میلادِ اَنبیاء قرآن مجید میں حصہ اول تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
سورۃ الانعام میں انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ الأنعام، 6 : 86، 87
’اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا) اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشیo اور ان کے آباء (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لیے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی تھی
سورۃ اِبراہیم 14 : 39
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے
سورۃ مریم ذکرحضرت زکریا علیہ السلام مريم، 19 : 2، 3
یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اُس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی)o جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکارا
سورۃ مريم، 19 : 13
اور (ہم نے) اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھے
سورۃ مريم، 19 : 16
اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیں
سورۃ مريم، 19 : 41
’’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے
سورۃ مريم، 19 : 51
::اور (اس) کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے، بے شک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پا کر) برگزیدہ ہو چکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے
سورۃ مريم،19 : 54، 55
’’اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل کا ذکر کریں، بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھےo اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی اُن کا رب اُن سے راضی تھا)
سورۃ مريم،19 56، 57
::اور (اس) کتاب میں اِدریس کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےo اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھالیا تھا
سورۃ الانبياء 21 : 51،50
’’اور یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اس سے انکار کرنے والے ہو
’’اور بے شک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی اِستعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھے
سورۃ الانبياء 21 :72
حضرت لوط، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کے ذکر کے آخر میں :: اور ہم نے ان سب کو صالح بنایا تھا ::
سورۃ الانبياء 21 : 73
’’اور ہم نے انہیں(اِنسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکٰوۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے
حضرت ایوب علیہ السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 84
’’تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیے) یہ ہماری طرف سے خاص رحمت اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے (کہ اللہ صبر و شکر کا اجر کیسے دیتا ہے)
حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذو الکفل علیہم السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 85، 86
’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل (کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھےo اور ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا، بے شک وہ نیکوکاروں میں سے تھے
حضرت یونس حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ علیہم السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 90
’’بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے
پیرآف اوگالی شریف
Thursday, December 2, 2010
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کائنات کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ جس دن حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس جہان میں تشریف آوری ہوئی، خوشی کے اِظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دن ہے دو یوم کی یاد منانے کی اہمیت احادیث کی روشنی میں پیش ہے
یومِ نوح علیہ السلام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کی روایت ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247 حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702 امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ)
یومِ موسیٰ علیہ السلام
جب حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کرتے ہوئے بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
بخاري کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727 ؛‘بخاري کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900 :: بخاري کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
أبوداود کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444 :: المسند أحمد بن حنبل، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
مسلم، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
سنن ابن ماجة،کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734:: المسند أبو يعليٰ، 4 : 441، رقم : 2567
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کائنات کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ جس دن حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس جہان میں تشریف آوری ہوئی، خوشی کے اِظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دن ہے دو یوم کی یاد منانے کی اہمیت احادیث کی روشنی میں پیش ہے
یومِ نوح علیہ السلام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کی روایت ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247 حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702 امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ)
یومِ موسیٰ علیہ السلام
جب حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کرتے ہوئے بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
بخاري کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727 ؛‘بخاري کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900 :: بخاري کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
أبوداود کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444 :: المسند أحمد بن حنبل، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
مسلم، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
سنن ابن ماجة،کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734:: المسند أبو يعليٰ، 4 : 441، رقم : 2567
نمازِ پنجگانہ اَنبیاء کرام علیہم السلام کی یادگار ہے تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریم چشتیہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
نمازِ پنجگانہ اَنبیاء کرام علیہم السلام کی یادگار ہے:: تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریم چشتیہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
نمازِ فجر ’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نمازِ فجر ہوگئی۔
نمازِ ظہر ’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس وہ نمازِ ظہر ہوگئی۔
نمازِ عصر’’جب حضرت عزیر علیہ السلام کو (سو سال بعد) اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا : آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا : ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔
نمازِ مغرب حضرت عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے(شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت وکمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ (اس طرح تین رکعات ادا کیں، چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی۔) پس وہ نمازِ مغرب ہوگئی۔
نمازِ عشاء
جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں:: ۔شرح معانی الآثارامام طحاوی‘
نمازِ فجر ’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نمازِ فجر ہوگئی۔
نمازِ ظہر ’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس وہ نمازِ ظہر ہوگئی۔
نمازِ عصر’’جب حضرت عزیر علیہ السلام کو (سو سال بعد) اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا : آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا : ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔
نمازِ مغرب حضرت عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے(شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت وکمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ (اس طرح تین رکعات ادا کیں، چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی۔) پس وہ نمازِ مغرب ہوگئی۔
نمازِ عشاء
جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں:: ۔شرح معانی الآثارامام طحاوی‘
Wednesday, December 1, 2010
فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جوکہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں مار دو پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو یقیناً ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 36، 44، والحاکم في المستدرک، 2 / 159، الرقم : 2645، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 937، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 637، الرقم : 1519، وقال : إسناده حسن، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 187، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 322، الرقم : 3460، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 230، والحارث في المسند، (زوائد الهيثمي)، 2 / 714، الرقم : 704.
