Thursday, December 2, 2010

میلادِ اَنبیاء قرآن مجید میں تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

میلادِ اَنبیاء قرآن مجید میں حصہ اول تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
سورۃ الانعام میں انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ  الأنعام، 6 : 86، 87
’اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا) اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشیo اور ان کے آباء (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لیے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی تھی
سورۃ اِبراہیم 14 : 39
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے
سورۃ مریم ذکرحضرت زکریا علیہ السلام مريم، 19 : 2، 3
یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اُس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی)o جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکارا
سورۃ مريم، 19 : 13
اور (ہم نے) اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھے
سورۃ مريم، 19 : 16
اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیں
سورۃ مريم، 19 : 41
’’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے
سورۃ مريم، 19 : 51
::اور (اس) کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے، بے شک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پا کر) برگزیدہ ہو چکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے
سورۃ مريم،19 : 54، 55
’’اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل کا ذکر کریں، بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھےo اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی اُن کا رب اُن سے راضی تھا)
سورۃ مريم،19 56، 57
::اور (اس) کتاب میں اِدریس کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےo اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھالیا تھا
سورۃ الانبياء 21 : 51،50
’’اور یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اس سے انکار کرنے والے ہو
’’اور بے شک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی اِستعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھے
سورۃ الانبياء 21 :72
حضرت لوط، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کے ذکر کے آخر میں :: اور ہم نے ان سب کو صالح بنایا تھا ::
سورۃ الانبياء 21 : 73
’’اور ہم نے انہیں(اِنسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکٰوۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے
حضرت ایوب علیہ السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 84
’’تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیے) یہ ہماری طرف سے خاص رحمت اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے (کہ اللہ صبر و شکر کا اجر کیسے دیتا ہے)
حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذو الکفل علیہم السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 85، 86
’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل (کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھےo اور ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا، بے شک وہ نیکوکاروں میں سے تھے
حضرت یونس حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ علیہم السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 90
’’بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے
پیرآف اوگالی شریف

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کائنات کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ جس دن حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس جہان میں تشریف آوری ہوئی، خوشی کے اِظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دن ہے  دو یوم کی یاد منانے کی اہمیت احادیث کی روشنی  میں پیش ہے
یومِ نوح علیہ السلام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کی روایت ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247 حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702 امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ)
یومِ موسیٰ علیہ السلام
جب حضور نبی کریم رؤف الرحیم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کرتے ہوئے بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
بخاري  کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727 ؛‘بخاري کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900 :: بخاري کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
أبوداود کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444 :: المسند أحمد بن حنبل، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
 مسلم، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
سنن ابن ماجة،کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734:: المسند أبو يعليٰ، 4 : 441، رقم : 2567

نمازِ پنجگانہ اَنبیاء کرام علیہم السلام کی یادگار ہے تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریم چشتیہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

نمازِ پنجگانہ اَنبیاء کرام علیہم السلام کی یادگار ہے:: تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریم چشتیہ اوگالی شریف وادئ سون  ضلع خوشاب
نمازِ فجر ’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نمازِ فجر ہوگئی۔

نمازِ ظہر ’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس وہ نمازِ ظہر ہوگئی۔
نمازِ عصر’’جب حضرت عزیر علیہ السلام کو (سو سال بعد) اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا : آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا : ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔
نمازِ مغرب حضرت عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے(شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت وکمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ (اس طرح تین رکعات ادا کیں، چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی۔) پس وہ نمازِ مغرب ہوگئی۔
نمازِ عشاء
 جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں:: ۔شرح معانی الآثارامام طحاوی‘

