Tuesday, November 30, 2010

مناجات امام زین العابدین

مناجات امام زین العابدین

مناجات امام زین العابدینمناجات امام زین العابدین

شان و عظمت امام حسین علیہ السلام تحریر : پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادی سون ضلع خوشاب

شان و عظمت امام حسین علیہ السلام
تحریر : پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادی سون ضلع خوشاب
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
مسند احمد بن حنبل، 2 : 288
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین دونوں کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کتنی اچھی سواری تمہارے نیچے ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاً فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔ مجمع الزوائد، 9 : 182

 
 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ جامع الترمذی، 2 : 218
حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا ’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کرمسند احمد بن حنبل، 5 : 369
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے۔
1. مسند احمد بن حنبل، 4 : 323
2. المستدرک، 3 : 158
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا۔
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 513)
حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے مروی ہے کہ حضرت حسن سینے سے لیکر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے اور حضرت حسین اس سے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے۔
(جامع الترمذي، 2 : 219
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا۔
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 513)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے بارے میں فرمایا "جس نے اس (حسین) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی''۔
(المعجم الکبير، 3، ح : 2643)
حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔
(جامع الترمذی، 2 : 219)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
1. البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200
2. کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسین علیہ السلام کو اٹھایا ہوا تھا اور یہ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس (حسین) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 177)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔
(المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ
آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔
(المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام
پر شہید کر دیا جائے گا۔طبراني في الاوسط مجمع، 9 : 190
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے
حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی۔
(الخصائص الکبریٰ 2 : 12)

Thursday, November 25, 2010

شیطانی فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

شیطانی فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
\وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘مسلم کی ایک روایت میں  ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا
 البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، و ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، و ابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، و أبو يعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، و في حلية الأولياء، 5 / 71، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، و حاشية ابن القيم، 13 / 16، و السيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192
مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تو ان کی تالیف قلب کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا اور اس نے کہا : اے محمد! اﷲ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا : اے محمد اﷲ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا : ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا : میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قول اﷲ تعالي : تعرج الملائکة و الروح إليه، 6 / 2702، الرقم : 6995، و في کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ عزوجل : و أما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219، الرقم : 3166، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 741، الرقم : 1064، و أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4764، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم : 4101، و في کتاب : الزکاة، باب : المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم : 2578، و في السنن الکبري، 6 / 356، الرقم : 11221، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2373، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، 73، الرقم : 11666، 11713، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 156، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 339، الرقم : 12724، 7 / 18، الرقم : 12962، و ابن منصور في کتاب السنن، 2 / 373، الرقم : 2903، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 72، و الشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 345، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 196. البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم : 6531، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 746، الرقم : 1066، و الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في صفة المارقة، 4 / 481، الرقم : 2188، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4102، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 59، الرقم : 168، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 81، 113، 131، الرقم : 616، 912، 1086، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 553، الرقم : 37883، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 157، و البزار في المسند، 2 / 188، الرقم : 568، و أبو يعلي في المسند، 1 / 273، الرقم : 324، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 170، و الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 213، الرقم : 1049، و عبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 443، الرقم : 914، و الطيالسي في المسند، 1 / 24، الرقم : 168
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں، فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہو گا اور تیر (جانور کے ) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہوگا)۔’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا : جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا : عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو۔ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بیشک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
 البخاري في الصحيح، کتاب : استابة المرتدين و المعاندين، باب : مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِءَلَّا ينْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، 6532، و في کتاب : المناقب، باب : علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم : 3414، و في کتاب : فضائل القرآن، باب : البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771، و في کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرَّجلِ : ويلَکَ، 5 / 2281، الرقم : 5811، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، و نحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في السنن الکبري، 6 / 355، الرقم : 11220، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم : 172، و ابن الجارود في المنتقي، 1 / 272، الرقم : 1083، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، و الحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و قال : هذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم : 11554، 14861، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم : 37932، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، و نحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم : 3846، و الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم : 9060، و أبو يعلي في المسند، 2 / 298، الرقم : 1022، و البخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 / 270، الرقم : 774
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم : 1461، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2372.’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر
واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا : سر منڈائے رکھنا ہے
۔ مسلم کی روایت میں ہے : يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔
 البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قراءة الفاجر و المنافق و أصواتهم و تلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم : 7123، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق و الخليفة، 2 / 750، الرقم : 1068، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم : 11632، 3 / 486، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم : 37397، و أبو يعلي في المسند، 2 / 408، الرقم : 1193، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم : 5609، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم : 909، و قال : إسناده صحيح، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم : 2390

’’زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
’’حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم : 4768، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 163، الرقم : 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91، الرقم : 706، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 147؛ والبزار في المسند، 2 / 197، الرقم : 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445. 446، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170.
البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم : 6532، و في فضائل القرآن، باب : إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم : 4771، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064، و مالک في الموطأ، کتاب : القرآن، باب : ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم : 478، و النسائي في السنن الکبري، 3 / 31، الرقم : 8089، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم : 11596، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 132، الرقم : 6737، و البخاري في خلق أفعال العباد، 1 / 53 وا بن أبي شيبة في المصنف، 7 / 560، الرقم : 37920، و أبو يعلي في المسند، 2 / 430، الرقم : 1233، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 935، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 537، الرقم : 2640، و الربيع في المسند، 1 / 34، الرقم : 36.
’’حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ بازی ہو گی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے) وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اﷲ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : سر منڈانا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔‘‘
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پیدا ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بد تر (یا بدترین) ہوں گے اور انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر نہیں پاتا۔
أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في : قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 224، الرقم : 13362، والحاکم في المستدرک، 2 / 161، الرقم : 2649، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 15، الرقم : 2391. 2392، و قال : إسناده صحيح، و أبو يعلي في المسند، 5 / 426، الرقم : 3117، و الطبراني نحوه في المعجم الکبير، 8 / 121، الرقم : 7553، و المروزي في السنة، 1 / 20، الرقم : 52.
مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم : 1065، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم : 11031، و عبداﷲ بن أحمد في السنة : 2 / 622، الرقم : 1482،
علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا : خبردار ہو جاؤ فتنہ ادھر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہو گا۔’’حضرت شریک بن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے اس بات کی خواہش تھی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق دریافت کروں۔ اتفاقاً میں نے عید کے روز حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو آپ کے کئی دوستوں کے ساتھ دیکھا میں نے دریافت کیا : کیا آپ نے خارجیوں کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کچھ مال پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مال کو ان لوگوں میں تقسیم فرما دیا جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ عنایت نہ فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے محمد! آپ نے انصاف سے تقسیم نہیں کی۔ وہ سیاہ رنگ، سر منڈا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا (اور امام احمد بن حنبل نے اضافہ کیا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدوں کا اثر تھا)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید ناراض ہوئے اور فرمایا : خدا کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی شخص کو انصاف کرنے والا نہ پاؤگے، پھر فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کردو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔
البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : نسبة اليمن إلي إسماعيل، 3 / 1293، الرقم : 3320، و في کتاب : بدء الخلق، باب : صفة إبليس و جنوده، 3 / 1195، الرقم : 3105، و مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم : 2905، و مالک في الموطأ، کتاب : الاستئذان، باب : ما جاء في المشرق، 2 / 975، الرقم : 1757، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 73، الرقم : 5428، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 25، الرقم : 6649
النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في السنن الکبري، 2 / 312، الرقم : 3566، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 421، والبزار في المسند، 9 / 294، 305، الرقم : 3846، والحاکم في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 559، الرقم : 37917، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 452، الرقم 927، والطيالسي في المسند، 1 / 124، الرقم : 923، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، و ابن القيسراني في تذکرة الحفاظ، 3 / 1101، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188
’’حضرت (عبداللہ) بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اﷲ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض) لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (پھر) دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمارے نجد میں بھی میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ (فتنہ وہابیت) وہیں سے نکلے گا۔البخاري في الصحيح، کتاب : الفتن، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم : 6681، و في کتاب : الاستسقاء، باب : ما قيل في الزلازل و الآيات، 1 / 351، الرقم : 990، و الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل الشام و اليمن، 5 / 733، الرقم : 3953، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 118، الرقم : 5987، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 290، الرقم : 7301، و الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 384، الرقم : 13422، و المقري في السنن الواردة في الفتن، 1 / 251، الرقم : 46، و المنذري في الترغيب و الترهيب، 4 / 29، الرقم : 4666.

ذی النورین رضی اللہ عنہ تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

ذی النورین رضی اللہ عنہ تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت عصمہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔
الطبرانيفي المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک وتعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں
الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 253، الحديث رقم : 414، و الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 18، الحديث رقم : 3501، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 512، الحديث رقم : 837.
 ’’حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مصر سے آیا اس نے حج کیا اور چند آدمیوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا، یہ قریش ہیں۔ پوچھا ان کا سردار کون ہے؟ لوگوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما ہیں وہ کہنے لگا اے ابن عمر! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اس کا جواب مرحمت فرمائیے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد سے فرار ہو گئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر دریافت کیا کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہ تھے بلکہ غائب رہے؟ جواب دیا ہاں اس نے اللہ اکبر کہا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ٹھہرئیے میں ان واقعات کی کیفیت بیان کرتا ہوں جو انہوں نے جنگ احد سے راہِ فرار اختیار کی تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا اور انہیں بخش دیاگیا۔ رہا وہ غزوہ بدر سے غائب رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صاحبزادی ان کے نکاح میں تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خود فرمایا تھا کہ تمہارے لئے بھی بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر اور حصہ ہے۔ (تم اس کی تیمار داری کے لئے رکو) رہی بیعت رضوان سے غائب ہونے والی بات تو مکہ مکرمہ کی سر زمین میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی معزز ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جگہ اسے اہل مکہ کے پاس سفیر بنا کر بھیجتے سو بیعت رضوان کا واقعہ تو ان کے مکہ مکرمہ میں (بطورِ سفیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جانے کے بعد پیش آیا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے لئے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے۔ پھر حضرت ابن عمر نے اس شخص سے فرمایا : اب جا اور ان بیانات کو اپنے ساتھ لیتا جا۔

البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اﷲ عنه، 3 / 1353، الحديث رقم : 3495، و ايضا في کتاب المغازي، باب قول اﷲ تعالي إن الذين تولوا منکم، 4 / 1491، الحديث رقم : 3839، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان، 5 / 629، الحديث رقم : 3706، و أحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 101، الحديث رقم : 5772

’’حضرت ام عیاش رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی ام کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر۔
الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 92، الحديث رقم : 236، و الطبراني في المعجم الاوسط، 5 / 264، الحديث رقم : 5269، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و خطيب بغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 364.
’’حضرت عصمہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی۔
الطبرانيفي المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83.

حضرت عثمان غنی ذی النورین تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

حضرت عثمان غنی ذی النورین تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔  ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 64. الحديث رقم 7
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے، اس عالم میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے کرتے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ محمد راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آ کر باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866، الحديث رقم : 2401، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 336، الحديث رقم : 6907، و أبو يعلي في المسند، 8 / 240، الحديث رقم : 6907، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 230، الحديث رقم : 3059
’’حضرت حفصہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی۔ پھر وہ صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی اﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں احمد بن حنبل في المسند، 6!288، الحديث رقم : 26510، و الطبراني في المعجم الکبير، 23!205، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9!81، و عبد بن حميد في المسند، 1!446.
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاں پانی تھا اور (ٹانگیں پانی میں ہونے کے باعث) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہو ا تھا، پس جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ڈھانپ لیا البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 232، الحديث رقم : 3063، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367، و الشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 52.
’’حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی حالت میں اجازت دے دی اور ان کی حاجت پوری فرما دی۔ وہ چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دی۔ وہ بھی اپنی حاجت پوری کرکے چلے گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا اپنے کپڑے درست کر لو، پھر میں اپنی حاجت پوری کرکے چلا گیا، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اس قدر اہتمام نہ فرمایا۔ جس قدر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان ایک کثیرالحیاء مرد ہے اور مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے ان کو اسی حال میں آنے کی اجازت دے دی تو وہ مجھ سے اپنی حاجت نہیں بیان کرسکے گا۔مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866. 1867، الحديث رقم : 2402، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 71، الحديث رقم 514، و أبو يعلي في المسند، 8 / 242، الحديث رقم : 4818، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 61، الحديث رقم : 5515، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 231، الحديث رقم : 3060، و البزار في المسند، 2 / 17، الحديث رقم : 355، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 210، الحديث رقم : 600.
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے۔ أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 56، و ابن أبی عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1281.
’’حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے؟ راوی نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرا تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہے اس کی قوم اس کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ اس سے حیاء کرتے ہیں بدر (راوی) کہتے ہیں کہ پھر ہم نے آپ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے ایک گروہ کو دور کیا الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 159، الحديث رقم : 4939، و الطبراني في مسند الشاميين، 2 / 258، الحديث رقم : 1297، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 82.

Monday, November 22, 2010

علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے فرمان روسول تحریرپیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف ضلع خوشاب

علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے فرمان روسول تحریرپیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف ضلع خوشاب
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ میں عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں جبکہ میں نو عمر ہوں اور فیصلہ کرنے کا بھی مجھے علم نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالی عنقریب تمہارے دل کو ہدایت عطا کر دے گا اور تمہاری زبان اس پر قائم کر دے گا۔ جب بھی فریقین تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو جلدی سے فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو جیسے تم نے پہلے کی سنی تھی۔ یہ طریقہ کار تمہارے لیے فیصلہ کو واضح کر دے گا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی بھی فیصلہ کرنے میں شک میں نہیں پڑا۔ أبوداؤد في السنن، کتاب الأقضيه، باب کيف القضاء، 3 / 301، الحديث رقم : 3582، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 83، الحديث رقم : 636، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8417، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 10 / 86.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اﷲ علیک وسلم مجھے بھیج رہے ہیں کہ میں ان کی درمیان فیصلہ کروں حالانکہ میں نوجوان ہوں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہے؟ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پہ مارا پھر فرمایا : اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا فرما اور اس کی زبان کو حق پر قائم رکھ۔ فرمایا اس کے بعد میں نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی بھی شک نہیں کیا۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
 ابن ماجة في السنن، کتاب الأحکام، باب ذکر القضاة، 2 / 774، الحديث رقم : 2310، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8419، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32068، و البزار في المسند، 3 / 126، الحديث رقم : 912، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 61، الحديث رقم : 94، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 580، الحديث رقم : 984، وابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 337
حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں سے سب سے اچھا فیصلہ فرمانے والا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
 الحاکم في المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4656، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 167، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338.
حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضي اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : علی ہم سب سے بہتر اور صائب فیصلہ فرمانے والے ہیں اور ابی بن کعب ہم سب سے بڑھ کر قاری ہیں۔
الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 345، الحديث رقم : 5328، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 113، الحديث رقم : 21123.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ ہم میں سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والے علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339.
’’حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس ناقابل حل اور مشکل مسئلہ سے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں ہوتے تھے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339
.

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی مجھ سے میں علی سے تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی مجھ سے میں علی سے تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہ الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3720، و الحاکم فی المستدرک علٰی الصحيحين، 3 / 15، الحديث رقم : 4288.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور آپ حجۃ الوداع والے دن وہاں موجود تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور میرا قرض میری طرف سے سوائے میرے اور علی کے کوئی نہیں ادا کرسکتا۔أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 164. ’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرا قرض میری طرف سے سوائے علی کے کوئی نہیں ادا کرسکتا۔  ابن ماجه فی السنن، مقدمه، باب فضائل أصحاب رسول اﷲ، 1 / 44، الحديث رقم : 19.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و نقض میں) میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کرسکتا۔ الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3719، وابن ماجه فی السنن، مقدمه، باب فضائل أصحاب الرسول، فضل علی بن أبی طالب، 1 / 44، الحديث رقم : 119، و أحمد بن حنبل فی المسند 4 / 165، و ابن أبی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32071، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 16، الحديث رقم : 3511، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 3 / 183، الحديث رقم : 1514.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو سورۂ توبہ دے کر بھیجا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کے پیچھے بھیجا پس انہوں نے وہ سورۃ اس سے لے لی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سورۃ کو سوائے اس آدمی کے جو مجھ میں سے ہے اور میں اس میں سے ہوں کوئی اور نہیں لے جاسکتا۔ أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جعفر اور حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنھم ایک دن اکٹھے ہوئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیارا ہوں پھر انہوں نے کہا چلو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت اقدس میں چلتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ اسامہ بن زید کہتے ہیں پس وہ تینوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دیکھو یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا جعفر علی اور زید بن حارثہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو اجازت دو پھر وہ داخل ہوئے اور کہنے لگے یارسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ، انہوں نے کہا یارسول اﷲ! ہم نے مردوں کے بارے عرض کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جعفر! تمہاری خلقت میری خلقت سے مشابہ ہے اور میرے خلق تمہارے خلق سے مشابہ ہیں اور تو مجھ سے اور میرے شجرہ نسب سے ہے، اے علی تو میرا داماد اور میرے دو بیٹوں کا باپ ہے اور میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے ہے اور اے زید تو میرا غلام اور مجھ سے اور میری طرف سے ہے اور تمام قوم سے تو مجھے پسندیدہ ہے
أحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 204، الحديث رقم : 21825، و الحاکم في المستدرک، 3 / 239، الحديث رقم : 4957، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 151، الحديث رقم : 1369، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 274.

مولائے کائنات علی علیہ السلام ایمان میںاول نماز میںاول پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادی سون ضلع خوشاب

مولائے کائنات علی علیہ السلام ایمان میںاول نماز میںاول
 پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادی سون ضلع خوشاب
یک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 367، و الحاکم في المستدرک، 3 / 447، الحديث رقم : 4663، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 371، الحديث رقم : 32106، و الطبراني في المعجم اکبير، 22 / 452، الحديث رقم : 1102
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔
الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 640، الحديث رقم : 3728، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 121، الحديث رقم : 4587، و المناوي في فيض القدير، 4 / 355
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 642، الحديث رقم : 3734.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے احمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد سب سے پہلے جو شخص اسلام لایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 373، الحديث رقم : 3542، و الطيالسي في المسند، 1 / 360، الحديث رقم : 2753.
’’حضرت اسماعیل بن ایاس بن عفیف کندی صاپ نے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک تاجر تھا، میں حج کی غرض سے مکہ آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا تاکہ آپ سے کچھ مال تجارت خرید لوں اور آپ رضی اللہ عنہ بھی ایک تاجر تھے۔ بخدا میں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس منی میں تھا کہ اچانک ایک آدمی اپنے قریبی خیمہ سے نکلا اس نے سورج کی طرف دیکھا، پس جب اس نے سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں : پھر اسی خیمہ سے جس سے وہ آدمی نکلا تھا ایک عورت نکلی اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوگئی پھر اسی خیمہ میں سے ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا نکلا اور اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا اے عباس! یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ میرابھتیجا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہے۔ میں نے پوچھا : یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا : یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میں نے پوچھا : یہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ ان کے چچا کا بیٹا علی بن ابی طالب ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیا کام کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نبی ہیں حالانکہ ان کی اتباع سوائے ان کی بیوی اور چچا زاد اس نوجوان کے کوئی نہیں کرتا اور وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں : عفیف جو کہ اشعث بن قیس کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے بعد اسلام لائے، پس اس کا اسلام لانا اچھا ہے مگر کاش اﷲ تبارک و تعالیٰ اس دن مجھے اسلام کی دولت عطا فرما دیتا تو میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تیسرا اسلام قبول کرنے والا شخص ہو جاتا۔ أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209 و الحديث رقم : 1787، و ابن عبد البر في الإستيعاب، 3 / 1096، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 388، الحديث رقم : 6479
’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 141، الحديث رقم : 1191، وابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 368، الحديث رقم : 32085، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179.

’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اپنے والد ابو طالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس آئے جبکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم وادیء نخلہ میں نماز ادا کر رہے تھے، پس انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : جو کچھ آپ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی اس بات پر ہنس دئیے پھر فرمایا : اے اﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا : تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الحديث رقم : 776، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، و الطيالسي في المسند، 1 / 36، الحديث رقم : 188.
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔
ابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 267، الحديث رقم : 35954، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 265، الحديث رقم : 6174، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179

’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی اور وہ اس وقت دس سال کے تھے اور حضرت محمد بن عبد الرحمٰن بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نو سال سے بھی کم عمر میں اسلام لائے لیکن آپ نے اپنے بچپن میں بھی کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔ أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21

Tuesday, November 16, 2010

حسین ّ سب کا تحریر:پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

حسین ّ سب کا تحریر:پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
جب ہم احساسات کي نگاہ سے ديکھتے ہيں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں ميں امام حسين کے نام کي خاصيت اورحقيقت و معرفت يہ ہے کہ يہ نام دلربائے قلوب ہےاور مقناطيس کي مانند دلوں کو اپني طرف کھينچتا ہے۔البتہ مسلمانوں ميں بہت سے ايسے افراد بھي ہيں جو ايسے نہيں ہيں اور امام حسين کي معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہيں، دوسري طرف ايسے افراد بھي پائے جاتے ہيںکہ جن کا شمار اہل بيعت ميں بھی نہيں ہوتا ليکن اُن کے درميان بہت سےايسے افراد ہيں کہ حسين ابن علي کا نام سنتے ہي اُن کي آنکھوں سے اشکوںکا سيلاب جاري ہو جاتاہے۔خداوند عالم نے امام حسين کے نام ميںايسي تاثير رکھي ہے کہ جب اُن کا نام ليا جاتا ہے تو دل و جان پر ايکروحاني کيفيت طاري ہوجاتي ہے ۔

جو کربلا کی اندھیری راتوں میں روشنی ھے حسین وہ ھے
شہادتوں کے سفر کا حاصل جو زندگی ھے حسین وہ ھے
گلاب میں جو لہو کی خؤشبو سے تازگی ھے حسین وہ ھے
بزیرٍ خنجر جو ایک پیاسے کی بندگی ھے حسین وہ ھے
حسین میرا، حسین تیرا، حسین سب کا
حسین حیدر کا،مصطفی کا،حسین رب کا
(صفدر ھمدانی)

اسم گرامی : حسین (ع)
لقب : سید الشھداء۔اس کے علاوہ سید وسبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ سبط اورسید خود رسولکریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص 312) ۔
کنیت : ابو عبد اللہ
والد کا نام : علی (ع)
والدہ کا نام : فاطمہ زھرا (ع)
تاریخ ولادت : 3شعبان 4ھء
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : 12 سال
عمر : 57 سال
تاریخ شہادت :10 / محرم الحرام 61ھء
شہادت کا سبب: یزید ابن معاویہ کے حکم سے شہید کیے گئے
روضہ اقدس : کربلائے معلّیٰ
اولاد کی تعداد :4 بیٹے اور 2 بیٹیاں
بیٹوں کے نام : علی اکبر, علی اوسط , جعفر , عبد اللہ ( علی اصغر )
بیٹیوں کے نام : سکینہ , فاطمہ

خدا کے پیارے نبی کے پیارے علی کے پیارے حسین آئے
ھوا نے سورج کو دی مبارک براں کے پارے حسین آئے
زمیں خوشی سے تھرک رھی تھی تھے رقصاں تارے حسین آئے
شفق،صدف،روشنی، ھوایئں سبھی پکارے حسین آئے
(صفدر ھمدانی)

ابھیآپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میںدیکھا کہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا کاٹ کران کی آغوش میں رکھا گیا ہےاس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم کی خدمت میںحاضرہوکرعرض پرداز ہوئیں کہ حضورآج ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ حضرت نےخواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے۔ اے امالفضل کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہو گا جو تمہاری آغوش میں پرورش پائے گا ۔

ھجرتکے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ھوئی . اس خوشخبری کوسن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , دائیں کان میںاذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دی . پیغمبر کامقدس لعاب دھن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جارھی تھی مگرآنے والے حالات کاعلم پیغمبر کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہتا تھا .