’’حضرت طارق بن زیاد نے بیان کیا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کیا پھر فرمایا : دیکھو بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے کہ تیر شکار سے نکل جاتا ہے
۔النسائي في السنن الکبري، 5 / 161، الرقم : 8566، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 107، الرقم : 848، وفي فضائل الصحابة، 2 / 714، الرقم : 1224، والخطيب في تاريخ بغداد، 14 / 362، الرقم : 7689، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 256، الرقم : 247، والمزي في تهذيب الکمال، 13 / 338، الرقم : 2948
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔
الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، و المناوي في فيض القدير، 4 / 118
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں جمع ہوں گے اور نمازیں ادا کریں گے لیکن ان میں سے مومن کوئی نہیں ہو گا۔
ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 163، الرقم : 30355، 7 / 505، الرقم : 37586، و الحاکم في المستدرک، 4 / 489، الرقم : 8365، و الديلمي في الفردوس بماثور الخطاب، 5 / 441، الرقم : 8086، و أبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 266، و الفريابي في صفة المنافق، 1 / 80، الرقم : 108.110
’’حضرت ابوسعيد خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اﷲ! میں فلاں فلاں وادی سے گزرا تو میں نے ایک نہایت متواضع ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے والے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اس کے پاس جاکر اسے قتل کردو۔ راوی نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو انہوں نے جب اسے اس حال میں (نماز پڑھتے) دیکھا تو اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (ویسے ہی) لوٹ آئے راوی نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جاؤ اسے قتل کرو، حضرت عمر گئے اور انہوں نے بھی اسے اسی حالت میں دیکھا جیسے کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کو ناپسند کیا۔ کہا کہ وہ بھی لوٹ آئے۔ اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میں نے اسے نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا پسند نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! جاؤ اسے قتل کردو کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے، تو انہیں وہ نظر نہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لوٹ آئے، پھر عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر وہ اس میں پلٹ کر نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر پلٹ کر کمان میں نہ آجائے (یعنی ان کا پلٹ کر دین کی طرف لوٹنا ناممکن ہے) سو تم انہیں (جب بھی پاؤ) قتل کر دو وہ بدترین مخلوق ہیں۔
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، الرقم : 11133، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال : رجاله ثقات، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 229، وابن حزم في المحلي، 11 / 104، والشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 351
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو دنیا کو دین کے ذریعے حاصل کریں گے، لوگوں کے سامنے بھیڑ کی کھالوں کا نرم لباس پہنیں گے۔ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی (ایک روایت میں ہے کہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی) اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : ’’کیا یہ لوگ مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا مجھ پر دلیری کرتے ہیں؟ (کہ مجھ سے نہیں ڈرتے؟) مجھے اپنی (ذات کی) قسم! جو لوگ ان میں سے ہوں گے۔ میں ضرور ان پر ایسے فتنے بھیجوں گا جو ان میں سے بردبار لوگوں کو بھی حیران کر دیں گے۔
الترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (59)، 4 / 604، الرقم : 2404.2405، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 235، الرقم : 35624، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 362، الرقم : 6956، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 379، و ابن المبارک في الزهد، 1 / 17، الرقم : 50، والديلمي في الفردوس بما ثور الخطاب، 5 / 510، الرقم : 8919، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 32، الرقم : 41، و ابن هناد في الزهد، 2 / 437، الرقم : 860
