Saturday, July 28, 2012

ولادت امام علی علیہ السلام در کعبہ اورناصبی ملاں کا رد تحریر:ابولحامدپیرمحمدامیرسلطان قادری چشتی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ونشریات پاکستان مشائخ کونسل (دربار عالیہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادٔی سون خوشاب

ولادت امام علی  علیہ السلام در کعبہ اورناصبی ملاں کا رد
تحریر:ابولحامدپیرمحمدامیرسلطان قادری چشتی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ونشریات پاکستان مشائخ کونسل (دربار عالیہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادٔی سون خوشاب)
یہ مسلمہ امر ہے کہ خانہ کعبہ کی افضلیت بیت المقدس سے زیادہ ہے . خانہ کعبہ کے فضائل کی احادیث سے کتب اسلام جھلک رہی ہیں اس کی ذرا سی بے حرمتی سے ابرہہ اپنی افواج سمیت برباد ہوگیا. تمام قرائن و شواھد سے خانہ کعبہ کا افضل ہونا عیاں ہے . ان تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو جو بچہ اس مقدس مقام پر پیدا ہوا اس کا مرتبہ و مقام کیا ہو گا. محقیقین اسلام نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ یہ شرف صرف امام علی (ع) ہی کے لئے ذات احدیت نے مخصوص فرمایا کہ جوف کعبہ کو آپ (ع) کا مولد قرار دیا . مگر ناصبیت جن کا مذہب امام علی سے دشمنی ہے ، وہ ہمیشہ اس کا بغض علی میں انکار کرتے رہے ہیں ، اور حال ہی میںایک ناصبی نے ولادت علی در کعبہ کا انکار کیا ہے . ہم انشا اللہ ، اس بغض ِعلی کا مکمل رد پیش کریں گے ، مگر سب سے پہلے ہم  اس ناصبی ملاں کی خباثت کو بیان کرتے ہیںولادت علی کے حوالے سے ایک بات بہت مشہور ہے ، شاہ ولی اللہ نے بھی لکھا کہ اس بارے میں متواتر روایات ہیں کہ حضرت علی کعبہ میں پیدا ہوئے . اس کے متعلق لوگوں نے نتیجے نکالے کہ کعبہ میں کوئی پیدا نہیں ہوا سوائے علی کے مگر یہ بات بے اصل ہے حقیقت کوئی نہیں .پھیلی بہت زیادہ مگر اصل نہیں .جس بندے کا کعبہ میں پیدا ہونا ثابت ہے وہ حضرت خدیجہ کا بھتیجا حکیم بن حزام ہیں . ان کے بارے میں صحیح ثابت ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور یہ کوئی شرف کی بات نہیں . اگر شرف کی بات ہوتی تو رسول اللہ ۖ کعبہ میں پیدا ہوتے۔اس کے بعدملاں نے حکیم بن حزام کے فضائل بیان کئے جو کہ ہماری اس تحریر سے خارج ہیں۔اب ہم امام علی علیہ السلام کی ولادت ، خانہ کعبہ میں ، کے ثبوت پیش کریں کتب اھل سنت و اھل حدیث سے اور ساتھ میں ملاں ناصبی کا رد بھی پیش کریں گے
پہلا ثبوت
امام المحدثین ، ابو حاکم نیشاپوری ، حدیث کی شہرہ آفاق تصنیف مستدرک میں لکھتے ہیں
آخری بات میں معصب نے وہم کیا ہے حالانکہ متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسدنے علی بن ابی طالب کو عین کعبہ کے اندر جنم دیا ہے
المستدرک حاکم،ج 4، طبع پاکستان
اھم بات
امام حاکم مصعب کے اس قول کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس بات میں معصب سے غلطی ہوئی ہے کہ وہ حکیم بن حزام کے علاوہ کسی کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں مانتے حالانکہ متواتر روایات سے خانہ کعبہ میں مولا علی کی ولادت ثابت ہوتی ہے . امام حاکم نے چونکہ مصعب  کے قول کا رد کرنا تھا اس لئے مولا علی کی ولادت کا یہاں ذکر کیا اور فضائل والے باب میں ذکر نہیں کیا. قول مصعب کا رد کرنے کے لئے اصل موقع یہی تھا کہ مولا علی کی ولادت کا ذکر کر دیا جائے . اور یہ بھی یاد رہے کہ امام حاکم اھل حدیث و اھل سنت دنوں مکاتب فکر میں معتبر عالم شمار کئے جاتے ہیں
علامہ ذہبی کا اقرار
حافظ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ ولادت مولا علی (ع) کعبہ میں ہوئی ہے . چنانچہ ذہبی کے نزدیک بھی ولادت مولا علی  کعبہ میں ہونا تواتر سے ثابت ہے
تلخیص المستدرک،ذہبی۔ج 4، طبع پاکستان
دوسرا ثبوت
امام المحدثین ملا علی قاری اپنی تصنیف " شرح الشفا" میں لکھتے ہیں
مستدرک حاکم میں ہے کہ مولا علی خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے
شرح شفا ۔ملا علی ۔ج ،طبع بیروت
ملا علی قاری جیسے محقق و محدث نے امام حاکم کے قول پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کو قول متواتر کو قبول کرتے ہوئے امام علی کی ولادت کعبہ میں قبول کیا ہے
تیسرا ثبوت
محدث ابن اصباغ مالکی اپنی کتاب الصصوص المھمہ میں لکھتے ہیں کہ
مولا علی  ماہ رجب 13 تاریخ کو مکہ شریف میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ، آپ کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا . یہ آپ کی فضیلت ہے
الفصول المھمہ،ابن صباغ مالکی طبع بیروت
چوتھا ثبوت
علامہ حسن بن مومن شبلنجی اپنی مشہور تصنیف نورالابصار میں لکھتے ہیں