نشو و نما
پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دنبھردو بچّوں کی پرورش ھونے لگی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کااور اسلام کا ایک ھی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رھے تھے . ایک طرفپیغمبر اسلام جن کی زندگی کا مقصد ھی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اوردوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عملسے خدا کے محبوب تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جو خواتینکے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ھی قدرت کیطرف سے پیدا ھوئی تھیں، اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ھوئی.

رسول کی محبت
حضرتمحمد مصطفےٰ (ص)اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے ، سینہپر بٹھاتے تھے ، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھےکہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھخاص امتیاز رکھتے تھے .

ایسا ھوا ھے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میںحسین پشت مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشیپشت پر سے علیٰحدہ ھوگیا اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتےھوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ھونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نےاپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پرتشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ دیکھو یہ حسین ھے اسے خوبپہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کےلیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائےتھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سےھوں ۔ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیامیں حسین کی بدولت قائم رھے گا .

جنت کے کپڑے اور فرزندان رسول کی عید
امامحسن اورا مام حسین کا بچپنا ہے عید آنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کےگھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے نہیں ہے ۔بچوں نے ماں کے گلے میںبانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیںگے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہابچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سےپھرکپڑوں کا تقاضا کیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔

ابھیصبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہدروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدہ عالم کی خدمتمیں اسے پیش کیا اب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامےدوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہابچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کیتوکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے،امام جان ہمیںرنگین کپڑے چاہئیں ۔

حضور انورکواطلاع ملی،تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گےاتنے میں جبرائیل آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفیکے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہنا سرخ جوڑاحسین نے زیبتن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکےمہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے بچو، رسالت کی باگڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضہ الشہداءص 189 بحارالانوار) ۔

بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشتپربٹھا کردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کیآوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔

امام حسین کا سردار جنت ہونا
یغمبراسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ”الحسن و الحسین سیدا شباباہل الجنہ و ابوہما خیر منہما“ حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اورانکے پدر بزرگواران دنوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ) صحابی رسول جناب حذیفہیمانی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات صلعم کو بے انتہا مسروردیکھ کرپوچھا حضور،افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرےبچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ”ان فاطمہ سیدہ نساء اہلالجنہ وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنہ“ فاطمہ جنت کی عورتوں کیسردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد 7 ص 107،تاریخ الخلفاص 123، اسدالغابہ ص 12، اصابہ جلد 2ص 12، ترمذی شریف، مطالبالسول ص 242 صواعق محرقہ ص 114) ۔

رسول کی وفات کے بعد
امامحسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال ھی کی تھی جب انتہائی محبت کرنےوالے نانا کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالبعلیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور تھا .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوارحالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رھے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرتکا بھی مطالعہ فرماتے رھے .

یہوھی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کیمنزلوں کو طے کیا۔35ھ میں جب حسین کی عمر31 برس کی تھی عام مسلمانوں نےحضرت علی ا بن ابی طالب علیھما السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میںجمل، صفین اور نھروان کی جنگ ھوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنےبزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ھوئے اور شجاعت کے جوھر بھیدکھلائے 40ھ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شھید ھوئے۔

اوراب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ھوئیں جوحضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایکباوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امامحسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکےمعاویہ کے ساتہ صلح کرلی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضیھوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعتمیں مصروف رھے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کےساتھ ھوئے تھے بالکل پورا نہ کیا بلکہ امام حسن علیہ السّلام کو زھر کےذریعہ شھید بھی کرا دیا-

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کےشیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا، سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیااور سب سے آخر میں اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کوجانشین مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولیعہد بنا دیا ۔ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زورو زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکادیا گیا-

امام حسين کا دورانِ جواني
پيغمبراکرم کي وفات کے بعد سے امير المومنين کي شہادت تک کا پچيس سالہ دور ہے۔اِس ميں يہ شخصيت، جوان، رشيد، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں ميں آگے آگے ہے،عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں ميں حصہ ليتا ہے اور اسلامي معاشرے کے تماممسلمان اِس کي عظمت وبزرگي سے واقف ہيں۔ جب بھي کسي جواد و سخي کا نام آتاہے تو سب کي نگاہيں اِسي پر مرکوز ہوتي ہيں، مکہ ومدينے کے مسلمانوں ميں،ہر فضيلت
ميں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، يہ ہستي خورشيد کيمانند جگمگا رہي ہے، سب ہي اُس کا احترام کرتے ہيں، خلفائے راشدين بھيامام حسن اور امام حسين کا احترام کرتے ہيں ، اِن دونوں کي عظمت و بزرگيکے قولاً و عملاً قائل ہيں، ان دونوں کے نام نہايت احترام اور عظمت سے ليےجاتے ہيں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظير جوان اور سب کے نزديک قابلاحترام۔ اگر اُنہي ايام ميں کوئي يہ کہتا کہ يہي جوان (کہ جس کي آج تماتني تعظيم کررہے ہو) کل اِسي امت کے ہاتھوں قتل کيا جائے گا تو شايد کوئييقين نہ کرتا۔

امام حسين کا دورانِ غربت
سيدالشہدا کي حيات کا تيسرا دور، امير المومنين کي شہادت کے بعد کا دور ہے،يعني اہل بيت کي غربت و تنہائي کا دور۔ امير المومنين کي شہادت کے بعدامام حسن اور امام حسين مدينے تشريف لے آئے۔حضرت علي کي شہادت کے بعد امامحسين بيس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام ١ رہے اور آپ تمام مسلمانوںميں ايک بزرگ مفتي کي حيثيت سے سب کيلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلامميں داخل ہو نے والوںک ي توجہ کا مرکز، اُن کي تعليم وتر بيت کا محوراوراہل بيت سے اظہا رعقيدت و محبت رکھنے والے معنوي امام اس لحاظ سے کہامير المومنين کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسن کو منتقل ہوئي اور آپ کيشہادت کے بعد امامت ، امام حسين کو منتقل ہوئي۔ امام حسن کي امامت کازمانہ يا امام حسين کي اپني امامت کا دور، دونوں زمانوں ميں امام حسين ٢٠سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام رہے ۔ (مترجم)

اخلاق و اوصاف
امامحسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کی تیسری فرد اور عصمت و طہارت کا باقاعدہمجسمہ تھے- آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کےدوست و دشمن سب ھی قائل تھے- آپ نےپچیس حج پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اورشجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا “ حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ھے “۔ چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروںاور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رھتا تھا اور کوئی سائل محروم واپسنھیں ھوتا تھا-

اسی وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ھو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھےاور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارکپر پڑ گئے تھے- حضرت ھمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ “ جب کسی صاحبِ ضرورت نےتمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارےہاتھ بیچ ڈالی- اب تمھارا فرض یہ ھے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کمسے کم اپنی ھی عزتِ نفس کا خیال کرو“۔

غلاموںاور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپانھیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ھواتھا- مذھبی مسائل اور اھم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا- ۔ آپرحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثارایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتےتھے-

ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہراستے میں چند مساکین بیٹھے ھوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رھے تھے اور آپ کوپکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہکھانے میں شرکت نہیں فرمائی اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ھے مگران کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نھیں ھوا-

اس خاکساری کے باوجود آپکی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماھوتے تھے لوگنگاہ اٹھا کر بات بھی نہیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھےوہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے-

ایک مرتبہ حضرت امامحسین علیہ السّلام نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کےاعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی ۔ اس خط کو پڑھ کرمعاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ھوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپبھی اتنا ھی سخت خط کاجواب لکھئیے- معاویہ نے کہا, “میں جو کچھ لکھوں گاوہ اگر غلط ھو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاھوں تو بخداحسین میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی عیب نھیں ملتا“۔

آپ کی اخلاقیجراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات واستقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ھیں-

انسب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کیکوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دناختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ھٹے- آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلامیں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بےمثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی۔

دين ميں ہونے والي تحريفات سے مقابلہ
امامحسين کي عبادت اور حرم پيغمبر ميں آپ کا اعتکاف اور آپ کي معنوي رياضت اورسير و سلوک؛ سب امام حسين کي حيات مبارک کا ايک رُخ ہے۔ آپ کي زندگي کادوسرا رُخ علم اور تعليمات اسلامي کے فروغ ميں آپ کي خدمات اور تحريفات سےمقابلہ کيے جانے سے عبارت ہے۔

اُس زمانے ميں ہونے والي تحريف ديندرحقيقت اسلام کيلئے ايک بہت بڑي آفت و بلا تھي کہ جس نے برائيوں کے سيلابکي مانند پورے اسلامي معاشرے کو اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ يہ وہ زمانہتھا کہ جب اسلامي سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درميان اِسبات کي تاکيد کي جاتي تھي کہ اسلام کي سب سے عظيم ترين شخصيت پر لعن اورسبّ و شتم کريں۔

اگر کسي پر الزام ہوتا کہ يہ امير المومنين کيولايت و امامت کا طرفدار اور حمايتي ہے تو اُس کے خلاف قانوني کاروائي کيجاتي، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّۃِ وَالآَخذُ بِالتُّھمَۃِ‘‘،(صرف اِس گمان وخيال کي بنا پر کہ يہ اميرالمو منين کا حمايتي ہے ، قتل کرديا جاتا اورصرف الزام کي وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ ليا جاتا اور بيت المال سے اُسکاوظيفہ بند کرديا جاتا)۔

اِن دشوار حالات ميں امام حسين ايک مضبوطچٹان کي مانند جمے رہے اور آپ نے تيز اور برندہ تلوار کي مانند دين پر پڑےہوئے تحريفات کے تمام پردوں کو چاک کرديا، (ميدان منيٰ ميں) آپ کا وہمشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات يہ سب تاريخ ميں محفوظ ہيںاور اِس بات کي عکاسي کرتے ہيں کہ امام حسين اِس سلسلے ميں کتني بڑي تحريککے روح رواں تھے۔

امر بالمعروف و نہي عن المنکر
آپٴنے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر بھي وسيع پيمانے پر انجام ديا اور يہامر و نہي، معاويہ کے نام آپ کے خط کي صورت ميں تاريخ کے اوراق کي ايکناقابل انکار حقيقت اورقابل ديد حصّہ ہيں۔ آپ کا وہ عظيم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اوردليرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر انجام دينا دراصل يزيدکے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدينے سے کربلا کيلئے آپ ٴکي روانگي تک کےعرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپٴ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہيعن المنکر تھے۔ آپ ٴخود فرماتے ہيں کہ ’’اُرِيدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ واَنہٰي عَنِ المُنکَرِ‘‘، ’’ميں نيکي کا حکم دينا اور برائي سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

زندگي کے تين ميدانوں ميں امام حسين کي جدوجہد
امام حسين اپني انفرادي زندگي _ تہذيب نفس اور تقويٰ ميں بھي اتني بڑي تحريک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتي ميدان ميں بھي تحريفات سے مقابلہ، احکام الہي کي ترويج و اشاعت ، شاگردوں اور عظيم الشان انسانوں کي تربيت کو بھي انجام ديتے ہیں نيز سياسي ميدان ميں بھي کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے عبارت ہے، عظيم جدوجہد اور تحريک کے پرچم کو بھي خود بلند کرتے ہیں۔ يہ عظيم انسان انفرادي ، ثقافتي اور سياسي زندگي ميں بھي اپني خود سازي ميں مصروف عمل ہے۔

اب ہم واقعہ کربلا کي طرف رُخ کرتے ہيں ۔ واقعہ کربلا ايک جہت سے بہت اہم واقعہ ہے اورخود يہ مسئلہ اُن افراد کيلئے درس ہے کہ جو امام حسين کو اپنا آئيڈيل قرار ديتے ہيں۔

واقعہ کربلا آدھے دن يا اِس سے تھوڑي سي زيادہ مدت پر محيط ہے اور اُس ميں بہتر (٧٢) کے قريب افراد شہيد ہوئے ہيں ۔ دنيا ميں اور بھي سينکڑوں شہدا ہيں ليکن واقعہ کربلا نے اپني مختصر مدت اور شہدا کي ايک مختصر سي جماعت کے ساتھ اتني عظمت حاصل کي ہے اور حق بھي يہي ہے ؛ واقعہ کربلا روح اور معني کے لحاظ سے اہميت کا حامل ہے۔

آوازہ یا حسین کا پھر نینوا میں ھے
شبیر تیرے خون کی خوشبو ھوا میں ھے

چہلم کی شان سے ھے پریشان یزیدٍ وقت
زینب تری دعا کا اثر کا اثر کربلا میں ھے
(صفدر ھمدانی)

روح کربلا
واقعہ کربلا کي روح و حقيقت يہ ہے کہ امام حسين اِ س واقعہ ميں ايک لشکر يا انسانوں کي ايک گروہ کے مد مقابل نہيں تھے، ہرچند کہ وہ تعداد ميں امام حسين کے چند سو برابر تھے،بلکہ آپ انحراف و ظلمات کي ايک دنيا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اِ س واقعہ کي يہي بات قابل اہميت ہے ۔ سالار شہيدان اُس وقت کج روي، ظلمت اور ظلم کي ايک پوري دنيا کے مقابلے ميں کھڑے تھے اور يہ پوري دنيا تمام مادي اسباب و سائل کي مالک تھي يعني مال و دولت، طاقت ، شعر، کتاب، جھوٹے راوي اور درباري ملا، سب ہي اُس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کي يہي چيزيں دوسروں کي وحشت کا سبب بني ہوئي تھيں۔

ايک معمولي انسان يا اُس سے ذرا بڑھ کر ايک اور انسان کا بدن اُس دنيا ئے ظلمت و ظلم کي ظاہري حشمت ، شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کو ديکھ کر لرز اٹھتا تھا ليکن يہ سرور شہيداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اُس جہان شر کے مقابلے ميں ہرگز نہيں لرزے ، آپ ميں کسي بھي قسم کا ضعف و کمزوري نہيں آئي اور نہ ہي آپ نے (اپني راہ کے حق اور مدمقابل گروہ کے باطل ہونے ميں) کسي قسم کا شک وترديد کيا، (جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زيادتي کا مشاہدہ کيا تو) آپ فوراً ميدان ميں اتر آئے۔ اس واقعہ کي عظمت کاپہلو يہي ہے کہ اس ميں خالصتاً خدا ہي کيلئے قيام کيا گيا تھا۔

’’حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ‘‘کا معني
کربلا ميں امام حسين کا کام بعثت ميں آپ کے جد مطہر حضرت ختمي مرتبت کے کاموں سے قابل تشبيہ و قابل موازنہ ہے، يہ ہے حقيقت۔ جس طرح پيغمبر اکرم نے تن ِ تنہا پوري ايک دنيا سے مقابلہ کيا تھا امام حسين بھي واقعہ کربلا ميں جہانِ با طل کے مدمقابل تھے؛ حضرت رسول اکرم بھي ہرگز نہيں گھبرائے ، راہ حق ميں ثابت قدم رہے اور منزل کي جانب پيش قدمي کرتے رہے، اسي طرح سيد الشہدا بھي نہيں گھبرائے، ثابت قدم رہے اور آپ ٴنے دشمن کے مقابل آکر آنکھوں ميں آنکھيں ڈال ديں۔ تحريک نبوي اور تحريک حسيني کا محور و مرکز ايک ہي ہے اور دونوں ايک ہي جہت کي طرف گامزن تھے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں’’حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ ‘‘ کا معني سمجھ ميں آتا ہے ۔ يہ ہے امام حسين کے کام کي عظمت۔
ْْْْٰ

قيام امام حسين کي عظمت!
امام حسين نے شب عاشور اپنے اصحاب و انصار سے فرمايا تھا کہ’’ آپ سب چلے جائيے اور يہاں کوئي نہ رہے ، ميں اپني بيعت تم سب پر سے اٹھاليتا ہوں اور ميرے اہل بيت کو بھي اپني ساتھ لے جاو، کيونکہ يہ ميرے خون کے پياسے ہيں‘‘۔ امام حسين کے يہ جملے اگر اُن کے اصحاب قبول بھي کرليتے اور امام حسين يکتا و تنہا يا دس افراد کے ساتھ ميدان ميں رہ جاتے توسيد الشہدا کے کام کي عظمت کبھی کم نہیں ھوتی بلکہ ھمیشہ کی طرح اسي عظمت و اہميت کے حامل ہوتے ۔

امام حسين کي عظمت و شجاعت
امام حسين کے کام کي عظمت يہ تھي کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعي اور انحراف کے پورے ايک جہان کے دباو کو قبول نہيں کيا۔ مدينے ميں صحابہ کرام کي اچھي خاصي تعداد موجود تھي جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدينہ ميں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ ميں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے ميں ثابت قدمي کا مظاہرہ کيا اور جنگ کي ۔

ليکن امام حسین دوسري شجاعت کے مالک تھے، اِس واقعہ کربلا کي عظمت کا پہلو يہ ہے کہ امام حسين ايک ايسي طاقت و قدرت کے مد مقابل سيسہ پلائي ہوئي ديوار بن گئے کہ جو تمام مادي اسباب و وسائل کي مالک تھي۔
امام حسين کے دشمن کے پاس مال و دولت تھي ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے ليس سپاہي اس کي فوج ميں شامل تھے اور ثقافتي و معاشرتي ميدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھي اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قيامت تک پوري دنيا پر محيط ہے ، کربلا صرف ميدان کربلا کے چند سو ميٹر رقبے پر پھيلي ہوئي جگہ کا نام نہيں ہے۔ آج کي دنيائے استکبار و ظلم اسلامي جمہوريہ کے سامنے کھڑي ہے۔

نفس نفس علی علی زباں زباں حسین ھے
کہاں کوئی بتا سکا کہاں کہاں حسین ھے

کربلا کے بعد اب یہ فیصلہ ھو گیا
جہاں جہاں یزید ھے وہاں وہاں حسین ھے
(صفدر ھمدانی)

کربلا میں ورود
2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات کو امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو گئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کر بلا زرد ہو گئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرہ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔

صاحب مخزن البکا لکھتے ہیں کہ کربلا پر درود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارادل دھل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں بابا جان نے صفیں کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہے گا۔کتاب مائتین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہو گیا۔

امام حسین (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام
کربلا پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کیلئے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسہر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا۔جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تمھاری دعوت پر میں کربلا تک آگیا ہوں الخ۔قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتار کر لیے گئے۔اور انھیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکر پیش کر دیا گیا۔ابن زیاد نے خط مانگا۔قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیا اوربروایتے اس خط کو کھا لیاابن زیاد نے انھیں بضرب تازیانہ شہید کر دیا۔

عبیداللہ ابن زیاد کا خط امام حسین (ع) کے نام
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلا پہنچنے کے بعد حرنے ابن زیاد کو آپ کی رسیدگی کربلا کی خبردی۔ا س نے امام حسین (ع) کو فوراََ ایک خط ارسال کیا۔جس میں لکھا کہ مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں ،یا آپ کو قتل کر دوں۔امام حسین (ع) نے اس خط کا جواب نہ دیا۔اَلقَاہُ مِن یَدِہ اور اسے زمین پر پھینک دیا۔ اس کے بعد آپ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے کربلاپہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اور تحریر فرمایا کہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے اور عنقریب عروس موت سے ہم کنار ہو جاؤں گا۔

Monday, November 15, 2010

سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا از کتب اہل سنت تحریر:پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف ضلع خوشاب

سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا از کتب اہل سنت تحریر:پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف ضلع خوشاب