’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو حالت سجدہ میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کی اور اس کی طرف لوٹے اور وہ اس وقت بھی (حالتِ) سجدہ میں تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے پھر فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے اپنے بازو چڑھائے تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اس کی طرف دیکھا تو اس کی ظاہری وضع و قطع کو دیکھ کر متاثر ہوگیا)۔ پھر عرض کیا : یا نبی اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں کیسے اس شخص کو قتل کر دوں جو حالت سجدہ میں ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک شخص کھڑا ہوا، عرض کیا : میں، تو اس نے اپنے بازو چڑھائے اور اپنی تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اسے قتل کرنے ہی لگا تھا) کہ اس کے ہاتھ کانپے، عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! میں کیسے ایسے شخص کو قتل کروں جو حالت سجدہ میں گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! اگر تم اسے قتل کردیتے تو وہ فتنہ کا اول و آخر تھا (یعنی یہ فتنہ اسی پر ختم ہو جاتا
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 42، الرقم : 19536، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 457، الرقم : 938، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي) 2 / 713، الرقم : 703، وابن رجب فيجامع العلوم والحکم 1 / 131
’’عبداﷲ بن حارث بن نوفل مولی مقسم ابوالقاسم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب اس کا ایک گروہ ہو گا جو دین سے (ظاہراً) بہت گہری وابستگی رکھنے والے نظر آئیں گے مگر دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ۔ ۔ پھر مکمل حدیث ذکر کی۔
أحمد بن حنبل في الصحيح، 2 / 219، الرقم : 7038، و ابن أبي عاصم في السنة 2 / 453. 454، الرقم : 929.930، و عبداﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 631، الرقم : 1504، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 237، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 176
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک شخص تھا جس کی عبارت گزاری اور مجاہدے نے ہمیں حیرانگی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ یہاں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض اسے خود سے بھی افضل گرداننے لگے تھے) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کا نام اور اس کی صفات بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ ایک دفعہ ہم اس کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ شخص آ گیا۔ ہم نے عرض کیا : وہ یہ شخص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم جس شخص کی خبریں دیتے تھے یقیناً اس کے چہرے پر شیطانی رنگ ہے سو وہ شخص قریب آیا یہاں تک کہ ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے سلام بھی نہیں کیا۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں (تمہیں کہ سچ بتانا) کہ جب تو مجلس کے پاس کھڑا تھا تو نے اپنے دل میں یہ نہیں کہا تھا کہ لوگوں میں مجھ سے افضل یا مجھ سے زیادہ برگزیدہ شخص کوئی نہیں؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم! ہاں (میں نے کہا تھا)۔ پھر وہ (مسجد میں) داخل ہوا نماز پڑھنے لگا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ پھر وہ شخص مڑا مسجد کے صحن میں آیا، نماز کی تیاری کی، ٹانگیں سیدھی کیں اور نماز پڑھنے لگا) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا کہنے لگے۔ سبحان اللہ میں نماز پڑھتے شخص کو (کیسے) قتل کروں؟ جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تو وہ باہر نکل گئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اسے قتل کرنا نا پسند کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں چہرہ جھکائے دیکھا۔ حضرت عمر نے کہا : حضرت ابوبکر مجھ سے افضل ہیں لہٰذا وہ بھی (اسے قتل کئے بغیر) باہر نکل گئے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سرجھکائے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا ناپسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اس شخص کو قتل کرے گا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی اس کے (قتل کے) لئے ہو اگر تم نے اسے پالیا تو (تم ضرور اسے قتل کر لو گے) راوی نے بیان کیا کہ وہ اندر اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ چلا گیا تھا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ حضرت علی نے عرض کیا : میں نے دیکھا تو وہ چلا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ قتل کردیا جاتا تو میری امت میں دوآدمیوں میں بھی کبھی اختلاف نہ ہوتا وہ (فتنہ میں) ان کا اول و آخر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا میں نے حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا : فرماتے ہیں : وہ وہی پستان (کے مشابہ ہاتھ) والا تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شیطان کا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوگا (یا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوا) جبکہ اگر تم اسے قتل کر دیتے تو تم میں سے دو آدمیوں میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔ بیشک بنی اسرائیل میں اختلاف سے وہ اکتہر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور تم عنقریب اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ فرقوں میں بٹ جاؤ گے ان میں سے کوئی راہ راست پر نہیں ہوگا سوائے ایک کے، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جماعت (سب سے بڑا گروہ) اس کے علاوہ دوسرے سب آگ میں جائیں گے۔