حضرت علی مرتضی  رسول اللہ ۖکے چچا زاد بھائی اور تلوار بے نیام ہیں . آپ عام الفیل کے تیسویں سال جمتہ المبارک کے دن 13 رجب کو خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور اس سے پہلے آپ کے علاوہ کعبہ میں کسی ولادت نہیں ہوئی
نورالابصار۔بلنجی،طبع بیروت
پانچواں ثبوت
برصغیر پاک وہند کے عظیم محدث و فقیہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ازالتہ الخفا میں لکھتے ہیں  امام علی  کی ولادت کے وقت آپ کے جو مناقب ظاھر ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ کعبہ معظمہ کے اندر آپ کی ولادت ہوئی . امام حاکم نے فرمایا متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ بے شک امیرالمومنین امام علی  کو آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے خانہ کعبہ کے اند جنم دیا
ازالتہ الخفا۔ج 4۔،طبع بیروت
شاہ ولی اللہ اپنی ایک اور کتاب قر العینین میں بھی ولادت مولا علی کا ذکر اس طرح کرتے ہیں
امام علی  کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں آپ پہلے ہاشمی ہیں جن کی والدہ ماجدہ بھی ہاشمیہ ہیں . آپ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو آپ سے پہلے کسی حصے میں نہیں آئی
قر العنین بتفضیل الشخین ،طبع دہلی
چھٹا ثبوت
اھل حدیث کے ممدوح عالم ، جناب نواب صدیق حس خان بھوپالی نے خلفائے راشدین کے مناقب میں ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے اس میں لکھتے ہیں
ذکر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ابن عم رسول و سیف اللہ المسلول ، مظہر العجائب و الغرائب اسد اللہ الغالب ، ولادت ان کی مکہ مکرمہ میں اندر بیت اللہ کے ہوئی ، ان سے پہلے کوئی بیت اللہ کے اندر مولود نہیں ہوا
تکریم المومنین بتویم مناقب الخلفا الراشدین ۔ نواب صدیق حسن ،طبع لاہور
نیز علامہ بھوپالی نے اپنی دوسری تصنیف " تقصار جنود الاحرار ، ص 9 ، طبع بھوپال میں مولا علی کی ولادت کعبہ میں کا ذکر کیا ہے
ساتواں ثبوت
امام عبد الرحمان جامی اپنی کتاب شواھد النبوت میں لکھتے ہیں
امام علی کی ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی اور بقول بعض آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی
شواھد النبو ة۔جامی،طبع پاکستان
آٹھواں ثبوت
مورخ جلیل علامہ مسعودی اپنی تصنیف مروج الذہب میں لکھتے ہیں کہ مولا علی کعبے کے اندر پیدا ہوئے
مروج الذہب۔مسعودی۔ج ،طبع بیروت
نواں ثبوت
علامہ عبدالرحمان صفوری الشافعی لکھتے ہیں کہ
امام علی شکم مادر سے کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور یہ فضیلت خاص طور پر آپ کے لئے اللہ تعالی نے مخصوص فر ما رکھی تھی
نزہتہ المجالس۔ ج 2۔ طبع پاکستان
دسواں ثبوت
عظیم محدث شاہ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ
محدثین اور سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ مولا علی  کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ہے
عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب  مدارج النبوةمیں تحریر فرماتے ہیں: جناب فاطمہ بنت اسد نے امیر المومنین کا نام حیدر رکھا ،اس
لئے کہ معنی کے اعتبار سے باپ اسداور بیٹے کا نام ایک ہی رہے۔ لیکن جناب ابو طالب  نے اس نام کو پسند نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آپ کا نام علی رکھا۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو صدیق کہہ کر پکارا اور آپ کی کنیت ابو ریحانتین رکھی۔ امین، شریف، ہادی، مہتدی، یعسوب الدین وغیرہ القاب سے آپ کو نوازا۔اس کے بعد عبد الحق بن سیف الدین دہلوی تحریر فرماتے ہیں :  حضرت علی   کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی
مدارج النبوت۔عبدالحق محدث دہلوی۔ج 2 ، طبع پاکستان
گیارھواں ثبوت
علامہ گنجی شافعی نے اپنی کتاب کفایتہ الطالب میں بھی مولا علی کی پیدائش کو خانہ کعبہ میں تسلیم کیا ہے
کفایتہ الطالب ۔ گنجی
بارھواں ثبوت
علامہ سبط ابن الجوزی اپنی کتاب تذکر الخواص میں لکھتے ہیں
روایت میں ہے کہ فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں جبکہ علی ان کے شکم میں تھے . انھیں درد زہ شروع ہوا تو ان کے لئے دیوار کعبہ شق ہوئی پس وہ اندر داخل ہوئیں اور وہیں علی  پیدا ہوئے
تذکر الخواص۔سبط ابن جوزی،طبع نجف عراق
تیرھواں ثبوت
علامہ سکتواری بسنوی
اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان حیدر  یعنی شیر نام رکھا گیا ہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔ جس وقت حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب سفر پر گئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی مادر گرامی نے ان کا نام تفل کرنے کے بعداسد رکھا ۔ کیوں کہ اسد ان کے والد محترم کا نام تھا۔(محاضر الاوائل )
چودھواں ثبوت
علامہ ابن صباغ مالکی
علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ رجب ،عام الفیل، سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے ۔ (الفصول المہم )
پندرھواں ثبوت
ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :
جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثنا
میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں! جناب ابو طالب نے جناب فاطمہ بنت اسد کا
قضیہ بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور آپ ۖنے جناب ابو طالب  کا ہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے ،فاطمہ بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : اجلسی علی اسم اللہ  اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت و پاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ جناب ابوطالب نے اس بچہ کا نام علی رکھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔
سولہواں ثبوت
علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی)
حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا ۔ خدا وند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی  ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے۔ وسیل النجا ،محمد مبین حنفی ((چاپ گلشن فیض لکھنو )
سترہواں ثبوت
صفی الدین حضرمی شافعی لکھتے ہیں
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔آپ  وہ پہلے اور آخری شخص ہیں جو ایسی پاک اور مقدس جگہ پیدا ہوے ۔ (وسیل المآل ،حضرمی شافعی )
اٹھارواں ثبوت
آلوسی بغدادی
یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے کہ خدا وند عالم نے ارادہ کیا ہے کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہے ۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ پر وردگار کہ ہر اس چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے ۔وہ بہترین حاکم ہے ۔( غالی المواعظ )
اخطب خوارزمی:موفق بن احمد جو اخطب خوارزمی سے مشہور ہیں اپنی کتاب مناقب میں تحریر فرماتے ہیں: علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ رجب ،عام الفیل، سال قبل از ہجرت اور بعثت سے یا سال پہلے مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (کفای الطالب )
شیخ مومن بن حسن شبلنجی:
شیخ مومن بن حسن شبلنجی کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن طالب  حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچازاد بھائی اور خدا وند عالم کی برہنہ تلوار ہیں جو مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر رجب الحرام جمعہ کے دن  عام الفیل ہجرت کے سال قبل خانہ خدا میں پیدا ہوئے ۔ (۔ نور الابصار )
عباس محمود عقاد :
عقاد کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پید ا ہوئے ۔ خدا وند عالم نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کو پاک و پاکیزہ اور
 بلند قرار دیا تھا کہ وہ بتوں کا سجدہ نہ کریں لہذا وہ چاہتا تھا کہ ایک نئے انداز اور نئی جگہ ان کی ولادت ہو پس خانہ کعبہ کو انتخاب کیا جو عبادت گاہ تھی۔قریب تھا کہ علی علیہ السلام مسلمان پیدا ہوتے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے ،لہذا ہم ان کی ولادت پر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے کیوں کہ وہ بتوں کی پرستش سے ناواقف تھے اور نہ کبھی بتوں کی پوجا کی۔ وہ اس مبارک جگہ پیدا ہوئے جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ (عبقری الامام علی)
علامہ صفوری:
علامہ صفور ی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی مادر گرامی کے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر جس کو خدا نے شرف بخشا ہے پیدا ہوئے ۔ یہ وہ فضیلت ہے جس کو خدا وند عالم نے ان کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ ( نزھة المجالس)
علامہ برہان الدین حلبی شافعی:
علامہ برہان الدین حلبی شافعی نے حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے سلسلہ میں کافی طولانی بحث کی ہے مختصر یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیداہوئے ۔ اس وقت حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمرمبارک تیس سال تھی۔ ( السیر الحلبی )
عبد الحمید خان دہلوی :
عبد الحمید خان دہلوی لکھتے ہیں: اکثر مو رخین کا اتفاق و اعتقاد ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر جمعہ کے دن  رجب تیس عام الفیل کو پیدا ہوئے اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا ۔ (سیرت خلفا)
باکثیر حضرمی:
علی بن ابی طالب علیہ السلام رجب ،عام الفیل، سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے (  وسیل المال )
مولوی اشرف