آل فاطمہ سلام اللہ علیھا اھل البیت
سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کا گھرانہ اہل بیت ہے
حوالاجات
۱۔ ترمذی ، الجامع الصحیح ،۵:۳۵۲، رقم :۳۲۰۶
۲۔احمد بن حنبل ، المسند ، ۳:۲۵۹، ۲۸۵
۳۔احمد بن حنبل ، فضائل الصحابہ ،۲:۷۶۱، رقم ۱۳۴۰،۱۳۴۱
۴۔ابن ابی شیبہ المصنف ، ۳۸۸۶،رقم ۳۲۲۷۲
۵۔ شیبائی الآحادوالمثانی ،۵:۳۶۰،رقم :۳۲۲۷۲
۶۔عبدبن حمید ،المسند :۳۲۷،رقم ۱۲۲۳
۷۔حاکم ، المستدرک ، ۱۷۲۳، رقم ۴۷۴۸
۸۔طبرانی المعجم الکبیت ،۳:۵۲رقم :۲۶۷۱
۹۔بخاری نے الکنی (ص :۲۵،رقم:۲۶۷۱)میں ابو الحمراء سے حدیث روایت کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل کی مدت نو ماہ بیان کی گئی ہے
۱۰۔عبدبن حمید نے المسند (ص:۱۷۳،رقم ۴۷۵)میں امام بخاری کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔
۱۱۔ابن حیان نے طبقات المحدثین باصبہان (۴:۱۴۸)میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی اس روایت میں آٹھ ماہ کا ذکر کیا گیا ہے
۱۲۔ابن اثیر ، اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ، ۷:۲۱۸
۱۳۔ذہبی ، سیر اعلام النبلا ء ۲:۱۳۴
۱۴۔مزی ۔تہذیب الکمال ،۳۵، ۲۵۰،۲۵۱
۱۵۔ابن کثیر ، تفسیرالقرآن العظیم ۳:۴۸۳
۱۶۔سیوطی نے الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور (۵:۶۱۳)میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
۱۷۔سیوطی نے الدالمنثور فی التفسیر بالماثور (۶:۲۰۷)میں حضرت ابوالحمراء سے روایت کی ہے۔
۱۸۔شوکانی،فتح القدیر ،۴:۲۸۰
۲۔ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ فی قولہ :انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت۔قال :نزلت فی خمسۃ:فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعلی وفاطمۃ ،والحسن،والحسین رضی اللہ تعالی عنہ (۲)
"حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالی کے اس ارشاد مبارکہ ۔۔۔۔اے اہل بیت !اللہ تویہی چاہتا ہے کہ تم سے ہرطرح کی آلودگی دور کردے ۔۔۔۔کے بارے میں کہاہے کہ یہ آیت مبارکہ پانچ ہستیوں ۔۔۔۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی ،فاطمہ ، حسن،حسین رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔کے بارے میں نازل ہوئی ہے"
حوالاجات
۱۔طبرانی ، المجعم الاوسط،۳:۳۸۰، رقم :۳۴۵۶
۲۔طبرانی المعجم الصغیر،۱:۲۳۱،رقم :۳۷۵
۳۔ابن حیان ، طبقات المحدثین باصبہان ، ۳:۳۸۴
۴۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد،۱۰:۲۷۸
۵۔طبری ،جامع البیان فی تفسیرالقرآن ۲۲:۶
آل فاطمۃ سلام اللہ علیھا اھل کساء
سیدہ سلام اللہ علیھا کا گھرانہ ہی اہل کساء ہے
۳۔عن صفیة شیبہ ،قالت :عائشۃ رضی اللہ عنھا :خرج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غداة واعلیہ مرط مرحل من شعر اسود۔فجاء الحسن بن علی رضی اللہ عنھا فادخلہ ، ثم جاء الحسین رضی اللہ عنہ فدخل معہ ،ثم جاء ت فاطمۃ رضی اللہ عنھا فادخلھا ثم جاء علی رضی اللہ عنہ فادخلہ ،ثم قال :انمایرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت ویطھرکم تطھیرا(۳)
"صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں :حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے پس حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہما آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس چادر میں داخل کرلیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چادر میں داخل ہوگئے پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا آئیں توآپ نے انہیں اس چادرمیں داخل کرلیا،پھر حضرت علی کرم اللہ وجھہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادرمیں لے لیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی :"اے اہل بیت!"اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہرطرح کی )آلودگی دور کردے اورتم کو خو ب پاک وصاف کردے "
حوالاجات
۱۔مسلم، الصحیح ،۴:۱۸۸۳،رقم :۲۴۲۴
۲۔ابن ابی شیبہ،المصنف،۶:۳۷۰،رقم :۳۶۱۰۲
۳۔احمد بن حنبل ،فضائل الصحابہ ،۲:۶۷۲،رقم ۱۱۴۹
۴۔ابن راہویہ،المسند ،۳:۶۷۸،رقم۱۲۷۱
۵۔حاکم المستدرک ،۳:۱۵۹،رقم ۴۷۰۵
۶۔بیہقی ، السنن الکبری ،۲:۱۴۹
۷۔طبری جامع البیان فی تفسیرالقرآن ۲۲:۶،۷
۸۔بغوی معالم التنزیل ،۵۲۹۳
۹۔ابن کثیر ،تفسیر القرآن العظیم ،۳:۴۸۵
۱۰۔سیوطی الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ۶:۶۰۵
۴۔عن عمر ابن ابی سلمة ربیب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:لما نزلت ھذہ الآیة علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا)فی بیت ام سلمة ،فدعافاطمۃوحسنا وحسینارضی اللہ تعالی عنہ فجللھم بکساء وعلی رضی اللہ تعالی عنہ خلف ظہرہ فجللہ بکساء ،ثم قال:اللھم! ھولاء اھل بیتی ،فاذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا
"پروردہ نبی حضرت عمربن ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ ۔۔۔اے اہل بیت !اللہ تویہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہرطرح کی) آلودگی دورکردے اورتم کو خوب پاک وصاف کردے ۔۔۔نازل ہوئی؛ توآپ نے حضرت فاطمہ حضرت حسن اورحضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایااورایک کملی میں ڈھانپ لیا ،پھر فرمایا :الہیٰ !یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے نجاست دور کراوران کو خوب پاک وصاف کردے"
حوالاجات
۱۔ترمذی ،الجامع الصحیح ۔۵:۳۵۱،۶۶۳،رقم :۳۲۰۵،۷۸۷
۲۔احمد بن حنبل ، المسند ،۶:۲۹۲
۳۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ،۲:۵۸۷،رقم :۹۹۴
۴۔بیہقی نے ’السنن الکبری (۲:۱۵۰)میں یہ حدیث ذرا مختلف انداز کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔
۵۔حاکم ، المستدرک ،۲:۴۵۱،رقم :۳۵۵۸
۶۔حاکم المستدرک ۳:۱۵۸،رقم :۴۷۰۵
۷۔طبرانی المعجم الکبیر ،۳:۵۴،رقم ۲۶۶۲
۸۔طبرانی ،المعجم الکبیر،۹:۲۵،رقم:۸۲۹۵
۹۔طبرانی ، المعجم الاوسط، ۴:۱۳۴،رقم :۳۷۹۹
۱۰۔بیقہی الاعتقاد:۳۲۷
۱۱۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد۹:۱۲۶
۱۲۔خطیب بغدادی موضع اوہام الجمع ولتفریق،۲:۳۱۳
۱۳۔دولابی الذریۃ الطاہرہ :۱۰۷،۱۰۸،رقم :۲۰۱
۱۴۔ابن اثیرنے اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ(۷:۲۱۸)میں یہ حدیث حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھاسے روایت کی ہے
۱۵۔عسقلانی ، فتح الباری۷:۱۳۸
۱۶۔عسقلانی الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۳:۴۰۵
۱۷۔طبری ،جامع البیان فی تفسیر القرآن ۔۲۲:۷
۱۸۔سیوطی الددالمثور فی التفسیربالماثور ۶:۲۰۴
۱۹۔شوکانی فتح القدیر،۴:۲۷۹
فاطمہ سلام اللہ علیھا سیدة نساء العالمین
سیدہ سلام اللہ علیھا سب جہانوں کی سردار ہیں
۵۔عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال وھو فی مرضہ الذی توفی فیہ :یا فاطمۃ !الا ترضین ان تکونی سیدة نساء العالمین وسیدة نساء ھذاالامة وسیدة نساء المومنین !
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے فاطمہ !کیاتونہیں چاہتی کہ توتمام جہانوں کی عورتوں ،میری اس امت کی تمام عورتوں اورمومنین کی تمام عورتوں کی سردار ہو!"
حوالاجات
۱۔حاکم نے ’المستدرک (۳:۱۷۰،رقم :۴۷۴۰)میں اسے صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے اس کی تائید کی ہے
۲۔نسائی ،السنن الکبری ،۴:۲۵۱،رقم ۷۰۷۸
۳۔نسائی السنن لکبری ۵:۱۴۶۔رقم ۸۵۱۷
۴۔ابن سعد،الطبقات الکبری ۲:۲۴۷،۲۴۸
۵۔ابن سعد،الطبقات الکبری ۸:۲۶،۲۷
۶۔ابن اثیر،اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ ،۷:۲۱۸
۶۔عن عائشہ رضی اللہ عنھا قالت: اقبلت فاطمۃ تمشی کان مشیتھامشی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرحبابابنتی۔ثم اجلسھاعن یمینہ اوعن شمالہ ،ثم ادرالیھافبکت،فقلت لھا:لم تبکین؟ثم اسراالیھا حدیثافضعکت فقلت مارایت کالیوم فرحا اقرب من حزن، فسالتھا عما قال ،فقالت :ماکنت لافثی سررسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمحتی قبض النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقالت:اسرالی :اب جبریل کان یعارخنی القرآن کل سنۃ مرة،انہ عارضی العام مرتین ،ولااراہ الاحضراجلی ،انک اول اھل بیتی لحاقا بی ۔فبکیت ،فقال :اما ترضین ان تکونی سیدة نساء اھل الجنۃ اونساء المومنین فضعلت لذلک
"حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاآئیں اور ان کا چلنا ہوبہوحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے جیساتھا ۔پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر کو خوش آمدید کہااوراپنے دائیں بائیں جانب بٹھالیا۔پھر چپکے چپکے ان سے کوئی بات کہی تووہ رونے لگیں ،پس میں نے ان سے پوچھا کہ کیوں رورہیں ہیں ؟پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کوئی بات چپکے چپکے کہی تووہ ہنس پڑیں پس میں نے کہا کہ آج کی طرح میں نے خوشی کوغم کے اتنے نزدیک کبھی نہیں دیکھامیں نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا سے پوچھا:آپ نے کیا فرمایا تھا؟انہوں نے جواب دیا کہ میں رسول کے راز کو کبھی فاش نہیں کرسکتی ۔جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا تومیں نے ان سے (اس بارے میں )پھر پوچھا توانہوں نے جواب دیا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کی کہ جبرائیل ہر سال میرے ساتھ قرآن پاک کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن اس سال دومرتبہ کیا ہے مجھے یقین ہے کہ میرا آخری وقت آپہنچا ہے اوربے شک میرے گھر والوں میں سے تم ہوجوسب سے پہلے مجھ سے آملو گی ۔اس بات نے مجھے رلایاپھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام جنتی عورتوں کی سردارہویا تمام مسلمان عورتوں کی سردار ہو!پس اس بات پر ہنس پڑی "۶۔حوالاجات
۱۔بخاری الصحیح ،۳:۱۳۲۶،۱۳۲۷،رقم۳۴۲۶،۳۴۲۷
۲۔مسلم ا لصحیح،۴،۱۹۰۴،رقم ۲۴۵۰
۳۔احمد بن حنبل ، المسند۶:۲۸۲
۷۔عن مسروق :حدثتنی عائشۃ ام المومنین رضی اللہ عنھا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا فاطمۃ ! الا ترضین ان تکونی سیدة نساء المومنین اوسیدة نساء ھذہ الامة!
۷۔ حضرت مسروق روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا:اے فاطمہ !کیا تواس بات پر راضی ہے کہ مسلمان عورتوں کی سردار ہو یا میری اس امت کی سب عورتوں کی سردار ہو!
حوالاجات
۱۔بخاری الصحیح،۵:۲۳۱۷،رقم :۵۹۲۸
۲۔مسلم الصحیح،۴:۱۹۰۵،رقم :۲۴۵۰
۳۔نسائی ،فضائل الصحابہ :۷۷،رقم :۲۴۵۰
۴۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ،۲:۷۶۲،رقم ۱۳۴۲
۵۔طیالسی ، المسند:۱۹۲، رقم :۱۲۷۳
۶۔ابن سعد،الطبقات الکبری ،۲:۲۴۷
۷۔دولابی ،الذریۃ الطاہرہ :۱۰۱،۱۰۲،رقم :۱۸۸
۸۔ابونعیم ، حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء۲:۳۹،۴۰۔
۹۔ذہبی سیراعلام النبلا ء ۲:۱۳۰
۸۔عن ابی ھریرة رضی اللہ تعالی عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال :ان ملکا من السماء لم یکن زارنی ،فاستاذن اللہ فی زیارتی ،فبشرنی اواخبرنی ان فاطمۃ سیدة نساء امتی۔
"حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:آسمان کے ایک فرشتے نے میری زیارت نہیں کی تھی پس اس نے اللہ تعالی سے میری زیارت کی اجازت لی اوراس نے مجھے خوشخبری سنائی (یا)مجھے خبر دی کہ فاطمہ میری امت کی سب عورتوں کی سردار ہیں "
حوالاجات
۱۔ طبرانی ،المعجم الکبیر،۲۲:۴۰۳،رقم :۱۰۰۶
۲۔بخاری ، التاریخ الکبیر،۱:۲۳۲،رقم :۷۶۸
۳۔ہثیمی نے مجمع الزوئد (۹:۲۰۱)میں کہا کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اوراس کے رجال صحیح ہیں سوائے محمد مروان ذہلی کے اسے ابن حبان نے ثقہ قرار دیاہے
۴۔ذہبی سیر اعلام النبلای ۲:۱۲۷
۵۔مزی ،تہذیب الکمال ،۲۶:۳۹۱
فاطمۃ سلام اللہ علیھا سیدة نساء اھل الجنۃ وابنا ھا سید اشباب اھل الجنۃ
سیدہ سلام اللہ علیھا جنتی عورتوں کی اورآپ کے شہزادے جنتی جوانوں کے سردار ہیں
۹۔عن حذیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :ان ھذا ملک لم ینزل الارض قط قبل اللیلۃ استاذن ربہ ان یسلم علی ویبشرنی بان فاطمۃ سیدة نساء اھل الجنۃ، وان الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنۃ
"حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ایک فرشہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اورمجھے یہ خوشخبری دے :فاطمہ اہل جنت کی تمام عورتوں کی سرداراورحسن وحسین کے تمام جوانوں کے سردار ہیں"
حوالاجات
۱۔ترمذی،الجامع الصحیح ،۶۶۰۵،رقم ۳۷۸۱
۲۔نسائی ،السنن الکبریٰ۵:۸۰،۹۵رقم ۸۲۹۸،۸۳۶۵
۳۔نسائی فضائل الصحابہ :۵۸،۷۶،رقم ۱۹۳،۲۶۰
۴۔احمد بن حنبل ،المسند ،۵:۳۹۱
۵۔احمد بن حنبل ،فضائل الصحابہ :۲:۷۸۸،رقم :۱۴۰۶
۶۔ابن ابی شیبہ المصنف ،۶:۳۸۸،رقم ۳۲۲۷۱
۷۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۴،رقم :۴۷۲۱،۴۷۲۲
۸۔طبرانی المعجم الکبیر،۲۲:۴۰۲رقم ۱۰۰۵
۹۔بہقہی الاعتقاد :۳۲۸
۱۰۔ابونعیم ،حلیۃالاولیاء وطبقات الاصفیاء ۴:۱۹۰
۱۱۔محب طبری ذخائرالعقبی ٰ فی مناقب ذوی القربی :۲۲۴
۱۲۔ذہبی ،سیراعلام النبلاء ۳:۱۲۳،۲۵۲
۱۳۔عسقلائی فتح الباری ،۲:۲۲۵
۱۴۔سیوطی تدریب الراوی ۲:۲۲۵
۱۵۔سیوطی ،الخصائص الکبری ۲:۵۶،۴۶۴
۱۶۔امام بخاری نے الصحیح (۳:۱۳۶۰کتاب المناقب )میں قرابت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناقب کا باب باندھے ہوئے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکے حوالے سے کہا :وقال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ سیدہ نساء اھل الجنۃحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:فاطمہ اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
۱۷۔امام بخاری نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکے مناقب کے حوالے سے یہی عنوان الصحیح (۳:۱۳۷۴) میں دوبارہ باندھا
۱۰۔عن علی ابن ابی طالب ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لفاطمہ سلام اللہ علیھا :الا ترضین ان تکونی سیدة نساء اھل الجنۃ ،وابناک سیدا شباب اھل الجنۃ(۱۰)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:کیا تمہیں اس بات پر خوشی نہیں کی اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہو اورتیرے دونوں بیٹے تمام جوانوں کے"۔
حوالاجات
۱۔ہیثمی ،مجمع الزوائد۹:۲۰۱
۲۔بزار المسند ۳:۱۰۲،رقم ۸۸۵
۱۱۔عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال :خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الارض اربعة خطوط۔قال :تدرون ماھذا؟فقالو ا:اللہ ورسولہ اعلم ۔فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فضل نساء اھل الجنۃ :خدیجہ بنت خویلد ،وفاطمہ بنت محمد ،آسیہ بنت مزاحم امراة فرعون ،ومریم ابنہ عمران رضی اللہ عنھن اجمعین (۱۱)
"حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچی،اورفرمایا :تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟صحابہ کرام نے عرض کیا:اللہ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اہل جنت کی تمام عورتوں میں سے افضل ترین چار ہیں خدیجہ بنت خویلد ،فاطمہ بنت محمد فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اورمریم بنت عمران رضی اللہ عنھن اجمعین "
حوالاجات
۱۔احمد بن حنبل المسند ۱:۲۹۳۔۳۱۶
۲۔نسائی ،السنن الکبری ٰ،۵:۹۳،۹۴رقم :۸۳۵۵،۸۳۶۴
۳۔نسائی فضائل الصحابہ :۷۴،۷۶،رقم :۲۵۰۔۲۵۹
۴۔ابن حبان ، الصحیح ،۱۵:۴۷۰،رقم :۷۰۱۰
۵۔حاکم المستدرک ،۲:۵۳۹،رقم :۳۸۳۶
۶۔حاکم المستدرک ۳:۷۴ٍ،۵،۲رقم ۴۷۵۴،۴۸۵۲
۷۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۰،۷۶۱،رقم :۱۳۳۹
۸۔ابو یعلیٰ المسند ۵:۱۱۰رقم ۲۷۲۲
۹۔شیبائی الآحادو المثالی ۵:۳۶۴،رقم ۲۹۶۲
۱۰۔عبد بن حمید،المسند۱:۲۰۵،رقم ۲۹۲۶
۱۱،طبرانی المعجم الکبیر،۳۳۶۱۱،رقم،۱۱۹۲۸
۱۲،طبرانی المعجم الکبیر ۲۲:۴۰۷،رقم ؛۱۰۱۹
۱۳۔طبرانی المعجم الکبیر،۲۳:۷،رقم :۱،۲
۱۴۔بیہقی الاعتقاد :۳۲۹
۱۵۔ابن عبدالبر،الاستعیاب فی معرفة الاصحاب ،۴:۱۸۲۱،۱۸۲۲
۱۶۔نووی ،تہذیب الاسماء واللغات ۲:۶۰۸
۱۷۔ذہبی نے سیراعلام النبلاء(۱۲۴۲)میں اسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھا سے مرفوع حدیث قرار دیا ہے۔
۱۸۔ہیثمی نے مجمع الزائد (۹:۲۲۳)میں کہا ہے کہ اسے احمد ابو یعلی اورطبرانی نے روایت کیا ہے اوران کی بیان کردہ روایت کے رجال صحیح ہیں ۔
۱۹۔عسقلانی فتح الباری ۶:۴۴۷
۲۰۔عسقلائی الاصبابہ فر تمییزالصحابہ ۸:۵۵
۲۱۔حسینی البیان والتعریف ۱:۱۲۳،رقم :۳۱۶
۲۲۔مناوی فیض القدیر ۲:۵۳
۲۳۔قرطبی الجامع الاحکام القرآن ۴:۸۳
۲۴۔ابن کثیر،تفسیرالقرآن العظیم ،۴:۳۹۴
۱۲۔عن صالح :قالت عائشہ لفاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الابشرک سمعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول :سیدات اھل الجنتہ اربع:مریم بنت عمران وفاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وخدیجہ بنت خویلد وآسیہ امرة فرعون ۔۱۲
"حضرت صالح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا :کیا میں تمہیں خوشخبری نہ سناوں !وہ یہ کہ میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:اہل جنت کی عورتوں کی سردار صرف چار خواتین ہیں مریم بنت عمران ،فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدیجہ بنت خویلد اورفرعون کی بیوی آسیہ"
حوالاجات
احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۰،رقم :۱۳۳۶
حرم اللہ فاطمۃسلام اللہ علیھا وذریتھا علی النار
اللہ نے فاطمہ اورآل فاطمہ پر جہنم کی آگ حرام کردی
۱۳۔عن ابن عباس رضی اللہ عنھا قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفاطمۃ رضی اللہ عنھا ان اللہ غیر معذبک ولا ولاک (۱۳)
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا:اللہ تعالی تمہیں اورتمہاری اولاد کو آگ کا عذاب نہیں دے گا"
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الکبیر،۱۱:۱۲۰،رقم :۱۱۶۸۵
۲۔ہیثمی نے مجمع الزوائد (۹:۲۰۲)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اوراس کے رجال ثقہ ہیں
۳۔سخاوی استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذوی الشرف:۱۱۷
۱۴۔عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :ان فاطمہ حصنت فرجھا فحرمھا اللہ وذریتھا وعلی النار
"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:بیشک فاطمہ نے اپنی عصمت وپاکدامنی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اوراس کی اولاد کو آگ سے محفوظ فرمادیاہے:
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الکبیر،۲۲،۴۰۷:۱۰۱۸
۲۔بزار المسند،۲۲۳۵،رقم ۴۷۲۶
۳۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۵،رقم :۴۷۲۶
۴۔ابونعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۴:۱۸۸
۵۔سخاوی استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وزوی الشرف:۱۱۵،۱۱۶
۱۵۔ عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما اسمیت بنتی فاطمہ لان اللہ عن وجل فطمھا وفطم معبیھا عن النار
"حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اوراس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے"
۱۵۔
حوالاجات
۱۔دیلمی الفردوس بما ثور الخطاب ،۱:۳۴۶،رقم :۱۳۸۵
۲۔ہندی نے کنزالعمال(۱۲:۱۰۹،رقم ۳۴۲۲۷)میں کہا ہے کہ اسے دیلمی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے۔
۳۔سخاوی نے استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وزوی الشرف (ص:۹۶)میں کہا ہے کہ اسے دیلمی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے۔
ام فاطمۃ سلام اللہ علیھا افضل النساء
سیدہ سلام اللہ علیھا کی والدہ افضل النساء ہیں
۱۶ عن عبداللہ بن جعفر قال :سمعت علی بن ابی طالب یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول :خیرنسائھا خدیجہ بنت خویلد وخیر نسائھا مریم بنت عمران
"حضرت عبداللہ بن جعفرروایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا (اپنے زمانہ کی عورتوں میں )سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں اوراپنے زمانہ کی عورتوں میں )سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں "
۱۶۔
حوالاجات
۱۔ترمذی الجامع الصحیح ۵:۷۰۲،رقم :۳۸۷۷
۲۔احمد بن حنبل المسند ۱:۱۱۶،۱۳۲
۳۔ابویعلی المسند ،۱:۴۵۵
۴۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۸۵۲،رقم ۱۵۸۰
۵۔ابن عبدالبر،الاستیعاب فی مرفة الاصحاب ،۴:۱۸۲۳
۶۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۲:۱۱۳
۷۔عسقلانی فتح الباری ۶:۴۴۷
۸۔عسقلانی فتح الباری ۷:۱۰۷
۹۔عسقلانی الا صابہ تمییز الصحابہ ۷:۶۰۲
۱۷۔عن عبداللہ بن جعفر سمعت علیا بالکوفة یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول :خیرنسائھا مریم بنت عمران وخیرنسائھاخدیجہ بنت خویلد ۔
قال ابوکریب :اشارکیع الی السماء والارض
"حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوفہ ،میں یہ فرماتے ہوئے سنامریم بنت عمران اورخدیجہ بنت خویلد زمین وآسمان میں سب عورتوں سے بہتر ہیں ۔
"راوی ابوکریب کہتے ہیں کہ وکیع نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے زمین وآسمان کی طرف اشارہ کیا"