Wednesday, December 1, 2010

فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جوکہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں مار دو پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو یقیناً ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 36، 44، والحاکم في المستدرک، 2 / 159، الرقم : 2645، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 937، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 637، الرقم : 1519، وقال : إسناده حسن، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 187، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 322، الرقم : 3460، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 230، والحارث في المسند، (زوائد الهيثمي)، 2 / 714، الرقم : 704.
’’حضرت طارق بن زیاد نے بیان کیا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کیا پھر فرمایا : دیکھو بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے کہ تیر شکار سے نکل جاتا ہے
۔النسائي في السنن الکبري، 5 / 161، الرقم : 8566، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 107، الرقم : 848، وفي فضائل الصحابة، 2 / 714، الرقم : 1224، والخطيب في تاريخ بغداد، 14 / 362، الرقم : 7689، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 256، الرقم : 247، والمزي في تهذيب الکمال، 13 / 338، الرقم : 2948
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔
الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، و المناوي في فيض القدير، 4 / 118
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں جمع ہوں گے اور نمازیں ادا کریں گے لیکن ان میں سے مومن کوئی نہیں ہو گا۔
 ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 163، الرقم : 30355، 7 / 505، الرقم : 37586، و الحاکم في المستدرک، 4 / 489، الرقم : 8365، و الديلمي في الفردوس بماثور الخطاب، 5 / 441، الرقم : 8086، و أبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 266، و الفريابي في صفة المنافق، 1 / 80، الرقم : 108.110
’’حضرت ابوسعيد خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اﷲ! میں فلاں فلاں وادی سے گزرا تو میں نے ایک نہایت متواضع ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے والے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اس کے پاس جاکر اسے قتل کردو۔ راوی نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو انہوں نے جب اسے اس حال میں (نماز پڑھتے) دیکھا تو اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (ویسے ہی) لوٹ آئے راوی نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جاؤ اسے قتل کرو، حضرت عمر گئے اور انہوں نے بھی اسے اسی حالت میں دیکھا جیسے کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کو ناپسند کیا۔ کہا کہ وہ بھی لوٹ آئے۔ اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میں نے اسے نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا پسند نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! جاؤ اسے قتل کردو کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے، تو انہیں وہ نظر نہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لوٹ آئے، پھر عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر وہ اس میں پلٹ کر نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر پلٹ کر کمان میں نہ آجائے (یعنی ان کا پلٹ کر دین کی طرف لوٹنا ناممکن ہے) سو تم انہیں (جب بھی پاؤ) قتل کر دو وہ بدترین مخلوق ہیں۔
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، الرقم : 11133، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال : رجاله ثقات، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 229، وابن حزم في المحلي، 11 / 104، والشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 351
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو دنیا کو دین کے ذریعے حاصل کریں گے، لوگوں کے سامنے بھیڑ کی کھالوں کا نرم لباس پہنیں گے۔ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی (ایک روایت میں ہے کہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی) اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : ’’کیا یہ لوگ مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا مجھ پر دلیری کرتے ہیں؟ (کہ مجھ سے نہیں ڈرتے؟) مجھے اپنی (ذات کی) قسم! جو لوگ ان میں سے ہوں گے۔ میں ضرور ان پر ایسے فتنے بھیجوں گا جو ان میں سے بردبار لوگوں کو بھی حیران کر دیں گے۔
الترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (59)، 4 / 604، الرقم : 2404.2405، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 235، الرقم : 35624، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 362، الرقم : 6956، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 379، و ابن المبارک في الزهد، 1 / 17، الرقم : 50، والديلمي في الفردوس بما ثور الخطاب، 5 / 510، الرقم : 8919، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 32، الرقم : 41، و ابن هناد في الزهد، 2 / 437، الرقم : 860
’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو حالت سجدہ میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کی اور اس کی طرف لوٹے اور وہ اس وقت بھی (حالتِ) سجدہ میں تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے پھر فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے اپنے بازو چڑھائے تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اس کی طرف دیکھا تو اس کی ظاہری وضع و قطع کو دیکھ کر متاثر ہوگیا)۔ پھر عرض کیا : یا نبی اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں کیسے اس شخص کو قتل کر دوں جو حالت سجدہ میں ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک شخص کھڑا ہوا، عرض کیا : میں، تو اس نے اپنے بازو چڑھائے اور اپنی تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اسے قتل کرنے ہی لگا تھا) کہ اس کے ہاتھ کانپے، عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! میں کیسے ایسے شخص کو قتل کروں جو حالت سجدہ میں گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! اگر تم اسے قتل کردیتے تو وہ فتنہ کا اول و آخر تھا (یعنی یہ فتنہ اسی پر ختم ہو جاتا
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 42، الرقم : 19536، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 457، الرقم : 938، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي) 2 / 713، الرقم : 703، وابن رجب فيجامع العلوم والحکم 1 / 131
’’عبداﷲ بن حارث بن نوفل مولی مقسم ابوالقاسم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب اس کا ایک گروہ ہو گا جو دین سے (ظاہراً) بہت گہری وابستگی رکھنے والے نظر آئیں گے مگر دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ۔ ۔ پھر مکمل حدیث ذکر کی۔
أحمد بن حنبل في الصحيح، 2 / 219، الرقم : 7038، و ابن أبي عاصم في السنة 2 / 453. 454، الرقم : 929.930، و عبداﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 631، الرقم : 1504، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 237، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 176
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک شخص تھا جس کی عبارت گزاری اور مجاہدے نے ہمیں حیرانگی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ یہاں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض اسے خود سے بھی افضل گرداننے لگے تھے) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کا نام اور اس کی صفات بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ ایک دفعہ ہم اس کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ شخص آ گیا۔ ہم نے عرض کیا : وہ یہ شخص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم جس شخص کی خبریں دیتے تھے یقیناً اس کے چہرے پر شیطانی رنگ ہے سو وہ شخص قریب آیا یہاں تک کہ ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے سلام بھی نہیں کیا۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں (تمہیں کہ سچ بتانا) کہ جب تو مجلس کے پاس کھڑا تھا تو نے اپنے دل میں یہ نہیں کہا تھا کہ لوگوں میں مجھ سے افضل یا مجھ سے زیادہ برگزیدہ شخص کوئی نہیں؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم! ہاں (میں نے کہا تھا)۔ پھر وہ (مسجد میں) داخل ہوا نماز پڑھنے لگا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ پھر وہ شخص مڑا مسجد کے صحن میں آیا، نماز کی تیاری کی، ٹانگیں سیدھی کیں اور نماز پڑھنے لگا) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا کہنے لگے۔ سبحان اللہ میں نماز پڑھتے شخص کو (کیسے) قتل کروں؟ جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تو وہ باہر نکل گئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اسے قتل کرنا نا پسند کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں چہرہ جھکائے دیکھا۔ حضرت عمر نے کہا : حضرت ابوبکر مجھ سے افضل ہیں لہٰذا وہ بھی (اسے قتل کئے بغیر) باہر نکل گئے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سرجھکائے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا ناپسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اس شخص کو قتل کرے گا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی اس کے (قتل کے) لئے ہو اگر تم نے اسے پالیا تو (تم ضرور اسے قتل کر لو گے) راوی نے بیان کیا کہ وہ اندر اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ چلا گیا تھا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ حضرت علی نے عرض کیا : میں نے دیکھا تو وہ چلا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ قتل کردیا جاتا تو میری امت میں دوآدمیوں میں بھی کبھی اختلاف نہ ہوتا وہ (فتنہ میں) ان کا اول و آخر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا میں نے حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا : فرماتے ہیں : وہ وہی پستان (کے مشابہ ہاتھ) والا تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شیطان کا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوگا (یا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوا) جبکہ اگر تم اسے قتل کر دیتے تو تم میں سے دو آدمیوں میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔ بیشک بنی اسرائیل میں اختلاف سے وہ اکتہر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور تم عنقریب اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ فرقوں میں بٹ جاؤ گے ان میں سے کوئی راہ راست پر نہیں ہوگا سوائے ایک کے، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جماعت (سب سے بڑا گروہ) اس کے علاوہ دوسرے سب آگ میں جائیں گے۔
أبو يعلي في المسند، 1 / 90، الرقم : 90، 7 / 155، 168، الرقم : 4143، 4127، و عبدالرزاق في المصنف، 10 / 155، الرقم : 18674، و أبو نعيم فيحلية الأولياء، 3 / 52، و المروزي في السنة، 1 / 21، الرقم : 53، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 17 / 69، الرقم : 2499، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 226
’’عبدالملک نے ابوحرہ سے روایت بیان کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ) کو (اپنا گورنر بنا کر) نفاذ حکومت کے لئے بھیجا تو خوارج عبداللہ بن وھب راسبی (خارجی سردار) کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے انہیں بلیغ خطبہ دیا جس میں اس نے انہیں اس دنیا سے بے رغبتی اور آخرت اور جنت کی رغبت دلائی اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا۔ پھر کہا : ہمارے لئے ضروری ہے ہم پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہوجائے۔ ۔ ۔ پھر سب شریح بن ابی اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو ابن وھب نے کہا : اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہئے کہ (اسے اپنا مرکز بناکر) ہم سب اسی میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں۔ کیونکہ اہلِ حق اب تم ہی لوگ ہو۔
 ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 115، وابن الأثير في الکامل، 3 / 213. 214، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 285.286 وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، (حتي 257ه)، 5 / 130.131

Tuesday, November 30, 2010

مناجات امام زین العابدین

مناجات امام زین العابدین

مناجات امام زین العابدینمناجات امام زین العابدین

شان و عظمت امام حسین علیہ السلام تحریر : پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادی سون ضلع خوشاب

شان و عظمت امام حسین علیہ السلام
تحریر : پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادی سون ضلع خوشاب
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
مسند احمد بن حنبل، 2 : 288
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین دونوں کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کتنی اچھی سواری تمہارے نیچے ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاً فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔ مجمع الزوائد، 9 : 182

 
 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ جامع الترمذی، 2 : 218
حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا ’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کرمسند احمد بن حنبل، 5 : 369
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے۔
1. مسند احمد بن حنبل، 4 : 323
2. المستدرک، 3 : 158
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا۔
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 513)
حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے مروی ہے کہ حضرت حسن سینے سے لیکر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے اور حضرت حسین اس سے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے۔
(جامع الترمذي، 2 : 219
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا۔
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 513)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے بارے میں فرمایا "جس نے اس (حسین) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی''۔
(المعجم الکبير، 3، ح : 2643)
حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔
(جامع الترمذی، 2 : 219)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
1. البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200
2. کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسین علیہ السلام کو اٹھایا ہوا تھا اور یہ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس (حسین) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 177)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔
(المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ
آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔
(المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام
پر شہید کر دیا جائے گا۔طبراني في الاوسط مجمع، 9 : 190
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے
حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی۔
(الخصائص الکبریٰ 2 : 12)

