد نبوی اور حجرے تیار ہو گئے تب حضور (ص)نے حضرت زید بن حارثہ اور ابو رافع (ض) کو پانچ سو در ہم اور دو اونٹ دیکر بھیجا کہ وہ حضرت فاطمہ اور حضرت سودہ وغیرہ کو لے آئیں۔ لہذاان کے ساتھ حضرت فا طمہ ان کے ساتھ تشریف لا ئیں اور اس قافلہ میں نو افراد تھے۔ (طبقات ِابن ِ سعد) اس لیئے قرین ِ قیاس یہ ہی ہے۔ جبکہ دوسرے کئی مورخوں نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی قبا آمد کی اطلا ع حضور (ص) کو ہوئی تو انہوں نے بیچینی سے پوچھا کہ وہ ابھی تک میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ تو لوگوں نےبتایا کہ ان کے پیر پیدل چلنے کی وجہ سے اتنے زخمی ہیں ،کہ وہ چل نہیں سکتے۔ یہ سن کر حضور (ص) خود روانہ ہو گئے۔اور ان کو جاکر گلے لگایا اور ان کے پیر کا ورم اور زخم دیکھ رو دیئے پھر اس پر لعاب دہن لگا یااور دست۔ مبارک ان کے پیروں پر پھیرا جس کا اثر یہ تھا کہ پھر کبھی شہادت تک انکو پیروں کی تکلیف نہیں ہو ئی “ اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی سواری کا جانور بھی نہیں تھا اور وہ انتہائی دشوار گزار راستے سے سفر طے فر ماکر پہونچے تھے۔ اس صورت میں خواتین ان کے ساتھ کیسے ہو سکتی تھیں ؟ پھر اس تمام قصہ میں انکا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے کہ وہ بھی ان کے ہمراہ قیام پذیر تھیں اور ان سے بھی حضور(ص) کی ملاقات ہوئی۔ پھر جب حضور (ص) مدینے منورہ کے لیئے قبا سے روانہ ہو ئے تو اس میں بھی کو ئی ذکر نہیں کہ خواتین بھی ہمرا ہ تھیں، اور نہ ہی حضرت ابوایوب انصاری (رض)کے یہاں حضرت فا طمہ (رض) اور حضرت سودہ (رض) حضور(ص)کے ہمرا ہ قیام پذیر ہو نے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضرت فا طمہ (رض) مسجد نبوی اورحجرے بن جانے کے بعد ہی تشریف لا ئیں ۔ واللہ عالم
ان (رض) کے تشریف لانے کے بعد چونکہ حضرت عائشہ (رض) جن کا عقد ہجرت سے پہلے ہو چکا تھا ان کی رخصتی بھی انجام پذیر ہو گئی تھی ،مگر مورخین نے چونکہ یہ نہیں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) اس کے بعد کہاں رہیں، یا ان (رض) کے لیئے کو ئی علیحدہ حجرہ تعمیر ہواتھا، یا کسی کے ساتھ قیام پزیر تھیں؟
ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ شروع سے چونکہ ام المو نین حضرت سودہ (رض)کے ساتھ تھیں لہذا یہاں آکر بھی انہیں کے حجرے میں رہتی رہی ہو نگی۔ چونکہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ وہ شعب ابی طالب میں رہنے کی وجہ سے مستقل روزے رکھنے لگی تھیں اور مصروف ِ عبادت رہتی تھیں، پھر تمام عادات اور اطوار بھی وہی اختیار کر لیئے تھے جو حضور (ص)کے تھے۔
لہذاحضور (ص) کی طرح پیوند لگے کپڑے زیب ِ تن کر تیںاور جو روکھی سو کبھی مل جا تی تو تناول فر مالیں ورنہ بھو کی ہی سو جا تیں۔چونکہ یہاں ان کی اپنی زندگی نہ تھی، لہذا بقیہ سخاوت وغیرہ جیسے جو ہر تو ان کے بعد میں جاکر کھلے، جبکہ یہ جو ہر بھی ان (رض) میں اپنے والد (ص) اور والدہ (رض) طرح بدرجہ اتم مو جود تھے۔ مورخین نے ان کے لباس کے بارے میں البتہ کچھ واقعات لکھیں جو کہ ہدیہ نا ظرین کر رہے ہیں ۔جو اس پر شک ظاہر کرتے ہیں ان کے لیئے کو ئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے کہ ہم انہیں مطمعن کر سکیں، سوائے اس کہ، حضور (ص) بہت سی با توں میں دوسرے انبیا ئے کرام (ع) پر فضیلت رکھتے تھے ،جس کااظہار بار بار قر آن اور احادیث میں آیا ہے۔لہذا جو سورہ البقرکی اس آیت کو زیر ِ بحث لا تے ہیں کہ لا نفرق بین احد ۔۔۔۔ اس کے بارے میں مفسریں کا خیال ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیمات کے اعتبار سے تمام انبیا ئے کرام (ع) ایک تھے لہذا ان میں سے کسی کو ماننا اور کسی کو نہ ماننا منع ہے۔ جیسے کہ بعض گزشتہ قومیں کچھ کو مانتی ہیں کچھ کو نہیں مانتی ؟ ورنہ متعدد احادیث مو جود ہیں کہ حضور (ص) نے فرمایاکہ خدیجہ (رض) یہ جبر ئیل (ع) ہیں اور تمہیں سلام کہہ رہے ہیں یا اللہ نے تم کو سلام کہا۔ جبکہ کسی دوسری نبی (ع) کی بیوی پر سلام کا ذکر کم از کم ہمیں قرآن میں نہیں ملا ؟۔ اس سے جو بات میں ثابت کر نا چا ہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ حضور (ص) کے گھرانے کے ساتھ اللہ کا بر تا ؤ قطعی مختلف تھا۔ کیونکہ وہ سب کے سب کردار کی بنا پر اللہ کی نظر میں بر گزیدہ تھے ۔ لہذا اگر ان کے ساتھ کہیں کو ئی خصوصی بر تا ؤ ہوا ہے، تو اس میں نہ ماننے کی کیا بات ہے؟چونکہ میری ذمہ داری بطور مور خ یہ ہے کہ ایمانداری سے جو کچھ جہاں سے مجھے ملے میں نقل کر دوں لہذا مجھے لباس کے سلسلہ میں دو واقعات ان کی شادی سے پہلے کے ملے ہیں، میں ان کو ہدیہ نا ظرین کر رہا ہوں۔
دو عیدوں کے حکم سے پہلے عرب میں بہت سے تیو ہار اور میلوں کا رواج تھا اور بعض میلے صرف خواتین کے لیئے مخصوص ہو تے تھے، ایسا ہی کوئی اجتماع تھا، جس میں انصار اور مہاجرین کی خواتین دونوں کوجمع ہو نا تھا۔ لہذا وہ چا ہتی تھیں کہ جگر گو شہ رسول (ص) بھی اس میں شر کت فر ما ئیں مگر ان کی تربیت کچھ اس طرح ہو ئی تھی کہ وہ کسی قسم کے میلے ٹھیلوں اور کھیل تماشوں کو پسند ہی نہیں کرتی تھیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بچپن سے لیکر جوانی تک کہیں ذکر نہیں ملتا کہ انہوں (رض) نےکہیں کھیل تما شے میں حصہ لیا ہویا دیکھا ہو؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ زیادہ تر وقت عبادت میں صرف کر نا چا ہتی تھیں، جیسے کہ ایک جگہ حضرت امام حسین (ع)نے فر مایا کہ ہما ری والدہ محترمہ (رض)دن و رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزارتی تھیں ۔ لیکن آگے چل کر جو ایککرامت کا ذکر ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان (رض)کے پاس مناسب کپڑے بھی نہ تھے کیونکہ انکا لباس اپنے والدِ محترم (ص) کی طرح پیوند لگا ہو تا تھا۔
مگر حضور (ص) نے ان کا تامل دیکھا توزور دیا کہ تمہیں جانا چا ہیئے کیونکہ ہمارا شیوہ کسی کی دلشکنی نہیں ہے۔ آپ نے حکم سنا اور تشریف لے گئیں مگر جب واپس آئیں تو کچھ زیادہ خوش نہ تھیں، اس پر حضور ( ص)نے بجا ئے ان سے وجہ پو چھنے فرمایا کہ وہاں سے کسی خاتون کو بلا لا ؤتاکہ وجہ معلوم ہو سکے؟
ایسی ایک خاتون دربار ِ رسالت میں حا ضر ہو ئیں۔تب حضور (ص) نے پو چھا کہ تمہارا اجتماع کیسا رہا تو انہوں نے فر مایا کہ سب کی نظریں حضرت سیدہ سلام اللہ علہیا پر مر کوز رہیں کیونکہ وہ جو لباس فا خرہ پہنے ہو ئے تھیں اس سے نور کی شاعیں پھوٹ رہی تھیں ۔تمام خواتین انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھیں کہ ایسے کپڑے کبھی پہلے نہیں دیکھے تھے، یہ کہا ں سے آئے ؟ یہ سن کر حضرت فاطمہ (رض)بھی اپنے حجرے سے باہر نکل آئیں اور فرما نے لگیں کہ مجھے کچھ بھی تبدیلی نظر نہیں آئی اور میں یہ ہی کپڑے پہن کر گئی تھی جو اس وقت پہنے ہو ں؟ حضور (ص) نے فرمایا کہ بیٹی (رض) تجھے ان کپڑوں نے زیبا ئش نہیں دی تھی ،بلکہ ان کپڑوں کو اللہ نے زیبا ئش عطا کر دی تھی کیونکہ (رض)تو انہیں زیب ِ تن کیئے ہو ئے تھی ۔
یہ تھا مومنات میں ان کا جانا کہ وہ کیسے بھی کپڑے پہنے ہوتیں وہ ان کے لیئےقابل ِ احترام تھیں ؟ مگر ایک ایسا ہی دوسرا واقعہ صرف ان کو تنگ کر نے لیئے غیر مسلم خواتین کا بھی ملتا ہے کہ انہوں نے سو چا کہ ہم ان کو بلا ئیں اور جب وہ پیوند لگے ہو ئے کپڑوں کے ساتھ تشریف لا ئیں توہم ان کا مضحکہ اڑا ئیں ۔ لیکن تمام عزتیں اور ذلتیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کو پھر وہی نوری لباس عطا فر مادیا اور ان کو خود خفت اٹھا نی پڑی کہ انہوں نے انتہا ئی مالدار ہو نے با وجود ایسا لباس کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔ اس قسم کے واقعات اور بھی بہت سے ہیں مگر وہ ان (رض) کی حضرت علی کرم اللہ وجہ سے شادی کے بعد کے ہیں ،جب انہوں (رض)نے اپنی ازدواجی زندگی شروع کی، تب ان (رض) کی تمام صفات اور فضا ئل کھل کر سامنے آئے کیونکہ جس طرح حضور (ص) کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مردوں میں اکمل کر کے دنیا کے سامنے ایک نمو نہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ اسی طرح خواتین میں حضرت فا طمہ سلام اللہ علیہا کو خواتین کے لیئے مثا لی بنا نا تھا اور دنیا کے سامنے پیش کر نا تھاتاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے ہم صنف ِ نازک ہیں ہم یہ کام کیسے کر سکتے ہیں ۔ اس پر تمام مو رخین متفق ہیں کہ وہ حضور (ص) کی چال ڈھال اور تمام خصا ئل میں ان (ص) کاپر تو تھیں ۔
لہذا انہوں (رض) نے اپنے والدین کی بے مثال خدمت کر کے خود کو بے مثال بیٹی تو دنیا کہ سامنے ثابت کر دیا تھا،مگرابھی انکو خود کو ایک ، بہترین بیوی، بہترین ماں ، اور ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ بھی خود کو بہترین مو منہ بھی دوبارہ ثابت کر نا تھااور اس حیثیت میں بھی امت کے سامنے مزید مثالیں پیش کر نا تھیں تاکہ جو خواتین ان کا اتبا ع کر نا چا ہیں، وہ خود کو ایک مومنہ کے معیار پر لا سکیں ۔کیونکہ ہر بندے کو معیار حاصل کر نے کے لیئے آئینہ ضروری ہے۔لہذا وہ خواتین کے لیئے آئینہ تھیں ۔جس طرح حضور (ص) مردوں کے لیئے آئینہ تھے ۔
غزوہ بدر میں کا میابی کے بعد حضور (ص) اور مسلمانوںکو جب تھوڑا چین نصیب ہوا، کیونکہ اب کفر کا زور ٹوٹ چکا تھالہذاجن لوگوں نے اپنے گھر نہیں بسائے تھے انہیں اب فکر دامن گیر ہوئی کہ گھر بسائیں،اور جنکی بیٹیاں جوان تھیں انہیں بھی یہ فکر دامن گیر ہو ئی کہ بیٹیاں پرا ئے گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں؟ اب چونکہ جگر گوشہ رسول (ص) جناب ِ سیدہ بتول سلام اللہ علیہا کی زندگی مکی زندگی نہ تھی، جہا ں کہ کفار نے اس گھرانے کو معتوب قرار دے رکھا تھا اور رشتہ نا تے بند کر رکھے تھے ۔اب وہ خود معتوب ہو چکے تھے۔ اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق کفار کوذلیل کر دیا تھا۔ لہذا جگر گوشہ رسول (ص) کے لیئے رشتوں کی بھر مار تھی، مگر حضور (ص) ہر کام اللہ کی مرضی کے مطابق فرماتے تھے لہذاحکم کے منتظر تھے، سب کو یہ فر ماکر منع کرتے رہے کہ جو اللہ کی مرضی ہو گی وہی میں کرونگا؟
کیونکہ ان (رض) کے لیئے شوہر بھی اسی معیار کا ہونا چا ہیئے تھا جو حضور (ص) کا پرتو ہو۔ وہ نگاہ میں تو تھا ،مگر اس کی فطری حیا اسے زبان کھولنے پر شاید اس لیئے مانع تھی، کہ ہر کام کے لیئے ایک وقت معین ہے اور ہر وقت کے لیئے کام۔ وہ وقت بھی آپہونچا۔یہاں پھر مورخین میں اختلاف ہے ، کچھ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (رض) نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو مشورہ دیا کہ تم (رض) کیوں نہیں حضور (ص)سے حضرت فا طمہ (رض) کے لیئے سوال کر تے، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں ان (رض)کے اہل ِ خاندان نے یہ مشورہ دیا۔
وہ جہیز نبی (ص) کی اطا عت کے دعویدار حضرات سے سوال پو چھ رہا ہے آج کے ہمارے جہیز کو دیکھ کر ،کہ کیا واقعی آپ حضور(ص) کے اتبا ع کے دعویدار ہیں؟ اس لیئے کہ آجکل ایک جو ڑا لا کھوں کا ہے ۔ ایک آیت میں جبکہ قر آن کہہ رہا ہے کہ فضول خرچی کر نے والے شیطان کے بھا ئی ہیں اور دوسری میں یہ بھی “اور شیطان اللہ کا نا شکرا ہے “
نمعلوم کیوں جنتے مشہور مورخ ہیں وہ اس شادی پر زیادہ تفصیلات میں نہیں گئے ۔ ممکن ہے کہ وہ تو گئے ہوں، مگر بعد میں آنے والے سلاطین نے تا ریخ بدل دی ہوں کیونکہ سلا طین سارے کے سارے کے سارے حضور (ص) اور اہل ِ بیت (رض) کا قد گھٹانے میں مصروف رہے اور آج تک ہیں ۔
جبکہ ایک طبقہ مورخین نے اس شادی کا زمین اور آسمان دونوں جگہ منعقد ہو نا بڑی تفصیل سے تحریر کیا ہے جو کہ زیا دہ تر نزہت المجا لس ، صوا ئق محرقہ، معارج النبوت (ص)اور طبقعات ابن ِ سعد سے لیئے گئے ہیں ۔چونکہ ان میں زیادہ تر واقعات معجزاتی ہیں اور اس کوحضور (ص) اور حضرت سیدہ (رض) کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے وہ ہم طوالت کی وجہ سے سارے یہاں درج نہیں کر رہے ہیں ۔ لہذا وہ شا ئقین اور محبین اہل بیت (رض)ِ وہا ں پڑھ لیں ۔ ان کا خلا صہ یہ ہے کہ یہ تقریب ِ شادی آسمان اور زمین دونوں جگہ پر انجام پا ئی ۔ اور حضرت سیدہ (رض) کو جہیز میں جنت کے قطعات اور شفا عت کی اجازت اللہ سبحانہ تعالیٰ سے عطا ہوئی ۔
یہ حضور (ص) کی اس عظمت کے سامنے جو انہیں با رگاہ ِ خدا وندی میںحاصل تھی ، میرے خیال میں یہ کو ئی ناممکن با ت نہیں ہے ۔ مگر جو منکر ِ معجزات ہیں انہوں نے تو باقی معجزات کو ہی تا ریخ سے حذ ف کر دیا ہے۔ ان کہنا ہے کہ حضور(ص) صرف ایک ہی معجزہ یعنی قر آن دیکر بھیجے گئے تھے۔ جبکہ تمام ثقہ قسم کے مورخین نے حضور (ص) کی سیرت مبارکہ تحریر کرتے ہو ئے قدم قدم پر لا تعداد معجزے رقم کیئے ہیں ۔ جو پرانے نسخو میں تو موجود ہیں،مگر اب نئے نسخوں میں تحریف جا رہی ہے جس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر ابھی بھی یہ تاریخی نسخے محفوظ نہیں کیئے گئے تو آئندہ چل کر ساری پرانی کتابیں نئی نسل تک نہیں پہو نچ سکیں گی اور اس طرح بقیہ معجزات بھی تا ریخ میں متنازعہ بن جا ئیں گے۔لہذا محبان ِ رسول (ص)اور اہل بیت (رض) ِ کو چاہیئے کہ وہ ان نسخوں کو جہاں کہیں بھی ملیں دوبارہ شا ئع کرا کرنئی نسلوں کے لیئے محفوظ کر لیں۔ ورنہ بعد میں افسوس کر نے کے سوا کچھ نہ بچے گا۔
اب آگےجس طرح زمین پر یہ تقریب منعقد ہو ئی اس کی تفصیلات کو ہم پیش کر رہے ہیں ۔ کہ حضور (ص) نے پہلے تو حضرت بلال (رض) کو خو شبو وغیرہ خرید نے بھیجا۔ جب وہ لے آئے تو ان کو حکم دیا کہ وہ تقریب ِ نکا ح کا اعلان کر یں ۔ جب تمام صحابہ کرام (رض) جمع ہو گئے اورحضور (ص) کے چاروں طرف اس طرح گھیرا ڈالکر بیٹھ گئے جیسے کہ چاند کے چاروں طرف ستا رے ۔
تو حضور(ص) نے ایجاب وقبول کے لیئے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو مخاطب فر ما یا اور جب انہوں (رض) نے مقرہ رقم پر حضرت فا طمہ (رض)کو اپنے عقد میں لینے کا اقرار کیا تو حضور (ص) نے مندرجہ ذیل خطبہ نکا ح پڑھا۔ جو اس خطبہ نکا ح سےتھوڑا سا مختلف ہے جو کہ آجکل مسنو نہ خطبہ نکا ح کے طور پر سنی قاضی پڑھتے ہیں ۔ جس کا ترجمہ ہم آگے پیش کر رہے ہیں ۔
ًہم شکر کرتے ہیں اس خدا وند ِ کریم کا جواپنی نعمتوں کی وجہ سے ہر تعریف اور تحسین کا سزاوار اور اپنی قدرتوں کے با عث لا ئقِ پرستش ہے۔زمینوں اور آسمانوں پر اس کا حکم جاری ہے۔ اس نے تمام مخلو قات کو اپنی قدرت سے پیدا فر مایا۔ پھر اپنے احکام کے لیئے ایک دوسرے سے علا حدہ فر مادیا۔اپنے دین کے ذریعہ انہیں سر فراز کیااور اپنے نبی محمد (ص) کے ذریعہ ان کو عظمتیں عطا فر ما ئیں،بلا شک اور ریب اس نے نکاح کو لازمی قرار دیا اور اس نے خود فر مایاہے کہ “ وہ جس نے انسان کو پیدا کیا پانی سے اور قائم کیا ان کے لیئے رشتہ سسرال کاپروردگار تیرا قدرت والا ہے “ خدا تعالیٰ نے اپنا ہر کام قضا کے تحت کر دیا ہے اور اس کی قضا قدرت کی پابند ہے۔ ہر قضا کے لیئے مقدر ،اورہر قدر کے لیئے وقت مقرر ہے اور ہر وقت کے لیئے کتاب یعنی لو ح ، محفوط ہے۔ (البتول صفحہ نمبر١٠٦
حضور (ص)نے جیسے ہی خطبہ نکاح ختم فر مایا صحابہ کرام (رض) ایک کرکے منظم طریقہ سے ،جو کہ اسلام کا طریقہ ہے آگے بڑھے اور سب نے حضور (ص) کو اورحضرت علی کرم اللہ وجہ کومبارک دی۔اس کے بعدحاضریں میں چھوارے تقسیم کیئے گئے۔ پھر حضور (ص) وہاں سے اس حجرے میں تشریف لے گئے جہاں حضرت سیدہ (رض) امہات المومین اور دوسری خواتین (رض)کے ساتھ تشریف فر ما تھیں۔ آپ نے حضرت سیدہ (رض) کی پیشانی کو چوم کر تسلی دی اور سینے سے لگا یا۔ پھر ایک گلاس پانی طلب فر مایا اور جب وہ آگیا تو اس پر کچھ پڑھ کر دم فر مایا ۔پھر اس میں سے پہلے کچھ چھینٹے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے سینہ مبارک پر ڈالے، پھر حضرت فا طمہ (رض)کے سینہ مبارک پر ڈالے ۔اور اسی میں کا بچاہوا پانی دونوں (رض) کو پلا یا۔ وہ پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اور بعد میں حضرت فا طمہ (رض)کواس کے بعد ام ِ ایمن (رض) کی سر کردگی میں رخصتی عمل میں آئی اور حضرت فا طمہ (رض) حضرت علی کرم اللہ وجہ کے دولت کدے میں حضرت ام ِ ایمن (رض) اوردوسری خواتین کے جھرمٹ میں لے جا ئی گئیں۔ جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہ پہلے سے ان کی پیشوا ئی کے لیئے موجود تھے ۔
دعوت ولیمہ ۔ دوسرے دن دعوت ِ ولیمہ کا انعقاد ہوا۔ جیسا ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ یہ اہتمام اسی رقم سے ہوا جو کہ کل کی تقریب سے بچ گئی تھی اور حضور (ص) کے پاس محفوظ تھی ۔حسبِ دستور اس سے جو کھانا تیار ہوا وہ سب کے سامنے لاکر رکھدیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ کی غیرت نے یہ گوارہ نہیں فر مایا کہ کھانے کی مقدار دیکھتے ہو ئے، چند لو گوں کو دعوت دی جا ئے انہوں نے اپنی سخاوت سے مجبور ہوکر اور اللہ پر بھروسہ فرماتے ہو ئے مسجد ِ نبوی(س) میں جا کر اعلان ِعام فر مادیا ۔ حضور (ص) نے بسم اللہ کہہ کرکھانا شروع کر نے کا حکم دیا اور اپنے دست مبارک حسب عادت د عا کے لیئے اٹھا دئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ کھانا سب کے لیئے نہ صرف پورا ہوگیا بلکہ بہت سے لوگ اپنے اہل و عیال کے لیئے بھی لے گیئے، جب مرد کھاچکے تو حضور (ص) نے خواتین اور امہات المومین (ص)کے گھر بھجوایا اور ایک برتن میں حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت فا طمہ (رض) کے لیئے ان کے گھر بھجوادیا جو دونوں نے ملکر تناول فر مایا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے لذیز اور پرتکلف کھانا ہم نے پہلے کبھی نہیں کھایا۔
ولیمہ والے دن صبح کو ایک فقیر ان کے گھر پر سوالی ہو ا کہ مجھے تن ڈھانپنے کے لیئے کپڑا چا ہئے ؟ حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا نے سو چا کہ پتہ نہیں بیچا رے کو اپنے لیئے کپڑا چا ہیئے یا بال بچہ دار ہے ۔ سو چا کہ کیا دوں ؟ پھر نگا ہوں کے سامنے وہ آیت گھوم گئی کہ لن تنا لوالبر حتیٰ تنفقو ا مما تحبون ہ