علی بن ابی طالب علیہ السلام رجب ،عام الفیل، سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے (ریاض الجنان )
علامہ سعید گجراتی:
اپنی کتاب  الاعلام با  علام مسجد الحرام  میں اس روایت کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی  ابو قبیس نامی پہاڑ کے دامن میں پیدا ہوئے جس کو دشمنان اہلبیت  نے لکھا ہے۔
خدا یا! تو بہتر جانتا ہے کہ یہ بہتان دشمنان اہلبیت کی طرف سے ہے ۔ دشمنان علی  نے اس واقعہ کو گھڑاہے ۔ جب کہ متواتر روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ خدایا ! تو مجھے رسول اکرمۖ کی سنت پر باقی رکھ اور ان کے اہلبیت کی دشمنی سے دور رکھ ( الاعلام الا  علام مسجد الحرام خطی بہ نقل علی و کعبہ)
عبد المسیح انطاکی مصری:
عبد المسیح انطاکی مصری شاعر نے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی ولادت سے متعلق تقریبا پانچ سو شعر کہیں ہیں کہ حضرت علی  خانہ
 کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ میں ان تمام اشعار کو یہاں ذکر نہیں کر سکتا شاہد کے طور پر مطلع آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
فی رحب الکعب الزھرا قد انبثقت
انوار طفل وضائت فی منافیھا (۔ قصیدہ علویہ )
ہم یہاں ان ثبوتوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں ، ورنہ ہمارے پاس علمائے اھل سنت کے کثیر اقوال کا دفتر موجود ہے جس میں انھوں نے مولا علی  کی ولادت خانہ کعبہ میں نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کو فضیلت مانا ہے کہ جس میں صرف مولا علی  ہی اکیلے ہیں اور کسی کو یہ شرف حاصل نہ ہوا.
ناصبی ملاں سرگودھوی کے ولادت علی  در کعبہ میں شبہات کا رد بلیغ
اب ہم ناصبی ملاں سرگودھوی کے شبہات کا رد پیش کرتے ہیں
شبہ نمبر 1
ناصبی کہتا ہے کہ خانہ کعبہ میں صرف ولادت حکیم بن حزام کی ہوئی ہے اور کوئی اس میں شریک نہیں
جواب
سابقہ تحریر میں ناقابل انکار دلیل سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کعبہ میں امام علی کے سوا کوئی فرد بشر پیدا نہیں ہوا . اب رہا کہ حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا تو یہ ایک جھوٹا افسانہ ہے جوبغض علی کی بنا پر ناصبیوں نے تراشا ہے تاکہ حضرت علی کی اس فضیلت کو کمزور کیا جا سکے حالانکہ جلیل القدر علما نے ناقابل رد دلائل سے اس من گھڑت قصہ کی رد فرمائی ہے
امام حاکم نے اپنی مستدرک میں اور ذہبی کا تلخیص میں حکیم کے حالات میں اس کا کعبہ کے اندر پیدا ہونا کو رد کیا اور مولا علی کی ولادت کعبہ میں کو متواتر کا درجہ دیا . معلوم ہوا کہ امام حاکم کے نزدیک حکیم کا کعبہ پیدا ہونا جھوٹ ہے
مشہور محدث سبط ابن جوزی نے تذکر الاخواص میں حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونے کو اس طرح رد کیا ہے
حکیم بن حزام کی ماں نے اسے کعبہ میں جنا ، اس بارے میں حافظ ابو نعیم اصبہانی نے ایک طویل روایت میں نقل کی ہے مگر اس کی سند میںروح بن صلاح ہے جس کی حافظ ابن عدی نے تضعیف کی ہے
تذکر الخواص۔سبط ابن جوزی۔ص 30۔طبع نجف عراق
اس قصہ کو سب سے پہلے بیان کرنے والا زبیر بن بکار ہے اور زبیر کا خاندان ، اولاد علی کی عداوت میں مشہور تھا اور اس کے علاوہ خود زبیر بن بکار اپنی اھل بیت دشمنی اور بد عقیدتی سے سفاک متوکل عباسی اور اس کی اولاد کو درس دینے پر معین تھا اور اولاد علی سے دشمنی کی وجہ سے اس کو متوکل نے مکہ کا حاکم مقرر کر دیا تھا
چنانچہ حکیم کا کعبہ میں پیدا ہونا غلط ہے اور من گھڑت قصے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا
شبہ نمبر 2
ناصبی ملاں کہتا ہے کہ اگر کعبہ میں پیدا ہونا شرف ہوتا تو رسول اللہ ۖ کو یہ شرف ملتا
جواب
یہ بدباطن کی غلط فہمی ہے . اس سے رسول اللہ ۖ  کی فضیلت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، جس طرح شہید کو غسل نہیں دیا جاتا . نبیوں کو دیا جاتا ہے . اس کا جواب علما کرام یہی دیتے ہیں کہ جزوی فضیلت کلی فضیلت کے مانع نہیں ہے.کعبہ میں مولا علی  کا پیدا ہونا ، یہ خصائص مرتضوی میں سے ہے
شبہ نمبر 3
ناصبی نے یہ شبہ ڈالا ہے کہ ابن حجر نے کہا ہے کہ صرف حکیم کا کعبہ میں پیدا ہونا صحیح ثابت ہے باقی ضعیف ہے
جواب
پہلی بات یہ ہے کہ حکیم کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا ، من گھڑت قصہ ہے جس کو ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں اور امام حاکم ، سبط ابن جوزی جیسے افراد نے اس کا رد کیا ہے جبکہ امام علی کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا متواتر سے ثابت ہے اور یہ دعوی امام حاکم ،ذہبی ، ملا علی قاری ، شاہ ولی اللہ جیسے لوگوں کا ہے،اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ اگر روایت متواتر ہوجائے تو اس کا ضعیف ہونا مضر نہیں کیونکہ روایت متواتر تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور اصول حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ متواتر کا انکار کرنے والا جاہل آدمی ہے،اگر بالفرض ولادت علی در کعبہ کی روایت ضعیف بھی ہے تو اھل علم جانتے ہیں کہ کسی روایت کا ضعیف ہونا الگ بات ہے اور اس کا موضوع یعنی بناوٹی ہونا الگ بات ہے نیز فضائل کے باب میں ضعیف روایت بھی معتبر ہوتی ہے جبکہ مولا علی  کی ولادت کعبہ شریف میں متواتر سے ثابت ہے