Thursday, November 25, 2010

شیطانی فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

شیطانی فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
\وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘مسلم کی ایک روایت میں  ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا
 البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، و ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، و ابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، و أبو يعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، و في حلية الأولياء، 5 / 71، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، و حاشية ابن القيم، 13 / 16، و السيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192
مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تو ان کی تالیف قلب کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا اور اس نے کہا : اے محمد! اﷲ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا : اے محمد اﷲ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا : ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا : میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قول اﷲ تعالي : تعرج الملائکة و الروح إليه، 6 / 2702، الرقم : 6995، و في کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ عزوجل : و أما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219، الرقم : 3166، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 741، الرقم : 1064، و أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4764، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم : 4101، و في کتاب : الزکاة، باب : المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم : 2578، و في السنن الکبري، 6 / 356، الرقم : 11221، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2373، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، 73، الرقم : 11666، 11713، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 156، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 339، الرقم : 12724، 7 / 18، الرقم : 12962، و ابن منصور في کتاب السنن، 2 / 373، الرقم : 2903، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 72، و الشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 345، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 196. البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم : 6531، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 746، الرقم : 1066، و الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في صفة المارقة، 4 / 481، الرقم : 2188، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4102، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 59، الرقم : 168، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 81، 113، 131، الرقم : 616، 912، 1086، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 553، الرقم : 37883، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 157، و البزار في المسند، 2 / 188، الرقم : 568، و أبو يعلي في المسند، 1 / 273، الرقم : 324، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 170، و الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 213، الرقم : 1049، و عبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 443، الرقم : 914، و الطيالسي في المسند، 1 / 24، الرقم : 168
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں، فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہو گا اور تیر (جانور کے ) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہوگا)۔’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا : جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا : عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو۔ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بیشک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
 البخاري في الصحيح، کتاب : استابة المرتدين و المعاندين، باب : مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِءَلَّا ينْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، 6532، و في کتاب : المناقب، باب : علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم : 3414، و في کتاب : فضائل القرآن، باب : البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771، و في کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرَّجلِ : ويلَکَ، 5 / 2281، الرقم : 5811، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، و نحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في السنن الکبري، 6 / 355، الرقم : 11220، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم : 172، و ابن الجارود في المنتقي، 1 / 272، الرقم : 1083، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، و الحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و قال : هذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم : 11554، 14861، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم : 37932، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، و نحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم : 3846، و الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم : 9060، و أبو يعلي في المسند، 2 / 298، الرقم : 1022، و البخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 / 270، الرقم : 774
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم : 1461، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2372.’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر
واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا : سر منڈائے رکھنا ہے
۔ مسلم کی روایت میں ہے : يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔
 البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قراءة الفاجر و المنافق و أصواتهم و تلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم : 7123، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق و الخليفة، 2 / 750، الرقم : 1068، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم : 11632، 3 / 486، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم : 37397، و أبو يعلي في المسند، 2 / 408، الرقم : 1193، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم : 5609، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم : 909، و قال : إسناده صحيح، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم : 2390

’’زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
’’حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم : 4768، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 163، الرقم : 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91، الرقم : 706، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 147؛ والبزار في المسند، 2 / 197، الرقم : 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445. 446، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170.
البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم : 6532، و في فضائل القرآن، باب : إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم : 4771، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064، و مالک في الموطأ، کتاب : القرآن، باب : ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم : 478، و النسائي في السنن الکبري، 3 / 31، الرقم : 8089، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم : 11596، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 132، الرقم : 6737، و البخاري في خلق أفعال العباد، 1 / 53 وا بن أبي شيبة في المصنف، 7 / 560، الرقم : 37920، و أبو يعلي في المسند، 2 / 430، الرقم : 1233، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 935، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 537، الرقم : 2640، و الربيع في المسند، 1 / 34، الرقم : 36.
’’حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ بازی ہو گی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے) وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اﷲ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : سر منڈانا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔‘‘
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پیدا ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بد تر (یا بدترین) ہوں گے اور انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر نہیں پاتا۔
أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في : قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 224، الرقم : 13362، والحاکم في المستدرک، 2 / 161، الرقم : 2649، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 15، الرقم : 2391. 2392، و قال : إسناده صحيح، و أبو يعلي في المسند، 5 / 426، الرقم : 3117، و الطبراني نحوه في المعجم الکبير، 8 / 121، الرقم : 7553، و المروزي في السنة، 1 / 20، الرقم : 52.
مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم : 1065، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم : 11031، و عبداﷲ بن أحمد في السنة : 2 / 622، الرقم : 1482،
علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا : خبردار ہو جاؤ فتنہ ادھر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہو گا۔’’حضرت شریک بن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے اس بات کی خواہش تھی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق دریافت کروں۔ اتفاقاً میں نے عید کے روز حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو آپ کے کئی دوستوں کے ساتھ دیکھا میں نے دریافت کیا : کیا آپ نے خارجیوں کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کچھ مال پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مال کو ان لوگوں میں تقسیم فرما دیا جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ عنایت نہ فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے محمد! آپ نے انصاف سے تقسیم نہیں کی۔ وہ سیاہ رنگ، سر منڈا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا (اور امام احمد بن حنبل نے اضافہ کیا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدوں کا اثر تھا)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید ناراض ہوئے اور فرمایا : خدا کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی شخص کو انصاف کرنے والا نہ پاؤگے، پھر فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کردو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔
البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : نسبة اليمن إلي إسماعيل، 3 / 1293، الرقم : 3320، و في کتاب : بدء الخلق، باب : صفة إبليس و جنوده، 3 / 1195، الرقم : 3105، و مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم : 2905، و مالک في الموطأ، کتاب : الاستئذان، باب : ما جاء في المشرق، 2 / 975، الرقم : 1757، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 73، الرقم : 5428، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 25، الرقم : 6649
النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في السنن الکبري، 2 / 312، الرقم : 3566، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 421، والبزار في المسند، 9 / 294، 305، الرقم : 3846، والحاکم في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 559، الرقم : 37917، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 452، الرقم 927، والطيالسي في المسند، 1 / 124، الرقم : 923، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، و ابن القيسراني في تذکرة الحفاظ، 3 / 1101، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188
’’حضرت (عبداللہ) بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اﷲ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض) لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (پھر) دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمارے نجد میں بھی میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ (فتنہ وہابیت) وہیں سے نکلے گا۔البخاري في الصحيح، کتاب : الفتن، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم : 6681، و في کتاب : الاستسقاء، باب : ما قيل في الزلازل و الآيات، 1 / 351، الرقم : 990، و الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل الشام و اليمن، 5 / 733، الرقم : 3953، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 118، الرقم : 5987، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 290، الرقم : 7301، و الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 384، الرقم : 13422، و المقري في السنن الواردة في الفتن، 1 / 251، الرقم : 46، و المنذري في الترغيب و الترهيب، 4 / 29، الرقم : 4666.