( ترجمہ ۔تم ہر گز بھلائی کو نہیں پہونچو گے جب تک خدا کی راہ میں سب سے پیاری چیز خرچ نہ کرو)۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک لڑکی طرح ان کو بھی سب سے زیادہ اپنی وابستگی اس قمیض میں نظر آئی جو کہ کل جہیز میں ملی تھی ۔یہ پہلا امتحان تھا اس میں حضرت سیدہ (رض) بھلا کیسے فیل ہوسکتی تھیں۔ ان کی تو بچپن سے تر بیت ہی ایسی ہو ئی تھی۔ انہوں (رض) نے وہی قمیض اس سا ئل کے حوالے فر مادی ۔ (معارج نبوت)
اس بات سے حضور (ص) بے خبر تھے کہ حضرت جبرئیل (ع) ایک جوڑ کپڑے لے کر حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ آپ کی صاحبزدی کی خیرات کے بدلے میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کے توسط سے انہیں یہ خلعت فا خرہ پیش کروں۔ حضور (ص) یہ سن کر سجدہ شکر بجا لا ئے کہ اللہ نے ان کی خیرات قبول فر مائی ۔
ابو بکر طوسی(رح) سے ایک روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت سیدہ کی شادی سے منافق خوش نہ تھے ان کا خیال تھا کہ خاندان ِ نبوت (ص) میںخلیج پیدا کر دیں ۔ اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے کہا کہ علی (رض) تم بہت بڑے عالم اور بہادر ہو۔ تمہیں جہیز میں کیا ملا سوائے چند معمولی چیزوں کہ اگر تم میری بیٹی سے شادی کر لو تو میں میں تمہیں مالا مال کر دونگا اور اپنے دروازے سے تمہارے در وازے تک اونٹوں کی قطاریں لگا دوں گا۔لیکن شرط یہ ہے کہ حضرت سیدہ (رض)کو طلاق دینا ہوگی ۔
حضرت علی کرم اللہ نے دو ٹوک جواب دیکر اس کو خاموش کر دیا کہ ہمیں خدا کی رضا کی ضرورت ہے، دنیا وی مال و دولت کی نہ مجھے حاجت ہے نہ خواہش ۔ اس بد بخت نے جب علی کرم اللہ وجہ کا یہ جواب سنا تو چپ چاپ چلا گیا۔
اتنے میں حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ایک غیبی ندا سنی کہ اے علی (رض)منہ اوپر اٹھا کر دیکھو؟ جناب ِعلی کرم اللہ وجہ نے منہ اٹھاکر دیکھا تو اونٹوں کی قطاریں حد ِ نظر تک زر و جواہر سے لدی ہو ئی کھڑی ہیں اور ہر ایک اونٹ کے ساتھ ایک خادمہ بھی ہے۔ پھر ایک ندا آئی کہ یہ حضرت سیدہ (رض) کا جہیز ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ گھر تشریف لے گئے تاکہ یہ عجیب وغریب واقعہ حضرت فاطمہ (رض) سے بیان کر یں، مگر وہ اس پر پہلے ہی مطلع ہو چکی تھیں، لہذا انہیں دیکھتے ہی فر مانے لگیں کہ وہ واقعہ تم بتا ؤ گے یا میں تمہیں بتا وں؟ معترض کہہ سکتے ہیں کہ انہیں کیسے پتہ چل گیا ؟ انکو میرا جواب یہ ہے کہ انہیں کی اولاد میں تمام اولیا ء گزرے ہیں جب ان (رح) کو بہت سی باتیں معلوم ہو جا تی تھیں تو وہ تو ان سب کی ماں تھیں ۔
حضرت فاطمہ الزہرا بطور ہمسایہ رسول (ص) ۔جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت نے ایک گھر کرئے پر لیا تھا جو کہ تھوڑا دور تھا ۔ حضور (ص) کا روز مرہ کا معمول تھا کہ روز انہ حضرت فا طمہ (رض) کے گھر تشریف لے جاتے، ایک دن فر مانے لگے کہ کیا ہی اچھاہو تا کہ تمہارا مکان ہمارے قریب ہو تا اور ہم دن میں ایک آدھ بار آنے کے بجا ئے بار بار آتے ۔ اس پر انہوں (رض) نے بھی فر مایا کہ میرا دل بھی یہ ہی چاہتا ہے کہ میں آپ کے قریب رہوں تاکہ آپ کی نگہداشت حسب ِ سابق کرتی رہوں۔ آپ کے ہم سا یہ میں حضرت نعمان (رض) بن حارث کا مکان ہے، اگر اس کا کچھ حصہ مل کرا یہ پر مل جا ئے تو بہتر ہے ۔ اس پر حضور (ص)نے فر مایا کہ وہ پہلے ہی مہاجریں کو اپنی کافی زمین بلا معاوضہ دے چکے ہیں ۔ وہ تم سے بھی کو ئی معاوضہ قبول نہیں کر یں گے لہذا ان سے کچھ کہنا میں منا سب نہیں سمجھتا۔ بات آئی گئی ہو ئی۔ مگر یہ بات کسی طرح حضرت حارثہ (رض)بن نعمان تک پہونچ گئی اور انہوں نے دربار ِ رسالت ( ص)میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنی صاحبزدی کو اپنے قریب رکھنا چا ہتے ہیں ،لہذا میں نے اپنے گھر کا آپ سے ملحقہ حصہ خالی کردیاہے اور آپ کو پیش کررہا ہوں ۔ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وہاں منتقل فر مادیں۔ تاکہ آپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک آپ کے سامنے رہے۔
حضور (ص) نےقبول کر نے میں کچھ تامل فر مایا تو انہوں (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے جان و مال آپ پر قر بان ہیں ۔ خدا کی قسم یہ اگر حضور (ص) قبول فر مالیں گے تو مجھے اس سے کہیں زیادہ سکون ِ قلب حا صل ہو گا، جتنا مجھے اسے اپنے پاس رکھنے پر حا صل ہو تا۔
جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو حضو(ص) نے قبول فر مالیا اور ان کو بر کت کی دعا دی ۔ اس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہ وہاں منتقل ہو گئے جوجگہ کہ اصحاب ِ صفہ کے اور حضور کی ابدی آرام گا ہ کے در میان واقع ہے اور مدینہ منورہ میں ابھی تک با قی ہے ۔ اس کے سلسلہ میں ایک روایت اور بھی حضرت عبد اللہ بن مسود (رض) ملتی ہے کہ کسی نے حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض)کی برا ئی کی تو فر مایا کہ حضرت عثمان (رض) کو تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے معاف کر دیا تھا۔ اور رہا علی (رض) کا معاملہ تو ان کا مکان تمہارے سامنے ہے ۔ (میرے خیال میں شاید یہ ایک لطیف اشا رہ تھا کہ یہ مکان قیامت تک تمام دست برد سے محفوظ رہے گا اور آج کی صورت حال گواہ ہے کہ مدینہ منورہ کا نقشہ بدل گیاہے مگر کا شانہ نبوت (ص) اور کا شانہ علی(رض) با قی ہے
امور َ خانہ داری۔ حضرت فاطمہ (رض) کی زندگی چونکہ حضور ص) کی زندگی کا پرتو تھی لہذا جس طرح حضور (ص)کا طریقہ کار تھا وہی ان کا بھی تھا ۔ نہ ان کی عبادت امور ِ خانہ داری میں حارج تھی نہ ان کا گھر گھرستن ہو نا ان کی عبادت میں حارج تھا۔ جس طرح والد ِ محترم مردوں کے لیئے نمو نہ تھے ویسے ہی صاحبزادی صاحبہ (رض) بھی گھر گھرستی میں خواتین کے لیئے نمو نہ تھیں ۔
اس کے لیئے سب سے بڑی سند تو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ہے۔ وہ فر ماتے ہیں میں نے زندگی میں فا طمہ (رض) سے زیادہ سلیقہ شعار کو ئی عورت نہیں دیکھی ۔ با وجود کچا مکان ہو نے کے وہ اپنے گھر کو بہت ہی صاف اور ستھرا رکھتیں تھیں کہ دیکھنے میں جنت کا تکڑا لگتا۔ کیونکہ یہاں یہ حدیث ان کے سامنے رہتی کہ صفا ئی نصف ایمان ہے، پھر وہ خود بھی طا ہرہ (رض) تھیں ۔ گوکہ گھر میں تھا ہی کیا اس کی تفصیل ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں ۔صرف سلیقہ تھا کہ وہ اس کو قرینے سے رکھتیں تو گھر سجا ہوا نظر آتا۔ہم پہلے بھی حضرت امام حسین (ع)کے حوالے سے بتا چکے ہیں کہ انہوں نے فر مایا کہ ً میری والدہ زیادہ تر وقت عبادت میں صرف کرتیں تھیں ً ۔مگر ان کی خوبی یہ تھی کہ اس کے با وجود بھی گھر کے علاوہ بچے بھی صاف ستھرے رہتے ۔ وہ چونکہ آٹا اپنے ہاتھ سے پیستی تھیں اور ان کے گھر میں یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ ایک وقت کا آٹا کبھی بچا ہو، جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہ کچھ مزدوری کر کے لا ئے اور انہوں (رض) نے عبادت چھوڑی اور فور ً ا آٹا پیسا پکا یا اور بچوں کو جلدی سے کھلانے کی کوشش کی ۔مگر اکثراوقات ایسا ہو تا کہ ابھی بچوں کو دے بھی نہ پا ئیں کہ کو ئی سا ئل آگیا اور پورا کنبہ بھو کا رہ گیا۔ پانی کے مشکیزے بھی خود ہی بھر کر لا تیں کیونکہ حضرت علی کرم اللہ مزودوری کی تلاش میں اکثر نکل جاتے ۔ گھر میں جھا ڑو بھی خود لگا تیں، حتی ٰ کہ چہرہ مبا رک غبار میں اٹ جا تا۔ چو لہا جلا تیں اور پھونکتیں تو سا ری گر د اوپر پڑتی۔ اکثر دھوئیں سے آنکھو ں میں آنسو آجا تے ۔ مگر کبھی حرف شکا یت زبان پر نہیں لا ئیں ۔ ایک مورخ نے یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں (رض)نے اپنے زخمی ہا تھ حضور (ص) کو دکھا ئے اور حضور (ص) سے ایک باندی کی فر ما ئش کی ؟ مگر اس سے میں اس لیئے متفق نہیں ہوں کہ فقر توباپ بیٹی اور دا ماد (رض)نے خود ہی اپنے لیئے پسند فر مایا تھا۔ ورنہ ان کے ایک اشا رے پر اللہ تعالیٰ ان کے در وازے پر دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیتا۔ میں اپنے اس دعوے کے مزید ثبوت کے طور پر ان (رض)کا دور ِ خلافت پیش کر تا ہوں کہ خلیفہ ہو نے کے بعد بھی خوراک وہی رو کھی سو کھی رہی۔ وہاں ان کو روکنے والا کون تھا سوائے خوف ِ خدا اور تقوے کے
حضرت امام حسن(ع) کی ولادت ۔ حضور(ص) مسجد ِ نبوی میں تشریف فر ما تھے کہ حضرت جبر ئیل (ع) کو آتے دیکھا تو کسی اہم خبر یا وحی کے منتظر ہو بیٹھے ،انہوں (ع) نے حاضر ہو کر سلام عرض کیا اور فر مایا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ بھی آپ کوسلام کہتا ہے اور ایک کپڑے کا ٹکڑا پیش کیا۔ جس پر حسن (ع) لکھا ہوا تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضور (ص) نے جو نام سوچا تھا وہ شبر (ع) تھاجوکہ حضرت ہارون (ع) کے صاحبزادے کا نام تھا۔ صرف فرق اتنا ہوا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس کو عربی زبان کے متبا دل لفظ سے بدل دیا۔
ابھی وہ واپس گئے ہی تھے کہ اتنے میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کے گھر سے کسی نے آکر حضور(ص) کو نواسے کی آمد کی اطلا ع دی، تمام صحابہ کرام (رض) جو اس وقت موجود تھے ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ سب نے حضو(ص) کو مبارک باد دی ۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد حضور (ص) کا شانہ سیدہ سلام اللہ علیہا کی طرف روانہ ہو گئے۔ ادھر یہ خبر تمام مدینہ میں پھیل گئی کیونکہ اس کی اس لیئے اور بھی زیادہ اہمیت تھی کہ یہ پہلی خوشی تھی جو کہ حضور (ص) کے اہل ِ بیت میں ہوئی؟ پہلے تو کفار مکہ نے یہ بات اڑا رکھی تھی، حضور(ص) کے صا حبزادے کے انتقال کے بعد کے حضور ص) ابتر ہو گئے جس کی تردید میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سورہ الکوثر نازل فر مادئی کہ ابتر آپ (ص) نہیں بلکہ کہنے والے ہو نگے ۔ یہاں آنے کے بعد یہ ہی بات مہاجر وں کے بارے میں یہود مکہ نے اڑائی ہو ئی کہ اب ان کی نسل منقطع ہو جا ئیگی اس لیئے کہ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد، ایک عرصہ تک کو ئی مہاجرین میںولادت نہیں ہو ئی۔،اس کو تو حضرت عبد اللہ(رض) بن زبیر (رض)کی پیدا ئش نے غلط ثابت کر دیا ۔مگر وہ ہار نہیں مانے اور اب اس افواہ کا رخ انہوں نے اہل ِ بیعت کی طرف موڑ دیا۔ لہذا حضرت حسن (ع) کی پیدا ئش سے پھر انہیں منہ کی کہانی پڑی ۔
حضور (ص) جب وہاں پہونچے تو دیکھا کہ جناب ِ سیدہ والد کے انتظار میں چشم برا ہ ہیں ۔اور جناب حسن ِ انکی آغوشِ مبارک میں ہیں ،جبکہ قریب ہی حضرت علی کرم اللہ وجہ بھی تشریف فر ما ہیں ۔ حضور(ص) نے بیٹی کو مباکباد دیکر حضرت حسن (ع) کو گود میں اٹھا لیا۔ انہیں ایسا لگا کہ جیسے وہ آئینہ دیکھ رہے ہوں اس لیئے کہ ان میں پو ری کی پو ری اپنی والدہ محترمہ کی شبا ہت تھی اور یہ ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ حضرت سیدہ (رض) حضور (ص) سے مشابہ تھیں ۔
آپ (ص) نے نواسے (ع) کی پیشانی کو بوسہ دیا پہلے سینے سے لگا یا پھر ایک کان میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہی اور اپنی زبان مبارک ان کے دہنِ مبارک میں دیدی اور وہ اس کو اس طرح چو سنے لگے، جیسے کہ اس میں سے انہیں شہد مل رہا ہو۔
چونکہ نام تو حضرت جبرئیل (ع) بتا گئے تھے لہذا اس کا اعلان حضور (ص) نے اسی وقت فر مادیا جبکہ عقیقہ سات یوم بعد ہوا جس کی ہم تفصیل آگے چل کر تحریر کریں گے۔ان کے جانے کے بعد کچھ مورخین نےلکھا ہے کہ جناب سیدہ اٹھیں اور وضو فر ماکر نوافل شکرانہ ادا کرنے کھڑی ہو گئیں ۔اور ان کے مطابق یہ چیز انہیں تمام دنیا کی خواتین میں ممتاز کرتی ہے جس کی وجہ سے انہیں بتول (ع) کہا جاتا ہے۔
امام حسن کی تقریب ِ عقیقہ ۔ جب حضرت حسن (ع) کی عمر مبارک سا ت یوم کی ہو گئی، توتقریب ِ عقیقہ منعقد ہو ئی، جس میں تمام اہل ِمدینہ نے شر کت کی پہلے سر کے بال اتروائے گئے، پھر اس کے برابر چاندی صدقہ کی گئی اور اور ایک بکری ذبح ہو ئی اور اس کا گوشت بطور تبرک تمام حا ضریں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ تھی حضرت حسن (ع) کے عقیقہ کی تقریب جو نہایت سادہ تھی ۔ یہاں ان لوگوں کے لیئے لمحہ فکریہ ہے جو لوگ حضور (ص) کی پیر وی کا بھی دم بھرتے ہیں اور نام و نمود پر اصراف ِ بیجا بھی کر تے ہیں ۔ دراصل ہم ہر چیز کا مقصد بھلا بیٹھے ہیں، ان میں یہ تقریب بھی شامل ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نکاح کی طرح اس تقریب کا انعقاد بھی صرف اعلان کے لیئے ہے کہ قبیلہ میں ایک فرد کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ تاکہ ورا ثت میں کوئی رخنہ واقع نہ ہو۔مورخین نے لکھاہے کہ ان کی تا ریخ پیدا ئش ١٥رمضان المبا ر ک سن تین ہجری اور عقیقہ اکیس رمضان المبارک ٠٣ ھ کوہوا۔
حضرت امام حسین کی ولادت با سعادت۔ المستدرک کے حوالے ایک مورخ نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے کہ حضرت ام الفضل (رض) نے ایک خواب دیکھا جس سے وہ پر یشان ہو گئیں ، مدینہ میں عام قائدہ تھا کہ روزانہ حضور (ص) لوگوں سے خواب سنتے اور ان کی تعبیر بھی فر ماتے تھے، لہذا وہ حضور (ص) کی خدمت ِ اقدس میں حا ضر ہو ئیں اور فر مایا کہ میں نے ایک بہت ہی بھیانک خواب دیکھا ہے۔ جب سے میں بہت پریشان ہوں ۔حضور (ص) نے فر مایا کہ بیان تو فر ما ئیے کہ کیا دیکھا ۔
تب انہوں (رض) فر مایا کہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ آپ کے جسم مبارک کو کاٹ کر اس میں سے ایک پارچہ ا علا حددہ کیا گیااور وہ کٹا ہواپارچہ میری جھولی میں ڈالدیا گیا۔ حضور (ص) نے فر مایا کہ آپ نے تو بہت اچھا خواب دیکھا ہے پھر اس کی تعبیر ارشاد فر مائی کہ ًانشا اللہ میری بیٹی فاطمہ(ع) کے یہاں بیٹا پیدا ہو گا ۔یہ سن کر ام الفضل (رض) مطمعن ہو گئیں اور واپس تشریف لے گئیں ۔
مگر یہ ہی واقعہ ہمیں ایک دوسرے مورخ کے ہاں حضرت امام حسن (ع) کے با رے ملا ،میں نے اس حدیث کو دیکھا اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ حضرت ام ِ الفضل (رض) زوجہ حضرت عباس (رض)سے مروی ہے کہ ً وہ حضور (ص) کے پاس تشریف لے گئیں اور فر مایا کہ میں نے رات ایک بھیانک خواب دیکھا ہے۔ حضور (ص) نے حکم دیا کہ بیان کرو!تب انہوں (رض) نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے جسدِ مبارک سے گوشت کا ایک پارچہ قطع کر کے میری جھولی میں ڈالدیا گیا ً حضور (ص)نے فرمایا کہ ً اچھا خواب ہے ، فاطمہ (ع)کے ہاں بیٹاحسین (ع) تولد ہو گا۔ اس سے تو یہ ہی ظاہر ہو تا ہے کہ کہ یہ پیش گوئی حضرت امام حسین (ع)کے بارے میں تھی واللہ عالم ۔
بہر حال وہ وقت آپہونچا جب کہ٥ شعبان المعظم ٥ ھجری کو دوسرے شہزادے حضرت امام حسین (ع) اس جہان ِ فانی میں، لا فانی اور لا ثانی ہونے کے لیئے تشریف لا ئے اور جس طرح پہلے صاحبزادے کی آمد پر خوشیان منا ئی گئیں تھیں اسی طرح دوسرے صاحبزادے کی آمد پر بھی خو شیاں منا ئی گئیں ۔
حضور (ص) کو ان کی آمد کی جب اطلا ع دی گئی تو انہوں (ص) نے حسب سابق ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور ایک گوش ِ مبارک میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہی اور پھر اپنی زبان مبا رک ان کے دہن مبارک میں دیدی۔ اس کے سات دن کے بعد عقیقہ ہوا ان کا نام بھی حضور (ص) نے ہارون (ع) کے دوسرے صاحبزادے کہ نام پر شبیر (ع) رکھا تھا، لیکن ایک روایت کے مطابق حضرت جبر ئیل (ع) حسین (ع) لیکر تشریف لا ئے ۔لہذا حسین (ع) رکھدیا گیا۔اب حضرت فاطمہ (رض)کے ذمہ ایک کے بجا ئے دو بچوں کی پرورش ہوگئی تھی۔ لیکن ان کی عبادت اور ریاضت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اکثر اوقات لوگوں نےدیکھا اور سنا کی دونوں صا حبزادے گود میں ہیں اور وہ چکی پیس رہیں اور اللہ سبحا نہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی جاری ۔ یہ دنیا کے لیئے مثال ہے کہ “فقرو بنون “کے ساتھ حمد ثنا کیسے کی جاتی ہے؟ حضرت زینب الکبریٰ سلام اللہ علیہاکی پیدا ئش ۔ان کے سن ِ پیدا ئش میں بھی اختلاف ہے کہ وہ پانچ ہجری میں یا چھ ہجری میں پیدا ہو ئیں ۔ ان کی پیدائش کے موقعہ پر حضور(ص) کسی غزوے کے سلسلہ میں باہر گئے ہو ئے تھے ۔ جب آپ (ص)واپس تشریف لائے تو حسب معمول وہ حضرت سیدہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ حضرت زینب (ع) ان کی گود میں رونق افروز ہیں۔ حضور(ص) دیکھ کر بہت خوش ہو ئے اس لیئے کہ یہ اہل ِ بیت کی اس نسل میں پہلی بیٹی کا اضافہ تھا اور اس حدیث کے مطابق یہ ایک بڑا اعزاز بھی کہ حضور (ص) نے فر مایا کہ ً جو کوئی ایک بیٹی کی اچھی طرح پرورش کریگا وہ قیامت کے دن اس طرح میرے ساتھ کھڑا ہوگا جیسے کہ یہ میری دو انگلیاں ً اس کے بعد حضور (ص) نے اپنی دو متصل انگلیاں دکھا ئیں۔یہاں ان امتیوں کے لیئے سوچنے کا مقام ہے جن کے منہ بیٹی کی پیدا ئش پر قر آن کے مطابق “ سیا ہ پڑ جاتے ہیں ً کیا یہ ہم میں جہا لت دوبارہ نہیں لوٹ آئی “ بہر حال حضور (ص) نے ان کا نام زینب (ع)رکھا جو دو لفظوں سے مرکب ہے یعنی “زین “تزین کا مخفف ہے تو عر بی میں “ اب “باپ کا ،اس طرح اس کے معنی لیئے جا ئیں تو یہ ہو نگے کہ باپ کا نام روشن کر نے والی۔ یا باپ کے نام کو زینت بخشنے والی۔ جو کہ انہوں (ع) آگے چل کر ثابت کر دیا ۔ (تارخ گواہ ہے کہ وہ اسم با مسمہ ثابت ہو ئیں اور اپنے نام پر پوری اتریں ) پھر حضو(ص) نے ایک کھجور چبائی اور اس کو جناب ِ زینب (ع) کے دہن مبارک میں ڈالدیا۔ ہم نے ان کے ساتھ کبریٰ کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ ایک مزار شریف حضرت زینب کے نام سے مصر میں بھی موجود ہے ۔ ہم وہاں گئے اور ہم نے وہاں مقامات مقدسہ دیکھنے کے لیئے ایک وین لی تو جو اس کے ساتھ گائیڈ تھا اس نے ہمیں بتایا کہ یہاں حضرت زینب کا مزار بھی ہے ۔ ہم نے حاضری دی، مگر ہمیں بڑی حیرت ہو ئی کہ ان کا مزار تو شام میں ہے۔ لیکن جب تحقیق کی تو اس کا سرا ابن ِ کثیر (رح) کے ہاں ملا کہ انہوں نے جو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بیویوں کی فہرست دی ہے اس میں سے ایک کا نام زینب الصغریٰ بھی ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ان کا مزار ہو؟ واللہ عالم