ایک اھم بات
ہم نے اتنے عظیم علما اور محدثین کی کتابوں سے ثابت کر دیا ہے کہ مولا علی کی ولادت کعبہ شریف میں متواتر روایات س ثابت ہے. اب ناصبی ملاں حکیم کے بارے میں کوئی ایسی روایت دیکھائے جس میں یہ لکھا ہو کہ متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ حکیم کی ماں نے حکیم کو خانہ کعبہ میں جنا. ہم علی وجہ البصیرت پورے یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ناصبی ملاںتا صبح قیامت ایسی روایت جس میں تواتر کا ذکر ہو ، نہیں دکھا سکتے
بہر حال عقل سلیم رکھنے والے کے لئے اتنے ہی حوالہ جات کافی ہیں البتہ چھوٹے بے وقوف بچوں کی طرح " میں نہ مانوں ، میں نہ مانوں ، کی رٹ لگانے والوں کا کوئی علاج نہیں ہے . آپ خود فیصلہ کر لیں کہ نو عمر کون ہے
ولادت علی کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونے کا کیا راز تھا
اگر عقل و بصیرت سے کام لیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے مولا علی کو مولود کعبہ بنا کر اس طرف باریک اشارہ فرمایا ہے کہ اے کعبہ! آج تیرے اندر اس کی جلوہ گری ہے جو تجھے بتوں سے پاک کرنے میں پوری امت پر مقدم ہوگا ، چنانچہ ایسا ہی ہوا نبی پاک ۖ کے حکم پر مولا علی  نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا

Thursday, December 2, 2010

میلادِ اَنبیاء قرآن مجید میں تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

میلادِ اَنبیاء قرآن مجید میں حصہ اول تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
سورۃ الانعام میں انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ  الأنعام، 6 : 86، 87
’اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا) اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشیo اور ان کے آباء (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لیے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی تھی
سورۃ اِبراہیم 14 : 39
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے
سورۃ مریم ذکرحضرت زکریا علیہ السلام مريم، 19 : 2، 3
یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اُس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی)o جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکارا
سورۃ مريم، 19 : 13
اور (ہم نے) اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھے
سورۃ مريم، 19 : 16
اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیں
سورۃ مريم، 19 : 41
’’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے
سورۃ مريم، 19 : 51
::اور (اس) کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے، بے شک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پا کر) برگزیدہ ہو چکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے
سورۃ مريم،19 : 54، 55
’’اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل کا ذکر کریں، بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھےo اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی اُن کا رب اُن سے راضی تھا)
سورۃ مريم،19 56، 57
::اور (اس) کتاب میں اِدریس کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےo اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھالیا تھا
سورۃ الانبياء 21 : 51،50
’’اور یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اس سے انکار کرنے والے ہو
’’اور بے شک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی اِستعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھے
سورۃ الانبياء 21 :72
حضرت لوط، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کے ذکر کے آخر میں :: اور ہم نے ان سب کو صالح بنایا تھا ::
سورۃ الانبياء 21 : 73
’’اور ہم نے انہیں(اِنسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکٰوۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے
حضرت ایوب علیہ السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 84
’’تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیے) یہ ہماری طرف سے خاص رحمت اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے (کہ اللہ صبر و شکر کا اجر کیسے دیتا ہے)
حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذو الکفل علیہم السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 85، 86
’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل (کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھےo اور ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا، بے شک وہ نیکوکاروں میں سے تھے
حضرت یونس حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ علیہم السلام
سورۃ الأنبياء، 21 : 90
’’بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے
پیرآف اوگالی شریف

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت تحریر پیرمحمد امیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کائنات کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ جس دن حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس جہان میں تشریف آوری ہوئی، خوشی کے اِظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دن ہے  دو یوم کی یاد منانے کی اہمیت احادیث کی روشنی  میں پیش ہے
یومِ نوح علیہ السلام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کی روایت ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247 حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702 امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ)
یومِ موسیٰ علیہ السلام
جب حضور نبی کریم رؤف الرحیم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کرتے ہوئے بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
بخاري  کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727 ؛‘بخاري کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900 :: بخاري کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
أبوداود کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444 :: المسند أحمد بن حنبل، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
 مسلم، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
سنن ابن ماجة،کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734:: المسند أبو يعليٰ، 4 : 441، رقم : 2567

نمازِ پنجگانہ اَنبیاء کرام علیہم السلام کی یادگار ہے تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریم چشتیہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

نمازِ پنجگانہ اَنبیاء کرام علیہم السلام کی یادگار ہے:: تحریر پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربار عالیہ قادریم چشتیہ اوگالی شریف وادئ سون  ضلع خوشاب
نمازِ فجر ’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نمازِ فجر ہوگئی۔

نمازِ ظہر ’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس وہ نمازِ ظہر ہوگئی۔
نمازِ عصر’’جب حضرت عزیر علیہ السلام کو (سو سال بعد) اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا : آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا : ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔
نمازِ مغرب حضرت عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے(شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت وکمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ (اس طرح تین رکعات ادا کیں، چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی۔) پس وہ نمازِ مغرب ہوگئی۔
نمازِ عشاء
 جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں:: ۔شرح معانی الآثارامام طحاوی‘

Wednesday, December 1, 2010

فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب

فتنہ فرمان رسول کی روشنی میں تحریر: پیرمحمدامیرسلطان ہاشمی قادری چشتی دربارعالیہ قادریہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف وادئ سون ضلع خوشاب
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جوکہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں مار دو پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو یقیناً ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 36، 44، والحاکم في المستدرک، 2 / 159، الرقم : 2645، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 937، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 637، الرقم : 1519، وقال : إسناده حسن، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 187، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 322، الرقم : 3460، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 230، والحارث في المسند، (زوائد الهيثمي)، 2 / 714، الرقم : 704.