ذی النورین رضی اللہ عنہ تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

ذی النورین رضی اللہ عنہ تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت عصمہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔
الطبرانيفي المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک وتعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں
الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 253، الحديث رقم : 414، و الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 18، الحديث رقم : 3501، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 512، الحديث رقم : 837.
 ’’حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مصر سے آیا اس نے حج کیا اور چند آدمیوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا، یہ قریش ہیں۔ پوچھا ان کا سردار کون ہے؟ لوگوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما ہیں وہ کہنے لگا اے ابن عمر! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اس کا جواب مرحمت فرمائیے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد سے فرار ہو گئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر دریافت کیا کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہ تھے بلکہ غائب رہے؟ جواب دیا ہاں اس نے اللہ اکبر کہا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ٹھہرئیے میں ان واقعات کی کیفیت بیان کرتا ہوں جو انہوں نے جنگ احد سے راہِ فرار اختیار کی تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا اور انہیں بخش دیاگیا۔ رہا وہ غزوہ بدر سے غائب رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صاحبزادی ان کے نکاح میں تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خود فرمایا تھا کہ تمہارے لئے بھی بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر اور حصہ ہے۔ (تم اس کی تیمار داری کے لئے رکو) رہی بیعت رضوان سے غائب ہونے والی بات تو مکہ مکرمہ کی سر زمین میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی معزز ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جگہ اسے اہل مکہ کے پاس سفیر بنا کر بھیجتے سو بیعت رضوان کا واقعہ تو ان کے مکہ مکرمہ میں (بطورِ سفیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جانے کے بعد پیش آیا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے لئے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے۔ پھر حضرت ابن عمر نے اس شخص سے فرمایا : اب جا اور ان بیانات کو اپنے ساتھ لیتا جا۔

البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اﷲ عنه، 3 / 1353، الحديث رقم : 3495، و ايضا في کتاب المغازي، باب قول اﷲ تعالي إن الذين تولوا منکم، 4 / 1491، الحديث رقم : 3839، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان، 5 / 629، الحديث رقم : 3706، و أحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 101، الحديث رقم : 5772

’’حضرت ام عیاش رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی ام کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر۔
الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 92، الحديث رقم : 236، و الطبراني في المعجم الاوسط، 5 / 264، الحديث رقم : 5269، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و خطيب بغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 364.
’’حضرت عصمہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی۔
الطبرانيفي المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83.

حضرت عثمان غنی ذی النورین تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

حضرت عثمان غنی ذی النورین تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔  ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 64. الحديث رقم 7
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے، اس عالم میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے کرتے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ محمد راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آ کر باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866، الحديث رقم : 2401، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 336، الحديث رقم : 6907، و أبو يعلي في المسند، 8 / 240، الحديث رقم : 6907، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 230، الحديث رقم : 3059
’’حضرت حفصہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی۔ پھر وہ صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی اﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں احمد بن حنبل في المسند، 6!288، الحديث رقم : 26510، و الطبراني في المعجم الکبير، 23!205، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9!81، و عبد بن حميد في المسند، 1!446.
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاں پانی تھا اور (ٹانگیں پانی میں ہونے کے باعث) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہو ا تھا، پس جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ڈھانپ لیا البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 232، الحديث رقم : 3063، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367، و الشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 52.
’’حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی حالت میں اجازت دے دی اور ان کی حاجت پوری فرما دی۔ وہ چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دی۔ وہ بھی اپنی حاجت پوری کرکے چلے گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا اپنے کپڑے درست کر لو، پھر میں اپنی حاجت پوری کرکے چلا گیا، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اس قدر اہتمام نہ فرمایا۔ جس قدر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان ایک کثیرالحیاء مرد ہے اور مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے ان کو اسی حال میں آنے کی اجازت دے دی تو وہ مجھ سے اپنی حاجت نہیں بیان کرسکے گا۔مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866. 1867، الحديث رقم : 2402، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 71، الحديث رقم 514، و أبو يعلي في المسند، 8 / 242، الحديث رقم : 4818، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 61، الحديث رقم : 5515، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 231، الحديث رقم : 3060، و البزار في المسند، 2 / 17، الحديث رقم : 355، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 210، الحديث رقم : 600.
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے۔ أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 56، و ابن أبی عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1281.
’’حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے؟ راوی نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرا تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہے اس کی قوم اس کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ اس سے حیاء کرتے ہیں بدر (راوی) کہتے ہیں کہ پھر ہم نے آپ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے ایک گروہ کو دور کیا الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 159، الحديث رقم : 4939، و الطبراني في مسند الشاميين، 2 / 258، الحديث رقم : 1297، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 82.

Monday, November 22, 2010

علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے فرمان روسول تحریرپیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف ضلع خوشاب

علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے فرمان روسول تحریرپیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف ضلع خوشاب
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ میں عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں جبکہ میں نو عمر ہوں اور فیصلہ کرنے کا بھی مجھے علم نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالی عنقریب تمہارے دل کو ہدایت عطا کر دے گا اور تمہاری زبان اس پر قائم کر دے گا۔ جب بھی فریقین تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو جلدی سے فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو جیسے تم نے پہلے کی سنی تھی۔ یہ طریقہ کار تمہارے لیے فیصلہ کو واضح کر دے گا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی بھی فیصلہ کرنے میں شک میں نہیں پڑا۔ أبوداؤد في السنن، کتاب الأقضيه، باب کيف القضاء، 3 / 301، الحديث رقم : 3582، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 83، الحديث رقم : 636، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8417، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 10 / 86.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اﷲ علیک وسلم مجھے بھیج رہے ہیں کہ میں ان کی درمیان فیصلہ کروں حالانکہ میں نوجوان ہوں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہے؟ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پہ مارا پھر فرمایا : اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا فرما اور اس کی زبان کو حق پر قائم رکھ۔ فرمایا اس کے بعد میں نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی بھی شک نہیں کیا۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
 ابن ماجة في السنن، کتاب الأحکام، باب ذکر القضاة، 2 / 774، الحديث رقم : 2310، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8419، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32068، و البزار في المسند، 3 / 126، الحديث رقم : 912، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 61، الحديث رقم : 94، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 580، الحديث رقم : 984، وابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 337
حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں سے سب سے اچھا فیصلہ فرمانے والا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
 الحاکم في المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4656، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 167، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338.
حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضي اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : علی ہم سب سے بہتر اور صائب فیصلہ فرمانے والے ہیں اور ابی بن کعب ہم سب سے بڑھ کر قاری ہیں۔
الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 345، الحديث رقم : 5328، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 113، الحديث رقم : 21123.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ ہم میں سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والے علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339.
’’حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس ناقابل حل اور مشکل مسئلہ سے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں ہوتے تھے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339
.