حوالاجات
۱۔مسلم الصحیح ،۴:۱۸۸۶،رقم ۲۴۳۰
۲۔بخاری الصحیح ۳:۱۲۶۵،۱۳۸۸،رقم ۳۲۴۹،۳۶۰۴
۳۔نسائی السنن الکبری ٰ۵:۹۳،رقم ۸۳۵۴
۴۔احمد بن حنبل المسند ۱:۸۴،۱۴۳
۵۔عبدالرزاق، المصنف،۷:۴۹۲،رقم ۱۴۰۰۶
۶۔ابن ابی شیبہ المصنف،۶:۳۹۰،رقم ۳۲۲۸۹
۷۔بزارالمسند ،۱:۳۹۹،رقم ۴۶۸
۸۔ابویعلیٰ المسند۱:۳۹۹رقم ۵۲۲
۹۔نسائی فضائل الصحابہ ۷۴،رقم ۲۴۹
۱۰۔احمدبن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۸۴۷،۸۵۶،رقم :۱۵۶۳،۱۵۷۹،۱۵۸۳
۱۱۔شیبانی الآحادوالمثالی ۵:۳۸۰،رقم ۲۹۸۵
۱۲۔حاکم المستدرک ۲:۵۳۹،رقم ۳۸۳۷
۱۳۔حاکم المستدرک ،۳:۲۰۳،۶۵۷رقم ۴۸۴۷۶،۶۴۱۹
۱۴۔بیہقی السنن الکبری ،۶:۳۶۷
۱۵۔طبرانی المعجم الکبیر:۲۳،۱۸ رقم :۴
۱۶۔محاملی الامالی :۱۸۸رقم ۱۶۴
۱۷۔دولابی الذریۃ الطاہرہ :۳۷،رقم ۲۸
۱۸۔ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۴:۱۸۲۴
۱۹۔ابن جوزی صفۃ الصفوہ ۲:۳
قول الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فداک ابی وامی یا فاطمۃ؟
فرمان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان
۱۸۔عن ابی عمر رضی اللہ عنھما ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا سافر کان آخر الناس عھدا بہ فاطمۃ واذا قدم من سفر کان اول الناس بہ عھدا فاطمۃ رضی اللہ عنھما فقال لھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فداک ابی وامی۔
"حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے ہیں تواپنے اہل وعیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو کرکے سفر پر روانہ ہوتے ہوتے وہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا ہوتیں اورسفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضر ت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہی ہوتیں اور یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے فرماتے :فاطمہ!میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں "
حوالاجات
۱۔حاکم المستدرک ۳:۱۷۰،رقم۴۷۴۰
۲۔ابن حبان الصحیح ،۲:۴۷۰،۴۷۱،رقم ۶۹۶
۱۹۔عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لفاطمۃ:فداک ابی وامی۔
"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرماتے تھے :فاطمہ میرے ماں باپ تجھ پرقربان ہوں "
حوالات شو کانی نے درالسحابہ فی مناقب القرابة والصحابہ (ص:۲۷۹)میں کہا ہے کہ اسے حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے
فاطمۃ سلام اللہ علیھا بعضة من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیدہ سلام اللہ علیھا ۔۔۔لخت جگر مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
۲۰۔عن المسور بن مخرمة ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال :فاطمۃ بضعة منی فمن اعضبھا اغضبی
"حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا"
حوالاجات
۱۔بخاری الصحیح ۳:۱۳۶۱،رقم :۳۵۱۰
۲۔بخاری الصحیح ،۳:۱۳۷۴،رقم :۳۵۵۶
۳۔مسلم الصحیح ۴:۱۹۰۳رقم :۲۴۴۹
۴۔ابن ابی شیبہ نے المصنف (۲:۳۸۸رقم ۳۲۲۶۹) میں یہ حدیث حضرت علی سے روایت ہے۔
۵۔ابوعوانہ المسند ۳:۷۰رقم ۴۲۳۳
۶۔شیبانی الآحادوالمثانی ۵:۳۶۱،رقم ۲۹۵۴
۷۔ طبرانی المعجم الکبیر ۲۲:۴۰۴رقم:۱۰۱۳
۸۔حاکم المستدرک ۳:۱۷۲،رقم : ۴۷۴۷
۹۔بیقہی السنن الکبری ۱۰:۲۰۱
۱۰۔دیلمی الفردوس بما ثور الخطاب ۳:۱۴۵،رقم ؛۴۳۸۹
۱۱۔ابن جوزی صفۃ الصفوہ ۲:۷
۱۲۔محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی ۸۰
۱۳۔ابن بشکوال غوامض الاسماء المبہمہ ۱:۳۴۱
۱۴۔عسقللانی ، الاصابہ تمییز الصحابہ ۸:۵۶
۱۵۔حسینی ،البیان والتعریف ۱:۲۷۰
۱۶۔مناوی فیض القدیر،۴:۴۲۱
۱۷۔ عجلونی کشف الخفاء ومزیل الالباس ۲:۱۱۲،رقم :۱۸۳۱
مندرجہ بالا حوالہ جات کے علاوہ ائمہ ومحدثین نے درج ذیل مقامات پر بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافرمان مبارک نقل کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنھا کو بضعۃ منی فرما کر اپنی جان حصہ قرار دیا ہے:
۱۸۔بخاری الصحیح ۳:۱۳۶۴رقم ۳۵۲۳
۱۹۔بخاری الصحیح ۵:۲۰۰۳رقم۴۹۳۲
۲۰۔ترمذی الجامع الصحیح ۵:۶۹۸رقم :۳۸۶۷
۱۲۔ابوداود السنن ۲:۲۲۶رقم ۲۰۷۱
۲۲۔ابن ماجہ السنن ۱:۶۴۳،۶۴۴رقم ۱۹۹۸،۱۹۹۹
۲۳۔نسائی السنن الکبری ۵:۱۴۸، رقم ۵۸۲۰۔۵۸۲۲
۲۴۔نسائی فضائل الصحابہ ۷۸،رقم :۲۶۵
۲۵۔احمد بن حنبل المسند ۴:۵، ۳۲۳،۳۲۶،۳۲۸
۲۶۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۵۵،۷۵۶،۷۵۸،۷۵۹۰،رقم ۱۳۲۴،۱۳۲۷،۱۳۳۴،۱۳۳۵
۲۷۔ابن حبان الصحیح ۱۵:۴۰۵،۴۰۶،۴۰۷،۵۳۵، رقم :۶۹۵۵،۷۰۶۰
۲۸۔عبدالرزاق المصنف ۷:۳۰۲۳۰۱،رقم ۴۲۳۱،۴۲۳۴
۲۹۔ابوعوانہ المسند ۳:۷۱، رقم ۴۲۳۱، ۴۲۳۴
۳۰۔بزارالمسند ،۲:۱۶۰رقم :۵۲۶
۳۱۔بزار المسند ۲:۱۶۰رقم :۲۱۹۳
۳۲۔ابویعلی المسند ۱۳:۱۳۴رقم ۷۱۸۱
۳۳۔شیبانی الآحاد والمثالی ۵:۳۶۱،۳۶۲، رقم :۲۹۵۴،۲۹۵۷
۳۴۔طبرانی المعجم الکبیر،۲۰:۱۸،۱۹رقم :۱۸،۲۱
۳۵۔طبرانی المعجم الکبیر ۲۲:۴۰۵رقم ۱۰۱۰
۳۶۔حکیم ترمذی نوادرالاصول فی احادیث الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۳:۱۸۲،۱۸۴
۳۷۔حکیم المستدرک ۳:۱۷۳، رقم ۴۷۵۱
۳۸۔بیہقی السنن الکبری ۷:۳۰۷،۳۰۸
۳۹۔بیہقی السنن الکبری،۱۰:۲۸۸
۴۰۔مقدسی الاحادیث المختار ۹:۳۰۵رقم :۲۷۴
۴۱۔دیلمی الفردوس بما ثور الخطاب ۱:۲۳۲رقم :۸۸۷
۴۲۔دیلمی الفردوس بما ثور الخطاب ۳:۱۴۵، رقم :۴۳۸۹
۴۳۔ہیثمی مجمع الزوائد ۴:۲۵۵
۴۴۔ہیثمی مجمع الزوائد ۹:۲۰۳
۴۵۔ہیثمی زوائد الحارث ۲۹۱۰، رقم :۹۹۱
۴۶۔دولابی الذریۃ الطاہرہ :۴۷۔۴۸رقم :۵۵، ۵۲
۴۷۔ابن سعد الطبقات الکبری ۸:۲۴۲
۴۸۔ابونعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۲:۴۰، ۴۱، ۱۷۵
۴۹۔ابو نعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۳:۲۰۶
۵۰۔ابو نعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۷:۳۲۵
۵۱۔ابن کثیر تفسیر القرآ ن العظیم ۳:۲۵۷
۵۲۔ابن قانع معجم الصحابہ ۳:۱۱۰، رقم ۱۰۷۶
۵۳۔ نووی شرح صحیح مسلم ۱۶:۲
۵۴۔قیسر انی تذکرة الحفاظ۲:۷۳۵
۵۵۔۔قیسر انی تذکرة الحفاظ۴:۱۲۶۵
۵۶۔مناوی فیض القدیر۳:۱۵
۵۷۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۲:۱۱۹،۱۳۳
۵۸۔ذہبی سیراعلام النبلاء۳:۳۹۳
۵۹۔ ذہبی سیراعلام النبلاء ۵:۹۰
۶۰۔ذہبی سیراعلام النبلاء۱۹:۴۸۸
۲۱۔ذہبی معجم المحدثین :۹
۶۲۔مزی تہذیب الکمال ۲:۵۹۹
۶۳۔مزی تہذیب الکمال۳۵:۲۵۰
۶۴۔ دارقطنی سوالات حمزہ :۸۰، رقم ۴۰۹
۶۵۔ابن جوزی تذکرة الخواص:۲۷۹
۶۶۔سخاوی استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذوی الشرف :۹۷
۲۱۔عن محمد بن علی قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :انما فاطمۃ بضعة منی فمن اغضبھا اغضبنی۔
"محمد بن علی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
حوالاجات:
۱۔ابن ابی شیبہ المصنف ۶:۳۸۸رقم ۳۲۲۶۹
۲۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۵۵، ۷۵۶رقم ۱۳۲۶
۳۔ محب طبری ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی :۸۰،۸۱
۲۲۔عن علی رضی اللہ تعالی عنہ انہ کان عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال :ای شی خیر المراة ؟فکستوا، فلما رجعت قلت لفاطمۃ :ای شئی خیر لنساء ؟قالت :الایراھن الرجال۔فذکرت ذلک لنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال : انما فاطمۃ بضعۃ منی
"سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ بارگاہ نبوی میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا :عورت کے لیے کونسی چیز بہتر ہے ؟اس پر صحابہ کرام خاموش رہے جب میں گھر لوٹا تو میں نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے پوچھا :بتاو عورت کے لیے کونسی شئے بہتر ہے ؟سیدہ فاطمہ نے جواب دیا :عورت کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ اسے غیر مرد نہ دیکھے میں اس چیز کا تذکرہ حضور نبی اکرم سے کیا توآپ نے فرمایا :بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے"
حوالاجات
۱۔بزار المسند ۲:۱۶۰رقم :۵۲۶
۲۔ہیثمی مجمع الزوئد ۴:۲۵۵
۳۔ ۔ہیثمی مجمع الزوئد،۹:۲۰۲
۴۔ ابونعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیا ء ۲:۴۰، ۴۱، ۱۷۵
۵۔ دارقطنیی سوالات حمزہ:۲۸۰، رقم :۴۰۹
کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقوم لفاطمۃ سلام اللہ علیھا ویرحب بھا ویقبل یدھا ویجلسھا فی مکانہ عندقدومھا الیہ حبا لھا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آمد فاطمہ پر محبتا ً کھڑے ہوجاتے ہاتھ چومتے اوراپنی نشست پر بیٹھا لیتے
۲۳۔ عن عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنھا قالت :کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذارآھا قد اقبلت رجب بھا ثم قام الیھا فقبلھا ، ثم اخذ بیدھا فجاء بھا حتی یجلسھا فی مکانہ وکانت اذارات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمرحبت بہ ثم قامت الیہ فقبلتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں :حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آتے ہو تے دیکھتے تو خوش آمدید کہتے پھر ان کی خاطر کھڑے ہو جاتے انہیں بوسہ دیتے ان کا ہاتھ پکڑ کر لاتے اورانہیں اپنی نشست پر بیٹھا لیتے ۔اورجب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف تشریف لاتے ہوئے دیکھتیں توخوش آمدید کہتیں پھر کھڑی ہو جاتیں اورآپ کو بوسہ دیتیں ۔"
حوالاجات
۱۔ نسائی السنن الکبریٰ ۵:۳۹۱، ۳۹۲رقم ۹۲۳۶،۹۲۳۷
۲۔ابن حبان الصحیح ۱۵:۴۰۳رقم :۶۹۵۳
۳۔شیبانی الآحادوالمثانی ، ۵:۳۶۷،رقم :۲۹۶۷
۴۔ طبرانی المعجم الاوسط ۴:۲۴۲، رقم :۲۰۸۹
۵۔ حاک المستدرک ۴:۳۰۳رقم ۷۷۱۵
۶۔ بخاری الادب المفرد:۳۲۶، رقم ۹۴۷
دولابی الذریۃ الطاہرہ:۱۰۰رقم ۱۸۴
۲۴۔ عن ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنھا انھا قالت :کانت فاطمۃ اذا دخلت علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحب بھا قام الیھا فاخز بیدھا فقبلھا اجلسھا فی مجلسہ ۔(۲۴)
"ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ سلام اللہ علیھا کو خوش آمدید کہتے کھڑت ہوکر ان کا استقبال کرتے ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اورانہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے "
حوالاجات
۱۔ حاکم المستدرک ۳:۱۶۷، رقم :۴۷۳۲
۲۔نسائی فضائل الصحابہ :۷۸، رقم :۲۶۴
۳۔ ابن راہویہ المسند ۱:۸رقم :۶
۴۔بیہقی السنن الکبری ۷:۱۰۱
۵۔ بیہقی شعب الایمان ۶:۴۶۷، رقم :۸۰۶۷
۶۔ مقری تقبیل الید :۹۱
۷۔ عسقلانی نے فتح الباری (۱۱:۵۰) میں کہا ہے کہ یہ حدیث ابو داود اورترمذی نے بیان کی ہے اوراسے حسن کہا ہے،جبکہ ابن حبان اورحاکم نے اسے صحیح کہا ہے
۲۵۔عن عائشۃ ام المومنین رضی اللہ عنھا قالت:کانت فاطمۃ اذادخلت علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قام الیھا فقبلھا ورحب بھا واخذ بیدھا فاجلسھا فی مجلسہ وکانت ھی اذا دخل علیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قامت الیہ مستقبلۃ وقبلت یدہ(۲۵)
"ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا جب حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں توحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوکر ان کا استقبال فرماتے ،ا نہیں بوسہ دتیے خوش آمدید کہتے اوران کا ہاتھ پکڑ کر اپنی نشست پر بٹھا لیتے ۔اورجب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے کھڑی ہوجاتیں اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ دیتیں "۔
حوالاجات
۱۔ حاکم مستدرک ۳:۱۷۴، رقم :۴۷۵۳
۲۔ محب طبری ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی ٰ :۸۵
۳۔ہیثمی موارد الظمآن :۵۹۴رقم ۲۲۲۳
۴۔ عسقلانی فتح الباری ۱۱:۵۰
۵۔ شوکانی درالسجانہ فرمناقب القرابۃ والصحابہ :۲۷۹
حاکم نے اس روایت کو شرط شیخین پر صحیح قرارد یاہے

سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا
سفر مصطفی کی ابتداء اورانتہا بیت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے ہوتی
حوالاجات
۱۔ابوداود ، السنن ، ۴:۸۷، رقم ۴۲۱۳
۲۔احمد بن حنبل المسند ، ۵:۲۷۵
۳۔بیہقی ، السنن الکبریٰ ۱:۲۶
۴بغدادی ، ترکہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :۵۷
۲۸۔عن ابن عمر رضی اللہ عنھما :ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا سافر کان آخر الناس عھد ا بہ فاطمۃ واذا قدم من سفر کام اول الناس بہ بہ عھدا فاطمہ رضی اللہ عنھا فقال لھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :فداک ابی وامتی۔(۲۸)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تواپنے اہل وعیال میں سے سب بعد گفتگو فرماکر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ ہوتیں اورسفر سے واپس پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لے لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہی ہوتیں اوریہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سے فرماتے کہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں ۔
حوالاجات
۱۔حاکم المستدرک ،۳:۱۶۹، ۱۷۰،رقم :۴۷۳۹،۴۷۴۰
۲۔حاکم المستدرک ، ۱:۶۶۴، رقم :۱۷۰۸
۳۔حاکم نے المستدرک (۳:۱۶۹، رقم :۱۷۹۷)میں اسے حضرت ابو ثعلبہ خشنی سے بھی ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کرتے ہیں
۴۔ابن حبان الصحیح ،۴۷۰۲، ۴۷۱، رقم :۶۹۶
۵۔ہیثمی موارد الظمآن :۶۳۱رقم :۲۵۴۰
۶۔بن عساکر نے بھی تاریخ دمشق الکبیر (۴۳:۱۴۱) میں حضرت ابو ثعلبی سے مروی حدیث بیان کی ہے۔
۲۹۔عن ابن عباس قال :کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قدم من سفر قبل ابنتہ فاطمہ (۲۹)
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے تواپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو بوسہ دیتے "۔
حوالاجات
۱۔ طبرانی المعجم الاوسط،۴:۲۴۸رقم :۴۱۰۵
۲۔ ابو یعلی المسند ، ۴:۳۵۲، رقم :۲۴۶۶
۳۔ہثیمی نے مجمع الزوائد (۸:۴۲) میں کہا ہے کہ طبرابی نے اسے الاوسط میں روایت کیا ہے اوراس کے رجال ثقہ ہیں
۴۔ ابن اثیر اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ، ۷:۲۱۹
۵۔سیوطی الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۱۸۹،رقم ۳۰۳
۶۔مناوی فیض القدیر ۵:۱۵۵
فاطمہ سلام اللہ علیھا احب الناس الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیدہ سلام اللہ علیھا۔۔۔روئے زمین پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا مرکزخاص
"عن جمیع بن عمیر التیمی قال :دخلت مع عمتی علی عائشۃ فسلت ای الناس کان احب الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قالت :فاطمہ فقیل :من الرجا ل ؟قالت :زوجھا ، ان کان ماعلمت صواما قواما(۳۰)"""فکفج
"حضرت جمیع بن عمیر تیمی رضی اللہ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ میں ا پنی پھوپھی کے ہمراہ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اورپوچھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون زیادہ محبوب تھا؟ام المومنین رضی اللہ عنھا نے فرمایا فاطمہ سلام اللہ علیھا :عرض کیا مردوں میں سے کون زیادہ محبوب ہے فرمایا ان کے شوہر جہاں تک میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والے اورراتوں کو عبادت کے لیے بہت قیام کرنے والے تھے "
حوالاجات
۱۔ ترمذی الجامع الصحیح ، ۵:۷۰۱، رقم :۳۸۷۴
۲، طبرانی المعجم الکبیر ۲۲:۴۰۳، ۴۰۴، رقم ۱۰۰۸،۱۰۰۹
۳۔حاکم المستدرک ۳:۱۷۱رقم :۴۷۴۴
۴۔ ابن اثیر، اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ ، ۷:۲۱۹
۵۔ذہبی سیر اعلام النبلاء ۲:۱۲۵
۶۔مزی تہذیب الکمال ، ۴:۵۱۲
۷۔شوکانی درالسحابہ فی مناقب القرابة والصحابہ :۲۷۳
۸۔محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربہ :۷۷
۳۱۔عن ابن بریدة عن ابیہ ،قال :کان احب النساء الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃ ومن الرجال علی (۳۱)
"حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبت حضر ت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا سے تھی اورمردوں میں سے حضرت علی مرتضٰی سب سے زیادہ محبو ب تھے"
حوالاجات
۱۔ترمذی الجامع الصحیح ۵:۶۹۸رقم :۳۸۶۸
۲۔نسائی نے السنن الکبری (۵:۱۴۰رقم :۸۴۹۸) میں ذرامختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔
۳۔طبرانی المعجم الاوسط، ۷:۱۹۹، رقم :۴۷۳۵
۴۔ذہبی سیر اعلام النبلاء ۲:۱۳۱
شوکانی درالسحابہ فی مناقب القرابہ والصحابہ :۲۷۴
۳۲۔عن ابی سلمة بن عبدالرحمن ، قال :اخبرنی اسامة بن زید ،قال کنت جالسا اذجاء علی والعباس رضی اللہ عنھما یستاذنان فقالا :یا اسامة استازن لا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقلت :یا رسول اللہ !علی والعباس یستاذنان فقال :اتدری ماجاء بھا ؟قلت لا فقال النبی صلی اللہ علیہ وآولہ وسلم لکنی ادری ائذن لھما فدخلا ، فقالا :یا رسول اللہ !جئناک نسالک ای اھلک احب الیک ؟قال :فاطمۃ بنت محمد(۳۲)
"حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضرت اسامہ بن زید نے مجھے بتایا :میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت علی اورحضرت عباس رضی اللہ عنھما تشریف لائے انہوں نے کہا:اسامہ !ہمارے لئے حضور نبی اکرم سے اندر آنے کی اجازت مانگو ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !حضرت علی اورحضرت عباس رضی اللہ عنھما حاضری کی اجازت مانگتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جانتے ہو وہ کیوں آئے ہیں ؟میں نے عرض کیانہیں ۔فرمایا:میں جانتا ہوں ،انہیں آنے دو چنانچہ دونوں حضرات اندر داخل ہوئے اورانہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ہم یہ بات جاننے کے لیے حاضر ہوئے ہیں کہ اہل بیت میں سے آپ کو ن زیادہ محبوب ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم ! نے فرمایا :فاطمہ بنت محمد"
حوالاجات
۱۔ترمذی ، الجامع الصحیح ، ۵:۶۷۸، رقم ۳۸۱۹
۲۔بزار،المسند۷:۷۱رقم:۲۶۲۰
۳۔طیالسی المسند :۸۸،رقم ۶۳۳
۴۔طبرانی المعجم الکبیر ۲۲:۴۰۳،رقم :۱۰۰۷
۵۔حاکم المستدرک ۲:۴۵۲،رقم ۳۵۲۶
۶۔مقدسی الاحادیث المختار ہ۴:۱۶۲۱۶۰، رقم :۱۳۷۹۔۱۳۸۰
۷۔ابن کثیرتفسیر القرآن العظیم ۳:۴۸۹،۴۹۰
۸۔محب طبری ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی :۷۸یہ حدیث حسن ہے
۳۳۔عن ابی اھریرہ رضی اللہ عنہ قال :علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !ایما احب علیک :انا ام فاطمۃ ؟قال :فاطمہ احب الی منک وانت اعز علی منھا (۳۳)
"حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حجرت علی نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں )عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !آپ کو میرے اورفاطمہ میں سے کون زیادہ عزیز ہے فاطمہ مجھے تم سے زیادہ پیاری ہے اورتم میرے نزدیک اس سے زیادہ عزیز ہو
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الاوسط ۷:۳۴۳رقم :۷۲۷۵
۲۔ہثیمی نے مجمع الزوئد (۹:۱۷۳)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اوراس کی سند میں سلمی بن عقبہ کو میں نہیں جانتا جبکہ بقیہ رجال ثقہ ہیں ۔
۳۔ہثیمی نے مجمع الزوائد (۹:۲۰۲)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے۔
۴۔حسینی نے البیان والتعریف (۲:۱۱۸رقم ۱۲۳۸ٌمیں کہا ہے کہ اسے طبرانی بے الاوسط میں روایت کیا ہے اورہثیمی نے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح ہیں
۵۔مناوی نے فیض القدیر(۴:۴۲۲)میں کہا ہے کہ ہثیمی نے اس کے رجال کو صحیح قراردیاہے۔
۳۴۔عن ابن ابی نجیع عن ابیہ،قال :اخبرنی من سمع علیا علی منبر الکوفة یقول :دخل علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجلس عبد رووسنا فدعا بانا ء فیہ فاتی بہ فدعا فیہ بالبر کة ثم رشہ علینا فقلت : یا رسول اللہ انا احب الیک ام ھی ؟قال ھی احب الی منک وانت اعزعلی منھا
"ابن ابی نجیح نے اپنے والد سے روایت کی کہ مجھے اس شخص نے بتایا جس نے منبر کوفہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہو ئے سنا :رسول اللہ صلی اللہ علی وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اورہمارے سرہانے بیٹھ کر پانی منگوایا ۔آپ نے اس میں برکت کی دعا کی اورہم پر چھینٹے مارے میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو مجھ سے زیادہ محبت ہے یا فاطمہ سے ؟فاطمہ مجھے تم سے زیادہ پیاری ہے اورتم مجھے اس سے زیادہ عزیر ہو"
حوالاجات
۱۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۶:۶۴۱، ۶۳۶رقم :۱۰۷۶
۲۔نسائی نے السنن الکبری (۵:۱۵۰، رقم :۸۵۳۱) میں یہ حدیث مبارکہ کہ مختصر اً بیان کی ہے۔
۳۔حمیدی المسند ،۱:۲۲، رقم :۳۸
۴۔شیبائی نے الآحاد ولمثانی (۵:۳۶۰رق، :۲۹۵۱)میں اسے مختصر اً روایت کیا ہے
۵۔ابن جوزی تذکرة الخواص :۲۷۵،۲۷۶
۶۔ ابن اثیر نے اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ (۷:۲۱۹) میں مختصر ذکر کیا ہیس
ماکان احد اشبہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من فاطمۃ سلام اللہ علیھا فی عاداتھا
عادات واطوار میں کوئی بھی سیدہ سلام اللہ علیھا سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ نہ تھا
۳۵۔عن عائشۃ ام المومنین رضی اللہ عنھا قالت :مارایت احدا اشبہ سمتا ولاوھدیا برسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی قیامھا وقعودھا من فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (۳۵)
"ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں :میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے بڑھ کر کسی کو عادات واطوار سیرت وکردار اورنشت وبرخاست میں آپ سے مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔"
حوالاجات
۱۔ترمذی الجامع الصحیح ۵:۷۰۰، رقم ۳۸۷۲
۲۔ابوداود السنن ۴:۳۵۵،رقم ۵۲۱۷
۳۔نسائی فضائل الصحابہ ۷۷،۷۸رقم :۲۶۴
۴۔حاکم المستدرک ۴:۳۰۳رقم :۷۷۱۵
۵۔ بیہقی السنن الکبری ۵:۹۶
۶۔ابن سعد نے الطبقات ا لکبری (۲:۲۴۸)میں ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ حضرت ام سلمی سے روایت کی ہے
۷۔جوزی صفۃ الصفوہ ۲:۶،۷
۸۔محب طبری ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربی ٰ:۸۴،۸۵
۳۶۔عن عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہ قالت :مارایت احدامن الناس کان اشبہ بالنبی کلاما ولا حدیثا ولا جلسلة من فاطمۃ(۳۶)
"ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے انداز گفتگو میں سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنھا سے بڑھ کر کسی اورکو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا"
حوالاجات
۱۔بخاری الادب المفرد ۳۲۶،۳۳۷، رقم :۹۴۷،۹۹۷۱
۲۔نسائی السنن الکبری ۵:۳۹۱رقم :۹۲۳۶
۳۔ابن حبان الصحیح ۱۵:۴۰۳، رقم ۲۹۹۵۳
۴۔حاکم المستدرک ۳:۱۷۴۱۶۷، رقم ۴۷۳۳۲، ۴۷۵۳
۵۔طبرانی المعجم الاوسط ۴:۲۴۲، رقم :۴۰۸۰۹
۶۔ بہیقی السنن الکبیری ،۷:۱۰۱
۷۔ ابن راہوایہ المسند ۱:۸رقم :۶
۸۔ابن عبد البر الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ۴:۱۸۹۶
۹۔ذہبی سیر اعلام النبلاء ۲:۱۲۷
۳۷۔عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال :لم یکن احداشبہ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من الحسن بن علی ،وفاطمہ صلوات اللہ علیھم اجمعین
"حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ کوئی بھی شخص حضرت حسن بن علی اورحسن بن علی اورحضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حضور سے مشابہت رکھنے والاکوئی نہیں تھا"
حوالاجات
۱۔ احمد بن حنبل المسند ۳:۱۶۴
۳۸۔عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت اجتمع نساء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلم یغادرمنھن امراة فجاء ت فاطمہ تمشیکان مشیتھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال :مرحبا یا بنتی فاجلسھا عن یمینہ او عن شمالہ (۳۸)
"ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج جمع تھیں اورکوئی بھی غیر حاضر نہیں تھی۔اتنے میں حضرت فاطمہ رضی تعالی ٰ عنھا آئیں جن کی چال ہو بہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مرحبا (خوش آمدید)میری بیٹی !پھر انہیں اپنی دائیں بائیں جانب بٹھا لیا"
حوالاجات
۱۔ مسلم الصحیح ۴:۱۹۰۵،۱۹۰۶، رقم :۲۴۵۰
۲۔بخاری الصحیح ۵:۲۳۱۷، رقم ۵۹۲۸
۳۔ ابن ماجہ السنن ۱:۵۱۸رقم :۱۶۲۰
۴۔ نسائی السنن الکبری ۴:۲۵۱رقم :۷۰۷۸
۵۔ نسائی السنن الکبری۵:۹۶،۱۴۶، رقم ۸۳۶۸،۸۵۱۶،۸۵۱۷
۶۔ نسائی فضائل الصحابہ ۷۷، رقم :۲۶۳
۷۔نسائی ،کتاب الوفاة :۲۰رقم ۲
۸۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۲،۷۶۳، رقم :۱۳۴۳
۹۔شیبانی الآحادوالمثالی ۵:۳۶۸، رقم ۲۹۶۸
۱۰۔ ابن راہویہ ،المسند ،۱:۶،۷ رقم :۵
۱۱۔طبرانی نے المعجم الکبیر (۲۲:۴۱۶، رقم :۱۰۳۰)میں حضرت ابو طفیل سے روادیت کی ہے
۱۲۔طبرانی المعجم الکبیر ۲۲:۴۱۹رقم ۱۳۰۳
۱۳۔ابن جوزی صفۃ الصفوہ ۲:۶۔۷
۱۴۔ابن جوزی تذکرةالخواص :۲۷۸
۱۵۔ابن اثیر اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ۷:۲۱۸
۱۶۔ذہبی سیر اعلام النبلاء ۲:۱۳۰
۳۹۔عن مسروق :حدثتنی عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنھا قالت :انا کنا ازواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عندہ جمیعا لم تخادر منا واحدة فاقبلت فاطمۃ علیھا سلا، تمشی ولا واللہ ما تخفی مشیتھا من مشیة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
"حضرت مسروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا :ہم حضورنبی اکرم کی ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع تھیں اورکوئی ایک بھی ہم سے غیر حاضر نہ تھی اتنے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا وہاں آگئیں پس اللہ کی قسم ان کا چلنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے
سے ذرہ بھر مختلف نہ تھا"
حوالات
۱۔بخاری الصحیح ،۵:۲۳۱۷، رقم ۵۹۲۷
۲۔نسائی فضائل الصحابہ :۷۷، رقم ۲۶۳
۴۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۲،رقم :۱۳۴۲
۵، طیالسی المسند :۱۹۶، رقم :۱۳۷۳
۶۔ ابن سعد الطبقات الکبری ۲:۲۴۷
۷۔ دولابی الذریۃ الطاہرہ :۱۰۱، ۱۰۲رقم ۱۸۸
۸۔ابونعیم حلیۃالاولیاء وطبقات الاصفیاء ۲:۳۹،۴۰
۹۔ذہبی سیر اعلام النبلاء ۲:۱۳۰
رضاء فاطمہ سلام اللہ علیھا رضاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیدہ سلام اللہ علیھا کی رضا۔۔۔مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا
۴۰۔عن المسور بن مخرمة رضی اللہ تعالی عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما فاطمہ شجنة منی یبسطنی ما یبسطھاو یقبضھا
"حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بے شک فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے خوشی ہوتی ہے اورجس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس چیز سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے"۔
۴۰۔حوالاجات
حاکم المستدرک ۳:۱۶۸، رقم :۴۷۳۴
۲۔احمد بن حنبل المسند ،۴:۳۳۲
۳۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۵رقم :۱۳۴۷
۴۔شیبانی الآحادوالمثانی ۵:۳۶۲، رقم ۳۰
۵۔طبرانی المعجم الکبیر ۲۰:۲۵رقم :۳۰
۶۔ہیثمی مجمع الزاوئد ۹:۲۰۳
۷۔ابونعیم حلیتہ الاولیاء وطبقات الصفیاء ۳:۲۰۶
۸۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۲:۱۳۲
۹۔ عسقلانی فتح الباری ۹:۳۲۹
۱۰۔ابن کثیر تفسیر القرآن العظیم ۳:۲۵۷
۱۴۔عن سعید بن ابان القرشی قال :دخل عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب علیٰ عمر بن عبدالعزیز وھو حدث السن ولہ وفرة فرفع مجلسہ واقبل علیہ وقضی حوائجہ ،ثم اخذ عکنة فخمزھا حتی اوجعہ،وقال :اذکرھا عندک للشفاعۃ فلما خرج لامہ قومہ وقالو ا:فعلت ھذا بخلام حدث !فقال :ان الثقة حدثنی حتی کانی اسمعہ من فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
انما فاطمۃ بضعۃ منی یسرنی مایسرھا۔
وانا اعلم ان فاطمۃرضی اللہ عنھا لو کانت حیۃ لسرھا مافعلت بابنھا ،قالو ا!فما معنی غمزک بطنہ وقولک ماقلت ؟قال :انہ لیس احد من بنی ھاشم الا ولہ شفاعۃ فرجوت ان اکون فی شفاعۃھذا(۱۴)
"سعید بن ابان قریشی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو کہ ابھی نو عمر تھے اپنے ایک کام کے سلسلے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز سے ملنے آئے پس ان کے آنے پر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اپنی مجلس برخاست کردی اوران کااستقبال کیا اوران کی ضرورت پوری کی۔پھر ان کے پیٹ کے بل کو اس قدر دبایاکہ انہیں درد محسوس ہوئی اورفرمایا یہ بات قیامت کے دن شفاعت کے وقت یاد رکھنا جب وہ سید چلے گئے تولوگوں نے انہیں ملامت کی اورکہا :آپ نے ایک نوعمر لڑکے کی اتنی آو بھگت کی ؟اس پر آپ نے فرمایا :میں نے ایک ثقہ روای سے حدیث مبارکہ اس طرح سنی ہے کہ گویا میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن رہا ہوں( کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں ؟)
بے شک !فاطمہ میرے جسم کاٹکڑا ہے جو اسے خوش کرتا ہے وہ مجھے خوش کرتا ہے"
پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا)میں جانتا ہوں کہ اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حیات ہوتیں تووہ اس عمل سے ضرورخوش ہوتیں تووہ اس عمل سے ضرور خوش ہوتیں جو میں نے ان کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے لوگوں نے پوچھا :آپ کا ان کے پیٹ میں کچوکے لگانے کا کیا مطلب ہے اورجو کچھ آپ نے فرمایا اس سے کیا مراد ہے ؟حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا :بنی ہاشم میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جسے شفاعت کرنے کا اختیار نہ دیا گیاہوپس میں نے چاہا کہ میں اس لڑکے کی شفاعت کا حق دار بنوں "
(۴۱)سخاوی ،استجلاب ارتقاء الغرف اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذوی الشرف :۹۲،۹۷
سخاوی نے اسی کتاب کے صفحہ ۱۵۰پر اسی طرح کاایک واقعہ ہے خودعبداللہ بن حسن سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں میں ایک کام کے سلسلے میں عمر بن عبدالعزیز کے پاس گیاتوانہوں نے مجھے کہا: جب آپ کوکوئی حاجت پیش آئے توکوئی آدمی بھیج دیا کریں یا خط لکھ بھیجیں ،مجھے اللہ تعالی سے حیاء آتی ہے کہ یوں آپ کو اپنے دروازے پر دیکھوں
من اغضب فاطمہ بن مخرمة:ان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال :فاطمۃ بعضۃ منی فمن اغضبھا اغضبنی
"حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ میرے جسم کاٹکڑاہے پس جس نے اسے ناراض کیااس نے مجھے ناراض کیا"
(۴۲)
حوالاجات
۱۔ بخاری الصحیح ۳:۱۳۶۱، رقم :۳۵۱۰
۲۔بخاری الصحیح، ۳:۱۳۷۴، رقم :۳۵۵۶
۳۔مسلم الصحیح ،۱۹۰۳۴، رقم :۲۴۴۹
۴۔ابن ابی شیبہ نے المصنف (۶:۳۸۸رقم ۳۲۲۶۹)میں یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
۵۔ابوعوانہ المسند ۳:۷۰رقم ۴۴۳۳
۶۔شیبانی ، الآحادوالمثانی ۵:۳۶۱، رقم :۲۹۵۴
۷۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۴، رقم :۱۰۱۲
۸۔حاکم المستدرک ،۳:۱۷۲،رقم :۴۷۴۷
۹۔ دیلمی الفردوس بنا ثور الخطاب ۳:۱۴۵، رقم ؛۴۳۸۹
۱۰۔ابن جوزی صفۃ الصفوہ ۲:۷
۱۱۔ابن بشکوال غوامض الاسماء المبمہ ۱:۳۴۱
۱۲۔عسقلانی الاصانہ فی تمییز الصحابہ ،۸:۵۶
۱۳۔حسینی ، البیان والتعریف ۱:۲۷۰
۱۴۔مناوی ، فیض القدیر ۴:۴۲۱
۱۵۔عجلونی کشف الخفاء ومزیل الالباس ۲:۱۱۲، رقم :۱۸۳۱
ان اللہ یغضب لغضب فاطمۃ ویرضی لرضا ھا
سیدہ سلام اللہ علیھا کی رضا اللہ کی رضا ۔۔۔اگر سیدہ سلام اللہ علیھا خفاتواللہ خفا
۲۳۔عن علی رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفاطمۃ :ان اللہ یغضب لغضب ویر ضٰی لرضاک (۴۳)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سے فرمایا:بیشک اللہ تعالی تیری ناراضگی پر ناراض اورتیری رضا پر راضی ہوتا ہے"
حوالاجات
۱۔حاکم ،المستدرک ۳:۱۶۷،رقم ۴۷۳۰
۲۔ابو یعلی المعجم ۱۹۰رقم :۲۲۰
۳۔شیبائی الآحادوالآمثالی ۵:۳۶۳، رقم ۲۹۵۹
۴۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۱رقم ۱۸۲
۵۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۱، رقم ۱۰۰۱
۶۔دولابی الذریۃ الطاہرہ :۱۲۰،رقم ۲۳۵
۷۔قزوینی التدوین فی اخبارقزوین ،۳:۱۱
۸۔ہثیمی نے مجمع الزوائد(۹:۲۰۳)میں کہاہے کہ اسے طبرانی نے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے
۹۔ابن جوزی ،تذکرہ الخواص :۲۷۹
۱۰۔ابن اثیراسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ۷:۲۱۹
۱۱۔عسقلانی تہذیب التہذیب۔۱۲:۴۶۸
۱۲۔عسقلانی،الاصابہ فی تمییز الصحابہ ،۸:۵۶،۵۷
۱۳۔مفحب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی ۸۲
من آذی فا طمةسلام اللہ علیھا فقد آذی النبی صلی اللہ وآلہ وسلم
سیدہ سلام اللہ علیھا کی تکلیف ۔۔۔۔مصطفی کی تکلیف
۴۴۔عن المسور بن مخرمةقال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما فاطمۃبضعة منی ،یوذینی ماآذاھا۔
"حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:فاطمہ تومیرے جسم کا ٹکڑا ہے اسے تکلیف دینے والی چیزمجھے تکلیف دیتی ہے"
حوالاجات
۱۔مسلم الصحیح ۴:۱۹۰۳،رقم ۲۴۴۹
۲۔نسائی السنن الکبیری ۵:۹۷،رقم ۸۳۷۰
۳۔بہیقی السنن الکبری ۱۰:۲۰۱