حضرت زینب (ع) حضور (ص) کے ارشاد کے مطابق اپنی نانی صاحبہ یعنی حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض) کی ہم شکل تھیں جبکہ عادات اور اطوار میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پرتو تھیں ۔ان کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ وہ شہید کی بیٹی ، شہدا کی ہمشیرہ ، شہیدوں کی ماں اور شہید کی بہو ہیں ۔اور جو خوبیاں حضرت فاطمہ (ع)کے کردار میں تھیں وہ ان میں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ وہ بہترین خطیبہ تھیں اور بہت ہی جری اور بہادر خاتوں تھیں ان کے جوہر واقعہ کر بلا میں ظاہر ہو ئے جب انہوں (ع)نے یزید کے لشکر اور بعد ازاں اس کے بھرے در بار کو للکارا۔ ہم ان کے اس کردار کے بارے جوانہوں نے آئندہ چل کر میدان کربلا میںادا کیا انشا اللہ وقت آنے پر بات کر یں گے ۔
نزول ِمائدہ۔ حضور(ص) حب ِمعمول ایک دن صاحبزادی صا حبہ کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ چہرہ مبارک اترا ہوا ہے ۔ حضور (ص)نے احوال پوچھا تو عرض کیا میں میرے شوہر اور بچے تین دن سے بھوکے ہیں ۔ حضور(ص) نے بارگاہ خداوندی میں دست سوال دراز فرما دئے اور بارگاہ خدا وندی میں یہ دعا فرمائی“اللھم انزل علیٰ محمد واہل ِ بیتہ کما انز لت علیٰ مریم بنت عمران “ ترجمہ اے اللہ! میرے اہل ِ بیت پر بھی اسی طرح نازل فر ما جس طرح کہ مریم بنت ِ عمران پر (تو ) اتارتا تھا۔ اس واقعہ کی وجہ الکشف نامی تفسیر میں قحط تحریر کی گئی ہے، وہیں اس میں اس کھانے کی تفصیلات بھی بیان ہو ئی ہیں جو سورہ آل عمران کی آیت نمبر ٣٦ کی تفسیر کرتے ہو ئے بیان کی گئی ہیں۔ کہ حضور (ص) نےدعا فرمائی اوراس کے بعد حضرت فا طمہ (ع) سے فر مایا کہ اپنے حجرے میں جا کر دیکھو! وہ اندر تشریف لے گئیں اور انتہا ئی معطر کھانا لا کر پیش کر دیا جس میں گوش اور روٹیا تھیں۔ پھر حضور(ص) نے گوشت اور روٹی کو ملادیا اور وہ کھانا سب نے سیر ہوکر کھایا اور امہات ِاللمونین کو بھیجا گیا پھر بھی کم نہیں ہوا۔
سخاوت کا صلہ۔ ویسے تو حضرت علی کرم اللہ وجہ اور ان کے کنبہ کی قربانیوں اور سخاوت کی اتنی مثالیں ہیں کہ ہم اگر دینا شروع کریں تو کتا بیں بھر جا ئیں۔ مگر اسی قسم کا ایک اور واقعہ تحریر کر کے پھر سیرت کو آگے بڑھاتے ہیں ۔وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ دونوں صاحبزادے (ع)بیمار ہو گئے،تو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حضور (ع) سے رجوع کیا ،حضور (ص) نے تین متواتر روزوں کی منت ماننے کے لیئے فر مایا۔ جبکہ ان کے یہاں تو ویسے بھی روز ہی روزوں کا دور دورہ رہتا تھا۔ لہذا انہوں (ع) تین روزوں کی منت مان لی ۔ مگر روزوں کے لیئے کے لیئے سنت یہ ہے کہ سحری کھا ئی جائے اور افطاری کی جا ئے۔ اور یہاں یہ عالم تھا کہ مجبوری تھی، گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ شمعون نامی یہودی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے تین صاع جو لے آئے ،جناب ِ سیدہ (ع) نے آٹاپیسا اور پانچ رو ٹیاں تیار ہوکیں اور پورا کنبہ جن میں لونڈی فضہ (رض) بھی شامل تھیں افطار کے وقت کا انتطار کر نے لگے کہ اتنے میںایک سوالی دروازے پر آگیا اس نے صدا لگا ئی کہ میں مسکین ہوں ۔اے اہلِ بیت ِ نبی (ص) روٹی کا سوال ہے ۔جناب ِ علی کرم اللہ وجہ نے اپنے حصے کی روٹی اٹھا ئی اور اس کو دینے چلے ، حضرت نے سیدہ (ع)نے بھی اپنے حصے کی روٹی ان کے سپرد کردی کہ یہ بھی دیدیجئے، پتہ نہیں اس کی کتنی خوراک ہو اور کتنے بچے ہو ں ۔ جب حضرت فضہ(رض) نے دیکھا ، تو انہوں نے بھی اپنے حصے کی روٹی صدقہ کر دی۔ بھلا مخیر والدین کے بچے (ع) کیسے پیچھے رہ سکتے تھے انہوں نے بھی اپنے حصے کی روٹیا ں اٹھا کر اس کی جھولی میں ڈالدیں اور یہ کنبہ پانی سے روز کھول کر عبادت میں مصروف ہو گیا ۔ دوسرے دن بھی پھر یہ ہی ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ آٹا لا ئے ،انہوں نے رو ٹیاں تیار کیں اور عین وقت پر سوالی آگیا کہ میں یتیم ہوں اور روٹی کا سوال ہے اوروہ انہوں نے اس کو دیدیں ۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا کہ پھر سوالی آموجود ہوا کہ میں قیدی ہوں اور روٹی کا سوال ہے اور وہ بھی اس کو عنایت فر مادیں اور خاندان بھو کا رہا۔ ی(یہاں کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ تین صاع تین دن کے لائے تھے اس میں سے ایک صاع کی پہلے دن پانچ رو ٹیاں بنا کر باقی دو دن کے لیئے آٹارکھدیا تھا مگر میرے خیال میں یہ اس گھرانے کے دستور کے خلاف تھا لہذا انہوں نے تینوں دن قرض پر جو ئے لیئے اور وہ پیسے گئے روٹی پکی اور خیرات ہو ئی)
حضور مسجد نبوی میں تشریف فر ما تھے کہ اتنے میں نزول وحی کے آثار ظاہر ہو ئے اور حضرت جبرئیل (ع) تشریف لا ئے اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتا ہے ۔ یہ آپ کے اہل ِ بیت کا امتحان تھا جس میں وہ پورے اترے۔ اور اس کے بعد سورہ دھر کی یہ آیت نازل ہو ئی ۔جس کا ترجمہ یہ ہے کہ “اورکھانا کھلاتے رہتے ہیںاور مسکینوں کواور یتیموں کو اوراسیروں کواللہ تعالیٰ کی محبت میں (اور کہتے ہیں )ہم تو تمہیں صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیئے کھانا کھلاتے ہیں ۔اور نہ اس کا عیوض چاہیں نہ شکریہ۔ہم تو اپنے پروردگار کی طرف سے اندیشہ رکھتے ہیں اس سخت دن کا۔ پس اللہ ان کو اس دن کی سختی سے محفوظ رکھے گااور ان کو تازگی اور خوشی عطا فر ما ئے گا “ اس آیت میں اللہ نے دو وعدوں سے اس کنبہ کو نوازا ہے ایک تو اس دن کی سختی سے محفوظ رکھے گا ،دوسرے ان کو توانائی اور تا زگی بخشی جا ئے گی ۔ ایک نتیجہ تو دنیا نے اسی وقت دیکھ لیا کہ دونوں شہزادے نہ صرف تندرست ہو گئے جو کہ لڑ کھڑا تے قدم اس سے پہلے مسجد میں تشریف لا ئے تھے، نہ صرف بیماری دور ہوگئی بلکہ واپس چا ق و چوبند تشریف لے گئے
یہ سب کچھ تو وہ اپنی مرضی سے ہمیشہ کرتی ہی رہتی تھیں ۔ مگر تاریخ میں ایک واقعہ ایسا بھی ملتا ہے جو کہ بعد میں وقوع پذیر ہوا اور اس دن اتفاق سے کوئی سائل بھی دروازے پر نہیں آیا کیونکہ باہر حضور (ص)اس مال کو تقسیم فر ما رہے تھے جو شاہ نجاشی نے بھیجا تھا۔ لہذا جو تحفہ اس نے علا حدہ سے حضرت فاطمہ (رض) کے لئے بھیجا تھا ان کے ہاتھ میں پڑا رہا، چونکہ یہ بھی سخاوت سے متعلق ہے لہذا ہم اس کو یہاں در ج کر رہے ہیں ۔ وہ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن حضور (ص) اپنی صاحبزادی کے گھر تشریف لا ئے اور ان کے ماتھے کو بوسہ دیا تو دیکھا کہ حضرت سیدہ کے بازوئے مبارک میں ہیرے کے بازو بند بندھے ہو ئے ہیں۔
حضور (ص) نے سوال کیا کہ یہ تمہارے پاس کہا ں سے آئے ؟ تو انہوں نے انکشاف کیا آپ کے پاس جو حبشہ سے وفد آیا تھا وہ یہ میرے لیئے لایا تھا۔اور اس کو حکم تھا کہ میرے پاس براہ ِراست پہنچا دے۔ یہ وہی ہے جو میں پہنے ہوئے ہوں ۔ یہاں ایک مورخ نے یہ لکھا ہے کہ انہوں(رض) نے فرمایاکہ میں نے اس خیال سے بازوبند پہن لیئے کہ اسے ثواب زیادہ ملے۔ ممکن ہے کہ یہ بھی ایک وجہ رہی ہو، مگر میرا خیال یہ ہے کہ حضرت سیدہ (رض) سے زیادہ حضور (ص) کے بعد آداب سلطنت کون جانتا ہوگا؟ لہذا انہوں اس خیال سے قبول کر لیئے ہو نگے اور پہن لیئے ہو نگے کہ بادشاہوں کے تحفہ رد کر نا ان کی تو ہین سمجھا جاتا ہے۔ لہذا کوئی رد نہیں کر تا جبکہ نجا شی تومو من بھی تھااور تحفے کو خیرات کرنے میں اس لیئے تاخیر ہوگئی کہ مدینے کے سائل با ہر حضور (ص) کے پاس سے خیرات لے کر چلے گئے ادھر وہ کیوں آتے۔ بہر حال حضور (ص) نے فر مایا کہ بیٹی میں نے تو جو کچھ بھی آیا تھا تقسیم کر دیا۔ چونکہ وہاں مصروف تھا اس لیئے وہاں سے فارغ ہو کر آیا ہوں ۔ مگر تمہارے پاس یہ ابھی تک کیوں ہے ؟ہم نے راہ ِ فقر اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمیں یہ چیزیں زیب نہیں دیتیں کیونکہ ہمیں یوم ِ قیامت امت کی شفاعت کرنا ہے؟
اس سے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا بہت ہی زیادہ ملول ہو گئیں کہ انہوں اس کو خیرات کرنے میں دیر کیوں لگا ئی، فوری طور پر کیوں نہیں یہ فرض انجام دیا۔ اسی وقت وہ زیورکسی کے سپرد فر مایااور جوہری کے ہاں فروخت کر کے رقم حاصل کی ۔پھر مدینہ کے حاجت مندوں میں منادی کرادی، چونکہ حجرہ فاطمہ (رض)، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے حجرے کی پشت پرتھا ۔ جب چہل پہل دیکھی تو حضور (ص) نے حضرت عائشہ (رض) سےپوچھا یہ کیسی چہل پہل ہے فاطمہ کی طرف ؟ تو انہوں نے تمام حقیقت گوش گزار فر ما ئی ۔ حضور (ص) اسی وقت تشریف لے گئے اور اظہار خوشنودی فر مایا۔ تب جا کر حضرت سیدہ (رض)کو قرار آیا۔ اس کے بعد سے اگر کوئی تحفہ پیش کر تا تو وہ رد تو نہیں فرماتیں تھے مگر اس کے جانے کے بعد فوری طور پر خیرات فر مادیتیں ۔
اب ہم اور آگے بڑھتے ہیں ۔ کہ ان کو ولایت کا شرف بھی حاصل تھااور ان کی بہت سی کرامات بھی مشہور ہیں جو کہ مورخین نے تمام کی تمام حوالوں کے ساتھ رقم کی ہیں ۔ مگر ان پر بات کر نے سے پہلے ہم ان سے بات کر نا چا ہیں گے جو کہ سرے سے ولایت اور کرامات کے ہی قائل نہیں ہیں بلکہ وہ تو یہاں تک جا تے ہیں کہ حضور(ص) کے پاس بھی سوائے قر آن کے عظیم معجزے کے اور کوئی معجزہ ان سے سر زد نہیں ہوا۔ جب کے حضور(ص) کی سیرت ِ مبارکہ اور صحابہ کرام (رض) کی سیرت ِ مبارکہ اور ان کے بعد اولیا ئے کرام (رح)کی سیرت ِ مبارکہ کرامات سے بھری ہو ئی ہیں۔لیکن ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ فرق یہ ہے کہ کرامت کو ، صاحب ِکرامت بھی ہر وقت نہیں دکھا سکتا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کبھی سرزد ہو تی ہے۔
اس سلسلہ میں ابن ِ کثیر (رح) نے جن کو ان کی تفا سیر کے سعودی ایڈیشن میں کافی کتر بیونت کے بعد منکر َ کرامت ثابت کیا جاتا ہے! اپنی اصل تفسیر میں سورہ القص کی آیت نمبر٨٠کی تفسیر فرماتے ہو ئے تحریر فر ماتے ہیں کہ “بہت سے راویوں نے لکھا ہے کہ قارون کیمیا بنا نے کا ماہر تھا۔ لیکن کیمیا نام کی کوئی چیز نہیں ہے در اصل جو اس قسم کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سب شعبدے باز اور جا ہل ہیں ۔ اس لیئے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے کو ئی کسی دھات کی سرشت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ البتہ اس پر ملمع کر دے تو اور بات ہے ۔مگر اس سے سرشت نہیں بد لے گی۔
مگر جب خدا چاہے تو ایسا ہوسکتا ہے اور جو اکثر اولیا ءکے ہاتھوں دیکھنے میں آیا ہے “ پھر انہوں نے آگے چل کر مثال دی ہے کہ ایک شخص حضرت حیوہ بن شریح (رح) کے پاس آکر سوالی ہوا تو اس وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا، انہیں اس کو خالی ہاتھ واپس کر تے حیا آئی تو انہوں نے ایک کنکری اٹھا کر اس کی جھولی میں ڈالدی اور وہ پتھر سونے کی ڈلی میں تبدیل ہو گیا۔ اسی طرح ان کی مشہور کتاب “ البدایہ والنہا یہ “ میں ایک جگہ یہ تحریر ملتی ہے کہ ً عبد القادر جیلانی (رح) سے اس تواتر سے کرا مات سرزد ہو ئی ہیں کہ انہیں رد نہیں کیا جا سکتا “اور دوسرے جگہ ان (رح) ہی کے بارے میں تحریر فر ماتے ہیں کہ “وہ صاحب ِ کشف وکرامات بزرگ تھے اور ان سے لوگوں نے بہت فا ئدہ اٹھایا “ اس کے علاوہ اللہ سبحانہ تعالیٰ مشہور حدیث ِ قدسی میں فر ماتے ہیں کہ ً جب بندہ میری طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو میں اسکی طرف دس قدم بڑھتا ہوں ۔ پھر میں اس کے ہاتھ بن جا تا ہوں ،اس کے کان بن جا تا ہوں، اس کی آنکھیں بن جا تا ہوں جس سے وہ افعال انجام دیتا ہے دیکھتا ہے اور سنتا ہے ً اس کو تصوف میں مقام ِ فنا فی اللہ کہتے ہیں ۔ اور یہ حدیث تمام خطیب اور بزر گانَ ِکرام بلا تخصیص اپنے وعظوں میں دہراتے رہتے ہیں۔
میرا اس تمام بحث میں الجھنے کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ حال ان (رض) ماں کے بیٹوں کا ہے تو خود اگر ان سے جو تمام ولیوں کی ماں ہیں کوئی کرا مت دیکھنے میں آتی ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے ؟ آگے ہم چند معجزاتی واقعات بیان کر رہے ہیں۔ ملا حظہ فر ما ئیں۔
چکی کا اپنے آپ چلنا۔ حضرت سیدہ (رض) کی ذمہ داریاں بچوں کی ولادت کے بعد بڑھ گئیں تھیں، جبکہ وہ اپنے معمولات میں بھی فرق نہیں آنے دینا چا ہتی تھیں ۔ اکثر اوقات وہ فجر کے بعد آٹا بھی پیستی جاتیں اور تلاوت بھی کرتی جا تیں ۔ ایک دن کسی ضرورت سے حضرت علی کرم اللہ کے پاس حضرت سلمان فارسی (رض)تشریف لا ئے ۔ حضرت فاطمہ (رض) نے پردہ کر لیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ ان کو حجرے میں لے گئے۔ تب انہوں نے باہر کی طرف دیکھا کہ چکی کے پاس کوئی بھی نہیں ہے اور چکی چل رہی، اس میں جو بھی پڑ رہے ہیں اور آٹا بھی نکل رہا ۔ایسی ہی ایک روایت حضرت ابو ذر غفاری(رض) سے بھی ہے کہ وہ کسی کام سے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ہاں تشریف لے گئے۔اور واپس آکر حضور (ص) کو بتلایا کہ صاحبزادی صاحبہ (رض)نماز پڑھ رہی تھیں اور ان کی چکی آپ ہی آپ چل رہی اور آٹا خود بخود پس رہا تھا۔
جھولے کا اپنے آپ ہلنا۔ جب جناب ِ حسنین (رض) چھو ٹے تھے ۔تو وہ اکثر ان کو جھولے میں لٹا کر عبادت میں مصروف ہو جاتیں اور پھر وہ نماز میں مشغولیت کی بنا پر اپنے اطراف سے بے خبر ہو جاتیں۔بچوں میں سے کسی کی آنکھ جھولا رک جانے سے کھل جا تی تو جھولا خود بخود ہلنے لگتا اور بچے دوبارہ سوجاتے ۔
آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضرت فاطمہ (رض) جب خود بچہ تھی تو اللہ تعالیٰ نے کئی مرتبہ ان کے پھٹے پرانےلباس کو منور فر مادیا۔ اس سے ان کے بچے بھلاکیسے محروم رہ سکتے تھے؟ لہذا ایک عید آئی اور انہوں نے دوسروں کی تیاریاں دیکھ خود بھی مطالبہ فر مادیا کہ ہم بھی کل نئے کپڑے پہنیں گے۔ چونکہ انہیں اپنے بچپنے کا تجر بہ تھا لہذا وہ مطمعن ہو کر عبادت میں مصروف ہو گئیں ،اس کا ذکر انہوں نے اپنے شوہر سے بھی نہیں فر مایا کیونکہ وہ اس پر زندگی بھر عمل پیرا رہیں جو نصیحت ان کے والد ِ محترم نے فر ما ئی تھی کہ بیٹی میں نے تیرے لیئے سب سے بہتر شخص تلاش کیا ہے اور علی (رض)کو کبھی تنگ مت کر نا۔
اس رات وہ تمام رات نوافل میں مصرف رہیں ،اس لیئے کہ انہیں یقین تھا کہ اللہ انکا وعدہ ضرورپورا کرے گا اور بچوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو نا پڑے گا ۔ وہ جو دلوں کے حال جانتا ہے اپنی بندی سے کیسے بے خبر رہ سکتا تھا۔ لہذا اس سے پہلے کہ بچے اٹھیں ایک درزی حا ضر ہوا اور دوجوڑ کپڑے جناب حسنین (رض)کے ناپ کے دے گیا۔
حضرت سیدہ میدان ِ احد میں ۔ گوکہ اس سے پہلے غزوہ ابدر گر چکا ہے مگر اس میں حضرت فا طمہ (رض) کا کوئی ذکر نظر نہیں آتا حالانکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ حضور (ص) سے ممکن نہ تھا کہ وہ اپنی سنت ِتواترہ ترک فرماتے اور حضرت سیدہ (رض) سے ملے بغیر غزوہ احد میں تشریف لے جاتے۔لہذا وہ ضرور روانہ ہو نے سے پہلے ان (رض)کے پاس تشریف لا ئے ہو نگے اور واپسی پر بھی حسب سنت ِ مبارکہ پہلے ان (ص) کے پاس تشریف لا ئے ہو نگے۔اسی طرح غزوہ احد میں بھی ذکر نہیں ملتا کہ وہ (ص) رخصت ہو نے سے پہلے تشریف لائے یا نہیں ؟ جس میں میرے خیال میں کسی شبہ کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے ۔لیکن اکثر مورخین نے اسے نظر انداز کر دیا ہے۔ کیونکہ تا ریخ تو بہت بعد میں لکھوائی گئی ہے۔
وہاں صرف اتنا ذکر ملتا ہے کہ حضور (ص) حضور کی مرضی نہ تھی کہ وہ مدینہ سے باہر جا کر جنگ کریں ۔ جبکہ عبد اللہ بن ابی سلول بھی اسی کا حامی تھا کہ جنگ شہر اندر رہ کر لڑی جا ئے۔ مگر وہ لوگ جنہیں بدر میں اپنے جو ہر دکھا نے کا موقعہ نہیں ملا تھا وہ کھلے میدان میں داد ِ شجا عت دینا چاہتے ۔لہذا حضور (ص) حجرے میں تشریف لے گئے اور وہاں سے زرہ اور ہتھیار زیب تن فر ماکر واپس تشریف لا ئے ،تو لوگوں کو احساس ہوا کہ انہوں (رض)نے حضور (ص) کی رائے کا خیال نہیں رکھا۔ لہذا انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مدینہ کے اندر رہ کر ہی لڑنا چا ہا۔ لیکن حضور(ص) نے فر مایا کہ جب کوئی نبی (ص) ہتھیار پہن لے تو بغیر جنگ کے اتارا نہیں کرتا ۔ اس کے بعد وہ میدان ِ جنگ کی طرف روانہ ہو گئے ۔آپ نے دیکھا کہ اس میں حجرے میں جانے کا ذکر تو ہے مگر وہاں اور کون ، کون تھا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ چونکہ یہ وہ دور تھاکہ ان (رض)کی شادی ہو چکی تھی۔لہذا اس کا علا حدہ ذکر ہو نا چا ہیئے تھا جو تاریخ میں نہیں ملتا۔جبکہ واپسی میں ملتا ہے کہ جب وہ (ص) واپس تشریف لا ئے تو حضور (ص) نے اپنی تلوار حضرت فا طمہ (رض) کو دیکر فر مایا کہ اس نے بڑا ساتھ دیا ہے اس کو دھو ڈالو اور پھر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بھی یہ ہی الفاظ دہرا کر اپنی تلوار کو آگے کر دیا کہ اسے بھی دھوڈالو۔ لہذا یہ بات یقینی ہے کہ وہ حسب سنت روانہ ہو نے سے پہلے ان سے ملنے تشریف لا ئے ہو نگے جو کہ تاریخ نویسوں کی نظر سے پو شیدہ رہا۔
بہر حال حضور (ص) مدینہ منورہ سے جب روانہ ہو ئے تو ایک ہزار فوج ہم رکاب تھی، جبکہ کفار غزوہ احد کا بدلہ لینے آئے تھے اور وہ پوری تیاری سے آئے تھے ،ان کی تعداد تین ہزار تھی۔ اور ان کے ساتھ ایک بڑا رسالہ بھی تھا اور انہیں اسلحہ میں بھی بر تری حا صل تھی۔ جس کو رئیس المنا فقین عبد اللہ بن ابی سلول نے منہ موڑ کر اور کمزور کردیا کہ میری بات نہیں مانی گئی لہذا میں واپس جا رہا ہوں۔ جبکہ لوگ روکتے رہ گئے مگر وہ نہیں مانا؟