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی مجھ سے میں علی سے تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی مجھ سے میں علی سے تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہ الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3720، و الحاکم فی المستدرک علٰی الصحيحين، 3 / 15، الحديث رقم : 4288.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور آپ حجۃ الوداع والے دن وہاں موجود تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور میرا قرض میری طرف سے سوائے میرے اور علی کے کوئی نہیں ادا کرسکتا۔أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 164. ’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرا قرض میری طرف سے سوائے علی کے کوئی نہیں ادا کرسکتا۔  ابن ماجه فی السنن، مقدمه، باب فضائل أصحاب رسول اﷲ، 1 / 44، الحديث رقم : 19.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و نقض میں) میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کرسکتا۔ الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3719، وابن ماجه فی السنن، مقدمه، باب فضائل أصحاب الرسول، فضل علی بن أبی طالب، 1 / 44، الحديث رقم : 119، و أحمد بن حنبل فی المسند 4 / 165، و ابن أبی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32071، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 16، الحديث رقم : 3511، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 3 / 183، الحديث رقم : 1514.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو سورۂ توبہ دے کر بھیجا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کے پیچھے بھیجا پس انہوں نے وہ سورۃ اس سے لے لی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سورۃ کو سوائے اس آدمی کے جو مجھ میں سے ہے اور میں اس میں سے ہوں کوئی اور نہیں لے جاسکتا۔ أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جعفر اور حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنھم ایک دن اکٹھے ہوئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیارا ہوں پھر انہوں نے کہا چلو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت اقدس میں چلتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ اسامہ بن زید کہتے ہیں پس وہ تینوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دیکھو یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا جعفر علی اور زید بن حارثہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو اجازت دو پھر وہ داخل ہوئے اور کہنے لگے یارسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ، انہوں نے کہا یارسول اﷲ! ہم نے مردوں کے بارے عرض کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جعفر! تمہاری خلقت میری خلقت سے مشابہ ہے اور میرے خلق تمہارے خلق سے مشابہ ہیں اور تو مجھ سے اور میرے شجرہ نسب سے ہے، اے علی تو میرا داماد اور میرے دو بیٹوں کا باپ ہے اور میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے ہے اور اے زید تو میرا غلام اور مجھ سے اور میری طرف سے ہے اور تمام قوم سے تو مجھے پسندیدہ ہے
أحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 204، الحديث رقم : 21825، و الحاکم في المستدرک، 3 / 239، الحديث رقم : 4957، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 151، الحديث رقم : 1369، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 274.

مولائے کائنات علی علیہ السلام ایمان میںاول نماز میںاول پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادی سون ضلع خوشاب

مولائے کائنات علی علیہ السلام ایمان میںاول نماز میںاول
 پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی اوگالی شریف وادی سون ضلع خوشاب
یک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 367، و الحاکم في المستدرک، 3 / 447، الحديث رقم : 4663، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 371، الحديث رقم : 32106، و الطبراني في المعجم اکبير، 22 / 452، الحديث رقم : 1102
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔
الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 640، الحديث رقم : 3728، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 121، الحديث رقم : 4587، و المناوي في فيض القدير، 4 / 355
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 642، الحديث رقم : 3734.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے احمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد سب سے پہلے جو شخص اسلام لایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 373، الحديث رقم : 3542، و الطيالسي في المسند، 1 / 360، الحديث رقم : 2753.
’’حضرت اسماعیل بن ایاس بن عفیف کندی صاپ نے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک تاجر تھا، میں حج کی غرض سے مکہ آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا تاکہ آپ سے کچھ مال تجارت خرید لوں اور آپ رضی اللہ عنہ بھی ایک تاجر تھے۔ بخدا میں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس منی میں تھا کہ اچانک ایک آدمی اپنے قریبی خیمہ سے نکلا اس نے سورج کی طرف دیکھا، پس جب اس نے سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں : پھر اسی خیمہ سے جس سے وہ آدمی نکلا تھا ایک عورت نکلی اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوگئی پھر اسی خیمہ میں سے ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا نکلا اور اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا اے عباس! یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ میرابھتیجا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہے۔ میں نے پوچھا : یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا : یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میں نے پوچھا : یہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ ان کے چچا کا بیٹا علی بن ابی طالب ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیا کام کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نبی ہیں حالانکہ ان کی اتباع سوائے ان کی بیوی اور چچا زاد اس نوجوان کے کوئی نہیں کرتا اور وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں : عفیف جو کہ اشعث بن قیس کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے بعد اسلام لائے، پس اس کا اسلام لانا اچھا ہے مگر کاش اﷲ تبارک و تعالیٰ اس دن مجھے اسلام کی دولت عطا فرما دیتا تو میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تیسرا اسلام قبول کرنے والا شخص ہو جاتا۔ أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209 و الحديث رقم : 1787، و ابن عبد البر في الإستيعاب، 3 / 1096، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 388، الحديث رقم : 6479
’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 141، الحديث رقم : 1191، وابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 368، الحديث رقم : 32085، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179.

’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اپنے والد ابو طالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس آئے جبکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم وادیء نخلہ میں نماز ادا کر رہے تھے، پس انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : جو کچھ آپ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی اس بات پر ہنس دئیے پھر فرمایا : اے اﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا : تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الحديث رقم : 776، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، و الطيالسي في المسند، 1 / 36، الحديث رقم : 188.
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔
ابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 267، الحديث رقم : 35954، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 265، الحديث رقم : 6174، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179

’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی اور وہ اس وقت دس سال کے تھے اور حضرت محمد بن عبد الرحمٰن بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نو سال سے بھی کم عمر میں اسلام لائے لیکن آپ نے اپنے بچپن میں بھی کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔ أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21

Tuesday, November 16, 2010

حسین ّ سب کا تحریر:پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

حسین ّ سب کا تحریر:پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
جب ہم احساسات کي نگاہ سے ديکھتے ہيں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں ميں امام حسين کے نام کي خاصيت اورحقيقت و معرفت يہ ہے کہ يہ نام دلربائے قلوب ہےاور مقناطيس کي مانند دلوں کو اپني طرف کھينچتا ہے۔البتہ مسلمانوں ميں بہت سے ايسے افراد بھي ہيں جو ايسے نہيں ہيں اور امام حسين کي معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہيں، دوسري طرف ايسے افراد بھي پائے جاتے ہيںکہ جن کا شمار اہل بيعت ميں بھی نہيں ہوتا ليکن اُن کے درميان بہت سےايسے افراد ہيں کہ حسين ابن علي کا نام سنتے ہي اُن کي آنکھوں سے اشکوںکا سيلاب جاري ہو جاتاہے۔خداوند عالم نے امام حسين کے نام ميںايسي تاثير رکھي ہے کہ جب اُن کا نام ليا جاتا ہے تو دل و جان پر ايکروحاني کيفيت طاري ہوجاتي ہے ۔

جو کربلا کی اندھیری راتوں میں روشنی ھے حسین وہ ھے
شہادتوں کے سفر کا حاصل جو زندگی ھے حسین وہ ھے
گلاب میں جو لہو کی خؤشبو سے تازگی ھے حسین وہ ھے
بزیرٍ خنجر جو ایک پیاسے کی بندگی ھے حسین وہ ھے
حسین میرا، حسین تیرا، حسین سب کا
حسین حیدر کا،مصطفی کا،حسین رب کا
(صفدر ھمدانی)