۴۔شیبانی الآحادو المثانی ۵:۳۶۱رقم :۲۹۵۵
۵۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۴رقم ۱۰۱۰
۶۔ابونعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۲:۴۰
۷۔اندلسی تحفۃ المحتاج ۲:۵۸۵، رقم :رقم ۱۷۹۵
۸۔عسقلانی الاصابہ فی تمییزالصحابہ ۸:۵۲
۹۔ابن جوزی تذکرہ الخواص :۲۷۹
۴۵۔عن عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :انمافاطمۃ بضعة منی یوذینی ماآذاھا وینصبنی ماانصبھا(۴۵)
"حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اوراسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے"
حوالاجات
۱۔ترمذی نے یہ حسن صحیح الجامع الصحیح (۶۹۸۵، رقم ۳۸۶۹)میں روایت کی ہے
۲۔احمد بن حنبل المسند ۴:۵
۳۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۸۶، رقم ۲۷۴
۴۔حاکم المستدرک ۳:۱۷۳، رقم ۴۷۵۱
۵۔مقدسی الاحادیث المختارہ ۹:۴۱۴، ۳۱۵، رقم :۲۷۴
۶۔عسقلانی فتح الباری ۹:۳۲۹
۷۔شوکانی درالسحابہ فی مناقب القرابة والصحابہ :۲۷۴
۴۵۔عن عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالی عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انمافاطمۃ بعضۃ منی یوذینی ماآذاھا ونیصبنی ماانصبھا
۴۵۔ "حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:فاطمہ میراجگرگوشہ ہے،اسے تکلیف دینے والی چیزمجھے تکلیف دیتی ہے اوراسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے"
حوالاجات
۱۔ترمذی نے یہ حسن صحیح حدیث الجامع الصحیح (۵:۶۹۸، رقم ۳۸۶۹)میں روایت کی ہے۔
۲۔احمد بن حنبل المسند ۴:۵
۳۔احمد بن حنبل ، فضائل الصحابہ ۲:۷۸۶، رقم :۱۳۲۷
۴۔حاکم المستدرک ۳:۱۷۳، رقم :۴۷۵۱
۵۔مقدسی الاحادیث المختارہ ۹:۳۱۴،۳۱۵رقم ۲۷۴
۶۔عسقلانی فتح الباری ۹:۳۲۹
۷۔شوکانی درالسحابہ فی مناقب القرابة والصحابہ :۲۷۴
۴۶۔عن ابی حنطلة رضی اللہ تعالی عنہ قال :فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما فاطمۃ بعضۃمنی فمن اذاھافقد آذانی ۔
"حضرت ابوحنظلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:فاطمہ تومیرا جگر گوشہ ہے جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔"فاطمہ تومیراجگرگوشہ ہے،جس نے اسے ستایااس نے مجھے ستایا"
حوالاجات
احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۵۵، رقم ۱۳۲۴
۲۔احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ (۲:۷۵۶، رقم ۱۳۲۷)میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا سے بھی ہے
۳۔احمد بن حنبل المسند ۴۔۵
۴۔حاکم المستدرک ۳:۱۷۳، رقم ۲۹۵۷
۵۔ شیبانی الآحادوالمثانی ۵:۳۶۲رقم :۲۹۵۷
۶۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۵، رقم ۱۰۱۳
۷۔بیہقی السنن الکبریٰ ۱۰:۲۰۱
عدالفاطمہ سلام اللہ علیھا عدوللنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھرانے کا دشمن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن
۴۷۔عن زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ ان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لعلی وفاطمۃوالحسن والحسین رضی اللہ تعالی عنہ اناحرب لمن حاربتم وسلم لمن سالمتم
"زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا :میں اس لڑوں کا جس سے تم لڑوں گے اورجس سے تم صلح کروگے میں اس سے صلح کروں گا
حوالاجات
۱۔ترمذی الجامع الصحیح ۵:۶۹۹، رقم :۳۸۷۰
۲۔ابن ماجہ السنن ۱:۵۲،رقم :۱۴۵
۳۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۱، رقم ۴۷۱۴
۴۔طبرانی المعجم الکبیر ۳:۰۴رقم ۲۶۱۹،۲۶۲۰
۵۔طبرانی المعجم الکبیر۵:۱۸۴رقم ۵۰۳۰،۵۰۳۱
۶۔طبرانی المعجم الاوسط،۵:۱۸۲رقم ۵۰۱۵
۷۔محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب زوی لاقربی ٰ۲۶
۸۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۲:۱۲۵
۹۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۱۰:۴۳۲
۱۰۔مزی تہذیب الکمال ۱۳:۱۱۲
۴۸۔عن زیدبن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لفاطمۃ والحسن والحسین :انا حرب لمن حرابکم وسلم لمن سالمکم
"حضرت زیدبن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ حضرت حسن اورحضرت اما م حسین سے فرمایا:جو تم سے لڑے گامیں اس سے لڑوں گا اورجو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا"
حوالاجات
۱۔ ابن حبان الصحیح ۱۵:۴۳۴ رقم :۶۹۷۷
۲۔ طبرانی المعجم الاوسط ۳۱۷۹، رقم :۲۸۵۴
۳۔طبرانی المعجم الصغیر۲:۵۳رقم :۷۶۷
۴۔ہثیمی نے مجمع الزوائد (۹:۱۶۹)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے۔
۵۔ ہثیمی مواردالظمآن :۵۵۵، رقم ۲۲۴۴
۶۔محاملی الامالی ۴۴۷رقم ۵۳۲
۷۔ابن اثیراسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ۷:۲۲۰
۴۹۔عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال :نظر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی علی وفاطمۃ والحسن والحسین فقال انا حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ۔حضرت حسن اورحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف نظر التفات کی اورارشاد فرمایا:جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گاجو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا(یعنی جو تمہارا دشمن وہ میرا دشمن اورجو تمہارا دوست ہے وہ میرا دوست ہے"
حوالاجات
۱۔ احمد بن حنبل المسند ۲:۴۴۲
۲۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۷رقم ۱۳۵۰
۳۔حاکم نے المستدرک (۳:۱۶۱رقم ۴۷۱۳)میں اس حدیث کو حسن قراردیا ہیجبکہ ذہبی نے اس بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔
۴۔طبرانی المعجم ۳:۴۰رقم :۲۶۲۱
۵۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد۷:۱۳۷
۶۔ذہبی سیراعلام النبلاء۲:۱۲۲
۷۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۳:۲۵۷،۲۵۸
۸۔ہیثمی نے مجمع الزاوئد (۹:۱۶۹)میں کہا ہے کہ اسے احمد اورطبرانی نے روایت کیا ہے اوراس کے راوی تلید بن سلیمان کے بارے میں اختلاف ہے جبکہ اس کے بقیہ رجال میں حدیث صحیح کے رجال ہیں
من ابعض اھل بیت فاطمۃ سلام اللہ علیھا فقددخل النار ولعن اللہ عجل عن علیہ
سیدہ سلام اللہ علیھا کے گھرانے کا دشمن منافق لعنتی اوردوزخی ہے
۵۰۔عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من ابغضنا اھل البیت فھو منافق
"حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جس نے ہم اہل بیت سے بغض رکھا تووہ منافق ہے"
حوالاجات
۱۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۶۶۱رقم ۱۱۲۶
۲۔محب الریاض النضرفی مناقب العشرہ ۱:۳۶۲
۳۔محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی ٰ:۵۱
۴۔سیوطی الدرالمنشور فی التفسیر بالماثور ۷:۳۴۹
۵۱۔عن زرقال:قال علی رضی اللہ عنہ لایحبنا منافق ولاینغضنا مومن
"حضرت ذربیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :منافق شخص کبھی بھی ہمارے ساتھ محبت نہیں کرتا اورمومن شخص کبھی بھی ہامرے ساتھ بغض نہیں رکھتا"
حوالاجات
۱۔ابن ابی شیبہ المصنف،۶:۳۷۲، رقم ۳۲۱۱۶
۵۲۔عن جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما قال :خطنبا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وھو یقول :ایھاالناس !من ابغضنا اھل البیت حشرہ اللہ یوم القیامۃ یھودیا۔یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !وان صام وصلی ؟قال:ان صام وصلی ۔
"حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشادفرمایا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے :"جس نے ہم اہل بیت کے ساتھ بغض رکھا روزے قیامت ا سکا حشر یہودیوں کے ساتھ ہو گامیں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !اگرچہ وہ روزہ رکھے اورنماز بھی پڑھے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہاں:اگرچہ وہ روزہ رکھے اورنماز بھی پڑھے اس کے باوجود دشمن اہل بیت ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی ٰ اس کی عبادات کو درفرما کر اسے یہودیوں کے ساتھ اٹھائے گا)
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الاوسط ۴:۲۱۲، رقم ۴۰۰۲
۲۔ہثیمی ،مجمع الزائد۹:۱۷۲
۳۔جرجانی تاریخ جرجان :۳۶۹
۵۳۔عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والذی نفسی بیدہ!لایبغضنا اھل البیت احد الا ادخلہ اللہ النار
"حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!ہم اہل بیت سے بغض رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ جسے اللہ تعالی
جہنم میں نہ ڈالے۔
حوالاجات
۱۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۲، رقم:۴۷۱۷
۲۔ ابن حبان الصحیح ۱۵:۴۳۵، رقم ۶۹۷۸
۳۔ذہبی سیراعلام النبوہ۲:۱۲۳
حاکم کے نزدیک یہ حدیث امام مسلم کی شرائط مطابق صحیح ہے
۵۴۔عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوان
رجلا صف بین الرکن والمقام فصلی وصام ثم لقی اللہ وھو مبغض لا اھل بیت محمد دخل النار۔
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اگرکوئی شخص کعبة اللہ کے پاس رکن یمانی اورمقام ابراہیم کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھے اورروزہ بھی رکھے اورپھر وہ اس حال میں مرے کہ اہل بیت سے بغض رکھتا ہو تووہ شخص جہنم میں جائے گا"
حوالاجات
۱۔محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی :۵۱
۲۔فسوی المعرفہ والتاریخ ۱:۵۰۵
۵۵۔عن معاویۃ بن حدیج عن الحسن بن علی رضی اللہ عنھما انہ قال لہ :یا معاویۃبن حدیج !ایاک وبخضنا فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:لا یبغضنا ولا یحسدنا احدالا ذید عب العوض یوم القیامۃ بساط من نار
"حضرت معاویہ بن حدیج نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے معاویہ بن حدیج ہمارے ساتھ بغض رکھنے سے بچے رہنا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اقدس ہے:ہمارے ساتھ بغض وحسد رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ جیسے قیامت کے دن حوض کوثر سے آگ کے درے سے دھتکارا نہ جائے
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الاوسط،۳:۳۹، رقم ۲۴۰۵
۲۔طبرانی المعجم الکبیر۳:۸۱، رقم :۲۷۲۶
اسراالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا
سیدہ سلام اللہ علیھا رازدار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
۵۶۔ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت اجتمع نساء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلم یغادرمنھن امراة فجاء ت فاطمۃ تمشی کان مشیتھا مشیة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم فقال :مرحبابابنتی فاجلسھا عن عمینہ اوعن شمالہ ثم انہ اسرالیھاحدیثا فبکت فاطمۃ ثم انہ سارھا فضحکت ایضا فقلت لھا :ما یبکیک ؟فقالت :ماکنت لاقشی ار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔فقلت :ما رایت کالیوم فرحااقرب من حزن ۔ فقلت لھا حین بکت اخصک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحدیثہ دوننا ثم تبکن ؟ولالتھا عما قال فقالت :ما کنت لا فشی سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔حتی ازاقبض سالتھا فقالت انہ کان حدثنی ان جبرائیل کان یعارضہ بالقرآن کل عام مرہ وانہ عارضہ بہ فیء العام مرتین ولا ارانی الاقد حضراجلی وانک اعل اھلی لحوقابی ونعم السلف انا لک ۔فبکیت لذلک ثم انہ سارنی فقال الا ترضین ان تکون سیدہ نساء المومنین اوسیدةنساء ھذہ الا مۃ فضحکت
۴ "ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج جمع تھیں اورکوئی بھی غیر حاضرنہ تھی اتنے میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا وہاں آگئیں جن کی چال بالکل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے کے مشابہ تھی آپ نے فرمایا :مرحبا (خوش آمدید)میری بیٹی پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے چپکے سے کوئی بات کہی توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا رونے لگیں پھر چپکے سے کوئی بات کہی توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا ہنسنے لگیں میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے کہا کس وجہ سے روئیں حضرت فاطمہ سلام اللہ عنھا نے کہا میں رسول اللہ کا راز افشاں نہیں کروں گی میں نے کہا :میں نے آج کی طرح کوئی خوشی غم سے اتنی قریب نہیں دیکھی ۔میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے بغیر خوصیت کے ساتھ آپ سے کوئی بات کی ہے پھر بھی آپ رو رہی ہیں اورمیں نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا :حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا فرمایا تھا ؟توانہوں نے کہا:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راز افشاں نہیں کروں گی حتی کہ جب رسول اللہ کا وصال مبارک ہوگیا تومیں نے پھر پوچھا ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی باار یہ فرمایا تھا کہ جبرائیل مجھ سے ہر سال ایک بار قرآن مجید کا دور کیا ہے اورمجھے یقین ہے کہ اب میرا وصال کا وقت آگیا ہے اورمیرے بعدمیرے اہل میں سے سب سے پہلے تم مجھے ملو گی اورمیں تمہارے لئے بہترین پیش روہوں تب میں رونے لگی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کی اورفرمایا:کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تم تمام مومن عورتوں کی سردارہویا میری اس امت کی عورتوں کی سردارہو!تومیں اس وجہ ہنس پڑی"
حوالاجات
۱۔مسلم الصحیح ۴:۱۹۰۵،۱۹۰۶،رقم ۲۴۵۰
۲۔بحاری الصحیح،۷ا۳۳،رقم:۵۹۲۸
۳۔ابن ماجہ،السنن،ا:۸ا۵،رقم؛۱۶۲۰
۴۔نسائی السنن الکبری ۴:۲۵۱،رقم :۷۰۷۸
۵۔نسائی السنن الکبری ۵:۹۶،۱۴۶، رقم ۸۳۶۸،۸۵۱۶،۸۵۱۷#
۶۔نسائی فضائل الصحابہ ۷۷، رقم ۲۶۳
۷۔نسائی کتاب الوفاة ۲۰،رقم ۲
۸۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۲،۷۶۳، رقم ۱۳۴۳
۹۔شیبائی الآحادوالمثالی ۵:۳۶۸، رقم ۲۹۶۸
۱۰۔ابن راہویہ المسند ۱:۶،۷رقم ۵
۱۱۔طبرانی نے المعجم الکبیر (۲۲:۴۱۹، رقم ۱۰۳۰)میں حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے
۱۲۔طبرانی ، المعجم الکبیر۲۲:۴۱۹رقم۱۳۰۳
۱۳۔ابن جوزی صفۃ الصفوہ ۲:۶،۷
۱۴۔ابن جوزی تذکرة الخواص :۲۷۸
۱۵۔ابن اثیراسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ۷:۲۱۸
۱۶۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۲:۱۳۰
۵۷۔عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت :دعاالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃ ابنتہ فی شکواہ الذی قبض فیھا فسارھابشئی فبکت ثم دعاھا فسارھا فضحکت قالت :فسالتھا عن ذلک فقالت :سارنی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاخبرنی انہ یقبض فی وجعہ الذی توفی فیہ فبکیت ثم سارنی فاخبرنی انی اول اھل بیة اتبعہ فضعکت
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ کو بلایا اورپھران سے سرگوشی فرمائی تووہ رونے لگیں ۔پھر انہیں قریب بلاکرسرگوشی فرمائی تووہ ہنس پڑیں ۔حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں نے اس بارے میں سیدہ سے پوچھا توانہوں نے بتایا حضورنبی اکرم نے میرے کان میں فرمایاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کااسی مرض میں وصال ہوجائے گاپس میں رونے لگیں پھر آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعدآوگی ۔اس پر میں ہنس پڑی"
حوالاجات
۱۔بخاری الصحیح ۳:۱۳۶۱رقم ۳۵۱۱
۲۔بخاری الصحیح۳:۱۳۲۷، رقم:۳۴۲۷
۳۔بخاری الصحیح۴:۱۶۱۲رقم:۴۱۷۰
۴۔مسلم الصحیح۴؛۱۹۰۴، رقم :۲۴۵۰
۵۔نسائی ، فضائل الصحابہ :۷۷، رقم:۲۹۶
۶۔ احمد بن حنبل المسند،۶:۷۷
۷۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۵۴۔رقم ۱۳۲۲
۸۔ابن حبان الصحیح ۱۵:۴۰۴رقم :۶۹۵۴
۹۔ابویعلی المسند ۱۲:۱۲۲رقم :۶۷۵۵
۱۰۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۲۰، رقم ۱۸۵
۱۱۔دولابی الذریۃ الطاہری :۱۰۰رقم ۱۸۵
۱۲۔ مزی تہذیب الکمال ۳۵:۲۵۳
۱۳۔اصبہای دلائل النبوہ :۹۸
۱۴۔ذہبی نے معجم المحدثین (ص:۱۳،۱۴)میں اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متفق علیہ حدیث قرار دیا ہے
۵۸۔ عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت :بینما انا مع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی بیت یلاعبنی والاعبہ اذدخلت علینا فاطمۃ فاخذ رسول اللہ صلی اللہ محمد وآلہ وسلم بیدھا فاقعدھا خلفہ ونا جاھا بشئی لا ادری ماھو فنظرت الی فاطمۃ تبکی ثم اقبل الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فحدثنی ولا عبنی ثم اقبل علیھا فلا عبھا ونا جاھا بشئی فنظرت الی فاطمۃقاذا ھی تضحک فقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فخرج فقلت لفاطمۃ ما الذی ناجاک بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟قالت :لیس کلامااسرالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخبرک بہ قلت :اذکرک اللہ والرحم قالت :اخبرنی :انہ مقبوض قد حضراجلہ فبکیت لفراق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم اقبل الی فنا جانی :انی اول من لحق بہ من اھل بیتہ فضحکت للقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ گھر میں تھی ہم آپس میں مزاح کررہے تھے ۔اتنے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑااور اپنے پیچھے بٹھا لیااورکچھ سرگوشی فرمائی مجھے اس کا علم نہیں کہ کیا سرگوشی تھی ۔پھر میں نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی طرف دیکھا تووہ رورہی تھیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے مجھے سے بات چیت کی ۔پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے اوران سے مزاح فرمایااورسرگوشی کی میں نے دیکھا کہ فاچمہ ہنس رہی ہیں جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا سرگوشی فرمائی وہ بولیں جو بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے چپکے سے بتائی ہے میں آپ کو نہیں بتاوں گی میں نے کہا میںآ پ کو اللہ تعالی اورقرابت داری کا واسطہ دیتی ہوں وہ بولیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی وفات کا بتایا کہ آپ کا وقت آپہنچا ہے پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی پر رو پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر میری طرف متوجہ ہوئے اورمجھے چپکے سے بتایا کہ اہل بیت میں سے سب سے پہلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملوں گی تومیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات کی آس میں ہنس پڑی
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الکبیر ۲۲:۴۲۰، رقم :۱۰۳۵
فاطمۃ سلام اللہ علیھا شجنة من النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیدہ سلام اللہ علیھا ۔۔۔شجرہ رسالت کی شاخ ثمر بار
۵۹۔عن المسورقال :قال رسول اللہ ڈلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃشجنة منی یسطنی مابسطھا ویقبضنی ماقبضھا۔
"حضرت مسوررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے اس کی خوشی مجھے خوش کرتی ہے اوراس کی پریشانی مجھے پریشان کردیتی ہے"
حوالاجات
۱۔ احمد بن حنبل المسند۴:۳۳۲
۲۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۵، رقم ۱۳۴۷
۳۔ حاکم المستدرک ۳:۱۶۸، رقم ۴۷۳۴
۴۔ شیبانی الآحادوالمثانی ۵:۳۲۶، رقم ۲۹۵۶
۵۔طبرانی المعجم الکبیر ۲۰:۲۵، رقم ۳۰
۶۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۵رقم :۱۰۱۴
۷۔ہثیمی نے مجمع الزوائد (۹:۲۰۳) میں کہا ہے کہ اے طبرانی نے روایت کیا ہے اورام بکر بنت مسور پر جرح کی گئی نبی کسی نے اسے ثقہ قرار دیا جبکہ اس کے بقیہ رجال کو ثقہ قراردیا گیاہے۔
۸۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۲:۱۳۲
۶۰۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنھما رفعہ :انا شجرةٰ وفاطمۃ حملھا وعلی لقاحھا،والحسن والحسین ثمرتھا والمحبون اھل البیت ورقھا من الجنتة حقا حقا۔
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مرفوعاحدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میں درخت ہوں فاطمہ اس کی ٹہنی ہے علی اس کا شگوفہ اورحسن وحسین اس کا پھل ہیں اوراہل بیت سے محبت کرنے والے اس کے پتے ہیں یہ سب جنت میں ہوں گے یہ حق ہے حق ہے"
۶۰۔حوالاجات
۱۔ دیلمی الفردوس بماثور الخطاب ۱:۵۲،رقم :۱۳۵
۲۔سخاوی استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباالرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوی الشرف:۹۹
شھادة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعفة فاطمۃ سلام اللہ علیھا وعرضھا
عصمت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گواہ ۔۔۔۔خود محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
۶۱۔عن عبداللہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم ان فاطمہ احصت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار
"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بیشک فاطمہ نے اپنی عصمت اورپاکدامنی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی اولاد پر آگ حرام کردی ہے "
حوالات
۱۔بزار المسند ۵:۲۲۳رقم :۱۸۲۹
۲۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۵، رقم ۴۷۲۶
۳۔ ابو نعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۴:۱۸۸
۴۔ ذہبی نے اسے میزان الاعتدال فی نقد الرجال (۵:۲۶۱)میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عھنما سے مرفوع قرار دیا ہے۔