لہذا اب حضور (ص) کے ساتھ صرف سات سو جانثار رہ گئے ۔ جو کہ تقریبا ً ایک اور چار کا تنا سب تھا۔ گوکہ اسلحہ کی حال بدر سے کچھ بہتر تھی مگر پھر بھی کفار جیسی نہ تھی۔ ان سات سو جانثاروں میں سے بھی حضور (ص) نے پچاس تیر انداز ایک پہاڑی پر بٹھا دیئے تھے جو کہ پشت کی طرف سے حملہ کا بچا ؤکا ذریعہ تھے اور ان کو یہ ہدا یت کردی تھی کہ اگر تم ہمیں شکست ہو تے بھی دیکھو تو تو اپنی جگہ مت چھوڑ نا۔
چونکہ اللہ نے قر آن ِ پاک میں بار بار فر مایا ہے کہ فتح اور شکست تعداد اور طاقت پر منحصر نہیں ہے وہ صرف اور صرف ہما ری نصرت پہ منحصر ہے ً لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور کفار اپنی ان خواتین کو بھی چھوڑ بھاگے جو کہ ہندہ زوجہ ابو سفیان اور والدہ معاویہ کے زیر قیادت تھی وہ اپنی قیادت میں خواتین کا ایک دستہ لیکر ہمت بندھانے آئی تھی، وہ بھاگتے ہوئے اس کو بھی چھوڑ بھا گے ۔ جب تیر اندازوں نے انہیں بھاگتے دیکھا تو یہ بھی اس کے با وجود کہ حضرت عبد اللہ بن جبیر (رض) منع کرتے رہے۔ ان میں سے چالیس اپنے مورچہ چھوڑ کر ان خواتین کے پیچھے مال لوٹنے کے لیئے دوڑے۔ نتیجہ یہ نکلا خالد بن ولید جو کہ اس وقت ایمان نہیں لا ئے تھے اور ان کے رسالے کے سپہ سالار تھے۔ اُسی راستہ سے پیچھے کی طرف سے حملہ آور ہو گئے اور وہ دسوں صحابہ کرام (رض) اس حملہ کو نہ روک سکے اور ایک ایک کر کے شہید ہو گئے ۔ اس طرح جیتی ہو ئی بازی نبی (ص) کی نا فر ما نی کی وجہ سے شکست میں تبدیل ہو گئی اور امت کو سبق دے گئی کہ جب بھی حضور (ص) کی نافر مانی کرو گے انجام یہ ہی ہوگا؟
حضورزخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے اور دشمنوں نے یہ افواہ اڑادی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔
جبکہ اس دن بھی حسب روایت حضرت علی کرم اللہ وجہ بہادری سے لڑتے ہو ئے بہت آگے نکل گئے تھے جب یہ آواز کان میں آئی تو وہ پلٹے تاکہ حقیقتِ حال کا پتا لگا ئیں ۔ با لآ خر حضور (ص) کو تلاش کر لیا گیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ان کو اس گڑھے سے سہارا دیکر نکا لا۔ پھر پینے کے لیئے کہیں سے پانی لا ئے جس میں بدبو تھی جس کو حضور (ص) نے پینا پسند نہیں فرما یا مگر اس سے انہوں زخموں کودھونا شروع کر دیا۔
دوسرے طرف مدینہ منورہ میں لمحہ بہ لمحہ کی خبریں پہونچ رہی تھیں کیونکہ یہ مقام کی دور نہیں تھا صر ف چند میل کا فاصلہ تھا ۔ لہذا حضور (ص)کی شہادت کی خبر بھی مدینے تک پہونچ گئی۔ اور حضرت فاطمہ (رض)پر غم کا ایک پہاڑ ٹو ٹ پڑا لیکن اس صور ت میں بھی انہوں (رض) نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھو ڑاا ور اسے دل پر برداشت کر نے کی کوشش فر مائی نتیجہ یہ ہوا کہ یا “ ابتاہ یا اصفیا ہ “ فر ماکر بیہوش ہو گئیں ۔ ان دو جملوں میں انہوں نے اپنے دونوں قریبی رشتوں کو یاد فر مایا ۔ یعنی اے میرے والدِ محرتم اور اے میرے شوہر ِ محترم اس سے جہا ں ان (رض) کی اپنے والد (ص)سے والہانہ محبت ظاہر ہو تی ہے وہیں انکی اپنی شوہر سے بھی ۔ یہاں انہوں (رض) نام لینا مناسب نہیں سمجھا جبکہ یا اصفیاہ سے مراد تاجدار ِ اصفیاہ حضرت علی کرم اللہ وجہ تھی۔انکے (ص)چہرے پر پانی کے چھینٹے دیئے گئے تو انہیں ہوش آگیا ۔
جناب فاطمہ (رض) نے خود میدان جنگ میں جاکر صورت ِ حال معلوم کر نے کا ارادہ فر ما یا کہ اتنے میں ا یک اور صحابیہ (رض) آگئیں جن کا نام تا ریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ مگر انہوں نے تسلی دی کہ میں خبر لیکر آتی ہو ں ۔ آپ یہیں تشریف رکھیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے والد کوکچھ نہیں ہو سکتا وہ بخیریت ہونگے۔وہ روانہ ہو ئیں اور راہ میں ان کے شوہر ۔باپ ، بھائی اوربیٹے غرضیکہ تمام پیاروں کی شہادت اطلا ع ملتی گئی ،مگر وہ آگے بڑھتی گئیں ،ہر ایک سے یہ پو چھتے ہو ئے کہ حضور (ص) تو حیات ہیں۔ جب جواب اثبات میں ملتا تو وہ شکر کرتی ہوئی آگے بڑھ جا تیں ۔حتیٰ کے وہ حضور (ص) کے پاس پہونچ گئیں اور حضرت فا طمہ (رض)کا سلام پہونچا یا۔ چونکہ کا شہیدان کابری طرح مثلہ کیا گیا تھا۔ لہذا شروع میں حضور (ص)اس کے حق میں نہ تھے کہ خواتین وہاں آئیں۔ اس لیئے کہ وہ یہ صدمہ نہیں برداشت کر سکیں گی۔ لہذا اپنی پھوپی اور حضرت حمزہ (رض) کی بہن حضرت صفیہ (رض) کو بھی منع فر مادیا کہ وہ نہیں آئیں اور حضرت زبیر (رض)فر مایا کہ وہ اپنی والدہ (رض) کو نہ آنے دیں۔ مگر جب انہوں (رض) نےکہا کہ ہمیں اس لیئے منع کیا جا رہا ہے کہ ہم (رض)برداشت نہیں کر سکیں گی کہ مثلہ کیا گیا ہے۔ تو ہم اس سے با خبر ہیں اور یہ جو کچھ بھی ہوا ہے راہ خدا میں ہوا ہے ہمیں انشا اللہ آپ صبر کرنے والوں میں پا ئیں گے۔ تو حضور (ص) نے اجازت دیدی۔ جس کو تمام مورخین نے پوری تفصیل سے لکھا ہے، مگر حضرت فا طمہ (رض)کی میدان جنگ میں موجودگی کا ذکرکم ہی کیا گیا ہے جبکہ قابل ِ ستا ئش ہیں صاحب ِ “روضة شہدا ء “ جنہوں نے ان (رض) کا ذکر فر مایا۔ کہ وہ بھی وہاں حضرت صفیہ (رض) کے ساتھ تشریف لے گئیں اور جب خون نہیں رک رہا تھا تو اس میں کپڑا جلا کر بھرا جس سے خون بہنا رکا اور حضور (ص) میں دوبارہ توا نائی آئی
گوکہ وہ شفیق دادا سید الشہداءحضرت حمزہ (رض) کو کھو چکی تھیں اور ان کا وہ کلیجہ بھی دیکھ چکیں تھیں جو کہ معاویہ کی والدہ ہندہ نے چبالیا تھا کیونکہ اس وقت یہ پورا خاندان حالت ِ کفر میں اور کٹر اسلام دشمن تھا ۔پھر ان (رض) کی مسخ شدہ میت بھی دیکھی تھی نیز اپنی دادی حضرت صفیہ (رض) کے ساتھ ان کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی ۔ مگر انہوں (رض)نے حوصلہ نہیں ہارا اور ایک سچی مومنہ کی طرح خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کے سر پر والدِ محترم (ص)کا سایہ قائم رکھا اور دشمنوں کی اڑا ئی ہو ئی خبر غلط ثابت ہوئی۔ نہ صرف والد(ص) بلکہ ان کے سر تاج بھی زندہ اور سلامت واپس تشریف لا ئے۔ جبکہ وہ اس سے بے خبر تھیں کہ قدرت ایک اور امتحان لینے والی ہے ، ابھی وہ خون آلودہ تلوار یں دھو بھی نہ پا ئیں تھی ایک اور مر حلہ پیش ہو آگیا کہ کسی مخبر نے خبر دی ابو سفیان مکہ معظمہ جانے والے راستے پر مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ٹھہرا ہوا ہے اور وہ مدینہ پر دو بارہ حملہ کر نے کا منصوبہ بنا رہا تا کہ اسلام کو ہمیشہ کے لیئے نیست و نابود کر دیا جا ئے۔لہذا حضور (ص) نے پھر ان ہی زخموں سے چور مجا ہدین کو طلب فر ما لیا ،جو کہ زخموں اور تھکن سے پہلے ہی نڈھال تھے اور بہت سے تو ایسے تھے کہ ابھی چلنے کے قابل بھی نہیں ہوئے تھے۔
لیکن قرون ِ اولیٰ کے ان مسلمانو ں (رض) کا جذبہ اطا عت تو دیکھیئے کہ وہ اسی حالت میں نکل آئے اور حضور (ص) اور حضرت (علی (رض) نے پھر حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا سے رخصت چا ہی اور میدان ِ جنگ کے لیئے روانہ ہو گئے۔ مدینہ سے چل کراحمر الا سدپہونچ کر مقیم ہو گئے۔ اس جہاد کی عجیب بات یہ تھی کہ حضور (ص) نے یہ شرط لگا دی کہ آج میرے ساتھ صرف وہی لوگ جا ئیں گے جو احد میں میرے ساتھ تھے! عبد اللہ بن ابی سلول نے اپنی کل کی حرکت پر معذرت کی اور اپنے تین سو ساتھیوں کی تا زہ دم فوج کے ہمراہ چلنے کی اجازت چا ہی ،مگر حضور (ص) نے اجازت نہیں دی۔ اس دن صرف ایک شخص کو اجازت دی گئی جو بنی اشہل میں سے تھے اور غزوہ احد میں شامل نہیں تھے۔ کیونکہ ان کا عذر معقول تھا کہ ان کے والد (رض)نے کہا کہ تم ابھی کم سن اور نا تجربہ کار ہو، میری سات بیٹیاں بھی ہیں لہذا مجھے جانے دو میں تم سے بہتر لڑونگا تم انکی حفاظت کے لیئے رک جا ؤ۔ پھر وہ اپنے بڑے بیٹے کو لیکر میدان ِ جنگ میں تشریف لے گئے اور شہید ہو گئے۔
اب چونکہ والد حیات نہ تھے جن کی حکم عدولی کا خطرہ ہو تا وہ آزاد تھے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ ان کے پاس سواری نہ تھی۔ ان کے ایک بھائی جو کل کی جنگ میں شریک تھے اور بری طرح زخمی تھے اور وہ بھی ارشاد ِرسول (ص) کی تعمیل میں میدان جنگ کے لیئے جانے پر مصر تھے۔ لہذا نہوں (رض) نے اس کا حل یہ نکا لا کہ انہوں نےاپنے اس زخمی بھائی (رض)کو کاندھوں پر اٹھا لیا اور روانہ ہو گئے گوکہ کچھ تا خیر سے پہونچے لیکن وہ بھی اس وقت حضور (ص) کےقدموں میں جا پہونچے، جبکہ اس وقت تک وہ (ص)مدینہ منورہ سے آٹھ میل دور احمر الا سد میں قیام پذیر ہو چکے تھے ۔ حضور (ص) تین دن تک وہاں تشریف فر ما رہے مگر یہ اس فوجی حکمت عملی کا اثر اورمعجزہ فتح با لرعب کا کرشمہ تھا جوکہ ابوسفیان کو مدینہ کی طرف پیش قدمی کر نے کی ہمت نہیں پڑی۔
اسی دوران حضرت معبد خزاعی (رض) جنہوں نے ابھی تک کسی وجہ سے اپنے مسلمان ہو نے کا با قاعدہ اعلان نہیں فر ما یا تھا، جبکہ وہ ایمان لا چکے تھے۔ حضور (ص) کی خدمت اقدس میں حا ضر ہو ئے اوراحد کے واقعات پر افسوس کا اظہار فر مایا۔ پھر فر مایا کہ مجھ سے جو اب بن پڑے گا میں کرونگا آپ مجھے صرف اجازت مر حمت فر مادیں؟ حضور (ص) نے اجازت مر حمت فر مادی۔ تو وہ ابو سفیان کے پاس پہونچے اور اس سے پوچھا کہ یہاں کس ارادے سے ٹھیرے ہو ئے ہو؟ اس نے کہا کہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اب اسلام کو ختم کر کے ہی جاؤں گا، کیونکہ اس سے بہتر موقعہ پھر نہیں ملے گا کہ تمام مسلمان اس وقت زخمی ہیں ۔ مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ وہ (ص)احمر الاسد میں آکر رک گئے ہیں، نہ آگے بڑھ رہے ہیں کہ جنگ ہو نہ واپس جا رہے ہیں کہ میں تعاقب کروں۔ میں اس عجیب صورت ِ حال کو سمجھ نہیں پارہاہوں کہ ایک شکست خوردہ فوج ایک فاتح فوج کے تعا قب میں کیسے آسکتی ہے جبکہ زخموں سے چور چور بھی ہو؟
انہوں (رض) نے جواب دیا کہ اس بھلا ئے میں مت رہنا وہ لوگ جواحد میں شامل نہیں ہو ئے تھے اور ان کے عزیزو اقارب وہاں شہید ہو ئے ہیں، انتہائی غضب ناک ہیں اور وہ کسی آن تمہیں چاروں طرف سے گھیر لیا چا ہتے ہیں کیونکہ وہ احد کا بدلہ لینے کے لیئے بیچین ہیں اور وہ لے کر رہیں گے۔ ابو سفیان ہمیشہ سے ایک پست ہمت انسان تھا جبکہ بدر میں تمام سرداران کفار کے مارے جانے کے بعد قدرت نے اس کو سردار بنا دیا تھا۔ لہذا اس نے بھاگنے کی ٹھانی پہلے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشورہ کیا، صفوان بن امیہ جس کااس کے بعد دوسرا نمبر تھا وہ بھی واپسی پر اڑگیا پھر دوسرے سر داروں سے مشورہ کیا اور سب کی را ئے یہ ہی ہو ئی کہ وہ یہاں سے حضور (ص) کے آنے سے پہلے چلے جائیں۔
اسی دوران ایک قافلہ جو کہ ابو قیس کی قیادت میں مدینہ کی طرف جا رہا تھا وہاں سے گزرا ، ابو سفیان نے اس کو یہ پیغام دیا کہ حضور (ص) کہنا کہ ہم ان کی بیخ کنی کیئے بغیر مکہ نہیں جا ئیں گے۔ اس میں اس کی مصلحت یہ تھی کہ وہ تعاقب سے بچ جا ئے۔ انہوں نے اس کا پیغام حضور (ص) کو پہو نچا یا ۔اور وہ آگے بڑھ گیا ۔ کچھ مورخین نے لکھا ہے اس کے لیئے اس کو ابو سفیان نے کچھ رقم بھی دی تھی تاکہ وہ قریش کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دے اور حضور (ص) تعاقب سے باز رہیں ۔ اتنے میں مخبروں نے خبر دی کہ کفار فرار ہو چکے ہیں۔اس خبر کو سن کر حضور (ص) نے فر مایا کہ “ مجھے قسم ہے اس ذات ِ پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ۔ اگر وہ ادھر کا قصد کر تے تو عذاب الٰہی ان پر نازل ہو جاتا اور وہ نشان زدہ پتھر تیار ہو چکے تھے جن پر ان کے نام لکھے گئے تھے “اس کے بعد حضور(ص)ر مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ اور رات کو اس مسجد میں قیام فر مایا جہاں وہ ہمیشہ قیام فر ما یاکرتے تھے کیونکہ یہ ان کی سنت تھی کہ وہ رات کومدینہ شریف میں داخل نہیں ہو تے تھے۔ بلکہ صبح کو نماز سے فا رغ ہو نے کے بعد داخل ہو تے تھے۔ سب سے پہلے اپنی سنت ِ مبارکہ کے مطابق حضرت فا طمہ (رض) کے حجرے پر تشریف لا ئے۔ اور انہوں اپنے والد کو دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔
چونکہ حضور (ص) کی سنت مبارکہ یہ ہی تھی کہ وہ جب بھی کسی سفر پر باہر تشریف لے جاتے تو حضرت فاطمہ (رض) سے رخصت ہو تے اور جب واپس تشریف لا تے تو ان کے ہاں پہلے تشریف لے جا تے، سوائے ایک سفر ، حج الوداع کے کہ جس میں حضرت فاطمہ (رض) خود ہمراہ تھیں ۔ مگر نہ جانے کیوں مورخین اس کو تاریخ میں تحریر نہیں کیا یا کیا ہو گا، مگر بعد میں حذف کر دیا گیا۔ واللہ عالم ۔ لیکن یہ بات قطعی ہے کہ وہ (رض) اس کے بعد پھر کبھی میدان ِ جنگ میں تشریف نہیں لے گئیں ۔ سوائے آیت مبا ہلہ کے نزول کے موقع کے کہ وہ اس قافلہ میں ہمراہ تھیں جس میں حضور (ص) آگے تھے، ان کے پیچھے علی کرم اللہ وجہ اور ان کے پیچھے حضرت سیدہ سلام اللہ علیہااور جناب ِحسنین (ع)۔
آیت ِ مباہلہ کا نزول۔ نجران کا ایک وفد ان کے علماء پرمشتمل آیا اور اس نے حضور (ص) سے منا ظرہ کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہو ئی کہ تم اپنے بیٹے اور بیٹیو ں کو لے آو اور ہم اپنے بیٹی اور بیٹیوں کو لے آئیں۔ اور پھر دعا کریں کہ ہم سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے غارت کر دے؟
دوسرے دن کا وقت مقرر ہوا ۔اور یہ پانچوں نفوس ِ قدسی (ع) جب حضور (ص) کی قیادت میں باہر تشریف لا ئے تو انہوں نے مباہلے سے راہ فرار اختیا ر کی اور جزیہ دینے پر را ضی ہو کر معاہدہ کر لیا۔ اس کا ذکر ہم نے پہلے اس لیئے کیا کہ اس کے بعد ہم آیت ِمودة کا ذکر کر نا چا ہتے تھے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ص)کی دلجوئی کے لیئے ایک ایسی آیت نازل فر ما ئی کہ جس کی تا ریخ انسانی میں اور قر آن میں اس پہلے کوئی مثال نہیں ملتی؟
اس سے پہلے جس نبی (ع) نے بھی فر مایا تو یہ ہی فرمایا کہ ہم تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے گوکہ الفاظ مختلف تھے ۔مگر پیغام یہ ہی تھا ؟جن میں سب سے پہلے نوح علیہ السلام کی زبانی (سورہ ہود آیت نمبر ٩ ٢میں یہ پیغام دیا گیا ، پھر انہیں کی طرف سے اس کے بعد سورہ اشعراءکی آیت نمبر ١٠٩ میں یہ ہی بات بیان ہو ئی ہے۔اسی طرح ہود علیہ السلام نے سورہ ہود آیت نمبر٥١ میں اور الشعرا کی آیت نمبر١٢٧میں یہ ہی پیغام دہرایا۔اور پھر یہ ہی بات حضرت صالح علیہ السلام نے سورہ شعراءکی آیت ٤٥ میں دہرائی اور اس کے بعد الشعراءآیت نمبر ١٤٦ میں لوط علیہ السلام نے اور پھر صالح علیہ السلام نے آیت ١٨٠ شعراءمیں پھر حضور (ص) کی زبانی سورہ ص آیت٨٦ اور الانعام میں آیت ٩٠ میں یہ ہی پیغام دیا ۔ مگر یہاں آکر آخری نبی (ص)کی دلجوئی کے لیئے اس پیغام میں ان قر آنی احکامات میں یہ جملہ شامل کیاجاتا ہے کہ میرے اقربا ءکے ساتھ سلوک کرو! ہمارے خیال میں اس کی وجہ یہ ہی رہی ہو گی چونکہ اس وقت تک تمام پیشن گو ئیاں +چکی تھیں اور حضور (ص) نے شہادت ِ اہل ِ بیت کے سلسلہ میں فر ما بھی دی تھیں لہذا تشویش ہو نا بشریت کا تقاضہ تھا لہذا اس میں اس میں امت کو بطور حکم تاکید کر دی گئی۔ کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ قل لا اسلکم علیہ اجراً الالمودة فی القربیٰ و من یقترف حسنہ نزدلہ فیھا حسناً( ط) ان اللہ غفور الرحیم ہ (سورہ الشورہ آیت نمبر ٢٣)
جب یہ آیت نازل ہو ئی تو صحابہ کرام (رض) نے حضور (ص) سے پوچھا کہ اس آیت مودة سے کون سے اعزاءمراد ہیں ؟ تو بقول حضرت ابن ِ عباس (رض)حضور (ص) نے فر مایا کہ علی، فاطمہ ،اور ان کے بیٹے۔ ( رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) چونکہ حضرت ابن عباس ِ حضرت عباس بن عبد المطلب کے صاحبزادے اورحضور (ص) کے چچا زاد تھے اور یہ شہادت انہوں (رض)نے صاحب ِ معاملہ ہونے کے باوجود خود اپنے خلاف دی اور یہ بھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کا تقویٰ اور علم مسلمہ اور ضرب المثل تھا۔ لہذا ہونا تو یہ چا ہیئے تھا کہ بات اس پر ختم ہو جاتی مگر اس پر مفسرین اورمرخین میں طویل بحث چھر گئی کیونکہ ہر دور میں ایک طبقہ ہمیشہ سے موجود تھا جو بادشاہِ وقت کو خوش کرنے کے لیئے ۔ اہل ِ بیت کے مناقب کم کرنے کے درپہ رہا ۔ لہذا اس پر بڑی لمبی چوڑی بحث چھیڑدی گئی کہ یہ صورت تو مکی ہے اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شادی ہی نہیں ہو ئی تھی ؟
پھر ایک اور روایت بیان ہو ئی ہے کہ اس آیت کی شان ِ نزول یہ ہے کہ ایک دن حضرت عباس (رض) نے حضور (ص) سے شکا یت فرما ئی کہ ہمیں دیکھ کر قریش چپ ہو جاتے ہیں اور نفرت کا اظہار کر تے ہیں؟ حضور (ص)یہ سن کر بہت نا راض ہو ئے اور فر مایا کہ جو میرے قرابتداروں سے محبت نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔ اس کو ان سے منسوب کر نے میں مشکل یہ ہے کہ وہ تو اس وقت ایمان ہی نہیں لا ئے تھے حضور (ص) کے صرف دو چچا ان (ص)کے کھلم کھلا حامی تھے ۔ایک حضرت ابو طالب جو شروع سے ہی حامی تھے اور دوسرے حضرت حمزہ (رض) جو دعویٰ نبوت کے کچھ عرصہ کے بعد ایمان لے آئے تھے۔ جبکہ حضرت عباس تو غزوہ بدر میں قریش کی طرف سے شریک ِ جنگ تھے اور گرفتار بھی ہو ئے ۔
حضور (ص) چونکہ ان سے بے انتہا محبت فر ماتے تھے۔ لہذا ان کو رسیوں میں جکڑا دیکھ کر حضور (ص) کو رات بھر نیند نہیں آئی ۔ جب صحابہ کرام (رض) کو پتہ چلا تو حضرت عمر (رض) ان صحابی (رض) کے پاس تشریف لے گئے جن کے وہ قیدی تھے۔ اور ان سے کہا کہ ان کو حضور (رض) کی قرابتداری کا خیال رکھتے ہو ئے رہا کردو۔ اور جب وہ رہا ہو گئے تو ان سے عرض کیا کہ اگر آپ اسلام قبول کر لیں تو مجھے اپنے والد خطاب کے اسلام سے بھی زیادہ خوشی ہو گی اس لیئے کہ آپ کا اسلام میرے والد کے اسلام لانے سے زیادہ حضور (ص) پسند ہے۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا اوررہا ہونے کے بعد گھوڑے کو ایڑ لگا ئی اور مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ اسلام اس وقت لا ئے جبکہ حضور (ص)فتح مکہ کے لیئے روانہ ہو ئے تو وہ راستہ میں حضو (ص)ر سے آملے ۔اس صورت میں ان کی مکی زندگی میں یہ کفار سے شکا یت ہو نا اس آیت کا شان ِ نزول کیسے ہو سکتا ہے؟ اور جبکہ وہ ان کے ساتھی تھے، اسوقت ان کے ساتھ کفار کابغض اور عدم اعتمادکس بنا ہوسکتا تھا؟ لہذا یہ وجہ اس آیت کی شان ِ نزول ہو، بات کچھ دل کو نہیں لگتی۔ چونکہ اکثر صورتوں میں ایسا ہوا ہے کہ پوری کی پوری سورت مکی ہے اور کوئی ایک آیت مدینہ میں نازل ہو گئی۔ چونکہ اس میں اکثریت مکی صورتوں کی تھی لہذا مفسرین نے اس کو مکی لکھدیا ورنہ انہیں یہ لکھنا پڑتا کہ اتنی آیات مکی ہیں اور اتنی آیات مدنی ہیں ۔