أبو يعلي في المسند، 1 / 90، الرقم : 90، 7 / 155، 168، الرقم : 4143، 4127، و عبدالرزاق في المصنف، 10 / 155، الرقم : 18674، و أبو نعيم فيحلية الأولياء، 3 / 52، و المروزي في السنة، 1 / 21، الرقم : 53، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 17 / 69، الرقم : 2499، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 226
’’عبدالملک نے ابوحرہ سے روایت بیان کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ) کو (اپنا گورنر بنا کر) نفاذ حکومت کے لئے بھیجا تو خوارج عبداللہ بن وھب راسبی (خارجی سردار) کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے انہیں بلیغ خطبہ دیا جس میں اس نے انہیں اس دنیا سے بے رغبتی اور آخرت اور جنت کی رغبت دلائی اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا۔ پھر کہا : ہمارے لئے ضروری ہے ہم پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہوجائے۔ ۔ ۔ پھر سب شریح بن ابی اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو ابن وھب نے کہا : اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہئے کہ (اسے اپنا مرکز بناکر) ہم سب اسی میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں۔ کیونکہ اہلِ حق اب تم ہی لوگ ہو۔
ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 115، وابن الأثير في الکامل، 3 / 213. 214، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 285.286 وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، (حتي 257ه)، 5 / 130.131
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جوکہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں مار دو پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو یقیناً ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 36، 44، والحاکم في المستدرک، 2 / 159، الرقم : 2645، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 937، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 637، الرقم : 1519، وقال : إسناده حسن، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 187، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 322، الرقم : 3460، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 230، والحارث في المسند، (زوائد الهيثمي)، 2 / 714، الرقم : 704.
’’حضرت طارق بن زیاد نے بیان کیا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کیا پھر فرمایا : دیکھو بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے کہ تیر شکار سے نکل جاتا ہے
۔النسائي في السنن الکبري، 5 / 161، الرقم : 8566، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 107، الرقم : 848، وفي فضائل الصحابة، 2 / 714، الرقم : 1224، والخطيب في تاريخ بغداد، 14 / 362، الرقم : 7689، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 256، الرقم : 247، والمزي في تهذيب الکمال، 13 / 338، الرقم : 2948
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔
الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، و المناوي في فيض القدير، 4 / 118
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں جمع ہوں گے اور نمازیں ادا کریں گے لیکن ان میں سے مومن کوئی نہیں ہو گا۔
ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 163، الرقم : 30355، 7 / 505، الرقم : 37586، و الحاکم في المستدرک، 4 / 489، الرقم : 8365، و الديلمي في الفردوس بماثور الخطاب، 5 / 441، الرقم : 8086، و أبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 266، و الفريابي في صفة المنافق، 1 / 80، الرقم : 108.110
’’حضرت ابوسعيد خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اﷲ! میں فلاں فلاں وادی سے گزرا تو میں نے ایک نہایت متواضع ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے والے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اس کے پاس جاکر اسے قتل کردو۔ راوی نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو انہوں نے جب اسے اس حال میں (نماز پڑھتے) دیکھا تو اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (ویسے ہی) لوٹ آئے راوی نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جاؤ اسے قتل کرو، حضرت عمر گئے اور انہوں نے بھی اسے اسی حالت میں دیکھا جیسے کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کو ناپسند کیا۔ کہا کہ وہ بھی لوٹ آئے۔ اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میں نے اسے نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا پسند نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! جاؤ اسے قتل کردو کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے، تو انہیں وہ نظر نہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لوٹ آئے، پھر عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر وہ اس میں پلٹ کر نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر پلٹ کر کمان میں نہ آجائے (یعنی ان کا پلٹ کر دین کی طرف لوٹنا ناممکن ہے) سو تم انہیں (جب بھی پاؤ) قتل کر دو وہ بدترین مخلوق ہیں۔
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، الرقم : 11133، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال : رجاله ثقات، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 229، وابن حزم في المحلي، 11 / 104، والشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 351
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو دنیا کو دین کے ذریعے حاصل کریں گے، لوگوں کے سامنے بھیڑ کی کھالوں کا نرم لباس پہنیں گے۔ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی (ایک روایت میں ہے کہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی) اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : ’’کیا یہ لوگ مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا مجھ پر دلیری کرتے ہیں؟ (کہ مجھ سے نہیں ڈرتے؟) مجھے اپنی (ذات کی) قسم! جو لوگ ان میں سے ہوں گے۔ میں ضرور ان پر ایسے فتنے بھیجوں گا جو ان میں سے بردبار لوگوں کو بھی حیران کر دیں گے۔
الترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (59)، 4 / 604، الرقم : 2404.2405، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 235، الرقم : 35624، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 362، الرقم : 6956، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 379، و ابن المبارک في الزهد، 1 / 17، الرقم : 50، والديلمي في الفردوس بما ثور الخطاب، 5 / 510، الرقم : 8919، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 32، الرقم : 41، و ابن هناد في الزهد، 2 / 437، الرقم : 860
’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو حالت سجدہ میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کی اور اس کی طرف لوٹے اور وہ اس وقت بھی (حالتِ) سجدہ میں تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے پھر فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے اپنے بازو چڑھائے تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اس کی طرف دیکھا تو اس کی ظاہری وضع و قطع کو دیکھ کر متاثر ہوگیا)۔ پھر عرض کیا : یا نبی اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں کیسے اس شخص کو قتل کر دوں جو حالت سجدہ میں ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک شخص کھڑا ہوا، عرض کیا : میں، تو اس نے اپنے بازو چڑھائے اور اپنی تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اسے قتل کرنے ہی لگا تھا) کہ اس کے ہاتھ کانپے، عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! میں کیسے ایسے شخص کو قتل کروں جو حالت سجدہ میں گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! اگر تم اسے قتل کردیتے تو وہ فتنہ کا اول و آخر تھا (یعنی یہ فتنہ اسی پر ختم ہو جاتا
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 42، الرقم : 19536، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 457، الرقم : 938، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي) 2 / 713، الرقم : 703، وابن رجب فيجامع العلوم والحکم 1 / 131
’’عبداﷲ بن حارث بن نوفل مولی مقسم ابوالقاسم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب اس کا ایک گروہ ہو گا جو دین سے (ظاہراً) بہت گہری وابستگی رکھنے والے نظر آئیں گے مگر دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ۔ ۔ پھر مکمل حدیث ذکر کی۔
أحمد بن حنبل في الصحيح، 2 / 219، الرقم : 7038، و ابن أبي عاصم في السنة 2 / 453. 454، الرقم : 929.930، و عبداﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 631، الرقم : 1504، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 237، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 176