۵۔ مناوی فیض القدیر۲:۴۶۲
۶۲۔عن عبداللہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان فاطمۃ حصنت فرجھا وان اللہ وعجل عن ادخلھا یا حصان فرجھا وذرتیھا الجنۃ
"حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:فاطمہ نے اپنی عصمت اورپاک دامنی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی عصمت مطہرہ کے طفیل اسے اور اس کی اولاد کو داخل فرمادیا"
حوالاجات
طبرانی المعجم الکبیر ۳:۴۱، رقم :۲۶۲۵
۲۔ ہیثمی مجمع الزوائد ۹:۲۰۲
۳۔مناوی فیض القدیر۲:۴۶۳
امر اللہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بترویج فاطمۃ سلام اللہ علیھا من علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
حضرت علی سے سیدہ سلام اللہ علیھا کے نکاح کا حکم خودباری تعالی نے دیا
۶۳۔ عن عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال :ان اللہ امرنی ان ازوج فاطمۃ من علی
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالی نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں "
حوالاجات
۱۔ طبرانی المعجم الکبیر ۱۰:۱۵۲رقم ؛۱۰۳۰۵
۲۔ طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۷، رقم ۱۰۲۰
۳۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (۹:۲۰۴)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیاہے اور اسکے رجال ثقہ ہیں
۴۔حلبی الکشف الحسثیث ۱:۱۷۴
۵۔ہندی کنزا العمال رقم :۳۲۸۹۱،۳۲۹۲۹
۶۔ ہندی کنزاالعمال ،۱۳:۶۸۱،۶۸۲، رقم ۳۷۷۵۳
۷۔ ابن جوزی نے تذکرة الخواص (ص:۲۷۶)میں حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنھما سے روایت کیا ہے
نے البیان والتعریف(۱:۲۷۴رقم ۴۵۵) میں کہا ہے کہ اسے ابن عساکر اورخطیب بغدادی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے۔
۹۔ مناوی فیض القدیر، ۲:۲۱۵
۶۴۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا انس اتدری ما جاء نی بہ جبرایل من صاحب العرش؟ قال :ان اللہ امرنی ان ازوج فاطمۃ من علی
"حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اے انس !کیا تم جانتے ہوکہ جبرایل میرے پاس صاحب عرش کا کیا پیغام لائے ہیں ؟ پھر فرمایا :اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطہ کا نکاح علی سے کردوں
حوالاجات
۱۔حسینی نے "البیان "والتعریف (۲:۳۰۱رقم :۱۸۰۳) میں کہا ہے کہ اسے قزوینی خطیب بغدادی اورابن عساکر نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے
۲۔ محب طبری ذخائر العقبی فی مناقب ذوہ القربی :۷۱
حفل زفاف فاطمۃسلام اللہ علیھا فی الملاالاعلی ومشارکة اربعین الف ملک فیہ
سیدہ سلام اللہ علیھا کا ملاء اعلی میں نکاح اورچالیس ہزار ملائکہ کی شرکت
۶۵۔عن انس رضی اللہ عنہ قال :بینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی المسجد اذقال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلی:ھذاجبریل یخبرنی ان اللہ زوجک فاطمۃ واشھد علی تزویجک اربعین الف ملک واوحی الی شجرة طوبی ان انثری علھم الدروالیاقوت فنثرت علیھم الدروالیاقوت فابتدرت الیہ الحورالعین یلتقطن من اطباق الدروالیاقوت فھم یتھادونہ بینھم الی یوم القیامۃ
"حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :یہ جبرائیل ہے جو مجھے یہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے فاطمہ سے تمہاری شادی کردی ہے اورتمہارے نکاح پر چالیس ہزارفرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیا اورشجرہائے طوبی سے فرمایا :ان پر موتی اوریاقوت نچھاور کرو۔پھر دلکش آنکھوں والی حوریں ان موتیوں اوریاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں جنہیں تقریب نکاح میں شریک کرنے والے فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیں گے "
حوالاجات
۱۔محب طبری نے الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ (۳:۱۴۶)میں کہا ہے کہ اسے ملا ء نے الیسرة میں روایت کیا ہے
۲۔ محب طبری ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی :۷۲
۶۶۔۵۸۶۶ععبعن علی رضی اللہ تعالی عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتانی ملک فقال :یا معمد ان اللہ تعالی یقراعلیک السلام ، ویقول لک :انی قد ذوجت فاطمۃ ابنتک من علی بن ابی طالب فی الملاالاعلی فزوجھا فی الارض ۔
"حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میرے پاس ایک فرشتے نے آکرکہا:اے محمد اللہ تعالی نے آپ پر سلام بھیجا ہے اورفرمایا ہے :میں آپ کی بیٹی فاطمہ کا نکاح ملا اعلی میں علی بن ابی طالب سے کردیا ہے پس آپ زمین پر بھی فاطمہ کا نکاح علی سے کردیں "
حوالاجات
۱۔ محب طبری ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی :۷۲
ذعا ء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفاطمۃ سلام اللہ علیھا وذریتھا
سیدہ سلام اللہ علیھا اورآپ کی نسل مبارک کے حق میں حضور کی دعاے برکت
۲۷۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال :دعارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفاطمۃ اللھمانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم
"حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے لیے خصوصی دعا فرمائی باری تعالی میں اپنی اس بیٹی اوراس کی اولاد کو شیطان مردود کی پناہ میں دیتا ہوں
حوالاجات
۱۔ ابن حبان الصحیح ۱۵:۳۹۴، ۳۹۵، رقم ۶۹۴۴
۲۔ طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۹، رقم ۱۰۲۱
۳۔ احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ (۲:۷۶۲، رقم ۱۳۴۲) میں یہ حدیث حضرت اسماء بنت عمیس سے ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے
۴۔ہیثمی مواردالظمآن ۵۴۹۔۵۵۱رقم :۲۲۲۵
۵۔ابن جوزی نے تذکرة الخواص (ص:۲۷۷)میں مختصر روایت کیا ہے
۶۔محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی :۶۷
۲۸۔ عن بریدة رضی اللہ عنہ قال :فلما کان النبلاء قال :یا علی لا تحدث شیئا حتی تلقانی ، فدعاالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بما فتوضا منہ ثم افرغہ علی علی فقال :الکھم بارک فیھما وبارک علیھما وبارک لھما فی شبلھما وفی روایۃ عنہ :وبارک لھما فی نسلھما
"حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی اورسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھماکی شادی کی رات علی سے فرمایا :مجھے ملے بغیر کوئی عمل نہ کرنا پھر آپ نے پانی منگوایا اس سے وضو کیا پھر حضرت علی پر پانی ڈال کر فرمایا :اے اللہ !ان دونوں کے حق برکت اوران دونوں پر برکت نازل فرما،ان دونوں کے لیے ان کی اولاد میں برکت عطافرما۔"
حضرت بریدہ رضی اللہ عنی سے ہی مروی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں ان دونوں کے لیے انکی نسل میں بھی برکت مقدر فرمادے"
حوالاجات
۱۔نسائی السنن الکبری ۶:۷۶، رقم :۱۰۰۸۸
۲۔نسائی عمل الیوم والیلہ :۲۵۳، رقم :۲۵۸
۳۔رویانی المسند ۔۱:۷۷، رقم :۳۵
۴۔طبرانی المعجم الکبیر۲:۲۰رقم، ۱۱۵۳
۵۔ابن اثیراسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ۷:۲۱۷
۶۔ابن سعدالطبقات الکبری ۸:۲۱
۷۔ہیثمی نے مجمع الزوائد (۹:۲۰۹)میں کہا ہے کہ اسے بزار اورطبرانی روایت کیا ہے اوران کے رجال عبدالکریم بن سلیط کے رجال ہیں جنہیں ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
۸۔عسقلانی نے الاصحابہ تمییز الصحابہ (۸:۵۶)میں کہا ہے کہ اسے دولابی نے سند جید کے ساتھ روایت کیا ہے
۹۔دولابی الذریۃ الطاہرہ :۶۵، رقم:۹۴
۱۰۔مزی نے تہذیب الکمال (۱۷:۷۶)میں یہ روایت ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے نسائی نے الیوم والیلہ میں روایت کیا ہے
لم یوذن لعلی بزواج ثان فی حیاة فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا
سیدہ سلام اللہ علیھا کی حیات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کودوسری شادی کی اجازت نہ تھی
۲۹۔ ان المسوربن مخرمة حدثہ ،انہ سمع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی المنبر ،وھو یقول :ان بنی طالب فلا آذن لھم ،ثم لاآذن لھم ثم لا آذن لھم وقال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فانماابنتی بضعة منی یرینبی مارابھا ویوذینی ما آذاھا۔
"حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنائی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا بنی ہشام بن مغیرہ نے اپنی بیٹی کا علی سے رشتہ کرنے کی مجھ سے اجازت مانگی ہے میں ان کو اجازت نہیں دیتا پھر میں ان کو اجازت نہیں دیتا،پھر میں ان کو اجازت نہیں دیتا۔اورحضور نے فرمایا میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے اس کی پریشانی مجھے پریشان کرتی ہے اوراس کی تکلیف مجھے تکلیف دیتی ہے"
حوالاجات
۱۔ مسلم الصحیح ۴:۱۹۰۲، رقم ۲۴۴۹
۲۔ترمذی الجامع الصحیح ۵:۶۹۸، رقم ۲۰۷۱
۳۔ ابوداود السنن ۲:۲۲۶، رقم :۲۰۷۱
۴۔ابن ماجہ السنن ،۱:۲۴۳، رقم ۱۱۹۸
۵۔ نسائی السنن الکبری ،۵:۱۴۷، رقم :۸۵۱۸
۶۔ احمد بن حنبل المسند ۴:۳۲۸
۷۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۵۲۶، رقم ۱۳۲۹
۸۔ ابو عوانہ المسند ۳:۶۹۔ ۷۰رقم :۴۲۳۱
۹۔ بیقی السنن الکبری ۷:۳۰۷
۱۰۔بہیقی السنن الکبری ۱۰:۲۸۸
۱۱۔حکیم ترمذی نوادرالاصول فی احادیث الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۳:۱۸۴
۱۲۔ابونعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۷:۳۲۵
۱۳۔ابن جوزی صفۃ الصفوہ ۲:۷
۱۴۔ محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی :۸۰۷۹
۱۵۔ابن اثیر اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ۷:۲۱۷
۱۶۔شوکانی درالسحابہ فی مناقب القرابة والصحابہ :۲۷۴
اناالمسور بن مخرمة قال :قال رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :ان فاطمۃ بضعة منی وانی اکرہ ان یسوئھا واللہ لا تجتمع بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وبنت عدواللہ عند رجل واحد۔
"حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:بے شک !فاطمہ میرے جگرکا ٹکڑاہے اوراس کی ناراضگی مجھے پسند نہیں خدا کی قسم کسی شخص کے پاس رسول اللہ اوردشمن خداکی بیٹیاں جمع نہیں ہوسکتیں "
حوالاجات
۱۔بخاری الصحیح ۳:۱۳۶۴، رقم ۳۵۲۳
۲۔ مسلم الصحیح ۴:۱۹۰۳، رقم ۲۴۴۸
۳۔ابن ماجہ السنن ۱:۶۴۴، رقم ۱۹۹۹
۴۔ احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۵۹، رقم :۱۳۳۵
۵۔ابن حبان الصحیح ۱۵:۴۰۷م۵۳۵، رقم :۶۹۵۶،۷۰۶۰
۶۔طبرانی المعجم الکبیر ۲۰:۱۸،۱۹،رقم ۱۸،۱۹
۷۔ طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۵، رقم ۱۰۱۳
۸۔طبرانی المعجم الصغیر۲:۷۳، رق، ۸۰۴
۹۔ہیثمی مجمع الزوائد ۹:۲۰۳
۱۰۔دولابی المعجم الکبیر۲۲:۴۲۳، رقم ۱۰۴۱
۷۱۔عن فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انھا اتت بالحسن والحسین الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی شکواہ الذی توفی فیہ فقالت :یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !ھذان ابناک فورثھما شیاء فقال :اما الحسن فلہ ھیبتی وسوددی واما حسین فلہ جراتی وجودی
"سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتی ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض وصال میں حسن اورحسین رضی اللہ عنہ کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں انہیں کسی چیز کا وارث بنادیں آپ نے فرمایاحسن کے لیے میری ہیبت رعب اورسرداری ہے جبکہ حسین کے لیے میری جرات اورسخاوت ہے
حوالاجات
۱۔ طبرانی المعجم الکبیر ۲۲:۴۲۳، رقم ۱۰۴۱
۲۔ طبرانی نے المعجم الاوسط(۶:۲۲۲،۲۲۳، رقم ۶۲۴۵) میں اس حدیث کو حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے
۳۔شیبانی الآحادو المثانی ۳۷۰۵، رقم ۴۰۸
۴۔ شیبانی الآحادو المثانی ۵:۳۷۰، رقم ۲۹۷۱
۵۔ہیثمی نے مجمع الزوائد (۹:۱۸۵)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے جبکہ میں اس کے راویوں کو نہیں جانتا ۔
۶۔ عسقلانی الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۷:۶۷۴
۷۔ عسقلانی تہذیب التہذیب ۲:۲۹۹
۸۔ مزی تہذیب الکمال ۶:۴۰۰
۹۔ ہندی کنزالعمال ۱۲:۱۱۷،رقم ۳۴۲۷۲
ذریۃ فاطمۃ سلام اللہ علیھا ذریۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھم ۔۔۔۔ذریت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
۷۲۔ عن فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا قالت:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل بنی ام ینتمون الی عصبۃ الا ولد فاطمۃ ،فانا ولیھم وانا عصبتم ۔
"حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ہر ماں کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے سوائے فاطمہ کی اولاد کے ۔پس میں ہی ان کا ولی ہوں اورمیں ہی ان کا نسب ہوں "
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الکبیر،۳:۴۴، رقم ۲۶۳۲
۲۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۲۳، رقم ۱۰۴۲
۳۔ابویعلی المسند ۱۲:۱۰۹رقم ۶۷۴۱
۴۔دیلمی الفردوس بما ثور الخطاب۳:۲۶۴، رقم ۴۷۸۷
۵۔خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد (۱۱:۲۸۵)میں بیان کردہ روایت میں ولیھم کی بجائے ابوھم ان کا باپ کے الفاظ ہیں
۶۔ہیثمی مجمع الزوائد ،۴:۲۲۴
۷۔ہیثمی مجمع الزوائد ۹:۱۷۲،۱۷۳
۸۔مزی تہذیب الکمال ۱۹:۴۸۳
۹۔ ہندی کنزالعمال ۱۲:۱۱۶رقم ۳۴۲۶۶
۱۰۔سخاوی استجلاب ارتقاء الغرف بجب اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذوی الشرف ۱۲۹
۱۱۔صنعانی سبل السلام ۴:۹۹
۱۲۔مناوی فیض القدیر۵:۱۷
۱۳۔عجلونی کشف الخفاء ومزیل الالباس ۲:۱۵۷، رقم ۱۹۶۸
۷۳۔ عن عمررضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ محمدعلیہ وآلہ وسلم یقول:کل بنی انثی فان عصبتھملا بیھم ماخلاولد فاطمۃ فانی انا عصبتھم وانا ابوھم
"حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :ہر عورت کی اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف سے ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے کہ میں ہی ان کا نسب ہوں اورمیں ہی ان کا باپ ہوں "
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الکبیر ۳:۴۴، رقم ۲۶۳۱
۲۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۶۲۶رقم :۱۰۷۰
۳۔ ہیثمی مجمع الزوائد۴:۲۲۴
۴۔ثمی مجمع الزوائد۶:۳۰۱
۵۔ سخاوی نے استجلاب ارتقاء الغرف بجب اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذوی الشرف (ص:۱۲۷)میں طبرانی کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے اوراس کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے
۶۔حسینی البیان والتعریف ۲:۱۴۴، رقم ۱۳۱۴
۷۔شوکانی نیل الاوطارشرح منتقی الاخبار۶:۱۳۹
۸۔مناوی فیض القدیر۵:۱۷
۷۴۔ عن جابر رضی اللہ عن قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکل بنی ام عصبة ینتمون الیھم الا ابنی فاطمۃ ،فانا ولیھما وعصبتھما۔
" حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ہر ماں کی اولاد کا عصبہ باپ ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتی ہے سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے کہ میں ہی ان کا ولی اورمیں ہی ان کا نسب ہوں "
حوالاجات
۱۔حاکم المستدرک ۱۷۹۳۔ رقم ۴۷۷۰
۲۔ سخاوی استجلاب ارتقاء الغرف بجب اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الشرف:۱۳۰
ینقطع کل نسب وسبب یوم القیامۃ الانسب فاطمۃ سلام اللہ علیھا وسببھا
روز محشر نسب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے سوا ہر نسب منقطع ہو جائے گا
۷۵۔ عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ انی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول :کل نسب وسبب ینقطع یوم القیامۃ الا ماکان من سببی ونسبی ۔
"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:"میرے نسب اوررشتہ کے سواقیامت دن ہ رنسب اوررشتہ منقطع ہوجائے گا"
حوالاجات
۱۔ حاکم المستدرک ۳:۱۵۳، رقم ۴۶۸۴
۲۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۶۲۵، ۶۲۶رقم :۱۰۲۹،۱۰۷۰
۳۔احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ (۲:۷۵۸، رقم ۱۳۳۳)میں یہ حدیث مسور بن مخرمہ سے بھی روایت کی ہے۔
۴۔بزار المسند ،۱:۳۹۷، رقم ۲۷۴
۵۔طبرانی المعجم الکبیر۳:۴۴،۴۵، رقم ۲۶۳۳،۲۶۳۴
۶۔طبرانی المعجم الاوسط،۳۷۶۵، رقم ۵۶۰۶
۷۔طبرانی المعجم الاوسط ۶:۳۵۷، رقم ۶۶۰۹
۸۔دیلمی الفردوا بما ثورالخطاب ۳:۲۵۵، رقم ۴۷۵۵
۹۔ہثیمی نے مجمع الزوائد (۹:۱۷۳)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے الاوسط اورالکبیرمیں روایت کیا ہے اوراس کے رجال ثقہ ہیں
۱۱۔عبدالرزاق المصنف۶:۱۶۳،۱۶۴، رقم :۱۰۳۵۴
۱۲۔بہیقی السنن الکبری ۷:۶۳،۶۴، ۱۱۴
۱۳۔ابن سعدالطبقات الکبری ۸:۴۶۳
۱۴۔دولابی الذریۃ الطاہرہ ۱۱۵،۱۱۶
۱۵۔ابونعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاوصفیاء ۷:۳۱۴
۱۶۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد ۶:۱۸۲
۱۷۔سخاوی استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول وذوی الشرف ۱۲۶،۱۲۷،۱۲۹
۱۹۔حسینی البیان المعجم الاوسط۴:۲۵۷، رقم ۴۱۳۲
۷۶۔ عن عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالی عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل نسب وصھر منقطع یوم القیامۃ الانسبی وصھری۔
"حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن ہرنسب وتعلق منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب اورتعلق کے
۷۶۔طبرانی ،المعجم الاوسط ۴:۲۵۷، رقم ۴۱۳۲
۲۔ طبرانی نے المعجم الکبیر(۱۱:۲۴۳، رقم:۱۱۶۲۱)میں اس مفہوم کی روایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے لی ہے۔
۳۔طبرانی نے المعجم الکبیر (۲۰:۲۷، رقم:۳۳)میں حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے
۴۔خلال نے السنہ (۲:۴۳۳،۶۵۵)میں مسور بن مخرمہ سے مروی حدیث کی اسناد کوحسن قرار دیا ہے۔
۵۔خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد(۱۰:۲۷۱)میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے
۶۔ہثیمی ، مجمع الزوائد ۱۰:۱۷
۷۔عسقلانی تلخیص الحبیر ۳:۱۴۳، رقم ۱۴۷۷
۷۷ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال :کل سبب ونسب منقطع یوم القیامۃ الاسببی ونسبی ۔
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میرے رشتہ اورنسب کے سوا قیامت کے دن ہر رشتہ نسب منقطع ہوجائے گا"۔
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الکبیر ۱۱:۲۴۳رقم ۱۱۶۲۱
۲۔ہثیمی نے مجمع الزوائد (۹:۱۷۳)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اوراس کے رجال ثقہ ہیں ۔
۳۔خطیب بغدادی تاریخ ۱۰:۲۷۱
۴۔سخاوی استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذوی الشرف۱۳۳
انھا اول اھل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لحوقابہ بعدوفاتہ
وصال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے پہلے سیدہ سلام اللہ علیھا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملیں
۷۸۔ عن عائشہ رضی اللہ عنہاقالت :دعا النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃ ابنتہ فی شکواہ التی قبض فیھا فسارھا بشئی فبکت ثم دعاھا فسارھا فضعکت قالت :فسالتھا عن ذلک فقالت :سارنی النبی ٰصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاخبرنی انہ یقض فی وجعہ الذی توفی فیہ فبکیت ثم سارنی فاخبرنی انی اول اجل بیتہ اتبعہ فضعکت
"ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اپنے مرض وصال میں بلایا پھر سرگوشی کے اندازمیں ان سے کوئی بات کہی تووہ رونے لگیں پھر نزدیک بلاکر سرگوشی کی تووہ ہنس پڑیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس بارے میں ا سے پوچھا تو انہوں نے بتایا :حضور نبی اکرم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اسی مرض میں میری وفات ہوجائے گی تووہ رونے لگیں پھرآپ نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میں ان کے گھر والوں میں سب سے پہلی میں ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملوں گی تومیں ہنس پڑی"
حوالاجات
۱۔بخاری الصحیح ۳:۱۳۲۷،۱۳۶۱،رقم:۴۱۷۰
۲۔بخاری الصحیح۴:۱۶۱۲،رقم ۱۴۷۰
۳۔مسلم ،الصحیح۴:۱۹۰۴، رقم ۲۴۵۰
۴۔نسائی السنن الکبری ۵:۹۵، رقم ۸۳۶۶
۵۔۔نسائی فضائل الصحابہ :۷۷رقم :۲۶۲
۶۔احمد بن حنبل نے المسند (۶:۲۸۳)میں یہی حدیث جعفر بن عمرو بن امیہ سے بھی روایت کی ہے
۸۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۵۴، رقم ۱۳۲۲
۹۔ابن حبان الصحیح ۱۵:۴۰۴،رقم ۶۹۵۴
۱۰۔ابن ابی شیبہ المصنف ۶:۳۸۸، رقم ۳۲۷۰
۱۱۔ابو یعلی المسند ۱۲:۱۲۲،رقم :۶۷۵۵
۱۲۔حکیم ترمذی نوادر الاصول فی احادیث الرسول ۳:۸۱۲
۱۳۔طبرانی ، المعجم الکبیر۲۲:۴۲۱، رقم ۱۰۳۷
۱۴۔ابن سعد الطبقات الکبری ۲:۲۴۷
۱۵۔ذہبی سیراعلام النبلاء ۲:۱۳۱
۷۹۔ عن عائشہ رضی اللہ عنہاعن فاطمۃ سلام اللہ علیھا :ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لھا :انت اول اھلی لعوقا بی فضعکت لذالک
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے یہ روایت کی کہ حضور نبی اکرم نے انہیں فرمایا:میرے اہل بیت میں سے (میرے وصال کے بعد )تم سب سے پہلے مجھے ملوگی تومیں اس خوشی میں ہنس پڑی"
۷۹۔ابن ابی شیبہ المصنف ،۷:۲۶۹، رقم :۳۵۹۸۰
۲۔ شیبائی الآحادو المثالی ۵:۳۵۷،۳۵۸، رقم ۲۹۴۲۔۲۹۴۵