ہم اس بحث کوایک روایت اور بیان کر کے ختم کرتے ہیں جس میں اس کا دائرہ کچھ اور وسیع بیان کیا گیا ہے۔مسلم وغیرہ میں روایت ہے کہ زید بن حیا ن(رح)، حصین (رح) بن میسرہ اور عمر (ح) بن مسلم حضرت زید بن ارقم (رض)کے پاس تشریف لے گئے اور فرما یا کہ آپ نے تو تمام ثواب سمیٹ لیا کہ آپکو (رض) حضور (ص) کی رفاقت حاصل تھی۔کوئی ہمیں بھی ایسی حدیث عطا ہو کہ ہم اپنی عا قبت درست کر لیں۔ اس پر انہوں (رض) نے فر مایا کہ اے میرے بھتیجوں ! میں اب بہت بوڑھا ہو گیا ہوں میرا حافظہ بھی کمزور ہو گیا ہے لہذا میں جو خود سنا دیا کروں وہ سن لیا کرو، مجھے (سوال کرکے )تکلیف مت دیا کرو۔ پھر فر مایا کہ مکہ اور مدینہ کے در میان ایک کنواں ہے جسے خم (خم غدیر) کہاجاتا ہے وہاں کھڑے ہو کر اللہ کے رسول (ص) نے ہمیں یہ خطبہ دیا ! اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فر مایا کہ میں ایک انسان ہوں کیا عجب کہ ابھی اللہ کا قاصد پہونچ جا ئے اورمیں اس کی بات مان لوں۔سنو! میں دو چیزیں تمہا رے در میان چھوڑے جا رہا ہوں۔ ایک تو کتاب اللہ اس پر چنگل مارے رہو اور دوسرے (اپنی عترت) پھر اہل ِ بیت کے بارے میں بہت رغبت دلا ئی کہ میں اپنے اہل ِ بیت کے بارے میں تمہیں خدا کو یاد دلاتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت حصین (رح) نے پو چھا اہل ِ بیت میں کیا حضور(ص) کی بیویاں (رض)شامل نہیں ہیں ؟ ۔حضرت زیدبن ارقم (رض)نے فر مایا بے شک آ پ کی بیویاں (رض)بھی شامل ہیں۔ لیکن اصل میں آپ کے اہل ِ بیت وہ ہیں جن پر آپکے بعد صدقہ حرام ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا وہ کون ہیں؟ تو فر ما یا کہ آل ِ علی (رض) آل ِ عقیل (رض) ، آل جعفر (رض) اور وآلِ عباس (رض) ۔ انہوں نے پو چھا پھر پو چھا کہ کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے فر مایا، ہاں ! اس مضمون کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ مگر ہم طوالت کے خوف سے سب کو یہاں پیش نہیں کر رہے ہیں
آیت ِ تطہیر،اس کو بھی بعض مفسرین نے متنا زع بنا دیا ہے۔کہ اس کا شان نزول یاتوامہات ِ مومین تک محدود کردیا ہے یا ان کو اس میں شامل کر دیا ہے۔ بلکہ بعض تو کہتے ہیں کہ صرف امہات المونین کے لیئے ہے اور ان کے پاس اس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلی سورہ احزاب کی آیت نمبر۳٢ چونکہ ازواج ِ مطاہرات کے بارے میں ہے لہذا یہ آیت نمبر۳٣ بھی انہیں (رض) کے سلسلہ میں ہے؟
یہ دلیل اس لیئے غور طلب ہے کہ یہ سب جانتے ہیں کہ دوسری آسمانی کتابوں کی طرح قر آن ایک مرتبہ میں نازل نہیں کیا گیا ؟بلکہ جیسے جیسے ضرورت پیش آتی گئی، ویسے ہی آیات یا سورتیں نازل ہو تی رہی ہیں ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر آپ الفاظ ِقر آن پر غور کریں تو اس کا انداز ِبیان ایسا ہے کہ زیادہ تر سوالیہ اور جوابیہ ہےاور جو بھی سوال کسی طرف سے اٹھایاگیا اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر ہر قدم پر حضور (ص) کی رہنما ئی فرما تارہا ۔ مثال کے طور پر جب بھی کسی کی طرف سے کوئی سوال ہو ا ،کبھی فوری طور پر کبھی تاخیر سے جواب عنایت فر مادیا گیا۔ سوائے سورہ کہف کے کہ جس میں حضور (ص) کو پندرہ دن یا بارہ دن تک انتظار کی زحمت اٹھانا نا پڑی ، اس کے بعد وہ کہیں جاکر نازل ہو ئی ۔
لہذا اس بحث سے یہ بات واضح ہوگئ قرآن حضرت موسیٰ (ع) پر تورات کی طرح ایک ہی بار میں نہیں اتارا گیا، بلکہ جیسے جیسے ضرورت ہو تی گئی، ویسے ویسے آیات یا بسا اوقات صورتیں نازل ہو تی رہیں اور حضور (ص) ان کو ساتھ کے ساتھ نافذ فر ماتے رہے۔ اور اس طرح یہ بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ اس امت کو خدا نے یہ سہولت عطافر مائی کہ وہ اس پر آہستہ آہستہ عادی ہو کرعامل ہوجائے۔ مثلا ً شراب کی ممانعت تین مرتبہ میں آئی۔ نماز پہلے دو رکعات پھر چند ااوقات میں چار ہوئی ایک میں دو اور ایک وقت میں تین رکعات فرض ہوئی اور اسی طرح روزوں کے احکامات دومرحلوں نافذ ہو ئے پہلے بعض چیزوں کی رات کو اجازت نہیں تھی جوکہ بعد میں دیدیگئی ۔
اس بحث سے مجھے یہ ثابت کر نا تھا کہ قرآن میں یہ لازمی نہیں تھا کہ ساری آیات تسلسل کے ساتھ ہوں کہیں تسلسل ہے کہیں نہیں بھی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ وہ جو چاہے جس وقت چا ہے جس طریقہ کو چاہے استعمال کرسکتا ہے ؟
اب دوسری وجہ ہم اس کے بعد ایک اوربات بھی سمجھ لیں کہ ابن ِ کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں یہ حدیث بیان کی ہے جس میں لکھا ہے کہ ً حضور (ص) نےفر مایا کہ جبرئیل علیہ اسلام مجھے نہ صرف قر آن یاد کراتے تھے، بلکہ ہر آیت کی تفسیر بھی بتا تے جا تے تھے ً اگر اس کو سامنے رکھا جا ئے تو کسی بھی آیت کے نزول کے بعد حضور(ص) نے جو کچھ عمل کر کے دکھا یا وہی اس کے معنی، تفسیر اور شان ِ نزول ہو گی۔ کیونکہ اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ حضور (ص) کو تفسیر سے با خبر نہ فر ماتا تو ان کے لیئے پیغام پہوچا نا ممکن نہ ہو تاکیونکہ لوگ جب عمل کے بارے میں سوال کرتے کہ کیسے کریں ،تو جواب نہ پاتے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ہمارے کچھ لوگ لفظی تر جمہ کر تے ہو ئے اکثر حضرت آدم (ع) کے بارے میں یہ تفسیر کرتے ہیں کہ ان کو اللہ نے چیزوں کے نام بتا دیئے تھے ،جو فرشتوں کو معلوم نہ تھے۔اگر اس کی گہرائی میں جا ئیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہر موجد جب پہلی دفعہ کوئی چیز متعارف کراتا ہے تو اس کانام تو رکھتا ہی ہے مگر اس کے اوصاف اور خواص بھی بتاتا ہے۔ جس کے بعد وہ چیز پہچانی جا تی ہے ۔ لہذا حضرت آدم کو اللہ سبھانہ تعالیٰ نے بطور خالق اپنی تخلیقات کے نام ہی نہیں بلکہ ان کے خواص بھی بتادئیے تھے، جس سے ان کو یہ علم حا صل ہوا کہ کس چیز کا نام کیاہے اور وہ کس مقصد کے لیئے تخلیق کی گئی ہے؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو صرف نام سے حضرت آدم کیسے پہچانتے کہ یہ کیا ہے اور کس کام کے لیئے ہے؟ جبکہ اس چیز کا دنیا میں پہلے سے وجود ہی نہ تھااور کبھی انہوں نے پہلے دیکھی ہی نہیں تھی۔ دوسرے اگر صرف نام کی بات ہوتی تو وہ فرشتے بھی بتا دیتے جن کی رسائی اس کتاب تک تھی جس میں نام درج تھے۔لہذا اللہ سبھانہ تعالیٰ نےحضرت آدم کو نام بھی بتا ئے اور ان کے خواص بھی۔ اسی طرح حضور (ص) کو قر آن یاد بھی کرا یا اور تفسیر بھی بتا ئی ۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ تو اس پر ہر صاحب ِ علم کو غور کرنے کا حکم دیتا ہے مگر ہم زیادہ تر تومعنوں تک محدود رہ جا تے بلکہ بہت سے تومعنوں سے بھی نا واقف ہیں تو پھر بات بنے تو کیسے ؟
اس صورت حال کو سمجھانے کے بعداب ہم اس آیت پر بات کرتے ہیں۔اس کے نزول کی چشم دید گواہ ام المونین حضرت ام سلمیٰ (رض) ہیں ان سے روایت بیان ہو ئی ہے کہ ًجب یہ آیت نازل ہو ئی تو حضور (ص) اس دن ان کے حجرے میں تشریف فر ما تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد حضور(ص) نے حضرت علی کرم اللہ وجہ حضرت فاطمہ (رض) اور جناب ِ حسنین (رض) کوطلب فر مایا اور سب کو ایک کمبل میں جمع کر لیا۔ وہ آگے فر ماتی ہیں کہ میں نے پوچھا انا معھم یا رسول اللہ؟ رسول اللہ (ص) نے جواب میں فرمایا ً انت مکانک انتاعلی الخیر ً ترجمہ میں نے کہا کہ ً کیاحضور (ص)میں بھی آجاؤ ں تو فر مایا نہیں تم وہیں رہو تمہارے ساتھ خیر ہے ً یہ ہی روایت بہت سی مستند حدیث کی کتابوں میں بیان ہو ئی ہے جس میں الفاط میں کچھ اضافہ ہے مگر یہ عبارت سب میں ہے کہ حضرت ام ِ سلمیٰ (رض) نے اس کمبل کے زیر سایہ آنے کی اجازت مانگی جو ان کو نہیں ملی۔
ان کے علاوہ ایک روایت حضرتام المونین حضرت عا ئشہ صدیقہ (رض) سے بھی ہے جس میں انہوں (رض) نے فر مایا کہ رسول اللہ (ص)طلوع فجرکے وقت سیاہ بالوں کا اونی کمبل اوڑھے ہو ئے نکلے ۔ حسن (رض)اور حسین (رض) آئے تو انہوں (ص)نے ان دونوں کو اس میں دا خل فرمایا لیا پھر حضرت فا طمہ (رض) آئیں تو ان کو بھی داخل فر مالیا پھر اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ آئے تو ان کو بھی داخل فر مالیا۔ اس کے بعدرسول اللہ (ص) نے یہ آیت تلاوت فر مائی
انما یرید اللہ لیذھب عنکم رجس اھل البیت یطہر کم تطھیرا ہ اور پھر دعا مانگی۔
پھر اس کے بعد اس آیت کو پڑھ کر اور حجرہ حضرتِ زہراءکے دروازے پر کھڑے ہو دعا مانگنے کا یہ سلسلہ حضور (ص)کی طرف سے بروایت حضرت سعد بن خذری (رض) چالیس دن تک، جبکہ حضرت ابن ِ عباس (رض) اور حضرت انس بن مالک (رض) کے مطابق سات ماہ تک جاری رہا۔
ان کے علاوہ ایک روایت اس سلسلہ میں حجرت ابو سعید خذری (رض) سے یہ بھی ہے کہ انہوں (رض) نے فر مایا کہ ً میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (ص) یہ آیت کس کے بارے میں ہے ؟تو فرمایا کہ یہ آیت میرے (ص) ، علی کرم اللہ وجہ حسن (رض)، حسین (رض) اور فاطمہ (رض) کے بارے میں ہے۔
اب ہم اس پر عمل کی بات کرتے ہیں کہ پہلے انہوں نے اہل ِ بیت کو اپنے کمبل میں اپنے ساتھ چھپا لیا۔ اور پھر دعا مانگی ایسا کیوں کیا۔ دراصل اللہ سبحانہ تعالیٰ اعلان کرنا چا ہتا تھا۔ آگے حضور کانام کن لوگوں سے چلے گا ؟ کیونکہ وہ اپنے محبوب کو یہ ضمانت دے چکا تھا کہ ابتر آپ نہیں آپ کے دشمن ہو نگے؟ تو مسئلہ صاف ہو نا ضروری تھا کہ آپ (ص) اولاد ِ نر ینہ کی عدم موجود گی میں نام کیسے چلے گا؟
اس پر ایک صوفی مسلک مورخ نے یہ لکھا ہے کہ یہ حضور(ص) نے تصرف فر ماکر خود اعلان فر مادیا کہ میرے اہل ِبیت کون ہیں؟ ۔ مگر میرے خیال میں یہ تصرف نہیں بلکہ حکمِ ربی تھا جو ان کو ملا جس کا اعلان فر مانے کے لیئے، انہوں (ص) نے اہل ِ بیعت کو بلا کر تعمیل فر مائی ۔پہلی دلیل کے طور پر تو میری اوپر بیان کردہ حدیث ہے کہ حضور (ص) کو ہر آیت کی تفسیر بھی بتا ئی جاتی تھی؟ دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن میںاللہ سبحانہ تعالیٰ نے فر مایا کہ ً یہ نبی اپنی مرضی سے کچھ نہیں فر ماتے یہ وہی کرتے ہیں جو میں چاہتا ہوں(حکم دیتا ہوں) ۔
اب اس تمام بحث کے بعد یہ عملی مظاہرہ کیا ظاہر کر تا ہے کہ یہ آیت کس کے لیئے تھی بات آپ پر چھوڑ تا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ اسی سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق (رض) کی ایک روایت ہے کہ حضور (ص) نے فر مایا کہ ہم خلقت آدم سے دو ہزار برس پہلے خدا تعالیٰ کی حمد و تقدیس کرتے تھے۔پھر جب آدم (ع) کو بنایا گیاتو ہم دونوں کو ان کی پشت میں ڈالدیا گیا پھر اصلاب مقدسہ اور ارحام مقدسہ سے ہو تے ہو ئے حضرت عبد المطلب کی پشت میں آئے پھر اس نور میں سے دو حصے حضرت عبد اللہ کی پشت میں اور ایک حصہ حضرت ابی طالب کی پشت میں منتقل کر دیا گیااور وہ نور ِ مبارک میرے(ص) اور علی (رض) کے ذریعہ میری بیٹی فاظمہ میں منتقل ہوا (پھر) حسن (رض) اور حسین خدا تعالیٰ کے دو نور ہیں “اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ارواح ِمطا ہرہ شروع سے پاک تھیں اور پاکیزہ صلبوں میں اور حموں میں سے منتقل ہو تے ہو ئی یہاں تک پہونچی تھیں، پھر تطہیر کی کیا ضرورت تھی؟اس کو سمجھنے کے لیئے یہ بات ماننا پڑے گی کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ تعالیٰ قادر ِ مطلق ہے اور وہ جوچا ہے جیسا چا ہے کرے ۔
مثال کے طور پر اس نے دنیا کی تمام چیزیں ایک لفظ کن سے پیدا فر ما دیں، مگر قرآن کہہ رہا کہ حضرت آدم (ع)کو اس نے اپنے ہاتھ سے بنا یا؟ یہ ہی شکل تطہیر کی ہے کہ جس کا جیسا رتبہ تھا ویسی ہی اسے تطہیر کی ضرورت تھی اور اس کا فیصلہ رب نے خود اپنے ہاتھ میں اس لیئے رکھا ہوا ہے کہ وہ جانتا ہے کس کو کسطرح پاک کر نا، یا تخلیق کر نا ہے کیونکہ وہ حکیم ہے اور اپنی حکمت بھی خود ہی جانتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو واقعہ شقِ صدر بھی کبھی وقوع پزیر نہ ہو تا جو مستند روایات کے مطابق دو مرتبہ حضور (ص) کے ساتھ ہوا ؟وہاں اس نے طہارت کا وہ طریقہ استعمال کیا اور زمین پر فرشتوں کو بھیجا؟ اور یہاں طہارت کے لیئے “ کن “ والا طریقہ استعمال فرمایاکہ اس نے فر ما دیا کہ “مجھے اہل ِ بیت کو پاک کر نا ہے لہذا نبی (ص) نے دعا فر ما ئی اور وہ پاک ہو گئے “ یہ پاکی گنا ہوں سے پاکی نہ تھی بلکہ یہ پاکی ہر قسم کے شک و شبہ اور وسوسوں سے پاکی تھی جس میں انکے والدین تو پو رے اتر چکے تھے، مگر بچے ابھی بچے تھے اور انہیں اس کے لیئے تیا ر کر نا تھا کیونکہ ان کو آگے چل کی قر بانیاں دینا تھیں۔ اس لیئے انکے ننھے منےقلوب کو مزید تقویت دینے کے لیئے اس کی ضرورت پڑی اور حضور (ص) نے وہ کیا جو ان (ص)کو حکم ہوا۔
آیت مبا ہلہ۔۔ اس کو مزید تقویت آیت مبا ہلہ کے نزول سے ملتی ہے کہ حضور (ص) نے اہل ِ نجران کو ایک خط بھیجا جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ وہ اللہ کی حاکمیت اور حضور (ص) کی رسالت مان لیں اور مسلمانوں کے بھا ئی بن جا ئیں۔ لہذا اہل ِ نجران نے اپنا ایک وفد بھیجا جو کہ ١٤ سرداروں ٤٦علماءاور اکا برین پر مشتمل تھا تاکہ وہ حضور (ص) سے منا ظرہ کر یں۔ یہ نسلی طور پر عرب تھے اور ان کے بارے میں بہت سے قصے تا ریخ میں مشہور ہیں کہ وہ عیسا ئی کیسے بنے ؟جن کو ہم اگر یہاں دہرا ئیں تو صرف طوالت کا با عث ہو گا۔ البتہ جوحصہ اس آیت کے نزول کا با عث ہوا وہ ہم یہاں درج کر رہے ہیں۔
وہ لوگ چونکہ دربارِ روم سے وابسطہ تھے لہذا ان کے اطوار وہی درباری قسم کے تھے، لہذا وہ یہاں مر عوب کر نے کے لیئے جب سجے بنے در بار نبوی (ص) میں پہونچے تو حضور (ص)مسجد نبوی میں تشریف فر ما تھے۔انہوں نے سلام کیا مگر حضور(ص) نے جواب نہیں دیا۔ وہ باہر نکل آئے تو انہیں حضرت عثمان (رض)بن عفان اور حضرت عبد الرحمان بن عوف (رض) ملے، انہوں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں نے خود ہی ہمیں بلا یا اور جب ہم آئے تو ہمارے سلام کا جواب بھی حضور(ص) نہیں دیا ۔ انہیں (رض) یہ بات عجیب معلوم ہو ئی لہذا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے پاس گئے کہ وہ زیادہ مزاج شناسِ رسول ہیں (ص) لہذا کیا وجہ ہو سکتی ہے جس کی وجہ سےحضور (ص) نے ان سے بات چیت نہیں کی ۔ تب حضرت علی (رض)نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر یہ حضور (ص)کے پاس سادھے لباس میں جا ئیں اور یہ اپنے ریشمی کپڑے اور زیورات اتار دیں ،تب شاید حضور (ص) مخاطب ہوں۔
جب وہ کپڑے بدل کر حاضر ہو ئے تو حضور (ص)نے توجہ فر ما ئی۔ جب وہ حاضر ِ دربار ہو گئے تو انہوں نے حضرت عیسیٰ (ع) کے بارے میں سوال کیا کہ اس کے بارے میں آپ کیا فر ماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (ع) بغیر باپ کے پیدا ہو ئے ہیں لہذا خدا کے بیٹے ہیں ؟ حضور (ص)نے جواب میں یہ فر ماکر لا جواب کر دیا کہ حضرت آدم (ع) کو اللہ نے بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا، اس میں شک نہ کرو یہ اس کی حکمت ہے کہ (وہ جو جی چاہے کرے) اس کا ان کو کوئی جواب تو بن نہیں آیا مگر اس پر اڑے رہے کہ حضرت عیسیٰ (ع) اللہ کے بیٹے ہیں (نعو ذو باللہ ) ۔ اس کٹ حجتی کا جواب دینے کے لیئے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت جبرا ئیل (ع) کو بھیجا اور پیغام دیا کہ اے محبوب! فر مادیجئے کہ ً آؤہم آپس میں مبا ہلہ کر لیں تاکہ حق و باطل کی تمیز ہو جا ئے اور یہ آیت نازل فر ما ئی فمن حآجک فیہ من بعد ما جآ ءک من العلم فقل تعالو ند ع ابناءنا و ابناءکم و نسا ءنا و نساءکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنت اللہ علی الکاذبین ہ ترجمہ اے محبوب جو آپ سے جھگڑتے ہیں ان سے آپ فر ما دیجئے کہ بعد اس کے تمہیں اس پر مطلع کر دیا گیا (اور نہیں مانتے ہو) کہ آؤ ہم اور تم بلا ئیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیںاور تمہاری عورتیں، اپنی جانیں اور تمہاری جانیں اور پھر مبا ہلہ کریں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہوا۔ (سورہ لعمران ٦١)
اس کے بعدحضور (ص) حضرت فا طمہ (رض) کے حجرے پر تشریف لا ئے اور فرمایا کہ بیٹی تیا ر ہو جا ؤ اور یہ ہی حکم حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حسن (رض) اور حسین (رض)کو ہوا۔ جب یہ مقدس کنبہ با ہر نکلا تو ترتیب اس طرح تھی کہ آگے حضور (ص) ان کے پیچھے حضرت علی کرم اللہ وجہ اور بعد میں حضرت فاطمہ (رض) اور حسن (رض)اور حسین (رض) ۔ایک دوسرے مورخ نے ترتیب کچھ مختلف بیان کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ جب حضور (ص) حجرے سے بر آمد ہوئے تو تر تیب اس طرح تھی کہ حضور (ص) حضرت امام حسین علیہ اسلام کو گود میں لیئے ہو ئے تھے۔ اور حضرت امام حسن علیہ سلام حضور (ص) کی انگلی پکڑے ہو ئے تھے اور ان کے پیچھے حضرت فا طمہ سلام اللہ علیہا حضور (ص) کے کمبل کا کونہ پکڑے ہو ئے تھیں اور حضرت حضرت علی کرم اللہ وجہ ان کی چادر کا کونہ پکڑے ہو ئے تھے اور اس چل رہے تھے کہ ایک کے دوسرے کے نقش ِ پا پر قدم پڑ رہے تھے۔ واللہ عالم۔
مگر جن لوگوں کو انکار کی عادت ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ہوا ہی نہیں ؟ اگر نہیں ہوا تو پھر مستند احادیث کی کتا بوں میں کہاں سے آیا؟ اس کا جواب بھی آپ چھوڑتا ہوں؟
ایسی آیات اور بھی بے شمار ہیں ۔لیکن ان سب کو حضور (ص) کے عمل سے ثابت کر نا ممکن نہیں ہے جیسا کہ ہم گزشتہ مرتبہ کی آیات کو ثابت کرچکے ہیں۔لہذا ہم ایک مشہور آیت اور پیش کرکے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔وہ آیتِ درود، یا صلواة ہے ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ قر آن ِ مجید فرقان ِ حمید میں فرماتا ہے کہ