اسم گرامی : حسین (ع)
لقب : سید الشھداء۔اس کے علاوہ سید وسبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ سبط اورسید خود رسولکریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص 312) ۔
کنیت : ابو عبد اللہ
والد کا نام : علی (ع)
والدہ کا نام : فاطمہ زھرا (ع)
تاریخ ولادت : 3شعبان 4ھء
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : 12 سال
عمر : 57 سال
تاریخ شہادت :10 / محرم الحرام 61ھء
شہادت کا سبب: یزید ابن معاویہ کے حکم سے شہید کیے گئے
روضہ اقدس : کربلائے معلّیٰ
اولاد کی تعداد :4 بیٹے اور 2 بیٹیاں
بیٹوں کے نام : علی اکبر, علی اوسط , جعفر , عبد اللہ ( علی اصغر )
بیٹیوں کے نام : سکینہ , فاطمہ

خدا کے پیارے نبی کے پیارے علی کے پیارے حسین آئے
ھوا نے سورج کو دی مبارک براں کے پارے حسین آئے
زمیں خوشی سے تھرک رھی تھی تھے رقصاں تارے حسین آئے
شفق،صدف،روشنی، ھوایئں سبھی پکارے حسین آئے
(صفدر ھمدانی)

ابھیآپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میںدیکھا کہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا کاٹ کران کی آغوش میں رکھا گیا ہےاس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم کی خدمت میںحاضرہوکرعرض پرداز ہوئیں کہ حضورآج ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ حضرت نےخواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے۔ اے امالفضل کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہو گا جو تمہاری آغوش میں پرورش پائے گا ۔

ھجرتکے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ھوئی . اس خوشخبری کوسن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , دائیں کان میںاذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دی . پیغمبر کامقدس لعاب دھن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جارھی تھی مگرآنے والے حالات کاعلم پیغمبر کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہتا تھا .

نشو و نما
پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دنبھردو بچّوں کی پرورش ھونے لگی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کااور اسلام کا ایک ھی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رھے تھے . ایک طرفپیغمبر اسلام جن کی زندگی کا مقصد ھی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اوردوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عملسے خدا کے محبوب تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جو خواتینکے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ھی قدرت کیطرف سے پیدا ھوئی تھیں، اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ھوئی.

رسول کی محبت
حضرتمحمد مصطفےٰ (ص)اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے ، سینہپر بٹھاتے تھے ، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھےکہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھخاص امتیاز رکھتے تھے .

ایسا ھوا ھے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میںحسین پشت مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشیپشت پر سے علیٰحدہ ھوگیا اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتےھوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ھونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نےاپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پرتشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ دیکھو یہ حسین ھے اسے خوبپہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کےلیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائےتھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سےھوں ۔ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیامیں حسین کی بدولت قائم رھے گا .

جنت کے کپڑے اور فرزندان رسول کی عید
امامحسن اورا مام حسین کا بچپنا ہے عید آنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کےگھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے نہیں ہے ۔بچوں نے ماں کے گلے میںبانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیںگے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہابچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سےپھرکپڑوں کا تقاضا کیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔

ابھیصبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہدروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدہ عالم کی خدمتمیں اسے پیش کیا اب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامےدوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہابچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کیتوکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے،امام جان ہمیںرنگین کپڑے چاہئیں ۔

حضور انورکواطلاع ملی،تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گےاتنے میں جبرائیل آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفیکے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہنا سرخ جوڑاحسین نے زیبتن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکےمہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے بچو، رسالت کی باگڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضہ الشہداءص 189 بحارالانوار) ۔

بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشتپربٹھا کردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کیآوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔

امام حسین کا سردار جنت ہونا
یغمبراسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ”الحسن و الحسین سیدا شباباہل الجنہ و ابوہما خیر منہما“ حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اورانکے پدر بزرگواران دنوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ) صحابی رسول جناب حذیفہیمانی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات صلعم کو بے انتہا مسروردیکھ کرپوچھا حضور،افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرےبچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ”ان فاطمہ سیدہ نساء اہلالجنہ وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنہ“ فاطمہ جنت کی عورتوں کیسردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد 7 ص 107،تاریخ الخلفاص 123، اسدالغابہ ص 12، اصابہ جلد 2ص 12، ترمذی شریف، مطالبالسول ص 242 صواعق محرقہ ص 114) ۔

رسول کی وفات کے بعد
امامحسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال ھی کی تھی جب انتہائی محبت کرنےوالے نانا کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالبعلیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور تھا .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوارحالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رھے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرتکا بھی مطالعہ فرماتے رھے .

یہوھی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کیمنزلوں کو طے کیا۔35ھ میں جب حسین کی عمر31 برس کی تھی عام مسلمانوں نےحضرت علی ا بن ابی طالب علیھما السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میںجمل، صفین اور نھروان کی جنگ ھوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنےبزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ھوئے اور شجاعت کے جوھر بھیدکھلائے 40ھ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شھید ھوئے۔

اوراب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ھوئیں جوحضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایکباوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امامحسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکےمعاویہ کے ساتہ صلح کرلی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضیھوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعتمیں مصروف رھے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کےساتھ ھوئے تھے بالکل پورا نہ کیا بلکہ امام حسن علیہ السّلام کو زھر کےذریعہ شھید بھی کرا دیا-

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کےشیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا، سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیااور سب سے آخر میں اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کوجانشین مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولیعہد بنا دیا ۔ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زورو زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکادیا گیا-

امام حسين کا دورانِ جواني
پيغمبراکرم کي وفات کے بعد سے امير المومنين کي شہادت تک کا پچيس سالہ دور ہے۔اِس ميں يہ شخصيت، جوان، رشيد، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں ميں آگے آگے ہے،عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں ميں حصہ ليتا ہے اور اسلامي معاشرے کے تماممسلمان اِس کي عظمت وبزرگي سے واقف ہيں۔ جب بھي کسي جواد و سخي کا نام آتاہے تو سب کي نگاہيں اِسي پر مرکوز ہوتي ہيں، مکہ ومدينے کے مسلمانوں ميں،ہر فضيلت
ميں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، يہ ہستي خورشيد کيمانند جگمگا رہي ہے، سب ہي اُس کا احترام کرتے ہيں، خلفائے راشدين بھيامام حسن اور امام حسين کا احترام کرتے ہيں ، اِن دونوں کي عظمت و بزرگيکے قولاً و عملاً قائل ہيں، ان دونوں کے نام نہايت احترام اور عظمت سے ليےجاتے ہيں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظير جوان اور سب کے نزديک قابلاحترام۔ اگر اُنہي ايام ميں کوئي يہ کہتا کہ يہي جوان (کہ جس کي آج تماتني تعظيم کررہے ہو) کل اِسي امت کے ہاتھوں قتل کيا جائے گا تو شايد کوئييقين نہ کرتا۔