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک شخص تھا جس کی عبارت گزاری اور مجاہدے نے ہمیں حیرانگی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ یہاں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض اسے خود سے بھی افضل گرداننے لگے تھے) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کا نام اور اس کی صفات بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ ایک دفعہ ہم اس کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ شخص آ گیا۔ ہم نے عرض کیا : وہ یہ شخص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم جس شخص کی خبریں دیتے تھے یقیناً اس کے چہرے پر شیطانی رنگ ہے سو وہ شخص قریب آیا یہاں تک کہ ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے سلام بھی نہیں کیا۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں (تمہیں کہ سچ بتانا) کہ جب تو مجلس کے پاس کھڑا تھا تو نے اپنے دل میں یہ نہیں کہا تھا کہ لوگوں میں مجھ سے افضل یا مجھ سے زیادہ برگزیدہ شخص کوئی نہیں؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم! ہاں (میں نے کہا تھا)۔ پھر وہ (مسجد میں) داخل ہوا نماز پڑھنے لگا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ پھر وہ شخص مڑا مسجد کے صحن میں آیا، نماز کی تیاری کی، ٹانگیں سیدھی کیں اور نماز پڑھنے لگا) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا کہنے لگے۔ سبحان اللہ میں نماز پڑھتے شخص کو (کیسے) قتل کروں؟ جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تو وہ باہر نکل گئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اسے قتل کرنا نا پسند کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں چہرہ جھکائے دیکھا۔ حضرت عمر نے کہا : حضرت ابوبکر مجھ سے افضل ہیں لہٰذا وہ بھی (اسے قتل کئے بغیر) باہر نکل گئے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سرجھکائے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا ناپسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اس شخص کو قتل کرے گا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی اس کے (قتل کے) لئے ہو اگر تم نے اسے پالیا تو (تم ضرور اسے قتل کر لو گے) راوی نے بیان کیا کہ وہ اندر اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ چلا گیا تھا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ حضرت علی نے عرض کیا : میں نے دیکھا تو وہ چلا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ قتل کردیا جاتا تو میری امت میں دوآدمیوں میں بھی کبھی اختلاف نہ ہوتا وہ (فتنہ میں) ان کا اول و آخر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا میں نے حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا : فرماتے ہیں : وہ وہی پستان (کے مشابہ ہاتھ) والا تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شیطان کا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوگا (یا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوا) جبکہ اگر تم اسے قتل کر دیتے تو تم میں سے دو آدمیوں میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔ بیشک بنی اسرائیل میں اختلاف سے وہ اکتہر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور تم عنقریب اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ فرقوں میں بٹ جاؤ گے ان میں سے کوئی راہ راست پر نہیں ہوگا سوائے ایک کے، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جماعت (سب سے بڑا گروہ) اس کے علاوہ دوسرے سب آگ میں جائیں گے۔
أبو يعلي في المسند، 1 / 90، الرقم : 90، 7 / 155، 168، الرقم : 4143، 4127، و عبدالرزاق في المصنف، 10 / 155، الرقم : 18674، و أبو نعيم فيحلية الأولياء، 3 / 52، و المروزي في السنة، 1 / 21، الرقم : 53، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 17 / 69، الرقم : 2499، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 226
’’عبدالملک نے ابوحرہ سے روایت بیان کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ) کو (اپنا گورنر بنا کر) نفاذ حکومت کے لئے بھیجا تو خوارج عبداللہ بن وھب راسبی (خارجی سردار) کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے انہیں بلیغ خطبہ دیا جس میں اس نے انہیں اس دنیا سے بے رغبتی اور آخرت اور جنت کی رغبت دلائی اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا۔ پھر کہا : ہمارے لئے ضروری ہے ہم پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہوجائے۔ ۔ ۔ پھر سب شریح بن ابی اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو ابن وھب نے کہا : اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہئے کہ (اسے اپنا مرکز بناکر) ہم سب اسی میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں۔ کیونکہ اہلِ حق اب تم ہی لوگ ہو۔
ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 115، وابن الأثير في الکامل، 3 / 213. 214، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 285.286 وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، (حتي 257ه)، 5 / 130.131
Subscribe to:
Posts (Atom)