ان اللہ و ملٰئکتہ یصلون علٰی النبی یا ایھاالذین آمنو صلو اعلیہ وسلموا تسلیماہ ًاس آیت کے نزول کے بعد بھی صحابہ کرام (رض)) نے پوچھا کہ حضور (ص) ہم درود کس طرح بھیجیں؟اس سلسلہ میں متعدد احادیث بہت سے صحابہ کرام سے مروی ہیں مگر ان کا مضمون ایک ہی ہے لہذا ہم چند پر کفالت کرتے ہیں ایک تو وہی ہے جو ہر نماز میں حنفی مسلک کے مطابق ہم لوگ روز نماز میں پڑھتے ہیں ۔الھم صلی علی محمدوعلیٰ آل محمدکما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید ً با محاورہ اردو ترجمہ ً یا اللہ سلامتی نازل فر ما محمد (ص) اور آل محمد (رض) پرجس طرح نے تونے نوازا ابراہیم (ع)اور آل ِ ابراہیم کوبے شک تو حمید اور مجید ہے جبکہ بعض روایات میں ً عترتہ و ازواجہ ً کی اضافت کے ساتھ ہے۔ یہ تھا درود بھیجنے کا طریقہ جو امت کو حضور(ص) نےتلقین فر ما یا۔ مگر حضور (ص) جب خود دعا فرماتے تو چاروں (رض) کو اپنے آغوش ِ رحمت میں پہلے سمیٹ لیتے اور پھر یہ دعا فر ماتے۔
اللھم ان ھولا آل محمد فجعل صلا تک برا کاتک علی آلِ محمد انک حمید مجید
جبکہ حضرت عبد القادر جیلانی (رض) جو کہ حسنی اور حسینی سید تھے اور فقہ حنبلی میں امام احمد بن حنبل (رح) کے بعد ان کا دوسرا درجہ ہے اور سنی بھی ان سے بہت عقیدت رکھتے ہیں انہوں نے جو درود شریف اپنے مریدوں کو تلقین فر ما ئی وہ ہے اللہ ھم صلی علی محمد معدن الجود و والکرم و آلہ و بارک وسلم
اس پر سب متفق ہیں کے درود میں آل ِ محمد شامل ہے اور آل ِمحمد سے حضور (ص) کی مراد کیا تھی۔ اس پر بھی ہم کافی بحث کرچکے ہیں لہذا اب مزید دہرا نے کی ہمارے خیال میں کو ئی ضرورت نہیں ہے۔جبکہ اس پر تمام فرقے متفق ہیں کہ بغیر دورود شریف کے نہ نماز ادا ہو تی ہے اور نہ دعا قبول ہو تی ہے ۔ بلکہ حضور (ص) نے فر مایا “ جب تک مجھ پر درود نہ بھیجی جا ئے دعا محجوب رہتی ہےاور دعا کی قبولیت کا طریقہ بھی یہ ہی تلقین فر مایا کہ اول اور آخر میں درود پڑھ لیاکرو “
ہم اب اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اب ان احادیث کو پیش کر تے ہیں جو کہ اہل ِ بیت کی شان میں ہیں اورمفسرین نے اور مورخین نے مختلف تفا سیر میں ان کو مستند قرار دیکر نقل کیا ہے۔
اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے وہ حدیث پیش کر رہے ہیں جو متفق علیہ ہے۔ حضور(ص) نے فرمایا کہ
فاطمہ بضعتہ من یقبضنی ما یقبضھا ویبسطنی اما یبسطھا فاطمہ بضعتہ منی یفضبنی ما یضبہا فمن اغضبنھا اغضبنی فاطمہ بضعتہ منی یسرنی ما یسر ھا فاطمہ بعنمتہ منی اربینی ما ارابھا فاطمہ بضعد منی یو ذینی ما یوذیھا ومن یو ذینی فقط اذی اللہ
اس طویل حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ ً فاطمہ( سلام اللہ علیہا) میرا (گوشت کا ) تکڑا ہیں ۔فاطمہ کا ناراض ہو نا میری نا راضگی کا با عث ہے جو فاطمہ کو ناراض کر تا ہے وہ مجھے ناراض کر تا ہے۔( اس کے بعد پھر اسے دہرا تے ہو ئے مزید زور دینے کے لیئے فر ماتے ہیں) فاطمہ میرا تکڑا ہے ، فاطمہ کی تکلیف میری تکلیف ہے اور فا طمہ کی راحت میری راحت ہے، فاطمہ میرا تکڑا ہے جو چیز اس کو تکلیف دیتی ہے وہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔ پھر فرماتے ہیں فاطمہ میرا تکڑا ہے جو چیز اسے بیچین کر تی ہے وہ مجھے بے چین کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرتی ہے وہ میری بھی خوشنودی کا با عث ہے۔ جو بات فاطمہ کو ناگوار گزرے وہ مجھے بھی بری لگتی ہے اور جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جو بات فاطمہ کی خوشی کا با عث ہو میں اس سے خوش ہو تا ہوں۔جو بات اس کے لیئے تکلیف دہ ہو وہ بات مجھے بھی تکلیف پہونچا تی ہے۔ پھر اس پوری حدیث کا لب لباب بیان فر ماتے ہیں ً جو بات فاطمہ کو ایذا پہونچا ئے، اس نے مجھے ایذا پہو نچا ئی اور مجھے ایزا دینا اللہ سبحانہ تعالیٰ کو ایذا پہو نچا نا ہے۔ “
اس حدیث میں بڑی حکمت پو شیدہ ہے کہ پہلے انہیں (س) اپنے جسم کا حصہ قرار دیا ۔ اور جسم کے بارے میں آپ سب جانتے ہیں کہ اگر اس کے کسی ایک حصہ میں سوئی چبھا نا تو بڑی بات ہے ،اگر اس سے ایک بال بھی کھینچ کر نکا لا جا ئے تو انسان تڑپ اٹھتا ہے اور منہ سے کراہ نکلتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ چونکہ ہر نیک اولاد ماں باپ کے جسم کا تکڑا ہو تی، لہذا والدین اس کی ہر تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ جبکہ اکثر آپ نےدیکھا ہو گا کہ اگر اولاد نا فر مان بھی ہو تو بھی ماں باپ دونوں اس سےتنگ رہنے کے باوجود بھی اسکی تکلیف پر کڑھتے ہیں ۔جبکہ یہاں معاملہ اس کے بر عکس تھا وہ (س)نتہائی فرمانبردار تھیں اور دین پر بھی اسی طرح قائم تھیں جیسے کہ ان کے والدِ محترم (ص) لہذا بطور والد اور بطور رسول بھی حضور(ص) خوش تھے اس لیئے اللہ بھی خوش تھا،تو پھر ان کے گوشہ جسم ہو نے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے ۔ اس سلسلہ ہم پہلے بھی حضرت عائشہ (رض)سے روایت کر چکے ہیں کہ انہوں نے فر مایا کہ حضرت فاطمہ (س) سب سے زیادہ عمل، شکل اور صورت، غرضیکہ ہر بات میں حضور(ص) جیسی تھیں ۔ یہ پوری حدیث ان کی ذات کو ہی نہیں بلکہ تمام اہل ِ بیت کو احاطہ کر لیتی ہے کہ وہ سب کے سب ہی ایسے ہی تھے۔ جیسے کہ ہم نے اچھی اولاد کی تعریف اوپر کی ہے۔ اس میں ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو کہاں سے بیچ میں لے آئے اگر ایسا کو ئی کہتا ہے ،تو اس کی وجہ اس کی قر آن فہمی میں کمی ہو گی۔
کیونکہ قر آن کی ایک آیت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے انعام گنوا تے ہو ئے فر مارہا ہے کہ “ہم نے تمہیں سسرالی رشتہ دار دیئے “تو نصبتی بیٹا بھی سوائے وراثت کے اسی زمرے میں آتا ہے جس میں کہ اصلی بیٹا۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہ تو چچا کے بیٹے تھے جن کی پرورش بھی حضور (ص) نے فر ما ئی اور بچپن سے لیکر حضور (ص) کے ہم سے رخصت ہو نے تک وہ ان کے لیئے ہمیشہ سینہ سپر رہے اور انہوں نے کبھی حضرت فاطمہ (س) کوایک لمحہ کے لیئے بھی نا راض نہیں کیا۔ تو ذرا دیر کے لیئے رشتوں کوچھوڑ کر اس حدیث کے مطابق انہیں عام انسان پر قیاس کر لیجئے اور اس ترازو پر تولیئے کہ “ جس نے فا طمہ (س) کو خوش رکھا اس نے مجھے خوش رکھا “ تو بھی وہ اسی سلوک کے مستحق ٹھہریں گے۔ جو ان کے لیئے روا رکھا جا نا چا ہیئے تھا مگر اس میں امت کی طرف سے اکثر کو تاہی ہو ئی، ہو تی رہی اور ہو رہی ہے۔ ذراسا دل میں خوفِ خدا رکھ کر سوچیئے کہ جو لوگ یہ عمل جا ری رکھے ہو ئے ہیں،ان کی یہ ایذا رسانی اس حدیث کے مطابق خدا تک کیا نہیں پہونچ رہی ہے اور وہ کس منہہ سے قیامت کے دن اللہ اور رسول (ص) کا سامنا کریں گے؟ اس کا جواب بھی آپ پر ہی چھوڑتا ہوں۔ االلہ ہر مومن کو اس خجالت سے بچائے جو انہیں اس وقت بھگتنا پڑے گی۔
وہ لوگ محشر میں کیا حضور (ص) کو منھ دکھا ئیں گے اور کس منھ سے اہلِ بیت (رض)کا سامنا کریں گے ۔جب کہ حضور (ص) وصال فرمانے سے پہلے ہمیں یہ وصیت فر ما گئے تھے کہ میں اپنے بعد تم میں قر آن اوراپنی عترت (اہلِ بیت ) چھوڑے جا رہا ہوں اور دیکھونگا کہ تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو، جو کہ تمہارے رہنما رہیں گے حتیٰ کہ وہ روز ِ محشر مجھ سے کوثر پر نہ آملیں “کیا انہوں نے اپنی تیاری کر لی ہے جو یہاں دنیاوی فا ئدے کے لیئے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں جو کہ ارشادات ِنبوی (ص) کو نظر انداز کیئے ہوئے ہیں؟ یہ جواب میں ان پر چھوڑتے ہو ئے آگے بڑھتا ہوں اور اب میں ان احادیث کو پیش کر تا ہوں ۔ جن میں کہ حضور (ص) نے اہلِ بیت کی کسی طرح کی بھی دل آزاری کر نے والوں کو ان کے انجام سے آگاہ فرمادیا ہے۔میں جانتا ہوں کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جو کہتا ہے کہ ان میں بہت سی احادیث ضعیف ہیں؟ جبکہ ان میں کی اکثریت نہ علم الا حدیث جانتی ہے اور نہ ہی یہ جانتی ہے کہ یہ جگہ جگہ حدیث کی کتابوں میں جو ضعیف لکھا ہوا ہے اس کے معنی کیا ہیں ؟ان احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ بلا تخصیص ان تمام احادیث کو ضعیف کہدیا گیا ہے، جن میں کو ئی رابطہ ٹوٹا ہوا ہے۔یا بیچ میں ایک راوی کہیں پر بھی کسی دوسرے عقیدے کا ہے؟ جبکہ ان میں سے بھی بہت سی آحادیث ایک محدث نے تو ضعیف کہدی ہیں جبکہ دو سرے محدثین نے ان ہی کوکسی دوسرے حوالے سے بیان کر کے احسن قرار دیا ہے جو حدیث کا اعلیٰ درجہ ہے ۔
لہذا قاری پریشان ہو جا تا ہے کہ وہ کس کی بات مانے اور کس کی نہیں ؟ ہما را تمام طا لب علموں کو مشورہ یہ ہے کہ وہ جب تحقیق کریں تو صحا ستہ اور پرانی تفا سیر ،مثال کے طور پر ابن ِ کثیر اور ابن ِ جریر وغیرہ اور اس کے علاوہ سیرت کی کتاب البدایہ والنہا یہ (ابن ِ کثیر ) سے ضرور استفادہ حاصل کریں۔ مگران کے بھی پرانے نسخے تلاش کریں ،کیونکہ جو نئے ہیں ان میں نا دیدہ ہاتھوں نے قطع اور برید کر دی ہے۔ اور اس میں اصول یہ رکھا ہے کہ جو چیز ان کے مسلک سے نہ ملے وہ کہیں نصف ہے تو کہیں غائب ہے۔ اصو لی طور پر ایمانداری کا تقاضہ یہ تھا وہ اس قسم کی تصا نیف کو اپنی تصانیف کہتے اور اپنے نام سے شا ئع کر تے ،،مگر انہوں نے نام تو اصل مصنف کا رکھا اور اور عقیدہ اس میں اپنا سمو دیا تاکہ لوگ اسے مستند سمجھیں۔ وہ اس لیئے کہ ان کے لکھے کو ہر ایک شبہ کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔اس تشریح کے بعد اب ہم آگے بڑھتے ہیں او ر وہ احادیث پیش کر تے ہیں جن میں حضور (ص) نے انفرادی طور پر اہلِ بیت کے کسی ایک شخص کے لیئے یا اجتما عی طور پر تمام اہلِ بیت کے لیئے کچھ فر مایا ہے۔چونکہ یہ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ حضور (ص)کی اہلِ بیت سے مراد کیا ہے لہذا ہم اس پر دوبارہ بات نہیں کر رہے ہیں ۔
چونکہ حضور (ص) کویہ پتہ تھا کہ آئندہ ان کے اہلِ بیت کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور کون کریگا ؟ اس پر بہت سی احادیث ہیں مثال کے طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو فرمایا کہ تمہیں مسجد میں شہید کیا جا ئے گا اور تمہارے سر پر تلوار لگے گی اور تم کو اس امت کا بد ترین شخص شہید کر ے گا اور تمہاری ریش تمہارے ہی خون سے تر ہو گی۔ حضرت حسن (رض)کے بارے میں فر مایا کہ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کے دو گرہو کے درمیان صلح کرا ئے گااور حضرت حسین (رض)کو فر مایا کہ میرا یہ بیٹا میدان ِ کر بلا میں شہید ہو گا۔یہ خبریں جناب ِ سیدہ سلام اللہ کو پہلے ہی مل چکی تھیںلیکن انہوں نے ان تمام قر بانیوں کو دینا قبول فر مایا صرف امت کی بخشش کی خاطر جس کا ذکر ہم اگلی قسط میں کر یں گے ۔یہ ہی ان (رض)کی سب سے بڑی عظمت کی دلیل ہے۔ مگر جب انہیں یہ اطلا ع ملی کہ حضور (ص) کا وصال بھی ہو نے والا ہے تو انہیں حضور (ص)سے اتنی محبت تھی کہ صبر کادامن چھوڑ بیٹھیں۔اس کی دو وجو ہات ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ وہ بیٹی کے ساتھ ساتھ امتی بھی تھیں اور حضور (ص) کا یہ ارشاد باقی قر بانیوں پر ان کی رہنما ئی کر تا رہا کہ جواپنے نفس بھی زیادہ اللہ اور رسول (ص)کو نہ چا ہے وہ مومن نہیں اور ان (رض) سے بہتر مومنہ کون ہو سکتی تھیں؟ اس کے لیئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کی یہ رائے کافی ہے کہ “ سہ احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ حضرت فا طمہ (سلام اللہ علیہا ) حضور کے بعد سب سے افضل ہیں ۔ لہذا وہ نبی (ص) کا مقام بھی سمجھتی تھیں اور باپ کا مقام بھی سمجھتی تھیں ۔ جب انہیں اطلا ع ملی کہ اب حضور داغِ مفا رقت دینے والے ہیں تو وہ تڑپ اٹھیں کہ جانے حضور (ص) کے بعد میرے ساتھ کیا ہو گا جب،کہ اس دنیا میںمیرا شو ہر میرے بیٹے اور میرا باپ کوئی بھی نہیں رہے گا جبکہ ماں پہلے ہی نہیں تھیں چچا پہلے ہی شہید ہوچکے تھے مگر جب یہ خوشخبری ملی کے وہ بھی حضور (ص) کے چند ماہ بعد دنیا چھوڑ دیں گی تو ہنس پڑیں؟۔ جبکہ پہلے ہی حضور (ص) نے اتمام حجت کے لیئے احادیث کا ایک طویل سلسلہ چھوڑا دیا تھاجس میں انہوں (ص)نے اہل ِ بیت کا احترام کر نے کا حکم دیا ہے۔ جوکہ پہلے اشاروں اور کنائیو ں میں تھا، جیسے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں فرمایا کہ آج سے تو میرا وزیر اور بھائی ہے ؟ یہ وہ موقعہ تھا کہ رو ئے زمین پر سوائے حضور (ص)اور خدیجہ الکبریٰ (رض) اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے کوئی بھی ایمان نہیں لا یا تھا۔ آپ کی یاد داشت کو تازہ کر نے کے لیئے تھوڑا اشارہ کر دیتا ہوں کہ جب حضور (ص) کو حکم ہوا کہ پہلے اپنے اہلِ خاندان کو جہنم سے بچا نے کے لیئے دعوت ِ اسلام دو “ تو اس سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہ حضور (ص) کے ساتھ شامل ِ نماز ہو چکے تھے اور اس دعوت کاتمام انتظام انہوں (رض) نے ہی فر مایا تھا ، جب پو رے مجمع میں سے کو ئی بھی ایمان نہیں لا یا تو صرف حضرت علی کرم اللہ وجہ ہی تھے جنہوں نے اپنے ایمان لا نے کا اعلان فر مایا ،لیکن حضور (ص) نے پہلی دفعہ اور دوسری دفعہ ان کو بٹھا دیا، لیکن جب تیسری مر تبہ بھی کسے نے سبقت نہیں کی تو اسی مجمع میں یہ اعلان بھی فر ما کر ان کا مقام متعین فرما دیا کہ “ آج سے تو میرا وزیر اور بھا ئی ہے “
پھر دوسرا موقعہ غزوہ خیبر میں آیا جب دو سپہ سالار نا کام ہو چکے تھے، تو فرمایا کہ “ میں کل ایسے اشخص کو جھنڈا عطا کرونگا جس کو اللہ اور اس کا رسول (ص) سب سے زیادہ چا ہتے ہیں اور وہ انہیں سب سے زیادہ چا ہتا ہے ًاس کے بعد وہ موقعہ کہ حضور ان (رض) کو پہلی مرتبہ غزوہ تبوک کے مو قعہ پر مدینہ منورہ میں اپنا نا ئب بنا کر چھوڑ گئے لیکن وہ ایک منزل پر ان سے جا ملے تو فر مایا کہ تم نہیں چا ہتے کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو کہ حضرت موسیٰ (ع)کو حضرت ہارون (ع) سے تھی۔ اور وہ واپس آگئے ؟اس میں سے پہلے مو قعے پر تو بہت سے موجودنہیں تھے، کیو نکہ اس مجمع میں صرف حضور (ص) کے اہل ِ خاندان ہی تھے ،مگر باقی دو نوں مو قعوں پر تو سب تھے اور کسی نے حضور (ص) کے ارشادات پر کو ئی اعتراض نہیں کیا ۔پھر جیسے ہی حضور (ص) کو حج الوداع کے مو قعہ پر اپنے وصال کے قریب ہو نے کا علم ہوا تو خصوصی طور پر خم ِغدیر میں قیام فر ما کر حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں یہ حدیث ارشاد فر ما ئی کہ جس کا “ میں مو لیٰ ہوں اس کا علی مو لی ٰہے “ اس وقت بھی تمام صحابہ کرام (رض) ہم رکاب تھے لیکن کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ جبکہ حضور (ص)نے اسی موقعے پر یہ تک فر ما دیا کہ “ مومن علی (رض) سے محبت کرتا ہے اور منا فق علی سے بغض رکھتا ہے “
یہاں تک تو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی فضیلت تھی ۔اب حضرت فا طمہ سلام اللہ علیہا کی بات کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں حضور (ص)نے کیا فر مایا۔ فر مایا کہ “ فا طمہ تمام عورتوں کی دنیااور جنت میں سردار ہے، فاطمہ میرے جگر کا تکڑا ہے جس نے اسے ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا پہونچا ئی “
پھر حضرت حسن (رض) کے بارے میں فر مایا کہ حسن (رض) مجھ سے ہے اور میں حسن سے ہو ں اس کے بعد یہ ہی الفاظ حضرت حسین (رض) کے با رے میں فر ما ئے۔اس کے علاوہ اہلِ بیت (رض)کے بارے میں اتنی احادیث ہیں کہ اس کا یہ چھوٹا سا مضمون متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اس کے بعد ان احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے جس میں ان کی عزت نہ کر نے والوں اور انہیں ایذا دینے والوں کی دنیا اور آخرت دونوں میں وعیدیں ہیں تاکہ لوگ بعد میں یہ نہ کہیں کہ ہمیں پتہ نہ تھا، یا ہم ان کے مقام سے واقف نہ تھے؟ اب ہم ان احادیث کو پیش کر کے بات ختم کر تے ہیں۔
ابن ِ کثیر نے البدایہ النہایہ میں تحریر کیا ہے کہ حضور (ص) نے فر مایا کہ الحسن والحسین ابنائی من اجھمااجنبی ومومن اجنبی احبو اللہ و من احبو ادخلہ جنة و من ابغضھماابغضنی و من ابغضنی ابغضہ اللہ و من ابغضہ د خلہ النار ترجمہ میری بیٹی کے بیٹے میر بیٹے ہیں جو ان سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کر تا ہے اور جو ہم سے محبت کر تا ہے وہ خدا سے محبت کر تا ہے وہ بہشت میں ضرور داخل ہو گا۔اور جو ان سے بغض رکھتا ہے ،وہ ہم سے بغض رکھتا ہے اور جو ہم سے بغض رکھتا ہے وہ خدا سے بغض رکھتا ہے اور جو خدا سے بغض رکھتا ہے اس کا دائمی مقام جہنم ہے۔ اس حدیث میں اہلِ بیت میں سے صرف تین نام ہیں۔جبکہ اس کے علاوہ ایک حدیث ہے جس کو زیادہ تر محد ثین نےاپنے ہاں جگہ دی ہے۔وہ حدیث یہ ہے کہ حضور (ص) نے فرمایالعلی و فا طمہ والحسن والحسین ا تا حرب عن حاربھم وسلم لمن سالمم ترجمہ جو شخص علی ، فاطمہ ،حسن اور حسین (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) کے ساتھ جنگ کر تا ہے اس کے ساتھ ہماری جنگ ہے اور جو ان سے صلح رکھتا ہے اس کے ساتھ ہماری بھی صلح ہے۔
حضور (ص) نے نہ صرف اہل ِ بیت کے منا قب سے امت کو با خبرکر دیا ،نیز یہ کہ ان کی مخالفت کرنے پر وعیدیں بھی سنادیں ،مگر وہ عقبیٰ کے لیئے تھیں اور جو لوگ ایمان میں پکے نہ تھے بعد میں ایمان لا ئے تھے، جبکہ تربیت کا معیار وہ نہ تھا جو حضور (ص) کے پہلے زمانے میں تھا۔لہذا ان کے لیئے دنیا میں بھی سزاکی و عید یں دی گئیں ان میں سے ہم ایک یہاں پیش کر تے ہیں۔
وہ حدیث یہ ہے کہ اشتد غضب اللہ علیٰ من اذانی فی عترتی ترجمہ جو میرے اہلِ بیت کو ستا ئے گا وہ خدا کے قہر کا سزا وار ہو گا۔گوکہ اس حدیث کو اکثر مور خین نے دنیا میں ہی سزا کی وعید کے لیئے ثابت کیا ہے اور بہت سے واقعات نقل کیئے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا عذاب تو انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ جس طرح لاکھوں بلکہ کروڑوں سیداپنے شجرے فخریہ لیئے گھوم رہے ہیں اور کہیں سے بھی ایک کڑی ٹوٹی ہو ئی نہیں ملتی، اس کے بر عکس جن لوگوں نے اہل ِ بیت کو ستا یا ان کی اولاد بھی اپنے آپ کو ان کے سا تھ متعارف کرانا پسند نہیں کرتی ۔ جبکہ ان میں سے بہت سے دنیامیں ہی ذلت کی موت مرے یا مارے گئے ۔مگر میرے خیال میں اس کا بھی ضمیر چونکہ عقبیٰ کی طرف ہی ہے لہذا وہی درست معلوم ہو تا ہے کہ یہ بھی عقبیٰ کی طرف اشارہ ہے۔واللہ عالم