’’حضرت طارق بن زیاد نے بیان کیا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کیا پھر فرمایا : دیکھو بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے کہ تیر شکار سے نکل جاتا ہے
۔النسائي في السنن الکبري، 5 / 161، الرقم : 8566، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 107، الرقم : 848، وفي فضائل الصحابة، 2 / 714، الرقم : 1224، والخطيب في تاريخ بغداد، 14 / 362، الرقم : 7689، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 256، الرقم : 247، والمزي في تهذيب الکمال، 13 / 338، الرقم : 2948
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔
الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، و المناوي في فيض القدير، 4 / 118
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں جمع ہوں گے اور نمازیں ادا کریں گے لیکن ان میں سے مومن کوئی نہیں ہو گا۔
 ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 163، الرقم : 30355، 7 / 505، الرقم : 37586، و الحاکم في المستدرک، 4 / 489، الرقم : 8365، و الديلمي في الفردوس بماثور الخطاب، 5 / 441، الرقم : 8086، و أبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 266، و الفريابي في صفة المنافق، 1 / 80، الرقم : 108.110
’’حضرت ابوسعيد خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اﷲ! میں فلاں فلاں وادی سے گزرا تو میں نے ایک نہایت متواضع ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے والے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اس کے پاس جاکر اسے قتل کردو۔ راوی نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو انہوں نے جب اسے اس حال میں (نماز پڑھتے) دیکھا تو اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (ویسے ہی) لوٹ آئے راوی نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جاؤ اسے قتل کرو، حضرت عمر گئے اور انہوں نے بھی اسے اسی حالت میں دیکھا جیسے کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کو ناپسند کیا۔ کہا کہ وہ بھی لوٹ آئے۔ اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میں نے اسے نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا پسند نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! جاؤ اسے قتل کردو کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے، تو انہیں وہ نظر نہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لوٹ آئے، پھر عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر وہ اس میں پلٹ کر نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر پلٹ کر کمان میں نہ آجائے (یعنی ان کا پلٹ کر دین کی طرف لوٹنا ناممکن ہے) سو تم انہیں (جب بھی پاؤ) قتل کر دو وہ بدترین مخلوق ہیں۔
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، الرقم : 11133، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال : رجاله ثقات، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 229، وابن حزم في المحلي، 11 / 104، والشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 351
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو دنیا کو دین کے ذریعے حاصل کریں گے، لوگوں کے سامنے بھیڑ کی کھالوں کا نرم لباس پہنیں گے۔ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی (ایک روایت میں ہے کہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی) اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : ’’کیا یہ لوگ مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا مجھ پر دلیری کرتے ہیں؟ (کہ مجھ سے نہیں ڈرتے؟) مجھے اپنی (ذات کی) قسم! جو لوگ ان میں سے ہوں گے۔ میں ضرور ان پر ایسے فتنے بھیجوں گا جو ان میں سے بردبار لوگوں کو بھی حیران کر دیں گے۔
الترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (59)، 4 / 604، الرقم : 2404.2405، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 235، الرقم : 35624، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 362، الرقم : 6956، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 379، و ابن المبارک في الزهد، 1 / 17، الرقم : 50، والديلمي في الفردوس بما ثور الخطاب، 5 / 510، الرقم : 8919، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 32، الرقم : 41، و ابن هناد في الزهد، 2 / 437، الرقم : 860
’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو حالت سجدہ میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کی اور اس کی طرف لوٹے اور وہ اس وقت بھی (حالتِ) سجدہ میں تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے پھر فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے اپنے بازو چڑھائے تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اس کی طرف دیکھا تو اس کی ظاہری وضع و قطع کو دیکھ کر متاثر ہوگیا)۔ پھر عرض کیا : یا نبی اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں کیسے اس شخص کو قتل کر دوں جو حالت سجدہ میں ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک شخص کھڑا ہوا، عرض کیا : میں، تو اس نے اپنے بازو چڑھائے اور اپنی تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اسے قتل کرنے ہی لگا تھا) کہ اس کے ہاتھ کانپے، عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! میں کیسے ایسے شخص کو قتل کروں جو حالت سجدہ میں گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! اگر تم اسے قتل کردیتے تو وہ فتنہ کا اول و آخر تھا (یعنی یہ فتنہ اسی پر ختم ہو جاتا
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 42، الرقم : 19536، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 457، الرقم : 938، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي) 2 / 713، الرقم : 703، وابن رجب فيجامع العلوم والحکم 1 / 131