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفاطمۃ رضی اللہ عنہ انت اول اھلی لعوقا بی
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے فرمایا:میرے گھروالوں میں سے سب سے پہلے تومجھ سے ملے گی"
حوالاجات
۱۔احمدبن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۴،رقم ۱۳۴۵
۲۔ احمد بن حنبل نے العلل و معرفۃ الرجال (۲:۴۰۸، رقم :۲۸۲۸)میں جعفر بن عمر بن امیہ سے بھی روایت کی ہے
۳۔ابو نعیم ، حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۲:۴۰
۸۱۔ "عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال :لما نزلت اذا جاء نصراللہ والفتح )دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃ ،فقال :قد نعیت الی نفسی فبکت ، فقال لا تبکی فانک اول اھلی لا حق بی فضعکت فرآھا بعض ازواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقلن :یا فاطمۃ رایناک بکیت ثم ضعکت قالت انہ اخبرنی انہ قد نعیت الیہ نفسہ فبکیت فقال لی :لا تبکی فانک اھلی لا حق بی فضعکت۔
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت ۔۔۔جب اللہ کی مدد اورفتح آپہنچے ۔۔۔نازل ہوئی توحضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہ کو بلایا اورفرمایا:میری وفات کی خبر آگئی ہے وہ روپڑیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مت رو بیشک تومیرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے آملے گی تووہ ہنس پڑیں،اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض بیویوں نے بھی دیکھا ،انہوں نے کہا:فاطمہ کیا ماجرا ہے ہم نے پہلے تجھے روتے اورپھرہنستے ہوئے نہیں دیکھا ؟وہ بولیں حضور نے مجھے بتایا :میری وفات کا وقت آپہنچا ہے اس پر میں رو پڑی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مت رو رتومیرے خاندان میں سب سے پہلے مجھے ملنے والی ہے تومیں ہنس پڑی"
حوالاجات
۱۔ دارمی السنن ،۱:۵۱، رقم ۷۹
۲۔ابن کثیرتفسیرالقرآن العظیم ۴:۵۶۱
انھاعلمت بوفاتھا
سیدہ سلام اللہ علیھا کا اپنے وصال سے باخبر ہونا
۷۲۔ عن ام سلمی رضی اللہ عنہا قالت:اشتک فاطمۃ شکواھا التی قبضت فیہ فکنت امرضھا فاصبعت یوما کامثل مارایتھا فی شکواھا تلک قالت:وخرج علی لبعض حاجتہ فقالت :یا امہ !اسکبی لی غسلا،فسکبت لھا غسلا فاغتسلت کاحسن نارایتا تختسل ، ثم قالت :یا امہ اعطینی ثیابی الجدد فاعطیتھا فلبستھا ثم قالت : یا امہ قدمی لی فراشی وسط البیت ففعلت واضطجعت واستقبلت القبلة وجعلت یدھاتحت خدھا ثم قالت:یا امہ !انی مقبوضة الآن وقدتطھرت فلا یکشفنی اھد فقبضت مکانھا قالت فجاء علی فاخبرتہ۔
"حضرت ام سلمی رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہے جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنی مرض موت میں مبتلا ہوئیں تومیں ان کی تیمارداری کرتی تھی۔مرض کے اس پورے عرصے کے دوران جہاں تک میں نے دیکھا ایک صبح ان کی حالت قدرے بہتر تھی حضرت علی رضی اللہ عنہا کسی کام سے باہر گئے سیدہ نے کہا :اماں !میرے غسل کرنے کے لیے پانی لائیں میں پانی لائی آپ نے جہاں تک میں نے دیکھا بہترین غسل کیا۔پھربولیں اماں جی! مجھے نیا لباس دیں ۔ میں نے ایسا ہی کیا۔آپ قبلہ رخ ہو کرلیٹ گئیں ہاتھ مبارک رخسار مبارک کے نیچے کرلیا۔پھر فرمایا:اماں جی! اماں جی اب میری وفات ہوگی ،میں پاک ہوچکی ہوں لہذا مجھے کوئی عریاں نہ کرے پس اسی جگہ آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی ۔ام سلمی کہتی ہیں پھر حضرت علی تشریف لائے تومیں نے انہیں سیدہ کے وصال کی اطلاع دی ۔
غض اھل الجمع ابصار ھا عند مرور فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا یوم القیامۃ اکراما لھا
"روز قیامت سیدہ سلام اللہ علیھا کی آمد پر سب اہل محشر نگائیں جھکالیں گے
۸۳۔عن علی رضی اللہ عنہ قال :سمعت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول :اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد من وراء العجاب :یا اھل الجمع! غضو ابصارکم عن فاطمۃ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی تمر۔
"حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:قیامت کے پیچھے ایک ندا دینے والا پردے کے پیچھے سے آواز دے گا :اے اھل محشر!اپنی نگائیں جھکالو تاکہ فاطمہ بنت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزر جائیں "
حوالاجات
۱۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۶، رقم :۴۷۲۸
۲۔محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی:۹۴
۳۔ابن اثیر اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ۷:۲۲۰
۴۔عجلونی کشف الخفاء ومزیل الالباس ۱:۱۰۱، رقم ۲۶۳
۸۴۔عن علی رضی اللہ عنہ قال :قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا کان یوم القیامۃ قیل :یا اھل الجمع غضو ابصارکم لتمر فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتمر وعلیھا ریطتان خضر اوان۔
قال ابو مسلم :قال لی قلابة وکان معناعبدالحمید انہ قال :حمراوان
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جب قیامت کا دن ہوگا توکہا جائے گا:اے ال محشر !اپنی نگائیں جھکا لوتاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمۃ الزہراء گزر جائیں ۔پس وہ دوسبز چادروں میں لپٹی ہوئی گزر جائیں گی ۔
"ابو مسلم نے کہا:مجھے قلابہ نے کہا اورہمارے ساتھ عبدالحمیدبھی تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا:(سیدہ سلام اللہ علیہا)دوسرخ چادروں میں لپٹی ہوئی گزر جائیں گی"
حوالاجات
۱۔حاکم المستدرک ۳:۱۷۵،رقم :۴۷۵۷
۲۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۷۶۳، رقم ۱۳۴۴
۳۔طبرانی المعجم الکبیر،۱:۱۰۸، رقم ۱۸۰
۴۔طبرانی المعجم الکبیر۲۲:۴۰۰، رقم ۹۹۹
۵۔طبرانی المعجم الاوسط۳:۳۵، رقم ۲۳۷۶
۶۔ہثیمی مجمع الزوائد۹:۲۱۲
۸۵۔عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت :قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :ینادی مناد یوم القیامۃ:غضو اابصارکم حتی تمر فاطمۃ بنت محمد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:روز قیامت ایک ندا دینے والا ند ادے گا :اپنی نگائیں جھکا لو تاکہ فاطمہ بنت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزر جائیں ۔"
حوالاجات
۱۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد۸:۱۴۲
۲۔محب طبری ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی ۹۴
۸۶۔عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔مرفوعا۔۔اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد من بطنان العرش :یا اھل الجمع!نکسواروسکم وغضوا ابصارکم حتی تجوز فاطمۃ الی الجنۃ۔
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ روز قیامت عرش کی گہرائیوں سے ایک ندا دینے والا آواز دے گا:محشر والو!اپنے سروں کو جھکا لو اوراپنی نگائیں نیچی کرلو تاکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا جنت کی طرف گزر جائیں ۔"
حوالاجات
۱۔عجلونی کشف الخفاء مزیل الالباس ۱:۱۰۱، رقم ۲۶۳
۲۔ہندی کنزالعمال ۱۲:۱۰۶رقم ۳۴۲۱۱
۳۔ہندی نے کنزالعمال (۱۲:۱۰۶، رقم ۳۴۲۱۰)میں کہا ہے کہ اسے ابوبکر نے الغیلانیات میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
۴۔خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (۸:۱۴۱)میں الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ یہ حدیث حضرت سے روایت کی ہے۔
۵۔ہیثمی نے الصواعق المحرقہ (۲:۵۵۷)میں کہا ہے کہ اسے ابو بکر نے الغیلابیات میں روایت کیاہے
منظر مرورفاطمۃ سلام اللہ علیھا علی الصراط مع سبعین الف جاریة من الحور من العور العین
سیدہ سلام اللہ علیھا کا ستر ہزار حوروں کے جھرمٹ میں پل صراط سے گزرنے کا منظر
۸۷۔عن ابی ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ :اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد من بطنان العرش :یا اھل الجمع!نکسوا روسکم وغضو ابصارکم حتی تمر فاطمۃ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی صراط،فتمرومعھا سبعون الف جاریة من العور العین کالبرق اللامع۔
"حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :روز قیامت عرش کی گہرائیوں سے ایک ندا دینے والا آواز دے گا:اے محشر والو!اپنے سروں کو جھکا لواوراپنی نگاہیں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پل صراط سے گزر جائیں ۔پس آپ گزر جائیں گی اورآپ کے ساتھ حورعین میں سے چمکتی بجلیوں کی طرح ستر ہزار خادمائیں ہوں گی"۔
حوالاجات
۱۔محب طبری نے ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی (ص:۹۴)میں کہا ہے کہ اسے حافظ ابو دسعید نقاش نے فوائد العراقیین میں روایت کیا ہے۔
۲۔ہندی ،کنزالعمال ۱۲:۱۰۵،۱۰۶، رقم ۳۴۲۰۹،۳۴۲۱۰
۳۔ابن جوزی نے تذکرة الخواص (ص:۲۷۹)میں ذرامختلف الفاظ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔
۴۔ہیثمی نے الصواعقالمحرقہ (۲:۵۵۷)میں کہا ہے کہ اسے ابو بکرنے الغیلانیات میں روایت کیا ہے۔
۵۔مناوی فیض القدیر ۱:۴۲۰،۴۲۹
۸۸۔عن علی رضی عنہ اللہ،قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ الہ وسلم :تحشرابنتی فاطمہ یوم القیام وعلیھاحلۃالکرامۃ قدعجنت بماء الحیوان،فتنظرالیھااخلائق،فیترجبون
منھا،ثم تکسی حلۃ من حلل الجنہ(تشتمل)علی الف حلةمکتوب(علیھا)بخط اخضر:ادخلوابنت محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم الجنۃعلی احسن صورةواکمل ھیبةواتم کرامةواوفرحظ۔فتزف الی الجنۃکالعروس حولھا سبعونالف جاریۃ۔(۸۸)
"سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا :میری بیٹی فاطمہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گی کہ اس پر عزت کا جوڑا ہوگا جسے آب حیات دھویا گیا ۔ساری مخلوق اسے دیکھ کر دنگ رہ جائے گی پھر اسے جنت کا لباس پہنایا جائے گا جس کا ہرحلہ ہزار حلوں پر مشتمل ہوگا۔ہر ایک پر سبز خط سے لکھا ہوگا :محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کو احسن صورت اکمل ہیبت تمام تر کرامت اوروافر تر عزت کے ساتھ جنت میں
لے جاو۔پس آپکو دلہن کی طرح سجا کر ستر ہزارحوروں کے جھرمٹ میں جنت کی طرف لایا جائیگا"
حوالاجات
۱۔محب طبری ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی ٰ۹۵
تحمل فاطمۃ سلام اللہ علیھا علی ناقة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم القیامۃ
روز قیامت سیدہ سلام اللہ علیھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری پر بیٹھیں گی
۸۹۔عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا کان یام القیامۃ حملت علی البراق وحملت فاطمۃ علی فاقة العضباء۔
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن مجھے براق پر اورفاطمہ کو میری سواری عضباء پربٹھایا جائے گا"
حوالاجات
۱۔ابن عساکر تاریخ دمشق الکبیر ۱۰:۳۵۳
۹۰۔عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبعث الانبیاء یوم القیامۃ علی الدواب لیوافوا بالمومنین من قومھم المعشر ،ویبعث صالح علی فاقتہ وابعث علی البراق خطوھا عنداقصی طرفھا وتبعثفاطمۃ امامی ۔
حوالاجات
حاکم نے المستدرک (۳:۱۶۶رقم :۴۷۲۷)میں کہا ہے کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے
۹۱۔عن بریدة رضی اللہ عنہ قال معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم وانت علی العضباء ؟قال :انا علی البراق یخصنی اللہ بہ منبین الانبیاء وفاطمۃ ابنتی عکی العضباء۔
"حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ :کیا آپ روز قیامت اپنی اونٹنی عضباء ہر سوا رہو کرگزریں گے ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میں اس براق پر سوارہوں گے جو نبیوں میں خصوصی طورپر صرف مجھے عطا ہوگا۔مگر میری فاطمہ میری سواری عضباء پر ہوگی
حوالاجات
۱۔ابن عساکر تاریخ دمشق الکبیر ۱۰:۳۵۲۔۳۵۳
۲۔ہندی نے کنزاالعمال (۱۱:۴۹۹رقم ۳۲۳۴۰)میں کہا ہے کہ اسے ابو نعیم اورابن عساکر نے روایت کیا ہے
فصل :۳۵
فاطمۃ سلام اللہ علیھا علاقة لمیزان الآخرة
سیدہ سلام اللہ علیھا اخروی ترازو کا دستہ ہیں
۹۲۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انامیزان العلم علی کفتاہ والحسن والحسین خیوطہ وفاطمۃ علاقتہ والآیمة من بعدی عمردہ یوزن بہ اعمالالمعبین لنا والمبغصین لنا۔
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میں علم کا ترازو ہوں علی اس کا پلڑاہے حسن اورحسین اس کی رسیاں ہیں فاطمہ اس کا دستہ ہے اورمیرے بعد ائمہ اس ترازوکی عمودی سلاخیں ہیں جس کے ذریعے ہمارے ساتھ محبت کرنے والوں اوربغض رکھنے والوں کے اعمال تولے جائیں گے"
حوالاجات
۱۔ دیلمی ،الفردوس ، بماثور الخطاب ۱:۴۴، رقم ۱۰۷
۲۔ عجلونی نے کشف الخفاء ومزیل الالباس (۱:۲۳۶)مین کہا ہے کہ دیلمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مرفوع روایت بیان کی ہے
اول من دخل الجنۃ مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃ سلام اللہ علیھا وزوجھا وابناھا
سیدہ سلام اللہ علیھا اوران کاگھرانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا
۹۳۔عن علی رضی اللہ عنہ قال :اخبرنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اول من یدخل الجنۃ انا وفاطمۃ والحسن والحسین ۔قلت:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فمحبونا؟قال :من ورائکم ۔
"حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا:میرے ساتھ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں میں فاطمہ حسن اورحسین ہونگے میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہونگے؟آپ نے فرمایا :تمہارے پیچھے ہوں گے"
حوالاجات
۱۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۴، رقم ۴۷۲۳
۲۔ابن عساکر تاریخ دمشق الکبیر ۱۴:۱۷۳
۳۔ہندی کنزالعمال ۱۲:۹۸، رقم ۳۴۱۶۶
۴۔ہیثمی نے الصواعق المحرقہ(۲:۴۴۸)میں کہا ہے کہ اسے ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
۵۔محب طبری ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی ۱۲۴
۹۴۔عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال رسول اللہ رضی اللہ عنہ اول شخص یدخل الجنۃ فاطمۃ ۔
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والی ہستی فاطمہ ہوگی"
حوالاجات
۱۔ذہبی نے میران الاعتدال فی نقد الرجال (۴:۳۵۱)میں کہا ہے کہ ابو صالح موذن نے مناقب فاطمہ میں روایت کیاہے
۲۔عسقلانی نے بھی المیزان (۴:۱۶)میں ایسا کہا ہے
۹۵۔عن ابی یزیدالمدنی قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اول شخص یدخل الجنۃ :فاطمۃ بنت محمد ومثلھا فی ھذہ الامة مثل مریم فی نبی اسرائیل ۔
"حضرت ابو یزید مدنی سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے پہلے میری بیٹی فاطمہ ہو گی اورمیری اس امت میں وہ ایسی ہیں جیسے اسرائیل میں مریم ۔
حوالاجات
قزوینی التدوین اخبارقزوین ۱:۴۵۷
۲۔ہندی کنزالعمال ۱۲:۱۱۰، رقم ۳۴۲۳۴
مسکنھا یوم القیامۃ فی قبة بیضاء سقفھا عرش الرحمن
روز قیامت سیدہ سلام اللہ علیھا کا مسکن عرش خداوندی کے نیچے سفید گنبد ہوگا
۹۶:عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :ان فاطمۃ وعلیاوالحسن والحسین فی حظیرةالقدس فی قبة بیضاء سقفھا عرش
الرحمن ۔
"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بیشک آخرت میں فاطمہ علی ،حسن اورحسین جنت الفردوس میں سفید گنبد میں مقیم ہوں گے جس کی چھت عرش خداوندی ہوگا"
حوالاجات
۱۔ ابن عساکر ، تاریخ دمشق الکبیر ۱۴:۶۱
۲۔ہندی کنزالعمال ۱۲:۹۸،رقم ۳۴۱۶۷
۹۷۔عن ابی موسی الاشعری قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :انا وعلی وفاچمة والحسن والحسی یوم القیامۃ فی قبۃ تحت العرش۔
"حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :روز قیامت میں
علی ، فاطمہ ،حسن اورحسین عرش کے نیچے گنبد میں قیام پذیر ہوں گے"
حوالاجات
۱۔ہیثمی مجمع الزوائد ۹:۱۷۴
۲۔زرقانی شرح الموطا،۴:۴۴۳
۳۔عسقلانی لسان المیزان ۲:۹۴
۹۸۔ان فاطمۃ سلام اللہ علیھا وزوجھا وابناھاومن احبھم مجتمون مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ
پنجتن پاک اوران کے تمام محب قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہوں گے
۹۸۔عن علی رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفاطمۃ :انی وایاک وھذین وھذا الراقد فی مکان واحد یوم القیامۃ
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے
وسلم فی مکان واحدیوم القیامۃ۔ ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ سے فرمایا:اے فاطمہ میں توایک یہ دونوں (حسن وحسین )اوریہ سونے والا حضرت علی کیونکہ اس وقت آپ سو کر اٹھے ہی ہوں گے
حوالاجات
۱۔احمد بن حنبل المسند ۱:۱۰۱
۲۔بزارالمسند ۳:۲۹،۳۰، رقم ۷۷۰
۳۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲:۶۹۲رقم ۱۱۸۳
۴۔ہیثمی نے مجمع الزوائد (۹:۱۶۹،۱۷۰)میں کہا ہے احمد بن حنبل کی روایت کردہ حدیث کی سند میں قیس بن ربیع کے بارے میں اختلاف ہے جبکہ بقیہ تمام رجال ثقہ ہیں
۵۔شیبانی السنہ ۲:۵۹۸، رقم ۱۳۲۲
۶۔ابن اثیراسد الغابہ
۹۹۔عن علی رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال :انا وعلی وفاطمۃ وحسن وحسین مجتمون ومن احبنایوم القیامۃ ناکل ونشرب حتی یفرق بین الحباد۔
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میں علی ،فاطمہ ،حسن ،حسین اورہمارے محبین سب روز قیامت ایک ہی جگہ اکٹھے ہوں گے قیامت کے دن ہمارا کھانا پینا بھی اکٹھا ہو گا یہاں تک کہ لوگوں میں فیصلے کردیئے جائیں گے "
فر معرفۃ الصحابہ ۷:۲۲۰
حوالاجات
۱۔ہیثمی نے مجمع الزوائد (۹:۱۷۴)میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے
۲۔طبرانی المعجم الکبیر ۳:۴۱، رقم ۲۶۲۳
اورمیں اس کے رایوں کو نہیں جانتا۔
قالت ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنھا ۔۔۔۔فاطمۃ سلام اللہ علیھا افضل الناس بعد ابیھا"
فرمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ۔۔۔بعد از مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل ترین ہستی سیدہ
زہرا سلام اللہ علیھا ہیں
۱۰۰۔عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت :مارایت افضل من فاطمۃ رضی اللہ عنھا غیرابیھا۔
"حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے افضل ان کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی شخص کو نہیں پایا۔
حوالاجات
۱۔طبرانی المعجم الاوسط ۱۳۷۳، رقم ۲۷۲۱
۲۔ہیثمی نے مجمع الزوائد (۹:۲۰۱) میں کہا ہے کہ اسے طبرانی اورابویعلی نے روایت کیا ہے اوراس کے رجال صحیح ہیں
۳۔شوکانی درالسحابہ فی مناقب القرابة والصحابہ ۲۷۷،رقم ۲۴
۱۰۱۔عن عمرو بن دینار قال :قالت عائشہ
"عمر بن دنیا رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا :فاطمہ رضی اللہ عنھا کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا میں نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے زیادہ سچا کائنات میں
رضی اللہ عنہ :مارایت احد اقط اصدق من فاطمۃ غیر ابیھا کوئی نہیں دیکھا"
حوالات
ابو نعیم حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ۲:۴۱،۴۲
قال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
فاطمۃ سلام اللہ علیھا احب الناس بعد ابیھا"
عن عمررضی اللہ عنہ انہ دخل فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال یا فاطمۃ واللہ
"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے ہاں گئے اورکہا: اے فاطمہ !خدا کی قسم !میں نے آپ کے
مارایت احد احب الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منک واللہ ماکان احد من الناس بعد ابیک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احب الی منک سوا کسی شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک ترنہیں سوائے آپ کے بابا کے"۔
حوالاجات
۱۔حاکم المستدرک ۳:۱۶۸،رقم ۴۷۳۶
۲۔ابن ابی شیبہ المصنف ۷:۴۳۲، رقم :۳۷۰۴۵
۳۔شیبانی الآحادو المثانی ۵:۳۶۰، رقم ۲۹۵۲
۴۔احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۱:۳۶۴، رقم ۵۳۲
۵۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد۴:۴۰۱
۲۷۔عن ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال :کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذامسافر کان آخر عھدہ یا نسان من اھلہ فاطمۃواول من یدخل علیھا اذا قدم فاطمہ (۲۷)
"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفرکا ارادہ فرماتے تواپنے اہل وعیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفرپرروانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہوتیں ،اورسفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہوتیں "

۱۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ن یمربباب فاطمہ ستۃ اشھر اذا خرج الی صلاة الفجر ،یقول :الصلاة یا اھل البیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا(۱)
"حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نماز فجر کے لیے نکلتے اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے کے پاس سے گزرتے توفرماتے :اے اہل بیت !نماز قائم کرو ۔(اورپھر یہ آیت مبارکہ پڑھتے )اے اہل بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی آلودگی دور کردے اورتم کوخوب پاک وصاف کردے "۔