امام حسين کا دورانِ غربت
سيدالشہدا کي حيات کا تيسرا دور، امير المومنين کي شہادت کے بعد کا دور ہے،يعني اہل بيت کي غربت و تنہائي کا دور۔ امير المومنين کي شہادت کے بعدامام حسن اور امام حسين مدينے تشريف لے آئے۔حضرت علي کي شہادت کے بعد امامحسين بيس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام ١ رہے اور آپ تمام مسلمانوںميں ايک بزرگ مفتي کي حيثيت سے سب کيلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلامميں داخل ہو نے والوںک ي توجہ کا مرکز، اُن کي تعليم وتر بيت کا محوراوراہل بيت سے اظہا رعقيدت و محبت رکھنے والے معنوي امام اس لحاظ سے کہامير المومنين کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسن کو منتقل ہوئي اور آپ کيشہادت کے بعد امامت ، امام حسين کو منتقل ہوئي۔ امام حسن کي امامت کازمانہ يا امام حسين کي اپني امامت کا دور، دونوں زمانوں ميں امام حسين ٢٠سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام رہے ۔ (مترجم)

اخلاق و اوصاف
امامحسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کی تیسری فرد اور عصمت و طہارت کا باقاعدہمجسمہ تھے- آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کےدوست و دشمن سب ھی قائل تھے- آپ نےپچیس حج پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اورشجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا “ حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ھے “۔ چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروںاور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رھتا تھا اور کوئی سائل محروم واپسنھیں ھوتا تھا-

اسی وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ھو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھےاور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارکپر پڑ گئے تھے- حضرت ھمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ “ جب کسی صاحبِ ضرورت نےتمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارےہاتھ بیچ ڈالی- اب تمھارا فرض یہ ھے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کمسے کم اپنی ھی عزتِ نفس کا خیال کرو“۔

غلاموںاور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپانھیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ھواتھا- مذھبی مسائل اور اھم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا- ۔ آپرحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثارایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتےتھے-

ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہراستے میں چند مساکین بیٹھے ھوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رھے تھے اور آپ کوپکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہکھانے میں شرکت نہیں فرمائی اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ھے مگران کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نھیں ھوا-

اس خاکساری کے باوجود آپکی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماھوتے تھے لوگنگاہ اٹھا کر بات بھی نہیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھےوہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے-

ایک مرتبہ حضرت امامحسین علیہ السّلام نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کےاعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی ۔ اس خط کو پڑھ کرمعاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ھوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپبھی اتنا ھی سخت خط کاجواب لکھئیے- معاویہ نے کہا, “میں جو کچھ لکھوں گاوہ اگر غلط ھو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاھوں تو بخداحسین میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی عیب نھیں ملتا“۔

آپ کی اخلاقیجراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات واستقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ھیں-

انسب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کیکوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دناختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ھٹے- آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلامیں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بےمثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی۔

دين ميں ہونے والي تحريفات سے مقابلہ
امامحسين کي عبادت اور حرم پيغمبر ميں آپ کا اعتکاف اور آپ کي معنوي رياضت اورسير و سلوک؛ سب امام حسين کي حيات مبارک کا ايک رُخ ہے۔ آپ کي زندگي کادوسرا رُخ علم اور تعليمات اسلامي کے فروغ ميں آپ کي خدمات اور تحريفات سےمقابلہ کيے جانے سے عبارت ہے۔

اُس زمانے ميں ہونے والي تحريف ديندرحقيقت اسلام کيلئے ايک بہت بڑي آفت و بلا تھي کہ جس نے برائيوں کے سيلابکي مانند پورے اسلامي معاشرے کو اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ يہ وہ زمانہتھا کہ جب اسلامي سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درميان اِسبات کي تاکيد کي جاتي تھي کہ اسلام کي سب سے عظيم ترين شخصيت پر لعن اورسبّ و شتم کريں۔

اگر کسي پر الزام ہوتا کہ يہ امير المومنين کيولايت و امامت کا طرفدار اور حمايتي ہے تو اُس کے خلاف قانوني کاروائي کيجاتي، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّۃِ وَالآَخذُ بِالتُّھمَۃِ‘‘،(صرف اِس گمان وخيال کي بنا پر کہ يہ اميرالمو منين کا حمايتي ہے ، قتل کرديا جاتا اورصرف الزام کي وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ ليا جاتا اور بيت المال سے اُسکاوظيفہ بند کرديا جاتا)۔

اِن دشوار حالات ميں امام حسين ايک مضبوطچٹان کي مانند جمے رہے اور آپ نے تيز اور برندہ تلوار کي مانند دين پر پڑےہوئے تحريفات کے تمام پردوں کو چاک کرديا، (ميدان منيٰ ميں) آپ کا وہمشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات يہ سب تاريخ ميں محفوظ ہيںاور اِس بات کي عکاسي کرتے ہيں کہ امام حسين اِس سلسلے ميں کتني بڑي تحريککے روح رواں تھے۔

امر بالمعروف و نہي عن المنکر
آپٴنے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر بھي وسيع پيمانے پر انجام ديا اور يہامر و نہي، معاويہ کے نام آپ کے خط کي صورت ميں تاريخ کے اوراق کي ايکناقابل انکار حقيقت اورقابل ديد حصّہ ہيں۔ آپ کا وہ عظيم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اوردليرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر انجام دينا دراصل يزيدکے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدينے سے کربلا کيلئے آپ ٴکي روانگي تک کےعرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپٴ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہيعن المنکر تھے۔ آپ ٴخود فرماتے ہيں کہ ’’اُرِيدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ واَنہٰي عَنِ المُنکَرِ‘‘، ’’ميں نيکي کا حکم دينا اور برائي سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

زندگي کے تين ميدانوں ميں امام حسين کي جدوجہد
امام حسين اپني انفرادي زندگي _ تہذيب نفس اور تقويٰ ميں بھي اتني بڑي تحريک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتي ميدان ميں بھي تحريفات سے مقابلہ، احکام الہي کي ترويج و اشاعت ، شاگردوں اور عظيم الشان انسانوں کي تربيت کو بھي انجام ديتے ہیں نيز سياسي ميدان ميں بھي کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے عبارت ہے، عظيم جدوجہد اور تحريک کے پرچم کو بھي خود بلند کرتے ہیں۔ يہ عظيم انسان انفرادي ، ثقافتي اور سياسي زندگي ميں بھي اپني خود سازي ميں مصروف عمل ہے۔

اب ہم واقعہ کربلا کي طرف رُخ کرتے ہيں ۔ واقعہ کربلا ايک جہت سے بہت اہم واقعہ ہے اورخود يہ مسئلہ اُن افراد کيلئے درس ہے کہ جو امام حسين کو اپنا آئيڈيل قرار ديتے ہيں۔

واقعہ کربلا آدھے دن يا اِس سے تھوڑي سي زيادہ مدت پر محيط ہے اور اُس ميں بہتر (٧٢) کے قريب افراد شہيد ہوئے ہيں ۔ دنيا ميں اور بھي سينکڑوں شہدا ہيں ليکن واقعہ کربلا نے اپني مختصر مدت اور شہدا کي ايک مختصر سي جماعت کے ساتھ اتني عظمت حاصل کي ہے اور حق بھي يہي ہے ؛ واقعہ کربلا روح اور معني کے لحاظ سے اہميت کا حامل ہے۔