’’عبداﷲ بن حارث بن نوفل مولی مقسم ابوالقاسم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب اس کا ایک گروہ ہو گا جو دین سے (ظاہراً) بہت گہری وابستگی رکھنے والے نظر آئیں گے مگر دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ۔ ۔ پھر مکمل حدیث ذکر کی۔
أحمد بن حنبل في الصحيح، 2 / 219، الرقم : 7038، و ابن أبي عاصم في السنة 2 / 453. 454، الرقم : 929.930، و عبداﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 631، الرقم : 1504، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 237، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 176
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک شخص تھا جس کی عبارت گزاری اور مجاہدے نے ہمیں حیرانگی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ یہاں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض اسے خود سے بھی افضل گرداننے لگے تھے) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کا نام اور اس کی صفات بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ ایک دفعہ ہم اس کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ شخص آ گیا۔ ہم نے عرض کیا : وہ یہ شخص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم جس شخص کی خبریں دیتے تھے یقیناً اس کے چہرے پر شیطانی رنگ ہے سو وہ شخص قریب آیا یہاں تک کہ ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے سلام بھی نہیں کیا۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں (تمہیں کہ سچ بتانا) کہ جب تو مجلس کے پاس کھڑا تھا تو نے اپنے دل میں یہ نہیں کہا تھا کہ لوگوں میں مجھ سے افضل یا مجھ سے زیادہ برگزیدہ شخص کوئی نہیں؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم! ہاں (میں نے کہا تھا)۔ پھر وہ (مسجد میں) داخل ہوا نماز پڑھنے لگا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ پھر وہ شخص مڑا مسجد کے صحن میں آیا، نماز کی تیاری کی، ٹانگیں سیدھی کیں اور نماز پڑھنے لگا) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا کہنے لگے۔ سبحان اللہ میں نماز پڑھتے شخص کو (کیسے) قتل کروں؟ جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تو وہ باہر نکل گئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اسے قتل کرنا نا پسند کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں چہرہ جھکائے دیکھا۔ حضرت عمر نے کہا : حضرت ابوبکر مجھ سے افضل ہیں لہٰذا وہ بھی (اسے قتل کئے بغیر) باہر نکل گئے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سرجھکائے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا ناپسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اس شخص کو قتل کرے گا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی اس کے (قتل کے) لئے ہو اگر تم نے اسے پالیا تو (تم ضرور اسے قتل کر لو گے) راوی نے بیان کیا کہ وہ اندر اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ چلا گیا تھا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ حضرت علی نے عرض کیا : میں نے دیکھا تو وہ چلا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ قتل کردیا جاتا تو میری امت میں دوآدمیوں میں بھی کبھی اختلاف نہ ہوتا وہ (فتنہ میں) ان کا اول و آخر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا میں نے حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا : فرماتے ہیں : وہ وہی پستان (کے مشابہ ہاتھ) والا تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شیطان کا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوگا (یا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوا) جبکہ اگر تم اسے قتل کر دیتے تو تم میں سے دو آدمیوں میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔ بیشک بنی اسرائیل میں اختلاف سے وہ اکتہر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور تم عنقریب اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ فرقوں میں بٹ جاؤ گے ان میں سے کوئی راہ راست پر نہیں ہوگا سوائے ایک کے، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جماعت (سب سے بڑا گروہ) اس کے علاوہ دوسرے سب آگ میں جائیں گے۔
أبو يعلي في المسند، 1 / 90، الرقم : 90، 7 / 155، 168، الرقم : 4143، 4127، و عبدالرزاق في المصنف، 10 / 155، الرقم : 18674، و أبو نعيم فيحلية الأولياء، 3 / 52، و المروزي في السنة، 1 / 21، الرقم : 53، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 17 / 69، الرقم : 2499، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 226
’’عبدالملک نے ابوحرہ سے روایت بیان کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ) کو (اپنا گورنر بنا کر) نفاذ حکومت کے لئے بھیجا تو خوارج عبداللہ بن وھب راسبی (خارجی سردار) کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے انہیں بلیغ خطبہ دیا جس میں اس نے انہیں اس دنیا سے بے رغبتی اور آخرت اور جنت کی رغبت دلائی اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا۔ پھر کہا : ہمارے لئے ضروری ہے ہم پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہوجائے۔ ۔ ۔ پھر سب شریح بن ابی اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو ابن وھب نے کہا : اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہئے کہ (اسے اپنا مرکز بناکر) ہم سب اسی میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں۔ کیونکہ اہلِ حق اب تم ہی لوگ ہو۔
 ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 115، وابن الأثير في الکامل، 3 / 213. 214، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 285.286 وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، (حتي 257ه)، 5 / 130.131