اب ہم وہ واقعہ پیش کر نے جا رہے ہیں جس کاذکر ہم نے گزشتہ قسط میں کیا تھا۔یہ تھا سورہ مریم کی آیت نمبر ١ ٧اور٢ ٧۔ کا نزول ،جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے کو ئی بھی ایسا نہیں بچے گا جس کا گزر اس (جہنم ) سے نہ ہو آپ کے پرور دگار نے یہ اپنے اوپر لازم فرمالیا ہے، پھر ہم ان کو نجات دیں گے جواللہ سے ڈرتے ہیں اور ظالموں کو اسی میں گھٹنو ں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔ ،گوکہ چند مر حلے ایسے پہلے بھی پیش آئے جس میں حضور (ص) امت کے لیئے بہت پریشان ہو گئے تھے ۔مثال کے طور پر سورہ ہود کا نزول یا پھر آیت نمبر ٥ ٦ سورہ الانعام کا نزول جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ “ میں اوپر سے عذاب نازل کر نے پر قادر ہوں اور نیچے سے عذاب نازل کر نے پر قادر ہوں اور تمہیں گرو ہوں میں بانٹ کر لڑانے پر بھی قادر ہوں “ حضور (ص) نے اس پر بھی شدید رد عمل ظا ہر فر مایا تھا ،مگر اس سے کہیں زیادہ آپ کو اس آیت کے نزول پر نظر آئے گا۔اُس میں بھی حضور (ص) بغیر کسی کو کچھ بتا ئے اٹھ کر جنگل کی طرف تشریف لے گئے تھے اور بنو بکر کی بستی کے قریب جہاں بعد میں ترکوں نے ایک مسجد بنا دی تھی۔ مصروف ِ عبادت ہو گئے ،چونکہ یہ کھلا میدان تھا، لہذا جانثاروں نے نشان ِ نقش ِ پا سے جلدی ہی تلاش کر لیا اور صحابہ کرام (رض)بھی حضور (ص) کو مصروف ِ عبادت دیکھ کر ان کے اتباع میں خود بھی مصروفِ عبادت ہو گئے۔لیکن اس میں حضور (ص) کی آہ و زاری اور طویل عبادت کی وجہ سے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور (ص) سے وعدہ فرما لیا کہ میں تمہاری امت کو اس طرح سزا نہیں دونگا جس طرح قومِ نوح (ع) کو زمین اور آسمان سے دی تھی اور نہ قوم ہود (ع) کی طرح کہ انہیں آسمان سے دی تھی۔البتہ اِن کا گروہوں میں تقسیم ہو نا اور سزا پانا مقدر ہو چکا ہے لہذا وہ ہو کر رہے گا۔
لہذا صحابہ کرام (رض) سے حضور (ص) نے عہد لیا کہ تم میرے بعدآپس میں لڑو گے تو نہیں؟ تو انہوں (رض) نے ایک زبان ہو کر کہا تھاکہ حضور (ص) یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب اور آپ کی سنت مو جود ہو اور ہم گمراہ ہو جا ئیں۔ یہ واقعہ خم ِ غدیر سے چونکہ بہت پہلے کا ہے لہذا اس میں عترت کا ذکر نہیں ہے حضور (ص) نے عترت کو قیام ِ خم ِ غدیر کے موقعہ پر بیان فر مایا تھا۔
جبکہ حضور(ص)نے سورہ مریم کی ان آیا ت کے نزول پر اس سے بہت زیادہ شدید رد ِ عمل کا اظہار فرما یا کیونکہ اس میں ہر ایک کے دوزخ سےگذرنے کاذکر ہے لہذا پریشان ہو نا قدرتی عمل تھا اور اس پریشانی میں وہ جبل ِ سلاح کے ایک غارمیں جاکر سجدہ ریز ہو گئے تاکہ کو ئی پہلے کی طرح ان کی عبادت میں مخل نہ ہو۔ یہاں بھی کھوجی نقش ِ پا تلاش کرتے ہو ئے پہاڑتک تو پہونچ گئے، لیکن آگے زمین سنگلاخ تھی، پھر کھوج نہیں ملا ۔لیکن صحابہ کرام (رض) نے تلاش جاری رکھی اور اطراف میں لوگوں سے چل پھر کر پو چھتے رہے۔
ادھراس گمشدگی کا اثر پورے مدینہ منورہ نے لیا اور ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ کیونکہ حضور(ص) کے گردو نواح میں دشمن لا تعداد تھے۔مگر سب سے زیادہ خراب حالت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی تھی۔آخر کار صحابہ کرام (رض) کی امید بر آئی اور وہیں جہاں حضور(ص) کے نقش پا معدوم ہو ئے تھے۔ ایک چرواہے نے بتایا کہ یہاں ایک اجنبی شخص اس پہاڑ کےغار میں نے دیکھا، جس کو میں پہچانتا نہیں ہوں۔ چونکہ اس کے نالہ و بکا ہ کی وجہ سے میرے جانور سوگوار ہو جاتے ہیں اور وہ چر نا چھوڑ دیتے ہیں ،لہذا میں ادھر انہیں لیکر جا تا بھی نہیں ہوں ۔
یہ سن کرصحابہ کرام (رض) میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور جب وہ غار کے قریب پہو نچے تو حضور (ص) کی آہ و زاری کرتی ہو ئی آواز سنا ئی دی، لہذاغار میں داخل ہوگئے لیکن جب اندر پہونچے تو یہ دیکھ کر تڑپ گئے کہ حضور (ص) نو کیلے پتھروں پرسجدہ ریز ہیں۔ انہوں (رض) نے بہت کوشش کی کہ حضور (ص) ان نکیلے پتھروں پر سے سر اٹھا لیں جہاں وہ سر سجدے میں رکھے ہو ئے امت کے لیئے ِ مصروف ِ دعا تھے۔جب حضور (ص) نے توجہ نہیں فرما ئی تو صحابہ کرام (رض) کی را ئے یہ ہو ئی کہ حضور (ص) ہمیشہ حضرت فاطمہ (س) کی پیشوائی کے لیئے کھڑے ہو تے ہیں اگر ان کو یہاں لے آیا جا ئے تو ممکن ہے ان کی آواز پر حضور (ص) سر اٹھا لیں ۔کیونکہ ان سب نے کوشش کر دیکھی تھی، مگر حضور (ص) دنیا سے بے خبر تھے، اگر کبھی ایک لمحے کے لیئے سر اٹھاتے بھی تو پھر اس عزم کو دہراتے ہو ئے سجدے میں تشریف لے جا تے کہ “اے رب جب تک تو میری امت کو نہیں بخشے گا میں اسی طرح دعا کر تا رہونگا حتیٰ کہ قیامت بر پا ہو جائے “ جب وہ (رض)اپنی کوششوں میں ناکام ہو گئے تو انہیں یہ ہی آخری صورت نظر آئی کہ وہ حضرت فاطمہ (س) کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان کو سارا ماجرا بتائیں؟ اس کی وجہ میرے خیال میں حضور (ص) کی وہ سنت ِ تواترہ توتھی ہی کہ جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تشریف لا تی تھیں تو حضور (ص) ان کی پیشوائی کو اٹھتے تھے۔ مگر دوسری وجہ یہ بھی تھی جب وہ کچھ مانگتیں تو کبھی خالی ہاتھ نہیں لو ٹا تے تھے ۔ جیسے کہ وہ لونڈی یا غلام مانگنے آئیں اور امت کے لیئے تسبیح فاطمہ لیکر واپس لوٹیں ۔لہذا وہ واپس مدینہ منورہ تشریف لا ئے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے کے سامنے درخواست پیش کی کہ یہ صورت ِ حال ہے اگر آپ تشریف لے چلیں تو یقین ہے کہ حضور (ص)اپنی سنتِ مبارکہ کے مطابق سجدے سے سر اٹھالیں گے۔علامہ عبد الرحمٰن صفوری (رح) نے جو کہ شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں یہ واقعہ قلم بند کرتے ہو ئے تحریر فر مایا ہے کہ جب ان کو یہ خبر ملی تو وہ خوش ہو گئیں اورچلنے کے لیئے بھی تیار ہو گئیں۔ انہیں تیاری ہی کیا کر نا تھی جن کے پاس سامان ِ دنیا تھا ہی نہیں۔بس ایک کمبل تھا جس میں بارہ پیوند لگے ہو ئے تھے۔ وہ لپیٹ لیا۔ چونکہ یہاں بچوں کے ہمراہ جانے کا کسی مورخ نے ذکر نہیں کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے ان کی مو جودگی وہاں ظا ہر کی تھی۔لہذا ان کو شاید خاندان کی دوسری خواتین کے پاس چھوڑ دیا ہوگا جو ان (س)کے گھر حضور (ص)کی گم شدگی کے بعد جمع تھیں ۔
جب وہ غار میں پہونچیں تو انہوں (رض) نے دیکھا کہ حضور (ص) دنیا اور گرد و پیش سے اسی طرح بے خبر مصروف ِدعا ہیں جس طرح کہ صحابہ کرام (رض) نے بیان فر مایا تھا۔ انہوں (س)نے غار میں داخل ہو کر بلند آواز سے سلام عرض کیا۔تو حضور (ص)نے سجدہ سے سر اٹھاکر جواب مر حمت فرمایا۔اور جب جناب سیدہ (س)نے آہ زاری بند کر نے کہ درخواست کی تو فرما یا کہ بیٹی میرا دکھ ایسا ہے کہ تو بھی دور نہیں کر سکتی، گوکہ تو ہمیشہ میرے دکھ درد میں شریک رہی ہے ۔ جب تک مجھے بار گاہ ِ خداوندی سے جواب نہیں ملے گا میں اپنے رب سے امت کی بخشش مانگتا رہونگا۔چونکہ حضرت فاطمہ (س) بھی کبھی دربارِ خداوندی سے خالی ہاتھ نہیں لو ٹیں تھیں، جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں ۔لہذا انکا عزمِ بھی را سخ تھا کہ وہ یہ مسئلہ حل کرا لیں گی۔ لہذا انہوں نے عرض کیا بابا جان (ص) آپ سر تو اٹھا ئیے میں خدا کے روبرو اپنی درخواست پیش کرونگی اور وہ انشا اللہ قبول فر مالے گا۔چونکہ عربوں میں یہ طریقہ رائج تھا کہ اگر کوئی اہم مسئلہ در پیش ہو تو ننگے سر ہو کر دعا مانگا کرتے تھے۔ جس کاثبوت شعارِ حج ِ بیت اللہ میں بھی ملتا ہے کہ وہاں سر پر کپڑا رکھنا مردوں کو منع ہے۔جب انہوں نے اپنے رب کو اپنی قر بانیوں کا واسطہ دیا اور چا ہا کہ اپنے سر سے کمبل اتار دیں تواسی دم جبر ئیل (ع) حضور (ص) کی خد مت میں حا ضر ہو گئے اور فرمایا کہ اپنی صاحبزادی کو ایسا کر نے سے روکیئے، آپ کی امت کےساتھ وہی سلوک کیا جا ئے جو فاطمہ چا ہے گی۔اس کاعربی متن ہم پیش کر رہے ہیں۔فنزل جبر ئیل علیہ اسلام و قال یا محد ان اللہ یقرک السلامو یقول لک قل لفاطمہ یفعل یامتک تحب فاطمہ اسی کو ایک دوسری روایت میں دوسری طرح بیا ن کیا گیا ہے ۔جس میں اسی سلسلہ میں حضرت ابو بکر، حضرت علی ،اور حسنین (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین )کا ذکر کیا گیا ہے اس کو ہم انشا اللہ اگلی قسط میں بیان کر یں گے۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ظہور پزیر ہوا اور وہ غار ،غارِ سجدہ کے نام سے کچھ پہلے تک موجود تھا۔ اب نہیں معلوم ہے یانہیں! شاید مو جود ہو اگر حکمرانوں کی رد ِ بدعت تحریک سے بچ گیا ہو
ایک اور مورخ نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو آپ (ص) امت کے لیئے غم زدہ ہو گئے ،لوگوں نے جب رونے کا سبب پو چھا تو خاموشی اختیا رفر مائی اور کو ئی جواب نہیں دیا۔ لوگوں نے یہ خبر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو پہونچا ئی ۔پھر آپ نے اپنے والدِ محترم (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا سبب پوچھا تو آپ (ص) نے وہ آیت تلاوت فرما ئی۔جب یہ آیت سنی تو آپ (رض) بھی بہت رو ئیں پھر حضرت ابو بکر (رض) سے فر مایا کہ اے شیخ المہا جرین! خداتعالیٰ نے یہ آیت اپنے نبی (ص) پر نازل فر مائی ہے کیا آپ امت کے بوڑھوں پر فدا ہو نا پسند کر یں گے؟ انہوں (رض) نے فر مایا ہاں ۔
پھر آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے پاس تشریف لے گئیں اور یہ حقیقت منکشف کر کے فر ما یا کہ کیا آپ امت کے جوانوں پر قر بان ہو نا پسند فر ما ئیں گے ! انہوں (رض) نے فر مایا ہاں۔پھر آپ نے اپنے شہزاد گان حضرات حسنین کریمین علیہم السلام سے فرما یا کہ کیا تم اپنے نانا (ص) کی امت کے بچوں پر فدا ہو ناقبول کرتے ہو ؟ انہوں (رض) نے بھی فرمایا ہاں۔
پھر آپ (رض) نے فرمایا کے میں اپنے ابا (ص) کی امت کی عورتوں پر نثارہو تی ہوں۔کہ اتنے میں حضرت جبر ئیل (ع) تشریف لے آئے اور حضور (ص) سے فرمایا کہ آپ اپنی صاحبزادی صاحبہ (رض)سے فر مادیں وہ کوئی غم نہ کر یں۔آپ کی امت کے ساتھ وہی معاملہ کیا جا ئے گا جو فاطمہ سلام اللہ کی خواہش ہو گی۔
ان دونوں روایات میں جن میں سے ایک کو ہم نے اس سے پہلی قسط میں پیش کیا ہے اور دوسری یہ اب آپ کے سامنے ہے گوکہ تفصیلات تھوڑی سی مختلف ہیں مگر اختتام ایک ہی بات پر ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو حضرت فاطمہ چا ہیں گی امت کے ساتھ وہی معاملہ کیا جا ئے گا؟جبکہ اس میں جو اضافت ہے یعنی بوجھ اٹھانے کا ذکر ہے وہ قر آن کی اس آیت کے خلاف ہے کہ “قیامت میں کوئی کسی کا بو جھ نہیں اٹھا ئے گا“ہاں قر آن میں اس کا ذکر موجود ہے کہ تمام بر گزیدہ ہستیوں کو شفا عت کی اجازت ہو گی۔یہ بھی قر آن میں ہے کہ مجھ سے مانگو میں قبول کرونگا۔ یہاں بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ چاہتا تو صرف حضور (ص) کی دعا پہلے کی طرح قبول فرما لیتا مگر اس کو حضرت فاطمہ (رض)کابھی مقام دکھانا مقصود تھا ۔ یہ اس لیئےکہ جب بہت سےباکمال ایک جگہ جمع ہو جا ئیں تو عمو می طور پر بزرگ نمایاں ہونے کی وجہ سے چھوٹے دب جاتے ہیں جبکہ یہاں توہمہ خانہ آفتاب است والی بات تھی ۔ لہذااس مرتبہ انہیں (رض) بیچ میں لایا گیا تاکہ امت ان کے مقام سے بھی واقف ہو جا ئے؟کہ جنہوں (رض)نے اپنے والد (ص) اپنے بچوں (رض) اور اپنے شو ہر (رض) کو قر بان کیا ہے انکا رتبہ اور کمال لوگ جن لیں ۔اور یہ بھی احادیث سےثابت ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا کہ سب سے پہلے جنت میں اور میرا خاندان داخل ہو گا اور دوسری حدیث میں فرمایا کہ مجھ سے بھی آگے فاطمہ (رض) ہو نگی۔ یہ حدیث اس طرح ہے کے حضور (ص) نے فرمایاکے ہر نبی (ع) روز قیامت اس سواری پر ہو گا جس پر وہ دنیا میں سوار ہوا کرتا تھا مثال کے طور پر فرمایا کہ حضرت صالح (ع) اوٹنی پر سوار ہو نگے تو لوگوں نےپو چھا کہ حضور (ص) پھر آپ تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو نگے ؟“ تو حضور (ص) نے فرمایا نہیں اس دن اس پر حضرت فاطمہ (رض) سوار ہونگی اور وہ میرے آگے ہونگی اور میں براق پر سوار ہو نگا “ دوسری احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ شفا عت کی اجازت انہیں ملے گی جو کہ خود کو پہلے جنت کامستحق ثابت کر چکے ہو نگے ،جیسے کہ معصوم بچو ں کو جو عہدِ معصومیت میں انتقال کرگئے ہوں ماں باپ کی۔ یا بیوی کو شوہر کی اپنے درجہ میں لانے کے لیئے یا شوہر کو بیوی کو اپنے درجہ میں لانےکے لیئے شفاعت کی اجازت ہوگی۔ پھر ایک اور حدیث میں یہ بھی فرمادیا کہ دعا سے ہر بات ٹل سکتی ہے، سوائے موت کے۔ان تمام باتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے چونکہ ان کی دعا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے امت کے لیئے قبول فرما لی ہے لہذا انہیں بھی حق ِ شفاعت حاصل ہو گا۔ جن کو وہ پسند کر یں۔ یہاں امت کے تمام لوگ بلا تفریق مراد لینا، میرے خیال میں غلط ہو گاکیونکہ لفظ ِ امت کا دائرہ تو بہت ہی وسیع ہے جس میں منافق اور کافر سبھی آتے ہیں۔لہذا یہاں اگر اس حدیث سے مدد لے لی جا ئے تو مناسب ہو گا کہ جس میں حضور (ص)نے فرمایا کہ وہ لوگ جنت میں جا ئیں گے جو میرے اور میرے ان صحابہ (رض) کے راستے پر ہونگے جو آج میرے راستے پر ہیں ۔لہذا یہاں بھی حضرت فاطمہ (رض) انہیں کی شفاعت کریں گی جن کی شفا عت اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کے اعمال کی بنا پر کرانا چاہے گا۔ اس سے یہ تاثر لینا کہ ہم حضور (رض) کی پیروی کریں یا نہ کر یں اہل ِ بیت کا احترام کریں یا نہ کریں وہ ہر حالت میں ہماری شفا عت فرما ئیں گے ۔کیسے درست ہوسکتا ہے؟
لیکن اس کے برعکس شروع سے ہی ہمارے ہاں یہ تفریق تاریخ میں نہ جانے کیسے داخل ہو گئی ہے کہ خواتین میں پہلے کون ایمان لایا، آزادوں میں پہلے کون ایمان لا ، غلاموں میں پہلے کون ایمان لا یا اور بچوں میں پہلے کون ایمان لا یا؟ جبکہ اسلام اس قسم کی کسی تفریق کو گوارہ نہیں کر تا، چونکہ وہاں سب برابر ہیں اور معیار تقویٰ ہے ۔ اس پر ہم حضور (ص) کی سیرت پر اپنی کتاب ً روشنی حرا سے ً میں تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔ لہذا یہاں نہیں دہرا ئیں گے۔ رہی دعا وہ اجتمائی بھی ہوتی ہے یہ درست ہے ۔مگر جبکہ کسی فرد کو یہ یقین ہو کہ اس کی انفرادی دعا ہی کافی ہے، تو پھر اجتما عی دعا کی کیا ضرورت ہے۔ جب کہ بزرگوں کا خیال ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہافنا فی اللہ کے مقام پر تھیں اور اس کے لیئے ایک حدیث ِ قدسی موجود ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ،میں اس کے ہاتھ بن جاتا،جس سے وہ عمل کرتا ہے میں اس کے پا وں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ ان تمام احادیث کی روشنی میں اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔
بہر حال واقعاتی تر تیب کچھ بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بات وہیں پر آکر ختم ہو تی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) جو چا ہیں گی امت کے ساتھ وہی معاملہ کیا جا ئے گا۔یہ وہ وجہ ہے کہ اہلِ بیت کو خاص مقام حاصل ہے جو اوروں کونہیں ہے۔ تاکہ اتمام حجت ہو جائے اور بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو انکا مقام بتا یا ہی نہیں گیا تھا۔
اس کے بعد متعدد احادیث سے حضور (ص) نےان کے مقام کو تقویت دی ہے۔ایک حدیث میں اہل ِ بیت سے محبت کر نے کو جز ِ ایمان فر مایا۔ وہ اس طرح ہےکہ “قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والذی نفسی بیدہ لا یومن عبد حتیٰ یحبنی ولا یحبنی ذوالقربی حضو ر(ص) نے فرمایا کہ خدا کی قسم کو ئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک ہم سے محبت نہ کرے اور اس وقت تک محبت کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے جب تک وہ ہمارے اقرباسے محبت نہ کرے۔“اسی سلسلہ کی ایک اور حدیث ہے جس میں اہل ِ بیت کا وضا حت کے ساتھ ذکر ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ احب الیہ من عترتہ و اھلی احب علیہ من اھلہ وذاتی احب الیہ من ذاتیہ ترجمہ حضور (ص) نے فر مایا کہ (کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا )جو زیادہ محبوب نہ رکھے ہماری عترت کو اپنی عترت سے اور ہمارے اہل ِ بیت کو اپنے اہل ِ بیت سے ہماری ذات کو اپنی ذات سے “
پھر فرمایا کہ اعمال ہی بیکار ہیں اگر محبت نہیں ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح کہ حضور (ص) نے صحابہ کرام (رض)کو مخاطب فر ماتے ہو ئے فرمایاکہ قال الزموا مودتنا اھل بیت فا انہ من لقی اللہ عز وجل فھوایود نادخل الجنہ بشفا عتنا والذی نفسی بیدہ لا ینفع عبد عملہ الا بعمرفہ حقنا ترجمہ حضور (ص) نے فر مایامیرے اہلِ بیت کی محبت تم پرلازم کردی گی ہےاور ہماری شفا عت (سے فیضیاب ) ہونے کا دار مدار اس پر ہے کہ ہمارے اہل، بیعت سے محبت کرواس ذات ِ پاک قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ہمارا حق نہیں پہچانوں گے تو تمام عمر کی عبادت را ئیگاں چلی جا ئے گی۔
ایک اور مورخ نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو آپ (ص) امت کے لیئے غم زدہ ہو گئے ،لوگوں نے جب رونے کا سبب پو چھا تو خاموشی اختیا رفر مائی اور کو ئی جواب نہیں دیا۔ لوگوں نے یہ خبر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو پہونچا ئی ۔پھر آپ نے اپنے والدِ محترم (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا سبب پوچھا تو آپ (ص) نے وہ آیت تلاوت فرما ئی۔جب یہ آیت سنی تو آپ (رض) بھی بہت رو ئیں پھر حضرت ابو بکر (رض) سے فر مایا کہ اے شیخ المہا جرین! خداتعالیٰ نے یہ آیت اپنے نبی (ص) پر نازل فر مائی ہے کیا آپ امت کے بوڑھوں پر فدا ہو نا پسند کر یں گے؟ انہوں (رض) نے فر مایا ہاں ۔