آوازہ یا حسین کا پھر نینوا میں ھے
شبیر تیرے خون کی خوشبو ھوا میں ھے

چہلم کی شان سے ھے پریشان یزیدٍ وقت
زینب تری دعا کا اثر کا اثر کربلا میں ھے
(صفدر ھمدانی)

روح کربلا
واقعہ کربلا کي روح و حقيقت يہ ہے کہ امام حسين اِ س واقعہ ميں ايک لشکر يا انسانوں کي ايک گروہ کے مد مقابل نہيں تھے، ہرچند کہ وہ تعداد ميں امام حسين کے چند سو برابر تھے،بلکہ آپ انحراف و ظلمات کي ايک دنيا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اِ س واقعہ کي يہي بات قابل اہميت ہے ۔ سالار شہيدان اُس وقت کج روي، ظلمت اور ظلم کي ايک پوري دنيا کے مقابلے ميں کھڑے تھے اور يہ پوري دنيا تمام مادي اسباب و سائل کي مالک تھي يعني مال و دولت، طاقت ، شعر، کتاب، جھوٹے راوي اور درباري ملا، سب ہي اُس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کي يہي چيزيں دوسروں کي وحشت کا سبب بني ہوئي تھيں۔

ايک معمولي انسان يا اُس سے ذرا بڑھ کر ايک اور انسان کا بدن اُس دنيا ئے ظلمت و ظلم کي ظاہري حشمت ، شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کو ديکھ کر لرز اٹھتا تھا ليکن يہ سرور شہيداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اُس جہان شر کے مقابلے ميں ہرگز نہيں لرزے ، آپ ميں کسي بھي قسم کا ضعف و کمزوري نہيں آئي اور نہ ہي آپ نے (اپني راہ کے حق اور مدمقابل گروہ کے باطل ہونے ميں) کسي قسم کا شک وترديد کيا، (جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زيادتي کا مشاہدہ کيا تو) آپ فوراً ميدان ميں اتر آئے۔ اس واقعہ کي عظمت کاپہلو يہي ہے کہ اس ميں خالصتاً خدا ہي کيلئے قيام کيا گيا تھا۔

’’حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ‘‘کا معني
کربلا ميں امام حسين کا کام بعثت ميں آپ کے جد مطہر حضرت ختمي مرتبت کے کاموں سے قابل تشبيہ و قابل موازنہ ہے، يہ ہے حقيقت۔ جس طرح پيغمبر اکرم نے تن ِ تنہا پوري ايک دنيا سے مقابلہ کيا تھا امام حسين بھي واقعہ کربلا ميں جہانِ با طل کے مدمقابل تھے؛ حضرت رسول اکرم بھي ہرگز نہيں گھبرائے ، راہ حق ميں ثابت قدم رہے اور منزل کي جانب پيش قدمي کرتے رہے، اسي طرح سيد الشہدا بھي نہيں گھبرائے، ثابت قدم رہے اور آپ ٴنے دشمن کے مقابل آکر آنکھوں ميں آنکھيں ڈال ديں۔ تحريک نبوي اور تحريک حسيني کا محور و مرکز ايک ہي ہے اور دونوں ايک ہي جہت کي طرف گامزن تھے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں’’حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ ‘‘ کا معني سمجھ ميں آتا ہے ۔ يہ ہے امام حسين کے کام کي عظمت۔
ْْْْٰ

قيام امام حسين کي عظمت!
امام حسين نے شب عاشور اپنے اصحاب و انصار سے فرمايا تھا کہ’’ آپ سب چلے جائيے اور يہاں کوئي نہ رہے ، ميں اپني بيعت تم سب پر سے اٹھاليتا ہوں اور ميرے اہل بيت کو بھي اپني ساتھ لے جاو، کيونکہ يہ ميرے خون کے پياسے ہيں‘‘۔ امام حسين کے يہ جملے اگر اُن کے اصحاب قبول بھي کرليتے اور امام حسين يکتا و تنہا يا دس افراد کے ساتھ ميدان ميں رہ جاتے توسيد الشہدا کے کام کي عظمت کبھی کم نہیں ھوتی بلکہ ھمیشہ کی طرح اسي عظمت و اہميت کے حامل ہوتے ۔

امام حسين کي عظمت و شجاعت
امام حسين کے کام کي عظمت يہ تھي کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعي اور انحراف کے پورے ايک جہان کے دباو کو قبول نہيں کيا۔ مدينے ميں صحابہ کرام کي اچھي خاصي تعداد موجود تھي جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدينہ ميں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ ميں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے ميں ثابت قدمي کا مظاہرہ کيا اور جنگ کي ۔

ليکن امام حسین دوسري شجاعت کے مالک تھے، اِس واقعہ کربلا کي عظمت کا پہلو يہ ہے کہ امام حسين ايک ايسي طاقت و قدرت کے مد مقابل سيسہ پلائي ہوئي ديوار بن گئے کہ جو تمام مادي اسباب و وسائل کي مالک تھي۔
امام حسين کے دشمن کے پاس مال و دولت تھي ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے ليس سپاہي اس کي فوج ميں شامل تھے اور ثقافتي و معاشرتي ميدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھي اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قيامت تک پوري دنيا پر محيط ہے ، کربلا صرف ميدان کربلا کے چند سو ميٹر رقبے پر پھيلي ہوئي جگہ کا نام نہيں ہے۔ آج کي دنيائے استکبار و ظلم اسلامي جمہوريہ کے سامنے کھڑي ہے۔

نفس نفس علی علی زباں زباں حسین ھے
کہاں کوئی بتا سکا کہاں کہاں حسین ھے

کربلا کے بعد اب یہ فیصلہ ھو گیا
جہاں جہاں یزید ھے وہاں وہاں حسین ھے
(صفدر ھمدانی)

کربلا میں ورود
2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات کو امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو گئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کر بلا زرد ہو گئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرہ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔

صاحب مخزن البکا لکھتے ہیں کہ کربلا پر درود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارادل دھل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں بابا جان نے صفیں کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہے گا۔کتاب مائتین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہو گیا۔

امام حسین (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام
کربلا پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کیلئے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسہر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا۔جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تمھاری دعوت پر میں کربلا تک آگیا ہوں الخ۔قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتار کر لیے گئے۔اور انھیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکر پیش کر دیا گیا۔ابن زیاد نے خط مانگا۔قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیا اوربروایتے اس خط کو کھا لیاابن زیاد نے انھیں بضرب تازیانہ شہید کر دیا۔

عبیداللہ ابن زیاد کا خط امام حسین (ع) کے نام
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلا پہنچنے کے بعد حرنے ابن زیاد کو آپ کی رسیدگی کربلا کی خبردی۔ا س نے امام حسین (ع) کو فوراََ ایک خط ارسال کیا۔جس میں لکھا کہ مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں ،یا آپ کو قتل کر دوں۔امام حسین (ع) نے اس خط کا جواب نہ دیا۔اَلقَاہُ مِن یَدِہ اور اسے زمین پر پھینک دیا۔ اس کے بعد آپ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے کربلاپہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اور تحریر فرمایا کہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے اور عنقریب عروس موت سے ہم کنار ہو جاؤں گا۔