پھر آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے پاس تشریف لے گئیں اور یہ حقیقت منکشف کر کے فر ما یا کہ کیا آپ امت کے جوانوں پر قر بان ہو نا پسند فر ما ئیں گے ! انہوں (رض) نے فر مایا ہاں۔پھر آپ نے اپنے شہزاد گان حضرات حسنین کریمین علیہم السلام سے فرما یا کہ کیا تم اپنے نانا (ص) کی امت کے بچوں پر فدا ہو ناقبول کرتے ہو ؟ انہوں (رض) نے بھی فرمایا ہاں۔
پھر آپ (رض) نے فرمایا کے میں اپنے ابا (ص) کی امت کی عورتوں پر نثارہو تی ہوں۔کہ اتنے میں حضرت جبر ئیل (ع) تشریف لے آئے اور حضور (ص) سے فرمایا کہ آپ اپنی صاحبزادی صاحبہ (رض)سے فر مادیں وہ کوئی غم نہ کر یں۔آپ کی امت کے ساتھ وہی معاملہ کیا جا ئے گا جو فاطمہ سلام اللہ کی خواہش ہو گی۔
ان دونوں روایات میں جن میں سے ایک کو ہم نے اس سے پہلی قسط میں پیش کیا ہے اور دوسری یہ اب آپ کے سامنے ہے گوکہ تفصیلات تھوڑی سی مختلف ہیں مگر اختتام ایک ہی بات پر ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو حضرت فاطمہ چا ہیں گی امت کے ساتھ وہی معاملہ کیا جا ئے گا؟جبکہ اس میں جو اضافت ہے یعنی بوجھ اٹھانے کا ذکر ہے وہ قر آن کی اس آیت کے خلاف ہے کہ “قیامت میں کوئی کسی کا بو جھ نہیں اٹھا ئے گا“ہاں قر آن میں اس کا ذکر موجود ہے کہ تمام بر گزیدہ ہستیوں کو شفا عت کی اجازت ہو گی۔یہ بھی قر آن میں ہے کہ مجھ سے مانگو میں قبول کرونگا۔ یہاں بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ چاہتا تو صرف حضور (ص) کی دعا پہلے کی طرح قبول فرما لیتا مگر اس کو حضرت فاطمہ (رض)کابھی مقام دکھانا مقصود تھا ۔ یہ اس لیئےکہ جب بہت سےباکمال ایک جگہ جمع ہو جا ئیں تو عمو می طور پر بزرگ نمایاں ہونے کی وجہ سے چھوٹے دب جاتے ہیں جبکہ یہاں توہمہ خانہ آفتاب است والی بات تھی ۔ لہذااس مرتبہ انہیں (رض) بیچ میں لایا گیا تاکہ امت ان کے مقام سے بھی واقف ہو جا ئے؟کہ جنہوں (رض)نے اپنے والد (ص) اپنے بچوں (رض) اور اپنے شو ہر (رض) کو قر بان کیا ہے انکا رتبہ اور کمال لوگ جن لیں ۔اور یہ بھی احادیث سےثابت ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا کہ سب سے پہلے جنت میں اور میرا خاندان داخل ہو گا اور دوسری حدیث میں فرمایا کہ مجھ سے بھی آگے فاطمہ (رض) ہو نگی۔ یہ حدیث اس طرح ہے کے حضور (ص) نے فرمایاکے ہر نبی (ع) روز قیامت اس سواری پر ہو گا جس پر وہ دنیا میں سوار ہوا کرتا تھا مثال کے طور پر فرمایا کہ حضرت صالح (ع) اوٹنی پر سوار ہو نگے تو لوگوں نےپو چھا کہ حضور (ص) پھر آپ تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو نگے ؟“ تو حضور (ص) نے فرمایا نہیں اس دن اس پر حضرت فاطمہ (رض) سوار ہونگی اور وہ میرے آگے ہونگی اور میں براق پر سوار ہو نگا “ دوسری احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ شفا عت کی اجازت انہیں ملے گی جو کہ خود کو پہلے جنت کامستحق ثابت کر چکے ہو نگے ،جیسے کہ معصوم بچو ں کو جو عہدِ معصومیت میں انتقال کرگئے ہوں ماں باپ کی۔ یا بیوی کو شوہر کی اپنے درجہ میں لانے کے لیئے یا شوہر کو بیوی کو اپنے درجہ میں لانےکے لیئے شفاعت کی اجازت ہوگی۔ پھر ایک اور حدیث میں یہ بھی فرمادیا کہ دعا سے ہر بات ٹل سکتی ہے، سوائے موت کے۔ان تمام باتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے چونکہ ان کی دعا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے امت کے لیئے قبول فرما لی ہے لہذا انہیں بھی حق ِ شفاعت حاصل ہو گا۔ جن کو وہ پسند کر یں۔ یہاں امت کے تمام لوگ بلا تفریق مراد لینا، میرے خیال میں غلط ہو گاکیونکہ لفظ ِ امت کا دائرہ تو بہت ہی وسیع ہے جس میں منافق اور کافر سبھی آتے ہیں۔لہذا یہاں اگر اس حدیث سے مدد لے لی جا ئے تو مناسب ہو گا کہ جس میں حضور (ص)نے فرمایا کہ وہ لوگ جنت میں جا ئیں گے جو میرے اور میرے ان صحابہ (رض) کے راستے پر ہونگے جو آج میرے راستے پر ہیں ۔لہذا یہاں بھی حضرت فاطمہ (رض) انہیں کی شفاعت کریں گی جن کی شفا عت اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کے اعمال کی بنا پر کرانا چاہے گا۔ اس سے یہ تاثر لینا کہ ہم حضور (رض) کی پیروی کریں یا نہ کر یں اہل ِ بیت کا احترام کریں یا نہ کریں وہ ہر حالت میں ہماری شفا عت فرما ئیں گے ۔کیسے درست ہوسکتا ہے؟
لیکن اس کے برعکس شروع سے ہی ہمارے ہاں یہ تفریق تاریخ میں نہ جانے کیسے داخل ہو گئی ہے کہ خواتین میں پہلے کون ایمان لایا، آزادوں میں پہلے کون ایمان لا ، غلاموں میں پہلے کون ایمان لا یا اور بچوں میں پہلے کون ایمان لا یا؟ جبکہ اسلام اس قسم کی کسی تفریق کو گوارہ نہیں کر تا، چونکہ وہاں سب برابر ہیں اور معیار تقویٰ ہے ۔ اس پر ہم حضور (ص) کی سیرت پر اپنی کتاب ً روشنی حرا سے ً میں تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔ لہذا یہاں نہیں دہرا ئیں گے۔ رہی دعا وہ اجتمائی بھی ہوتی ہے یہ درست ہے ۔مگر جبکہ کسی فرد کو یہ یقین ہو کہ اس کی انفرادی دعا ہی کافی ہے، تو پھر اجتما عی دعا کی کیا ضرورت ہے۔ جب کہ بزرگوں کا خیال ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہافنا فی اللہ کے مقام پر تھیں اور اس کے لیئے ایک حدیث ِ قدسی موجود ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ،میں اس کے ہاتھ بن جاتا،جس سے وہ عمل کرتا ہے میں اس کے پا وں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ ان تمام احادیث کی روشنی میں اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔
بہر حال واقعاتی تر تیب کچھ بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بات وہیں پر آکر ختم ہو تی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) جو چا ہیں گی امت کے ساتھ وہی معاملہ کیا جا ئے گا۔یہ وہ وجہ ہے کہ اہلِ بیت کو خاص مقام حاصل ہے جو اوروں کونہیں ہے۔ تاکہ اتمام حجت ہو جائے اور بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو انکا مقام بتا یا ہی نہیں گیا تھا۔
اس کے بعد متعدد احادیث سے حضور (ص) نےان کے مقام کو تقویت دی ہے۔ایک حدیث میں اہل ِ بیت سے محبت کر نے کو جز ِ ایمان فر مایا۔ وہ اس طرح ہےکہ “قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والذی نفسی بیدہ لا یومن عبد حتیٰ یحبنی ولا یحبنی ذوالقربی حضو ر(ص) نے فرمایا کہ خدا کی قسم کو ئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک ہم سے محبت نہ کرے اور اس وقت تک محبت کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے جب تک وہ ہمارے اقرباسے محبت نہ کرے۔“اسی سلسلہ کی ایک اور حدیث ہے جس میں اہل ِ بیت کا وضا حت کے ساتھ ذکر ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ احب الیہ من عترتہ و اھلی احب علیہ من اھلہ وذاتی احب الیہ من ذاتیہ ترجمہ حضور (ص) نے فر مایا کہ (کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا )جو زیادہ محبوب نہ رکھے ہماری عترت کو اپنی عترت سے اور ہمارے اہل ِ بیت کو اپنے اہل ِ بیت سے ہماری ذات کو اپنی ذات سے “
پھر فرمایا کہ اعمال ہی بیکار ہیں اگر محبت نہیں ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح کہ حضور (ص) نے صحابہ کرام (رض)کو مخاطب فر ماتے ہو ئے فرمایاکہ قال الزموا مودتنا اھل بیت فا انہ من لقی اللہ عز وجل فھوایود نادخل الجنہ بشفا عتنا والذی نفسی بیدہ لا ینفع عبد عملہ الا بعمرفہ حقنا ترجمہ حضور (ص) نے فر مایامیرے اہلِ بیت کی محبت تم پرلازم کردی گی ہےاور ہماری شفا عت (سے فیضیاب ) ہونے کا دار مدار اس پر ہے کہ ہمارے اہل، بیعت سے محبت کرواس ذات ِ پاک قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ہمارا حق نہیں پہچانوں گے تو تمام عمر کی عبادت را ئیگاں چلی جا ئے گی۔
حضور (ص) نے فرمایا کہ حُب ِ اہلِ بیت جز ِ ایمان ہے اور ہماری شفا عت کا دارو مدار اسی پر ہے۔ حال میں ہی ایک سنی عالم علامہ حسنات احمد صاحب ( مقیم جرمنی) نے اپنے ایک مضمون میں اشرف الموبد کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرما ئی ہے جس کو میں نے اور بھی بہت سے محدثین اور مورخینکے یہاں پڑھا ہے۔ مگر یہ عقیدہ بلا عمل با لکل ایسا ہی ہے جیسے کہ یہ حدیث ہے کہ ً جس نے کلمہ پڑھ لیا وہ جنت میں جا ئے گا لہذا لوگ صرف کلمہ پڑھنا کافی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ ایک حدیث بھی ہے اور حضرت علی (رض)کا قول بھی ہے کہ “ عمل کے بغیر ایمان بے کار ہے اور ایمان کے بغیر عمل بیکار ہے “ لہذا حب َ اہلِ بیت تقاضہ یہ ہے کہ کہ ان کی زندگیوں کا اتبا ع جا ئے ؟ اگر عمل کی ضرورت نہ ہو تی تو انہوں (س) نے کیوں اپنی زندگی کو امتحانوں اور مشقت میں ڈالا وہ تو سب بر گیزدہ بندے تھے، انہیں با لکل بھی عمل کی ضرورت نہ تھی؟
اسی لیئے بار بار اپنی تمام تحریروں میں ہم نے اس پر اپنی ناقص رائے قر آنی آیات کی روشنی میں یہ پیش کی تھی کہ اس کا مطلب یہ بھی نہ سمجھ لیا جا ئے کہ با عمل ہوں یا نہ ہو ں ،اور صرف شفاعت کے بھروسے پر ہاتھ پر ہا تھ رکھ کر بیٹھ رہیں۔ہمیشہ کوئی ممتحن ر عایتی نمبر اسی صورت میں دیتا ہے جب کہ طالب علم نے پرچہ امتحان پر کچھ لکھا ہو؟بغیر لکھنے کا عمل انجام دیئے سادے کاغذپر کہیں نمبر نہیں ملا کرتے، بلکہ صفر ملتا ہے؟ کیونکہ یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی صفتِ عدل کے خلاف ہے، جو کے سب سے زیادہ خودعادل ہے اور ہمیں اپنی پیروی میں عدل کر نے کا حکم دیتا ہے۔ لہذا اگر ایسا ہو کہ جو عمل کرے وہ اور جو نہ کرے وہ برابر ہو جا ئیں تو یہ اس کے قانون عدل کے قطعی خلاف ہوگا۔ اور اس نے قرآن میں بار بار ہمیں تنبیہ بھی کی ہے کہ اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہو سکتے۔ بے عمل اور با عمل برا بر نہیں ہو سکتے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ لہذا میری نظر میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے قرآن میں دیئے گئے اس کے ا حکا مات پر پورا عمل کیا جا ئے جس میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ فورا ً عمل کا حکم آیا ہے یعنی ہر جگہ آمنو کے فوراً بعد عمل ِ صالح کی تلقین ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہ سے کسی نے پو چھا کہ اگر حساب کتاب وہاں نہ ہوا تو ؟ اسکو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے جواب دیا کہ اگر تم یہاں سے اچھے اعمال نہ لے گئے اور وہاں حساب کتاب ہوا تو؟(یعنی اس وقت کیا کروگے) اس میں بھی یہ ہی تلقین ہے کہ عمل ساتھ لے کر جا ؤ۔
چونکہ سوال کر نے والا بدو تھا۔ لہذا جواب میں انہوں (رض) نے اسے دلیل سے قائل کرنا چاہا ورنہ تو آخر ت میں جوابد ہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس کے بغیر ایمان ہی مکمل نہیں ہے۔لہذا اس سے مفر ہی نہیں ہے۔
اب آگے بڑھتے ہیں۔اور ہم وہ واقعہ بیان کر نے جا رہے ہیں جس میں علی کرم اللہ وجہ کی سخاوت اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کے کئی اور پہلو سامنے آتے ہیں۔اس واقعہ کی ابتدا ءیہاں سے ہو تی ہے کہ حضرت سیدہ (ع) ایک مرتبہ شدید بخار میں مبتلا ہو ئیں جو کہ کافی طول کھینچ گیا۔اور یہ سب ہی جانتے ہیں بخار میں صفرے کا غلبہ ہوتا ہے اور اس کا مریض کھٹ مٹھی چیزیں پسند کرتا ہے ۔مگر اللہ والوں کی کبھی زبان پر نہیں آتا کے انہیں کیا کھانا ہے اور نہ ہی منہ سے اظہار کرتے ہیں۔ لہذا ان کی زبان پر بھی کبھی نہیں آتا کہ میرا اس چیز کو کھانے کو جی چاہ رہاہے؟ کیونکہ ان کا یقین راسخ ہو تا کہ خدا دلوں کے راز جانتا ہے اگر وہ چیز ان کےلیئے مفید سمجھے گا، تو خودبھیجدے گا۔لہذا وہ کسی سے سوال نہیں کرتے اور جناب سیدہ (ع) نے تو عمر بھرحضور (ص) سے اور بعد میں اپنے شوہر (رض) سے بھی ۔اپنے تقویٰ اور توکل کی وجہ سے کوئی سوال یا فر ما ئش نہیں کی۔ مگر ساتھ ہی اہل ِ توکل کو یہ بھی حکم ہے کہ اگر کو ئی شخص کو ئی چیز بغیر مانگے چیزپیش کرے اور جائز بھی ہوتو یہ اللہ کی طرف سے ہو گی لہذا اسے رد مت کرو؟
حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بذریعہ القا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش پر مطلع فر مادیا اور انہوں (رض)نے ان سے پو چھا کہ آپ کا کسی چیز کو کھانے کو دل چا ہ رہا ہے؟اس کے جواب میں انہوں (ع)نے فر مایا ہاں اگر انار مل جا ئے تو ۔حضرت علی کرم اللہ وجہ یہ سن کھل اٹھے کہ آپ نے پہلی مرتبہ کسی خو ہش کا اظہار تو فر ما یا ۔ آپ (رض) فورا ً بازار کی طرف روانہ ہو گئے چونکہ آپ کے پاس کبھی رقم اس لیئے نہیں رہتی تھی کہ حضور (س) کی سنت پر دونوں میا ن بیوی (رض) عامل تھے کہ جو آیا خیرات کر دیا بلکہ ادھار لیکر بھی خیرات فرما دیتے تھے اور مقروض ہو جاتے تھے۔ لہذا کسی سے ایک در ہم ادھار لیا ، اس کا ایک انار خرید ا اور خوشی خوشی گھر کی طرف چلے کہ اتنے میں ایک شخص کو کراہتے ہو ئے سرِ راہ پڑا دیکھا۔ لہذا حسب سنت اس کی عیادت کرنے کے لیئے آپ (رض) اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا کہ با با میں تمہاری کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟ اس نے ان کےہا تھ میں انار للچا ئی ہو ئی نظروں سے دیکھا اور اس کا سوال کر دیا ۔ اب یہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے سامنے امتحان در پیش تھاکہ وہ کس کو کس پر ترجیح دیں؟
انہوں نے ایک لمحہ کے لیئے سوچاکہ یکایک ان کے سامنے فورا ًو اما سا ئل فلا تنھر والی آیت آگئی اور وہ انار انہوں (رض)نے بڑی شفقت سے اس سا ئل کو دانے دانے کر کے کھلا نا شروع کر دیا۔ جب وہ پورا انار کھا چکا تو وہ فورا صحت مند ہو گیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ادھر اس کا اثر حضرت فا طمہ (ع)پر بھی یہ ہوا کہ وہ صحت مند ہو گئیں ۔ جب جناب علی کرم اللہ وجہ یہ سوچتے ہو ئے گھر میں دا خل ہو ئے کہ اب میں کیا جواب دونگا تو یہاں صورت حال مختلف پائی ۔ یہاں ان (رض) کے استقبال کےلیئے حضرت فاطمہ (س) خود تندرست ہو کر دروازے پرمو جود تھیں ۔ انہوں (س) نےپریشان دیکھا تو فرمایا کہ آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں جب آپ وہ انار اس مریض کو میرے بجا ئے کھلا رہے تھے ، میرا دل انار کو دیکھتے ہی بھر گیا تھا۔اب اللہ نے اس سے مجھے بے نیاز کردیا ہے اور مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔
ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ دروازے پر دستک ہو ئی تو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے پو چھا کہ کون ہے؟ تو آنے والے نے نام بتایا کہ سلمان فا رسی(رض)ان کے ہاتھ میں ایک برتن تھا جوکہ ڈھکا ہوا تھا ۔ وہ انہوں (رض) نے جب حضرت علی (رض) دروازے پر تشریف لے گئے تو پیش کر دیا ۔ حضرت علی (رض) نے فر مایا کہ کہاں سے لا ئے ہو ؟ تو انہوں (رض) نے فرمایا کہ حضور (ص) نے آپ کے لیئے بھیجا ہے۔ انہوں (رض)نے اس پر سے یہ دیکھنے کے لیئے رومال ہٹایا کہ اس کے اندر کیا ہے؟ تو دیکھا کہ نو انار ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فر ما یا کہ یہ واپس لے جا ؤ یہ شاید میرے لیئے نہیں ہیں، تم غلطی سے لے آئے ہو کیونکہ یہ دس ہونا چا ہیئے تھے ؟ حضرت سلمان فارسی ہنس دیئے اور فر مایا کہ میں تو آپ کا امتحان لے رہا تھا کہ دیکھو ں آپ کو پتہ چلتا ہے یا نہیں؟ اور آستین میں جو ایک انار چھپا رکھا تھا وہ بھی پیش کر دیا۔ تب حضرت علی (رض)نے یہ فر ما کر قبول کر لیا کہ اللہ کا وعدہ ایک کے بدلے کم از کم دس کا ہے اور وہ اپنی سنت نہیں بدلتا ۔
یہ راہ جو ہر صاحب تصوف کو انہوں نے دکھا ئی تھی ،یہ ہی توکل بعد میں ہر متوکل کے ہاں ملا۔ جس سے اولیاءاللہ کی تاریخ بھری ہو ئی اور حضرت رابعہ (رح) بصری کی زندگی میں جوبکثرت ملتا ہے جو بہت اس میں بہت مشہور ہیں ۔
کچھ مورخین لکھا ہے کہ یہ انار جنت کے انار تھے اور وہ بیمار فرشتہ تھا ،یہاں صرف حضرت علی کرم اللہ وجہ کا جذبہ فرض شنا سی دنیا کو دکھانا مقصود تھا کہ ایک طرف وہ بیوی (رض) تھیں جن کی تعریف میں انہوں (رض) بہت کچھ فر مایا ہے۔ دوسری طرف قرآن فہمی تھی جو ان کو فرض یاد دلا رہی تھی اور معاملہ خدا کی رضا اور محبت در میا ن تھا ۔ یہاں حضرت علی کرم اللہ وجہ نے انار کھلا کر یہ ثابت کر دیا کہ مومن وہی ہے جس پر اللہ اور رسول (ص) کی محبت اتنی غالب ہو کہ کو ئی رشتہ اس کے آڑے نہ آسکے۔ اس میں ہم زبانی اور کلا می مسلما نو ں کے لیئے ایک سبق ہے۔ کہ جب معاملہ خدا یا رسول (ص) کا ہو تو سب کو نظر انداز کردو ۔ کیونکہ اس پر حضور (ص) کی حدیث ہے کہ وہ مومن نہیں جو اللہ اور رسول (ص) سے سب سے زیادہ محبت نہ کرے ۔ جس پر حضرت عمر فا روق (رض) نے پو چھا کہ کیا اپنے نفس سے بھی زیادہ ؟فر مایا ہا ں !
اس میں ممکن ہے کہ ان کے لیئے حیرت ہو جو تصوف اور توکل پر یقین ہی نہیں رکھتے ہیں۔ مگر جو متوکل ہیں ان کا تو روز کا مشا ہدہ ہے کہ وہ جو کھانا چا ہتے ہیں اللہ تعا لیٰ کسی کے بھی دل میں اس کی خواہش ڈال دیتا ہے ۔ اور وہ ان کے پاس چیز پہو نچ جا تی ہے ۔ کبھی یہ بھی ہو تا ہے کہ بیوی اگر متوکل ہے تو شوہر کے دل میں اس چیز کی خوہش پیدا کر دیتا ہے۔ اور کبھی یہ ہو تا ہے کہ شوہر متوکل ہے تو بیوی کے دل میں اللہ اس کھانے یا چیز کی خواہش پیدا فر ما دیتا ہے۔ یا پھر گھر کے کسی اور فرد کے دل میں خوہش پید ا کر دیتا ہے اور اس طرح ہر متوکل کی وہ خواہش پو ری فر ما دیتا ہے۔ کبھی کو ئی عقیدتمند وہی چیز بھیج دیتا ہے اور کبھی پڑوسی تحفہ کے طور پر بھیج دیتا ہے۔ حا صل کلام یہ ہے کہ جو اس کے بندے ہیں ان کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلا نے کی حا جت نہیں رہتی۔ جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہ تو تمام ولیوں کے سربراہ ہیں، ان کے عام غلا موں میں یہ صلا حیت موجود ہے اور آئے دن کا تجربہ ہے۔ مگر جنک کا یقین اس درجہ پر نہ ہو ان کے وہی تو کل ہے، جو کہ حضور (ص) نے بدو سے فر مایا کہ پہلے اونٹ کو باندھ کر آو پھر توکل کرو۔ کیونکہ یہ سب یقین کے سودے ہیں۔ اگر بے یقینی ہو تو ان کو ایسی با توں سے پر ہیز کر نا چا ہیئے ۔
No comments:
Post a Comment